الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: جمعہ کے فضائل و مسائل
The Book of Jumu\'ah (Friday Prayer)
13. بَابُ : التَّبْكِيرِ إِلَى الْجُمُعَةِ
13. باب: جمعہ کے لیے مسجد سویرے جانے کا بیان۔
Chapter: Coming To Jumu'ah Prayers Early
حدیث نمبر: 1386
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا نصر بن علي بن نصر، عن عبد الاعلى، قال: حدثنا معمر، عن الزهري، عن الاغر ابي عبد الله، عن ابي هريرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إذا كان يوم الجمعة , قعدت الملائكة على ابواب المسجد فكتبوا من جاء إلى الجمعة , فإذا خرج الإمام طوت الملائكة الصحف , قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: المهجر إلى الجمعة كالمهدي بدنة، ثم كالمهدي بقرة، ثم كالمهدي شاة، ثم كالمهدي بطة، ثم كالمهدي دجاجة، ثم كالمهدي بيضة".
أَخْبَرَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ نَصْرٍ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنِ الْأَغَرِّ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا كَانَ يَوْمُ الْجُمُعَةِ , قَعَدَتِ الْمَلَائِكَةُ عَلَى أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ فَكَتَبُوا مَنْ جَاءَ إِلَى الْجُمُعَةِ , فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ طَوَتِ الْمَلَائِكَةُ الصُّحُفَ , قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْمُهَجِّرُ إِلَى الْجُمُعَةِ كَالْمُهْدِي بَدَنَةً، ثُمَّ كَالْمُهْدِي بَقَرَةً، ثُمَّ كَالْمُهْدِي شَاةً، ثُمَّ كَالْمُهْدِي بَطَّةً، ثُمَّ كَالْمُهْدِي دَجَاجَةً، ثُمَّ كَالْمُهْدِي بَيْضَةً".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے (اس دن) مسجد کے دروازوں پر بیٹھ جاتے ہیں، اور جو جمعہ کے لیے آتا ہے اسے لکھتے ہیں، اور جب امام (خطبہ دینے کے لیے) نکلتا ہے تو فرشتے رجسٹر لپیٹ دیتے ہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کے لیے سب سے پہلے آنے والا ایک اونٹ کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک گائے کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک بکری کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک بطخ کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک مرغی کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک انڈے کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجمعة 31 (929)، بدء الخلق 6 (3211)، صحیح مسلم/الجمعة 7 (850)، (تحفة الأشراف: 13465)، مسند احمد 2/259، 263، 264، 280، 505، 512، سنن الدارمی/الصلاة 193 (1585) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ نماز جمعہ کے لیے جو جتنی جلدی پہنچے گا اتنا ہی زیادہ اجر و ثواب کا مستحق ہو گا، اور جتنی تاخیر کرے گا اتنا ہی ثواب میں کمی آتی جائے گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
