الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: مساقات کے بیان میں
The Book of Watering
1M. بَابٌ في الشُّرْبِ، وَمَنْ رَأَى صَدَقَةَ الْمَاءِ وَهِبَتَهُ وَوَصِيَّتَهُ جَائِزَةً، مَقْسُومًا كَانَ أَوْ غَيْرَ مَقْسُومٍ:
1M. باب: پانی کی تقسیم اور جو کہتا ہے پانی کا حصہ خیرات کرنا اور ہبہ کرنا اور اس کی وصیت کرنا جائز ہے وہ پانی بٹا ہوا ہو یا بن بٹا ہوا۔
(1b) Chapter. Whoever things that giving water in charity, or as a gift or by way of a testament is permissible, whether it is divided or not.
حدیث نمبر: Q2351
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال عثمان: قال النبي صلى الله عليه وسلم: من يشتري بئر رومة فيكون دلوه فيها كدلاء المسلمين، فاشتراها عثمان رضي الله عنه.وَقَالَ عُثْمَانُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ يَشْتَرِي بِئْرَ رُومَةَ فَيَكُونُ دَلْوُهُ فِيهَا كَدِلَاءِ الْمُسْلِمِينَ، فَاشْتَرَاهَا عُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ.
‏‏‏‏ اور عثمان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی ہے جو بیئر رومہ (مدینہ میں ایک مشہور کنواں) کو خرید لے اور اپنا ڈول اس میں اسی طرح ڈالے جس طرح اور مسلمان ڈالیں۔ (یعنی اسے واقف کر دے) آخر عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے خریدا۔

حدیث نمبر: 2351
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا سعيد بن ابي مريم، حدثنا ابو غسان، قال: حدثني ابو حازم، عن سهل بن سعد رضي الله عنه، قال:" اتي النبي صلى الله عليه وسلم بقدح، فشرب منه، وعن يمينه غلام اصغر القوم، والاشياخ عن يساره، فقال: يا غلام، اتاذن لي ان اعطيه الاشياخ، قال: ما كنت لاوثر بفضلي منك احدا يا رسول الله، فاعطاه إياه".حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، حَدَّثَنَا أَبُو غَسَّانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحٍ، فَشَرِبَ مِنْهُ، وَعَنْ يَمِينِهِ غُلَامٌ أَصْغَرُ الْقَوْمِ، وَالْأَشْيَاخُ عَنْ يَسَارِهِ، فَقَالَ: يَا غُلَامُ، أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أُعْطِيَهُ الْأَشْيَاخَ، قَالَ: مَا كُنْتُ لِأُوثِرَ بِفَضْلِي مِنْكَ أَحَدًا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ".
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوغسان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابوحازم نے بیان کیا اور ان سے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ اور پانی کا ایک پیالہ پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں طرف ایک نوعمر لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ اور کچھ بڑے بوڑھے لوگ بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لڑکے! کیا تو اجازت دے گا کہ میں پہلے یہ پیالہ بڑوں کو دے دوں۔ اس پر اس نے کہا، یا رسول اللہ! میں تو آپ کے جھوٹے میں سے اپنے حصہ کو اپنے سوا کسی کو نہیں دے سکتا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ پہلے اسی کو دے دیا۔

Narrated Sahl bin Sa`d: A tumbler (full of milk or water) was brought to the Prophet who drank from it, while on his right side there was sitting a boy who was the youngest of those who were present and on his left side there were old men. The Prophet asked, "O boy, will you allow me to give it (i.e. the rest of the drink) to the old men?" The boy said, "O Allah's Apostle! I will not give preference to anyone over me to drink the rest of it from which you have drunk." So, the Prophet gave it to him.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 40, Number 541

   صحيح البخاري2366سهل بن سعدأتأذن لي أن أعطي الأشياخ قال ما كنت لأوثر بنصيبي منك أحدا فأعطاه إياه
   صحيح البخاري2602سهل بن سعدإن أذنت لي أعطيت هؤلاء فقال ما كنت لأوثر بنصيبي منك أحدا فتله في يده
   صحيح البخاري2351سهل بن سعدأتأذن لي أن أعطيه الأشياخ قال ما كنت لأوثر بفضلي منك أحدا فأعطاه إياه
   صحيح البخاري2605سهل بن سعدأتأذن لي أن أعطي هؤلاء قال الغلام لا أوثر بنصيبي منك أحدا فتله في يده
   صحيح البخاري5620سهل بن سعدأتأذن لي أن أعطي هؤلاء قال الغلام لا أوثر بنصيبي منك أحدا فتله رسول الله في يده
   صحيح البخاري2451سهل بن سعدأتأذن لي أن أعطي هؤلاء قال الغلام لا أوثر بنصيبي منك أحدا فتله رسول الله في يده
   صحيح مسلم5292سهل بن سعدأتأذن لي أن أعطي هؤلاء قال الغلام لا أوثر بنصيبي منك أحدا فتله رسول الله في يده
