الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اجرت کے مسائل کا بیان
The Book of Hiring
14. بَابُ أَجْرِ السَّمْسَرَةِ:
14. باب: دلالی کی اجرت لینا۔
(14) Chapter. Wages of a broker.
حدیث نمبر: Q2274
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
ولم ير ابن سيرين، وعطاء، وإبراهيم، والحسن باجر السمسار باسا، وقال ابن عباس: لا باس ان يقول بع هذا الثوب، فما زاد على كذا وكذا فهو لك، وقال ابن سيرين: إذا قال بعه بكذا فما كان من ربح فهو لك، او بيني وبينك فلا باس به، وقال النبي صلى الله عليه وسلم: المسلمون عند شروطهم.وَلَمْ يَرَ ابْنُ سِيرِينَ، وَعَطَاءٌ، وَإِبْرَاهِيمُ، وَالْحَسَنُ بِأَجْرِ السِّمْسَارِ بَأْسًا، وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: لَا بَأْسَ أَنْ يَقُولَ بِعْ هَذَا الثَّوْبَ، فَمَا زَادَ عَلَى كَذَا وَكَذَا فَهُوَ لَكَ، وَقَالَ ابْنُ سِيرِينَ: إِذَا قَالَ بِعْهُ بِكَذَا فَمَا كَانَ مِنْ رِبْحٍ فَهُوَ لَكَ، أَوْ بَيْنِي وَبَيْنَكَ فَلَا بَأْسَ بِهِ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْمُسْلِمُونَ عِنْدَ شُرُوطِهِمْ.
‏‏‏‏ اور ابن سیرین اور عطاء اور ابراہیم اور حسن بصری رحمہم اللہ دلالی پر اجرت لینے میں کوئی برائی نہیں خیال کرتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا، اگر کسی سے کہا جائے کہ یہ کپڑا اتنی قیمت میں بیچ لا۔ جتنا زیادہ ہو وہ تمہارا ہے، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ابن سیرین نے فرمایا کہ اگر کسی نے کہا کہ اتنے میں بیچ لا، جتنا نفع ہو گا وہ تمہارا ہے یا (یہ کہا کہ) میرے اور تمہارے درمیان تقسیم ہو جائے گا۔ تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان اپنی طے کردہ شرائط پر قائم رہیں گے۔

حدیث نمبر: 2274
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا مسدد، حدثنا عبد الواحد، حدثنا معمر، عن ابن طاوس، عن ابيه، عن ابن عباس رضي الله عنه،" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يتلقى الركبان، ولا يبيع حاضر لباد"، قلت: يا ابن عباس، ما قوله لا يبيع حاضر لباد، قال: لا يكون له سمسارا.حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُتَلَقَّى الرُّكْبَانُ، وَلَا يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ"، قُلْتُ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، مَا قَوْلُهُ لَا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ، قَالَ: لَا يَكُونُ لَهُ سِمْسَارًا.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے معمر نے بیان کیا، ان سے ابن طاؤس نے، ان سے ان کے باپ نے، اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (تجارتی) قافلوں سے (منڈی سے آگے جا کر) ملاقات کرنے سے منع فرمایا تھا۔ اور یہ کہ شہری دیہاتی کا مال نہ بیچیں، میں نے پوچھا، اے ابن عباس رضی اللہ عنہما! شہری دیہاتی کا مال نہ بیچیں کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ مراد یہ ہے کہ ان کے دلال نہ بنیں۔

Narrated Tawus: Ibn `Abbas said, "The Prophet forbade the meeting of caravans (on the way) and ordained that no townsman is permitted to sell things on behalf of a bedouin." I asked Ibn `Abbas, "What is the meaning of his saying, 'No townsman is permitted to sell things on behalf of a bedouin.' " He replied, "He should not work as a broker for him."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 36, Number 474