   صحيح البخاري929عبد الرحمن بن صخرإذا كان يوم الجمعة وقفت الملائكة على باب المسجد يكتبون الأول فالأول ومثل المهجر كمثل الذي يهدي بدنة ثم كالذي يهدي بقرة ثم كبشا ثم دجاجة ثم بيضة فإذا خرج الإمام طووا صحفهم ويستمعون الذكر
   صحيح البخاري3211عبد الرحمن بن صخرإذا كان يوم الجمعة كان على كل باب من أبواب المسجد الملائكة يكتبون الأول فالأول فإذا جلس الإمام طووا الصحف وجاءوا يستمعون الذكر
   صحيح مسلم1986عبد الرحمن بن صخرعلى كل باب من أبواب المسجد ملك يكتب الأول فالأول مثل الجزور ثم نزلهم حتى صغر إلى مثل البيضة فإذا جلس الإمام طويت الصحف وحضروا الذكر
   صحيح مسلم1984عبد الرحمن بن صخرإذا كان يوم الجمعة كان على كل باب من أبواب المسجد ملائكة يكتبون الأول فالأول فإذا جلس الإمام طووا الصحف وجاءوا يستمعون الذكر ومثل المهجر كمثل الذي يهدي البدنة ثم كالذي يهدي بقرة ثم كالذي يهدي الكبش ثم كالذي يهدي الدجاجة ثم كالذي يهدي البيضة
   سنن النسائى الصغرى865عبد الرحمن بن صخرإنما مثل المهجر إلى الصلاة كمثل الذي يهدي البدنة ثم الذي على إثره كالذي يهدي البقرة ثم الذي على إثره كالذي يهدي الكبش ثم الذي على إثره كالذي يهدي الدجاجة ثم الذي على إثره كالذي يهدي البيضة
   سنن النسائى الصغرى1388عبد الرحمن بن صخرتقعد الملائكة يوم الجمعة على أبواب المسجد يكتبون الناس على منازلهم فالناس فيه كرجل قدم بدنة وكرجل قدم بقرة وكرجل قدم شاة وكرجل قدم دجاجة وكرجل قدم عصفورا وكرجل قدم بيضة
   سنن النسائى الصغرى1387عبد الرحمن بن صخرإذا كان يوم الجمعة كان على كل باب من أبواب المسجد ملائكة يكتبون الناس على منازلهم الأول فالأول فإذا خرج الإمام طويت الصحف واستمعوا الخطبة فالمهجر إلى الصلاة كالمهدي بدنة ثم الذي يليه كالمهدي بقرة ثم الذي يليه كالمهدي كبشا حتى ذكر الدجاجة والبيضة
   سنن النسائى الصغرى1386عبد الرحمن بن صخرإذا كان يوم الجمعة قعدت الملائكة على أبواب المسجد فكتبوا من جاء إلى الجمعة فإذا خرج الإمام طوت الملائكة الصحف قال فقال رسول الله المهجر إلى الجمعة كالمهدي بدنة ثم كالمهدي بقرة ثم كالمهدي شاة ثم كالمهدي بطة ثم كالمهدي دجاجة ثم كالمهدي
   سنن ابن ماجه1092عبد الرحمن بن صخرإذا كان يوم الجمعة كان على كل باب من أبواب المسجد ملائكة يكتبون الناس على قدر منازلهم الأول فالأول فإذا خرج الإمام طووا الصحف واستمعوا الخطبة فالمهجر إلى الصلاة كالمهدي بدنة ثم الذي يليه كمهدي بقرة ثم الذي يليه كمهدي كبش حتى ذكر الدجاجة والبيضة
   مسندالحميدي963عبد الرحمن بن صخرإذا كان يوم الجمعة، كان على كل باب من أبواب المسجد ملائكة يكتبون الناس على منازلهم، الأول فالأول، فإذا خرج الإمام طويت الصحف، واستمعوا الخطبة، فالمهجر إلى الجمعة كالمهدي بدنة، ثم الذي يليه كالمهدي بقرة، ثم الذي يليه كالمهدي كبشا، حتى ذكر الدجاجة والبيضة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1386  