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم472سهل بن سعداتاذن لي ان اعطي هؤلاء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديثموطا امام مالك رواية ابن القاسم 472  
´کسی چیز کو تقسیم کرتے وقت دائیں طرف سے آغاز کیا جائے`
«. . . 413- وبه: أن النبى صلى الله عليه وسلم أتي بشراب فشرب منه وعن يمينه غلام وعن يساره الأشياخ، فقال للغلام: أتأذن لي أن أعطي هؤلاء فقال: لا والله يا رسول الله، لا أوثر بنصيبي منك أحدا، قال: فتله رسول الله صلى الله عليه وسلم فى يده. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مشروب (یعنی دودھ) لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے پیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں طرف ایک لڑکا تھا اور بائیں طرف بڑی عمر کے لوگ تھے تو آپ نے لڑکے سے کہا: اگر تم مجھے اجازت دو تو ان (بڑی عمر کے) لوگوں کو یہ (بچا ہوا حصہ) دے دوں؟ اس لڑکے نے کہا: نہیں، یا رسول اللہ! اللہ کی قسم! میں آپ کے جوٹھے پر کسی کو ترجیح نہیں دوں گا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 472]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5620، و مسلم 2030، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ پینے پلانے کی چیز تحفہ دینے یا پینے پلانے میں دائیں طرف سے شروع کرنا چاہئے، اگرچہ بائیں طرف افضل انسان بھی موجود ہوں
➋ بڑوں کی دائیں طرف چھوٹے بچے بیٹھ سکتے ہیں بہتر یہی ہے کہ انھیں بائیں طرف بٹھایا جائے۔
➌ کبار علماء کی مجلس میں طالب علم بھی بیٹھ سکتے ہیں اور اسی طرح افضل کے ساتھ مفضول کا بیٹھنا جائز ہے۔
➍ بہتر یہی ہے کہ اگر کسی کے پاس کھانے پینے کا تحفہ لایا جائے تو وہ اپنے ساتھ مجلس کے دوسرے ساتھیوں کو بھی شریک کرلے لیکن یہ واجب یا ضروری نہیں ہے۔
➎ شرعی حدود کا ہر وقت خیال رکھنا چاہئے۔
➏ نیز دیکھئے حدیث [البخاري 5619، ومسلم 2029]
اردو لغات میں جوٹھے کو جھوٹا لکھا جاتا ہے جب کہ ہمارے نزدین لفظ جوٹھا زیادہ فصیح ہے۔ واللہ اعلم
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 413   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2351  
´پانی کی تقسیم اور جو کہتا ہے پانی کا حصہ خیرات کرنا اور ہبہ کرنا اور اس کی وصیت کرنا جائز ہے`
«. . . عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَدَحٍ، فَشَرِبَ مِنْهُ، وَعَنْ يَمِينِهِ غُلَامٌ أَصْغَرُ الْقَوْمِ، وَالْأَشْيَاخُ عَنْ يَسَارِهِ، فَقَالَ: يَا غُلَامُ، أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أُعْطِيَهُ الْأَشْيَاخَ، قَالَ: مَا كُنْتُ لِأُوثِرَ بِفَضْلِي مِنْكَ أَحَدًا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهُ . . .»
. . . سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دودھ اور پانی کا ایک پیالہ پیش کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دائیں طرف ایک نوعمر لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ اور کچھ بڑے بوڑھے لوگ بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لڑکے! کیا تو اجازت دے گا کہ میں پہلے یہ پیالہ بڑوں کو دے دوں۔ اس پر اس نے کہا، یا رسول اللہ! میں تو آپ کے جھوٹے میں سے اپنے حصہ کو اپنے سوا کسی کو نہیں دے سکتا۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ پہلے اسی کو دے دیا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ: 2351]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2351 کا باب: «بَابٌ في الشُّرْبِ، وَمَنْ رَأَى صَدَقَةَ الْمَاءِ وَهِبَتَهُ وَوَصِيَّتَهُ جَائِزَةً، مَقْسُومًا كَانَ أَوْ غَيْرَ مَقْسُومٍ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
الفاظ حدیث میں لفظ شرب آیا ہے۔ علامہ نسفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«شِرب: بكسر الشين»، پانی کا حصہ، گھاٹ، پینے کا وقت، اس کی جمع «أشراب» ہو گی، باب «سَمِعَ» سے مصدر ہے، اور ضمہ اور فتحہ سے بھی پڑھا گیا ہے۔ [طلبة الطلبة للنسفي، ص: 312]
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [جمهرة الأمثال، ج 1، ص: 81 - مجمع الأمثال، ص: 43]
صاحب «مُغرِب» رقمطراز ہیں:
«شِرب، لغة» شین کے کسرے کے ساتھ ہے، پانی کے حصے کو کہتے ہیں اور شرعا اپنے کھیتوں کو سیراب کرنے یا اپنے مویشیوں کو پانی پلانے کے لیے اپنے حصہ کی باری کو کہتے ہیں۔ [المُغرب، ج 1، ص: 436]
