الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: کفالت کے مسائل کا بیان
The Book of Al-Kafala
2. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَالَّذِينَ عَاقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ} :
2. باب: اللہ تعالیٰ کا (سورۃ نساء میں) یہ ارشاد کہ ”جن لوگوں سے تم نے قسم کھا کر عہد کیا ہے، ان کا حصہ ان کو ادا کرو“۔
(2) Chapter. The Statement of Allah: "... To those also with whom you have made a pledge, give them their due portion by Wasiya (wills)..." (V. 4.33)
حدیث نمبر: 2292
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا الصلت بن محمد، حدثنا ابو اسامة، عن إدريس، عن طلحة بن مصرف، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنه: ولكل جعلنا موالي سورة النساء آية 33، قال ورثة: والذين عقدت ايمانكم سورة النساء آية 33، قال:" كان المهاجرون لما قدموا المدينة يرث المهاجر الانصاري، دون ذوي رحمه للاخوة التي آخى النبي صلى الله عليه وسلم بينهم، فلما نزلت: ولكل جعلنا موالي سورة النساء آية 33، نسخت، ثم قال: والذين عقدت ايمانكم سورة النساء آية 33، إلا النصر، والرفادة، والنصيحة، وقد ذهب الميراث ويوصي له".حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ إِدْرِيسَ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ مُصَرِّفٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ سورة النساء آية 33، قَالَ وَرَثَةً: وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ سورة النساء آية 33، قَالَ:" كَانَ الْمُهَاجِرُونَ لَمَّا قَدِمُوا الْمَدِينَةَ يَرِثُ الْمُهَاجِرُ الْأَنْصَارِيَّ، دُونَ ذَوِي رَحِمِهِ لِلْأُخُوَّةِ الَّتِي آخَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَهُمْ، فَلَمَّا نَزَلَتْ: وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ سورة النساء آية 33، نَسَخَتْ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ سورة النساء آية 33، إِلَّا النَّصْرَ، وَالرِّفَادَةَ، وَالنَّصِيحَةَ، وَقَدْ ذَهَبَ الْمِيرَاثُ وَيُوصِي لَهُ".
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، ان سے ادریس نے، ان سے طلحہ بن مصرف نے، ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما کہ (قرآن مجید کی آیت «ولكل جعلنا موالي‏») کے متعلق ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ( «موالي‏» کے معنی) ورثہ کے ہیں۔ اور «والذين عقدت أيمانكم‏» (کا قصہ یہ ہے کہ) مہاجرین جب مدینہ آئے تو مہاجر انصار کا ترکہ پاتے تھے اور انصاری کے ناتہ داروں کو کچھ نہ ملتا۔ اس بھائی پنے کی وجہ سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کی ہوئی تھی۔ پھر جب آیت «ولكل جعلنا موالي‏» ہوئی تو پہلی آیت «والذين عقدت أيمانكم‏» منسوخ ہو گئی۔ سوا امداد، تعاون اور خیر خواہی کے۔ البتہ میراث کا حکم (جو انصار و مہاجرین کے درمیان مواخاۃ کی وجہ سے تھا) وہ منسوخ ہو گیا اور وصیت جتنی چاہے کی جا سکتی ہے۔ (جیسی اور شخصوں کے لیے بھی ہو سکتی ہے تہائی ترکہ میں سے وصیت کی جا سکتی ہے جس کا نفاذ کیا جائے گا۔)