   صحيح البخاري2274عبد الله بن عباسيتلقى الركبان لا يبيع حاضر لباد
   صحيح البخاري2158عبد الله بن عباسلا تلقوا الركبان لا يبيع حاضر لباد
   صحيح مسلم3825عبد الله بن عباسأن تتلقى الركبان أن يبيع حاضر لباد
   سنن أبي داود3439عبد الله بن عباسنهى أن يبيع حاضر لباد
   سنن النسائى الصغرى4504عبد الله بن عباسيتلقى الركبان أن يبيع حاضر لباد
   سنن ابن ماجه2177عبد الله بن عباسنهى أن يبيع حاضر لباد
   بلوغ المرام674عبد الله بن عباس لا تلقوا الركبان ،‏‏‏‏ ولا يبيع حاضر لباد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2177  
´شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا مال (مہنگا کرنے کے ارادے سے) نہ بیچے۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہری کو دیہاتی کا مال بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ طاؤس کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: «حاضر لباد» کا کیا مفہوم ہے؟ تو انہوں نے کہا: بستی والا باہر والے کا دلال نہ بنے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2177]
اردو حاشہ:
فائدہ:
اس مسئلے کی تفصیل کے لیے حدیث: 2145 کے فوائد ملاحظہ فرمائیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2177   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 674  
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدنا طاؤس نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سامان تجارت لے کر آنے والے قافلوں کو آگے جا کر نہ ملو اور کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان نہ بیچے۔ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیا شہری دیہاتی کا سامان فروخت نہ کرے کا کیا مطلب ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ شہری دیہاتی کا دلال نہ بنے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 674»
تخریج:
«أخرجه البخاري، البيوع، باب هل يبيع حاضر لباد، حديث:2158، ومسلم، البيوع، باب تحريم بيع الحاضرة للبادي، حديث:1521.»
تشریح:
راوئ حدیث: «حضرت طاوس رحمہ اللہ» ‏‏‏‏ ان کی کنیت ابوعبدالرحمن ہے اور نسب یوں ہے: طاوس بن کیسان حمیری۔
حمیر قبیلہ والوں کے مولا ہیں۔
فارسی النسل ہیں۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا نام ذکوان ہے اور طاوس ان کا لقب ہے۔
ثقہ ہیں۔
نہایت فاضل فقیہ ہیں اور تیسرے طبقے سے ہیں۔
ان کا بیان ہے کہ میں نے پچاس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو پایا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے: میرا گمان ہے کہ طاوس جنتی ہے۔
عمروبن دینار کا قول ہے: میں نے ان جیسا کوئی نہیں دیکھا۔
۱۰۶ ہجری میں فوت ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 674   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2274  
2274. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا: نبی کریم ﷺ نے اس امر سے منع فرمایا ہے کہ بازار میں مال تجارت لانے والوں سے آگے بڑھ کر معاملہ طے کیا جائے۔ اور فرمایا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کا مال نہ فروخت کرے۔ راوی حدیث کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے دریافت کیا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کامال فروخت نہ کرے اس کا کیا مطلب ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ اس کا دلال نہ بنے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2274]
حدیث حاشیہ:
(1)
آج کل ہمارے ہاں کسی کارخانے یا فرم کا مال ایجنٹ بن کر فروخت کیا جاتا ہے، بڑے بڑے کاروبار اسی طرز پر چلتے ہیں۔
طے شدہ کمیشن پر ایسا کرنا جائز ہے۔
صارفین کےلیے اس میں آسانی ہے۔
اگر کسی نے جائیداد خریدنی یا فروخت کرنی ہو تو اسے ڈیلر حضرات کے ذریعے سے فروخت کیا یا خریدا جاسکتا ہے، ان کا کمیشن فیصد کے حساب سے طے ہوتا ہے۔
ڈیلر حضرات کےلیے ضروری ہے کہ وہ جھوٹ اور فریب سے کام نہ لیں اور دیانت داری کے ساتھ اپنی ذمہ داری پوری کریں۔
(2)
اس حدیث میں دیہات سے مال لانے والوں کو آگے بڑھ کر ملنے اور ان سے معاملہ طے کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اس کا دلال نہ بنے۔
یہ حکم امتناعی اس صورت میں ہے کہ شہری آدمی دیہات سے مال لانے والے کو بازار کے نرخ سے بے خبر رکھے۔
ایسا کرنے سے بازار والوں کے لیے بھی نقصان کا پہلو پیدا ہوتا ہے۔
اگر بازار کے ریٹ پر، دوسرے خریداروں پر اور بازار والوں پر ایسا کرنے سے کوئی غلط اثر یا دباؤ نہیں پڑتا تو اس طریقے سے کسی دوسرے کاایجنٹ بن کر مال خریدا جاسکتا ہے اور اسے فروخت بھی کیا جاسکتا ہے، دونوں طرف سے کمیشن وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(3)
چیز فروخت کرنے کے بعد ایجنٹ حضرات سبزی یا پھلوں سے اپنی پسند کی سبزی یا پھل لے لیتے ہیں، ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ وہ صرف طے شدہ کمیشن کے حق دار ہیں جو انھوں نے وصول کرلیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2274   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.