´جمعہ کے لیے مسجد سویرے جانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب جمعہ کا دن آتا ہے تو فرشتے (اس دن) مسجد کے دروازوں پر بیٹھ جاتے ہیں، اور جو جمعہ کے لیے آتا ہے اسے لکھتے ہیں، اور جب امام (خطبہ دینے کے لیے) نکلتا ہے تو فرشتے رجسٹر لپیٹ دیتے ہیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جمعہ کے لیے سب سے پہلے آنے والا ایک اونٹ کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک گائے کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک بکری کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک بطخ کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک مرغی کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے، پھر اس کے بعد والا ایک انڈے کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجمعة/حدیث: 1386]
1386۔ اردو حاشیہ:
فرشتے یہ مخصوص فرشتے ہیں جو صرف جمعے سے قبل آنے والوں کے نام اور ثواب لکھنے کے لیے مقرر ہیں۔ (عموماً اعمال لکھنے والے فرشتے تو ہر وقت لکھتے رہتے ہیں۔) پھر یہ خطبہ بھی سنتے ہیں۔ اس سے جمعۃ المبارک کی عظمت ظاہر ہوتی ہے، اسی لیے اس دن کو قرآن مجید میں شاہد کہا گیا ہے اور اگر اس سے عام کراما کاتبین مراد ہوں تو پھر جمعۃ المبارک کے لیے خطبے سے پہلے آنے والوں کے لیے مخصوص رجسٹر ہوں گے جنھیں خطبہ شروع ہونے سے قبل بند کر دیا جاتا ہے۔ اس میں پہلے آنے والوں کی عظیم فضیلت ہے کہ ان کی حاضری کے لیے فرشتے دروازوں پر آکر بیٹھتے ہیں۔ «ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ﴾ ۔
سب سے پہلے آنے والا بعض علماء کا خیال ہے کہ فرشتوں نے خطبے سے پہلے کچھ اوقات مقرر کر رکھے ہوں گے۔ ان اوقات کے لحاظ سے لوگوں کے درجات بنتے ہوں گے ورنہ ظاہراً تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے آنے والے صرف چھ سات افراد کے نام لکھے جاتے ہیں مگر یہ درست نہیں کیونکہ ممکن ہے بیک وقت کئی افراد داخل ہوں، لہٰذا اوقات کا تقرر ہو گا مگر ان اوقات کی تفصیل کسی حدیث میں نہیں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ علماء کے مابین اس بارے میں اختلاف ہے۔ جمعے کے لیے جلدی نکلنا بالاتفاق مستحب ہے لیکن اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ حدیث میں وارد پانچ گھڑیوں سے مراد کیا ہے؟ کیا پانچ یا چھ گھڑیوں سے مقصود صرف وقت کے چند اجزاء ہیں یا وہ معروف گھڑیاں ہیں جن میں دن رات 24 گھنٹوں میں تقسیم ہوتے ہیں؟ جمہور علماء و فقہاء اس سے مراد معروف زمانی ساعات (گھنٹے) لیتے ہیں۔ امام شافعی، امام احمد، سفیان ثوری اور امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ وغیرہ کی یہی رائے ہے۔ ایک دن میں بارہ گھڑیاں ہوتی ہیں جیسا کہ اس کی تائید حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہوتی ہے کہ جمعے کے دن کی بارہ گھڑیاں ہوتی ہیں۔ اس کی سند صحیح ہے۔ [سنن أبي داود، لاصلاة، حدیث: 1048، و صحیح سنن أبي داود (مفصل) للألباني، حدیث: 963] اس لحاظ سے ان کے ہاں سورج کے بلند ہونے سے پہلی گھڑی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اس طرح زوال شمس تک، وقت کے اس دورانیے کو پانچ گھڑیوں میں تقسیم کر لیا جائے، خواہ پہلی گھڑی گھنٹے پر مشتمل ہو یا سوا یا ڈیڑھ گھنٹے پر کیونکہ گرمی سردی کے اعتبار سے وقت کے لحاظ سے گھڑیوں میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے لیکن دن کبھی بارہ گھڑیوں سے کم نہیں ہوتا۔ اس طرح پہلی گھڑی میں آنے والے افراد، خواہ تعداد میں زیادہ ہی ہوں، وہ اونٹ کی قربانی کا ثواب پائیں گے۔ اسی طرح ترتیب وار دیگر گھڑیوں میں آنے والے حضرات بھی اسی حساب سے ثواب میں شریک ہوں گے۔ الساعۃ کے عرف میں بھی یہی معنیٰ متبادر ہیں۔ دوسرا موقف امام مالک رحمہ اللہ اور بعض شوافع کا ہے۔ ان کے نزدیک احادیث میں وارد ساعات سے مراد معروف گھڑیاں نہیں بلکہ زوال کے بعد چند لحظات یا لمحات ہیں، یعنی زوال کے بعد چھٹی گھڑی کے یہ چند اجزاء یا لمحات ہوتے ہیں جن میں فرشتے آنے والوں کے ترتیب وار نام لکھتے ہیں۔ اس دعوے کی ان کے پاس چند دلیلیں ہیں: پہلی دلیل: حدیث میں لفظ «راح» (فعل ماضی) استعمال ہوا ہے جس کے معنیٰ بعد از زوال جانے یا روانہ ہونے کے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعد از زوال جلدی نکلنے کی ترغیب ہے نہ کہ دن کے آغاز میں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ لفظ راح صرف بعد از زوال جانے پر نہیں بولا جاتا، بلکہ مطلق جانے پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے، خواہ جانا کسی وقت بھی ہو، یہ اہل حجاز کی لغت ہے، جیسا کہ امام زہری رحمہ اللہ نے کہا ہے، لہٰذا سفر دن کے آغازم یں یا آخر میں یا رات کے وقت ہو، اس پر یہ لفظ بولا جاتا ہے، اس کی بعد از زوال وقت کے ساتھ تخصیص درست نہیں۔ دوسری دلیل: حدیث میں وارد لفظ «الھجر» ہے، نیز اس حدیث میں بجائے ساعات کے لفظ «ثم» استعمال ہوا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ لوگ ایک دوسرے کے بعد آئیں، اور اس میں گھڑیو کا ذکر نہیں ہے۔ اور «المھجر، تھجیر» سے مشتق ہے جس کے معنی عین دوپہر کا وقت ہیں جسے عربی میں الھاجرۃ کہتے ہیں۔ اس سے بھی پتہ چلا کہ آغاز دن مراد نہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جن روایات میں ساعات کا ذکر ہے، وہ مفصل ہیں اور لفظ «ثم» کے ساتھ منقول حدیث مبہم ہے۔ قاعدے کی رو سے مجمل کو مفصل پر محمول کیا جاتا ہے، یعنی جو وضاحت مفصل میں ہوتی ہے، اسے ہی لینا ضروری ہے، اس لیے الساعات کی تصریح سے منقول روایات مقدم ہیں، نیز سب طرق و روایات میں صرف لفظ «الھجر» ہی نہیں آتا بلکہ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ بعض میں لفظ «غدا» اور بعض میں «المتعجل» جلدی کرنے والے کے الفاظ وغیرہ بھی ہیں۔ اس سے لفظ «المھجر» کے معنی متعین ہو جاتے ہیں، نیز لغت میں یہ لفظ تبکیر و تعجیل کے معنی میں بھی آتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اگرچہ اس کے معنی میں عین دوپہر یا شدید دھوپ میں نکلنے کے بھی آتے ہیں لیکن لغت کی روشنی میں تبکیر و تعجیل کے معنی سے بھی مفر نہیں، بلکہ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو یہاں اسی مؤخر الذکرمعنی میں استعمال ہوا ہے۔ تیسری دلیل: لفظ «الساعة» معروف گھنٹے کے معنی میں نہیں بلکہ زمانے یا وقت کے ایک جز یا حصے پر بولا جاتا ہے۔ اردو میں اس کے معنی گھڑی کے کیے جاتے ہیں، یہ عام ہے، خواہ تھوڑے وقت کو محیط ہو یا زیادہ کو، اسی لیے اس کے معنی لمحے یا لحظات کیے جاتے ہیں۔ اس کا جواب تین طرح دیا جا سکتا ہے:
➊ شرعاً ایک دن کے بارہ گھڑیوں میں تقسیم ہونے کا ذکر ملتا ہے جیسا کہ سنن ابی داود کی حدیث میں ہے۔ زیر بحث مسئلے میں اس سے تائید لی جا سکتی ہے۔
➋ عرف میں بھی الساعۃ کے متبادر معنیٰ یہی ہیں جو جمہور مراد لیتے ہیں۔
➌ اگر الساعات سے مراد چھٹی گھڑی کے چند لمحات یا لحظے ہی ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پانچ گھڑیوں کے ذکر کے کیا معنیٰ ہیں؟ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سے مراد وہی پانچ گھڑیاں ہیں جو بارہ گھڑیوں کا حصہ ہیں۔ جن پر، گرمی ہو یا سردی، ایک دن محیط ہوتا ہے۔ چوتھی دلیل: اگر احادیث میں وارد ساعات سے مراد چند لمحے یا لحظات مراد نہ ہوں تو اس سے ان گھڑیوں کی طوالت لازم آتی ہے، یعنی ان گھڑیوں کا دورانیہ لمبا ٹھہرتا ہے جس سے، سابق اور لاحق، یعنی پہلے اور بعد میں آنے والوں کا فرق ختم ہو جاتا ہے، اور ان گھڑیوں میں یکے بعد دیگرے آنے والوں کی فضیلت میں برابری اور یکسانیت لازم آتی ہے، مثلاً: پہلی گھڑی اگر ایک یا سوا گھنٹے پر مشتمل ہو تو ممکن ہے اس گھڑی میں وہ چار یا آٹھ دس آدمی یکے بعد دیگرے آئیں۔ اسی طرح باقی گھڑیوں میں بھی یہ ہوتا ہے یا اس کا قوی امکان ہے۔ کیا اس گھڑی میں آنے والے ان تمام افراد کو اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہے یا صرف ان کو جو ان میں سے پہلے آئے اور بس؟ اسی اعتراض سے بچنے کے یے امام مالک رحمہ اللہ وغیرہ ان سے مراد چند لمحات یا لحظات لیتے ہیں۔ اس اشکال کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اگرچہ پہلی گھڑی میں یکے بعد دیگرے آنے والے تمام افراد نفس اونٹ کی قربانی کا ثواب تو پاتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے، لیکن اس سے ہر لحاظ سے اونٹ کی قربانی میں تمام افراد کی برابری اور یکسانیت لازم نہیں آتی، وہ اس طرح کہ جو سب سے پہلے آئے اسے خوب موٹے تازے فربے اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہو، جو اس کے بعد آئے اسے اس سے کم تر اور جو اس کے بعد آئے اسے اس سے کمزور یا کم تر اونٹ کی قربانی کا ثواب ملتا ہو، یعنی مذکورہ تفاوت اور فرق یا اختلاف مراتب نفس اونٹ وغیرہ کی ذات کی بنا پر تو نہ ہو بلکہ ان کی صفات میں ہو اور برابری صرف اونٹ وغیرہ کی ذات کی حد تک ہو جیسا کہ ذکر ہوا، اور یہی بات درست ہے۔ حدیث کو اس طرح سمجھنے سے اشکال و اعتراض رفع ہو جاتا ہے۔ واللہ أعلم۔ پانچویں دلیل: اہل مدینہ کا عمل اس کے برعکس تھا۔ وہ آغاز دن ہی سے نہیں آتے تھے بلکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کا بھی یہ عمل نہ تھا، اس لیے اگر حدیث میں وارد لفظ الساعات سے جمہور والی گھڑیاں مراد لی جائیں تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نیکی کی شدید رغبت و حرص کے باوجود اول النہار حاضر نہ ہوتے تھے۔ جو اس بات کی دلیل ہے کہ یہاں ساعات سے مراد زوال کے بعد چھٹی گھڑی کے چند مختصر لمحے یا لحظے ہی ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اہل مدینہ کل امت نہیں کہ ان کا اتفاق یا عدم عمل قابل حجت اور اجماع کی حیثیت کا حامل ہو۔ پھر اول النہار مسجد کی طرف جانا بھی تو کوئی واجبی عمل نہیں، بلکہ بعض دیگر امور دینی یا دیگر مصالح اس عمل سے کہیں زیادہ اہمیت و فضیلت کے حامل ہوتے ہیں، اس لیے اسے ترک کیا جا سکتا ہے اور یہ جائز ہے۔ اس سے یہ نہیں نکلتاکہ اس درجہ تعجیل ان کے ہاں مکروہ یا ناجائز تھی۔ یقیناًً جو آدمی نماز فجر پڑھ کر اسی جگہ ذکراذکار میں مشغول رہے اور سورج طلوع ہونے کے بعد دو رکعت پڑھ لے، وہ اس آدمی سے جو صرف اشراق ہی پڑھتا ہے، کہیں زیادہ فضیلت اور ثواب کا حامل ہے۔ اسی طرح وہ آدمی، جو نماز فجر کی ادائیگی کے بعد غسل وغیرہ کرے اور تیار ہو، اور اشراق پڑھ کر نماز جمعہ کے انتظار میں بیٹھا رہے، یقیناًً اس شخص کی نسبت یہ کہیں زیادہ فضیلت پاتا ہے جو خطیب کے آنے سے صرف چند لمحے قبل مسجد میں پہنچتا ہے، جبکہ احادیث کی روشنی میں اس طرح انتظار کرنے والے کو بدستور نماز کی حالت میں شمار کیا گیا ہے۔ بلاشبہ ایسے آدمی کی فضیلت کا کسی کو انکار نہیں اور نہ ہونا چاہیے۔ اس قسم کے اعمال کی مشروعیت عمومی دلائل و احادیث سے اخذ ہوتی ہے۔ کی صحابی یا تابعی کے عدم عمل یا ان کے متعلق عدم نقل کی بنا پر اسے رد نہیں کیا جا سکتا۔ واللہ أعلم۔ چھٹی دلیل: اگر حدیث میں موجود الساعات کو فلکی ساعات، یعنی گھنٹوں کے معنیٰ میں لیا جائے تو اس صورت میں خطیب کا قبل از زوال نکلنا لازم آتا ہے۔ وہ اس طرح کہ آفتاب کے بلند ہونے سے امام کے خروج سے قبل تک، وقت کے دورانیے کو پانچ گھڑیوں میں تقسیم کیا جائے تو پانچویں گھڑی کے بعد خروجِ امام کا ذکر ہے جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔ یہ چھٹی گھڑی کا ابتدائی اور قبل از زوال کا وقت ہوتا ہے۔ اور جمہور کے نزدیک قبل از زوال نماز جمعہ درست نہیں۔ لیکن جن کے نزدیک یہ جائز ہے ان کے لیے یہ حدیث قابل اعتراض نہیں بلکہ ان کے حق میں ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: اس حدیث کے کسی طریق میں امام کے اول النہار نکلنے کا ذکر نہیں ہے ہو سکتا ہے پہلی گھڑی نہانے اور جمعے کی تیاری وغیرہ کے لیے ہو۔ اور مسجد میں آنا دوسری گھڑی کے آغاز میں ہو۔ اس طرح دن کے اعتبار سے یہ دوسری گھڑی ہو گی اور جانے کے اعتبار سے پہلی۔ بنابریں پانچویں گھڑی کے آخری لحظے زوال کے ابتدائی لمحات ہوں گے۔ [فتح الباري: 368/2] الغرض مذکورہ معروضات سے واضح ہوتا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کا موقف مرجوح ہے۔ جمہور علماء کے دلائل قوی اور قرین قیاس ہیں۔ اگرچہ قرآن و حدیث کی روشنی میں حدیث میں منقول ساعات کی واضح طور پر تحدید مشکل ہے لیکن فریق مخالف کے مقابلے میں جمہور کی رائے ہی مضبوط ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق بھی یہی ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: [إحکام الأحکام شرح عمدة الأحکام لابن دقیق العبد، مع حاشیة العدة: 531-522/2، وزاد المعاد: 407-399/1 بتحقیق شعیب الأرناؤط، و فتح الباري: 370-366/2، رقم الحدیث: 881، و مرعاة المفاتیح: 295-293/2، طبعه أولی، و موسوعه فقھیه از حسین بن عوده: 362/2]
➌ رجسٹر بند ہونے کے بعد آنے والے سبقت کے ثواب سے محروم رہتے ہیں مگر انہیں جمعے کی حاضری، خطبے کے سماع، نماز میں شرکت اور ذکر و دعا وغیرہ کا ثواب ملتا ہے۔ لیکن درجات میں فرق پڑ جاتا ہے۔
➍ بعض لوگ اس حدیث سے اس بات پر استدلال کرتے ہیں کہ مرغی کی قربانی بھی جائز ہے لیکن اگر اس استدلال کو درست سمجھ لیا جائے تو پھر انڈے کی قربانی کا جواز بھی تسلیم کرنا پڑے گا، جسے یہ خود بھی تسلیم نہیں کرتے۔ بنابریں یہ استدلال درست نہیں۔ اس حدیث میں مذکورہ چیزوں کی قربانی سے مراد وہ اجر و ثواب ہے جو ان چیزوں کے صدقہ کرنے سے ملتا ہے، اسی لیے بعض لوگ «مھدی» کے معنیٰ ہی صدقہ کرنے والا کرتے ہیں۔ بہرحال جو معنیٰ بھی کیے جائیں، اس سے مرغی یا انڈے کی قربانی کا جواز کشید کرنا یکسر غلط ہے۔
➎ ادنیٰ سی چیز بھی اللہ کی راہ میں دینے سے ہچکچانا نہیں چاہیے۔ اخلاص کے ساتھ دی ہوئی معمولی سی چیز بھی عنداللہ بہت زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ن فرمایا: آگ سے بچو، چاہے کھجور کے ایک ٹکڑے (کے صدقے) کے ساتھ ہی۔ [صحیح البخاري، الزکاة، حدیث: 1417]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1386   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 865  
´نماز کے لیے اول وقت میں جانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اول وقت میں نماز کے لیے جانے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اونٹ کی قربانی کرتا ہے، پھر جو اس کے بعد آئے وہ اس شخص کی طرح ہے جو گائے کی قربانی کرتا ہے، پھر جو اس کے بعد آئے وہ اس شخص کی طرح ہے جو بھیڑ کی قربانی کرتا ہے، پھر جو اس کے بعد آئے وہ اس شخص کی طرح ہے جو مرغی کی قربانی کرتا ہے، پھر جو اس کے بعد آئے وہ اس شخص کی طرح ہے جو انڈے کی قربانی کرتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 865]
865 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث میں نماز سے مراد نماز جمعہ ہے۔ مصنف نے عام نماز کو بھی نماز جمعہ پر محمول کیا ہے کیونکہ بعض روایات سے ہر نماز میں جلدی آنے کی فضیلت معلوم ہوتی ہے۔ لو یعلمون ما فی التھجیر۔۔ الخ [سنن النسائي، الأذان، حدیث: 672]