Narrated Sa`id bin Jubair: Ibn `Abbas said, "In the verse: To every one We have appointed ' (Muwaliya Muwaliya means one's) heirs (4.33).' (And regarding the verse) 'And those with whom your right hands have made a pledge.' Ibn `Abbas said, "When the emigrants came to the Prophet in Medina, the emigrant would inherit the Ansari while the latter's relatives would not inherit him because of the bond of brotherhood which the Prophet established between them (i.e. the emigrants and the Ansar). When the verse: 'And to everyone We have appointed heirs' (4.33) was revealed, it canceled (the bond (the pledge) of brotherhood regarding inheritance)." Then he said, "The verse: To those also to whom your right hands have pledged, remained valid regarding cooperation and mutual advice, while the matter of inheritance was excluded and it became permissible to assign something in one's testament to the person who had the right of inheriting before.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 37, Number 489

   صحيح البخاري2292عبد الله بن عباسيرث المهاجر الأنصاري دون ذوي رحمه للأخوة التي آخى النبي بينهم فلما نزلت ولكل جعلنا موالي نسخت ثم قال والذين عقدت أيمانكم إلا النصر والرفادة والنصيحة وقد ذهب الميراث ويوصي له
   صحيح البخاري4580عبد الله بن عباسيرث المهاجري الأنصاري دون ذوي رحمه للأخوة التي آخى النبي بينهم فلما نزلت ولكل جعلنا موالي نسخت ثم قال والذين عقدت أيمانكم من النصر والرفادة والنصيحة وقد ذهب الميراث ويوصى له

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2292  
2292. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اور ہم نے ہر ایک کے لیے موالی ٹھہرائےہیں۔ اس میں موالی سے مراد وارث ہیں اورجن سے تم نے قسم اٹھا کر پیمان باندھا اس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ مہاجرین جب مدینہ طیبہ آئے تو نبی ﷺ نے ان میں اور انصار میں بھائی چارہ کرادیا، چنانچہ مہاجر، نبی ﷺ کے کرائےہوئے اس مواخات کے سبب انصاری کا ترکہ پاتا اور اس کے رشتہ داروں کو کچھ نہ ملتا۔ اور جب یہ آیت ہم نے ہر ایک کے موالی ٹھہرائے ہیں نازل ہوئی تو اس سے مذکورہ اجازت اور جن لوگوں سے تم نے قسم اٹھا کر عہدو پیمان کیا انھیں ان کا حصہ دو منسوخ ہوگئی۔ پھر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ اب ﴿وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ﴾ کی رو سے صرف مدد، معاونت اور خیرخواہی کی گنجائش باقی رہی اور وراثت میں حصہ پانے کا حق جاتارہا، البتہ ان کے لیے وصیت کی جا سکتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2292]
حدیث حاشیہ:
یعنی مولی الموالاۃ سے عرب لوگوں میں دستور تھا کسی سے بہت دوستی ہو جاتی تو اس سے معاہدہ کرتے اور کہتے کہ تیرا خون ہمارا خون ہے اور تو جس سے لڑے ہم اس سے لڑیں تو جس سے صلح کرے ہم اس سے صلح کریں۔
تو ہمارا وارث ہم تیرے وارث، تیرا قرضہ ہم سے لیا جائے گا ہمارا قرضہ تجھ سے، تیری طرف سے ہم دیت دیں تو ہماری طرف سے۔
شروع زمانہ اسلام میں ایسے شخص کو ترکہ کا چھٹا حصہ ملنے کا حکم ہوا تھا۔
پھر یہ حکم اس آیت سے منسوخ ہو گیا۔
﴿وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ﴾ (الأنفال: 75)
ابن منیر نے کہا کفالت کے باب میں امام بخاری ؒ اس کو اس لیے لائے کہ جب حلف سے جو ایک عقد تھا، شروع زمانہ اسلام میں ترکہ کا استحقاق پیدا ہو گیا تو کفالت کرنے سے بھی مال کی ذمہ داری کفیل پر پیدا ہوگی کیوں کہ وہ بھی ایک عقد ہے۔
عربوں میں جاہلی دستور تھا کہ بلا حق وناحق دیکھے کسی اہم موقع پر محض قبائلی عصبیت کے تحت قسم کھا بیٹھتے کہ ہم ایسا ایسا کریں گے۔
خواہ حق ہو تا یا ناحق، اسی کو حلف جاہلیت کہا گیا۔
اور بتلایا کہ اسلام میں ایسی غلط قسم کی قسموں کا کوئی مقام نہیں ہے۔
اسلام سراسر عدل کی ترغیب دیتا ہے۔
قرآن مجید میں فرمایا ﴿وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى﴾ (المائدة: 8)
محض قومی عصبیت کی بنا پر ہرگز ظلم پر کمر نہ باندھو، انصاف کرو کہ تقویٰ سے انصاف ہی قریب ہے۔
قَالَ الطَّبَرِيُّ مَا اسْتَدَلَّ بِهِ أَنَسٌ عَلَى إِثْبَاتِ الْحَلْفِ لَا يُنَافِي حَدِيثَ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ فِي نَفْيِهِ فَإِنَّ الْإِخَاءَ الْمَذْكُورَ كَانَ فِي أَوَّلِ الْهِجْرَةِ وَكَانُوا يَتَوَارَثُونَ بِهِ ثُمَّ نُسِخَ مِنْ ذَلِكَ الْمِيرَاثُ وَبَقِيَ مَا لَمْ يُبْطِلْهُ الْقُرْآنُ وَهُوَ التَّعَاوُنُ عَلَى الْحَقِّ وَالنَّصْرُ وَالْأَخْذُ عَلَى يَدِ الظَّالِمِ كَمَا قَالَ بن عَبَّاسٍ إِلَّا النَّصْرَ وَالنَّصِيحَةَ وَالرِّفَادَةَ وَيُوصَى لَهُ وَقَدْ ذَهَبَ الْمِيرَاثُ (فتح)
یعنی طبری نے کہا کہ اثبات حلف کے لیے حضرت انس ؓ نے جو استدلال کیا وہ جبیر بن مطعم کی نفی کے خلاف نہیں ہے۔
اخاءمذکور یعنی اس قسم کا بھائی چارہ شروع ہجرت میں قائم کیا گیا تھا۔
وہ آپس میں ایک دوسرے کے وارث بھی ہوا کرتے تھے۔
بعد میں میراث کو منسوخ کر دیا گیا اور وہ چیز اپنی حالت پر باقی رہ گئی جس کو قرآن مجید نے باطل قرار نہیں دیا۔
اور وہ حق پر باہمی تعاون اور امداد کرنا اور ظالم کے ہاتھ پکڑنا ہے۔
جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میراث تو چلی گئی مگر ایک دوسرے کی مدد کرنا اور آپس میں ایک دوسرے کی خیر خواہی کرنا یہ چیزیں باقی رہ گئی ہیں۔
بلکہ اپنے بھائیوں کے لیے وصیت بھی کی جاسکتی ہے۔
واقعہ مواخات اسلامی تاریخ کا ایک شاندار باب ہے۔
مہاجر جو اپنے گھر بار وطن چھوڑ کر مدینہ شریف چلے آئے تھے ان کی دلجوئی بہت ضروری تھی۔
اس لیے آنحضرت ﷺ نے مدینہ کے باشندگان انصار میں ان کو تقسیم فرما دیا۔
انصاری بھائیوں نے جس خلوص اور رفاقت کا ثبوت دیا اس کی نظیر تاریخ عالم میں ملنی ناممکن ہے۔
آخر یہی مہاجر مدینہ کے زندگی میں گھل مل گئے۔
اور اپنے پیروں پر کھڑے ہو کر خود انصار کے لیے باعث تقویت ہو گئے۔
رضي اللہ عنهم أجمعین۔
آج مدینہ طیبہ میں بیٹھ کر انصار مدینہ اور مہاجرین کرام ؓ کا یہ ذکر خیر یہاں لکھتے ہوئے دل پر ایک رقت آمیز اثر محسوس کر رہا ہوں۔
واقعہ یہ ہے کہ انصار و مہاجرین قصر اسلام کے دو اہم ترین ستون ہیں جن پر اس عظیم قصر کی تعمیر ہوئی ہے۔
آج بھی مدینہ کی فضا ان بزرگوں کے چھوڑے ہوئے تاثرات سے بھر پور نظر آرہی ہے۔
مسجد نبوی حرم نبوی میں مختلف ممالک کے لاکھوں مسلمان جمع ہو کر عبادت الٰہی و صلوۃ وسلام پڑھتے ہیں اور سب میں مواخات اور اسلامی محبت کی ایک غیر محسوس لہر دوڑتی ہوئی نظر آتی ہے۔