➋ روایت میں لفظ «يُهْدِي» ہے جس سے مراد جانور کو حرم بھیجنا ہے تاکہ وہاں ذبح ہو اور تقرب حاصل ہو۔ یہاں مجازاً صدقے کے معنیٰ میں ہے کیونکہ مرغی اور انڈا قربان نہیں کیے جاتے، البتہ ان سے ثواب ضرور حاصل ہوتا ہے۔ بعض لوگوں نے قربانی والا معنیٰ کر کے اس حدیث سے مرغی کی قربانی ثابت کی ہے مگر انڈے کو کیسے اور کہاں سے ذبح کیا جائے گا؟ اس قسم کے مضحکہ خیز مسائل سے جمہور اہل علم کی مخالفت کرنا اور اپنے آپ کو تماشا بنانا ہے۔ سیاق و سباق اور مجموعی تناظر سے ہٹ کر صرف لفظوں سے استدلال بسا اوقات گمراہی کا موجب بن جاتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ جمہور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے منہج اور تعبیر کو مدنظر رکھا جائے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 865   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1092  
´جمعہ کے لیے مسجد سویرے جانے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب جمعہ کا دن آتا ہے تو مسجد کے ہر دروازے پر فرشتے متعین ہوتے ہیں، وہ لوگوں کے نام ان کے درجات کے مطابق لکھتے رہتے ہیں، جو پہلے آتے ہیں ان کا نام پہلے (ترتیب وار) لکھتے ہیں، اور جب امام خطبہ کے لیے نکلتا ہے تو فرشتے رجسٹر بند کر دیتے ہیں اور خطبہ سنتے ہیں، لہٰذا جمعہ کے لیے سویرے جانے والا ایک اونٹ قربان کرنے والے، اور اس کے بعد جانے والا گائے قربان کرنے والے، اور اس کے بعد جانے والا مینڈھا قربان کرنے والے کے مانند ہے یہاں تک کہ آپ نے مرغی اور انڈے (کی قربانی)۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1092]
اردو حاشہ:
فوائدومسائل:

(1)
اللہ کے ہاں نماز جمعہ کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے۔
کہ اس میں حاضر ہونے والوں کے نام لکھنے کےلئے خاص طور پر فرشتے نازل ہوتے ہیں۔

(2)
پہلے آنے والوں کا درجہ بھی اللہ کے ہاں زیادہ ہے۔
اس لئے ان کا ثواب بھی زیادہ ہے۔

(3)
یہ خاص ثواب ان لوگوں کو ملتا ہے۔
جوخطبہ سننے سے پہلے مسجد میں پہنچ جاتے ہیں۔
خطبہ شروع ہونے کے بعد آنے والوں کوخطبہ سننے کا ثواب ملےگا۔
اور نماز جمعہ کا ثواب بھی ملے گا۔
لیکن وہ خاص ثواب نہیں ملے گا۔
جو جلدی آنے والوں کے لئے مخصوص ہے۔

(4)
خطبہ سننا بھی ایک عظیم نیکی ہے۔
حتیٰ کہ فرشتے بھی خطبہ توجہ سے سنتے ہیں۔

(5)
خطبہ سننے کے دوران میں فرشتے نام لکھنا بند کردیتے ہیں۔
اس میں یہ اشارہ ہے کہ خطبے کے دوران میں کوئی غیر متعلقہ حرکت کرنا درست نہیں۔

(6)
بعض روایات میں (المُھْدِی)
کے بجائے (کَأَنَّمَا قَرَّبَ)
 کے الفاظ ہیں۔ (صحیح البخاري، الجمعة، باب فضل الجمعة، حدیث: 881)
اس سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر جس طرح اونٹ، گائے، دنبے اور بکرے وغیرہ کی قربانی دی جاتی ہے۔
مرغی اور انڈے کی قربانی بھی ہوسکتی ہے۔
یہ رائے درست نہیں کیونکہ عید کی قربانی کےلئے اضحیة اور اضاحی کا لفظ خاص ہے۔
جس سے فعل ضحی آتا ہے۔
قَرَّبَ سے مراد اللہ کا قرب حاصل کرنے کےلئے کوئی چیز پیش کرنا ہے۔
وہ عیدالاضحیٰ کے موقع پر جانور قربان کرنا بھی ہوسکتا ہے۔
اور صدقے کے طور پر جانور، نقد رقم، خوراک یا کوئی بھی چیز پیش کرنا ہوسکتا ہے۔
جس کا أضیحة سے کوئی تعلق نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1092   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.