مگر مسلمان یہاں سے جانے کے بعد بھی باہمی مواخات کو ہر ہر جگہ قائم رکھیں تو دنیائے انسانیت کے لیے وہ ایک بہترین نمونہ بن سکتے ہیں۔
4 صفر 1390ھ کو محترم بھائی حاجی عبدالرحمن سندی باب مجیدی مدینہ منور کے دولت کدہ پر یہ الفاظ نظر ثانی کرتے ہوئے لکھے گئے۔
بہ سلسلہ اشاعت بخاری شریف مترجم اردو حاجی صاحب موصوف کی مجاہدانہ کوششوں کے لیے امید ہے کہ ہر مطالعہ کرنے والے بھائی دعائے خیر کریں گے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2292   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2292  
2292. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ اور ہم نے ہر ایک کے لیے موالی ٹھہرائےہیں۔ اس میں موالی سے مراد وارث ہیں اورجن سے تم نے قسم اٹھا کر پیمان باندھا اس کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ مہاجرین جب مدینہ طیبہ آئے تو نبی ﷺ نے ان میں اور انصار میں بھائی چارہ کرادیا، چنانچہ مہاجر، نبی ﷺ کے کرائےہوئے اس مواخات کے سبب انصاری کا ترکہ پاتا اور اس کے رشتہ داروں کو کچھ نہ ملتا۔ اور جب یہ آیت ہم نے ہر ایک کے موالی ٹھہرائے ہیں نازل ہوئی تو اس سے مذکورہ اجازت اور جن لوگوں سے تم نے قسم اٹھا کر عہدو پیمان کیا انھیں ان کا حصہ دو منسوخ ہوگئی۔ پھر حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ اب ﴿وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ﴾ کی رو سے صرف مدد، معاونت اور خیرخواہی کی گنجائش باقی رہی اور وراثت میں حصہ پانے کا حق جاتارہا، البتہ ان کے لیے وصیت کی جا سکتی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2292]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت کے ذریعے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف سے ﴿وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ﴾ کی وضاحت کی گئی ہے۔
ان کے نزدیک قسم اٹھا کر عہدو پیمان باندھنے والوں سے مراد انصار ہیں جنھوں نے مؤاخات کے سبب مہاجرین کو وراثت میں شامل کرلیا تھا۔
حضرت ابن عباس ؓ کے کہنے کے مطابق ﴿وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ﴾ کے نزول کے بعد ترکے میں حصے کی اجازت ختم ہوگئی، البتہ مؤاخات صرف مدد،اعانت اور خیرخواہی تک محدود ہوگئی۔
(2)
امام بخاری ؒ نے عنوان سے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ کفالہ کا مقصد یہ ہے کہ حصول ثواب کےلیے کسی چیز کو اپنے ذمے کرلیا جائے تو وہ لازم ہوجاتی ہے جیسے قسم اٹھا کر عہد کرنے سے وراثت کا استحقاق لازم ہوجاتا تھا۔
شارح بخاری ابن منیر ؒنے لکھا ہے کہ کفالت کے باب میں امام بخاری یہ روایت اس لیے لائے ہیں کہ جب آغاز اسلام میں عقد حلف سے ترکے کا استحقاق پیدا ہوجاتاتھا تو کفالت سے بھی مال کی ذمہ داری کفیل پر عائد ہوگی کیونکہ وہ بھی ایک عقد ہے۔
(فتح الباري: 596/4)
(3)
امام بخاری ؒ نے جس آیت کو باب کے طور پر پیش کیا ہے اس میں وارد لفظ عَقَدَتْ کو دو طرح سے پڑھا گیا ہے۔
عاصم، حمزہ اور کسائی کی قراءت عَقَدَتْ ہے جو ہمارے ہاں معروف ہے اور دیگر قراءاسے عاقدت پڑھتے ہیں،تاہم دونوں کے معنی میں کوئی فرق نہیں۔
(إرشاد الساري: 263/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2292   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.