لہذا ترجمۃ الباب سے امام بخاری رحمہ اللہ اس مقصد کو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پانی پر انسانی ملکیت جاری ہو سکتی ہے اور اس کو مملوک بھی بنانا جائز ہے۔ امام ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مراد أن الماء يملك، ولهذا استأذن النبى صلى الله عليه وسلم بعض الشركاء فيه، ورتب قسمته يمنة ويسرة . . .» [فتح الباري، ج 1، ص: 17]
یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہ ہے کہ پانی پر انسانی ملکیت جاری ہو سکتی اور اس کو مملوک بنانا بھی جائز ہے۔ اس لیے حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض شرکاء سے اس کی تقسیم کے لیے اجازت طلب فرمائی، اور اس کی تقسیم کو دائیں اور بائیں جانب مرتب فرمایا، اگر وہ اپنی اباحت پر باقی رہتا تو نہ ہی کسی کی ملک میں داخل ہوتا اور نہ ہی اجازت اور ترتیب تقسیم کی ضرورت پیش آتی۔
علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی ترجمۃ الباب سے جو مناسبت ہے وہ اس جہت سے ہے کہ پانی کا تقسیم کرنا مشروع ہے کیونکہ خاص کیا گیا ہے ان لوگوں کو جو دائیں جانب ہوا کرتے ہیں، یعنی انہی لوگوں سے ابتداء کی جائے تقسیم کے لیے۔ لہذا یہیں سے ترجمۃ الباب سے مناسبت ہو گی۔ [. . . . . التراجم والأبواب، ج 00، ص: 00]
لہذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ یوں ہو گی کہ حدیث میں دائیں طرف صحابی کے بیٹھنے سے ان کا استحقاق ہو گیا تھا۔ اگر ان کا استحقاق ہی نہ ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے اجازت طلب کیوں فرماتے؟ لہذا اگر آدمی پانی کو اپنے تصرف میں لے آئے، اپنے مشکیزے وغیرہ میں رکھ لے تو بطریق اولی اس کا استحقاق اس پانی پر ثابت ہو جائے گا اور وہ پانی اس کی ملک ہو جائے گا۔ [فتح الباري، ج 6، ص 67]
لہذا یہیں سے ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت ظاہر ہوتی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ علامہ عینی رحمہ اللہ نے ایک اشکال وارد فرمایا ہے۔
علامہ عینی رحمہ اللہ کا حدیث پر اشکال:
«فإن قلت: ليس فى الحديث أن القدح كان فيه ماء؟» [عمدة القاري، شرح صحيح البخاري، ج 16، ص 281]
اس حدیث میں تو اس بات کی کوئی وضاحت نہیں ہے کہ وہ پیالہ پانی کا تھا، تو اس حدیث سے پانی کی ملکیت کے استحقاق کا مدعی کیسے ثابت ہوا؟
امام عبداللہ بن سالم البصری الشافعی رحمہ اللہ آپ کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
«والحديث الأول لم يذكر فيه الشراب الذى كان فى القدح هل هو ماء أو لبن شيب بماء؟ و ظاهر الأمر انه كان لبنا، أى بل جاء مفسرا فى كتاب الأشربة بأنه لبن» [ضياء الساري، ج 18، ص: 15]
یعنی حدیث اول میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ پیالہ کس چیز کا تھا، یعنی اس میں کیا چیز تھی، پانی تھا، دودھ تھا، یا پانی اور دودھ ملا ہوا تھا؟ جو ظاہر ہے وہ یہ ہے کہ وہ دودھ تھا جیسا کہ آگے «كتاب الأشربة» میں ذکر ہے کہ وہ دودھ کا پیالہ تھا۔
فائدہ:
داہنے ہاتھ پر جو صحابی تشریف رکھتے تھے وہ کون تھے؟ سنن الترمذی کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تھے۔ [سنن الترمذي، رقم: 3455، و حسنه الألباني فى السلسلة الصحيحة: 2340، و ابن السني، رقم: 468]
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و روى من طريق اسماعيل بن جعفر: أخبرني أبوحازم عن سهل بن سعد قال: أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم بقدح من لبن و غلام عن يمينه و الأشياخ امامه و عن يساره . . . الحديث» [التمهيد، ج 21، ص: 132]
ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«يقال أن الغلام هو الفضل بن العباس» [شرح ابن بطال، ج 6، ص: 494]
یعنی وہ لڑکا فضل بن عباس تھے۔
برہان الدین سبط ابن العجمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ فضل بن عباس تھے۔ [تنبيه المسلم بمهمات صحيح مسلم، ص: 350]
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے بھی ایک روایت پیش فرمائی، اس میں سیدنا ابن عباس سے مراد سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں۔ [التمهيد، ج 21، ص: 123]
ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس غلام سے مراد یہاں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہیں جیساکہ گزر چکا ہے۔ [التوضيح، ج 15، ص: 311]
علامہ ابن التین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مراد ہیں۔ [فتح الباري، ج 6، ص: 68]
علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہی مراد ہیں کیونکہ یہ قول متعین ہے جیسا کہ مسند ابن ابی شیبہ کی روایت سے صراحت ہوتی ہے۔ [إرشاد الساري، ج 5، ص: 341]
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لڑکے سے مراد سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں۔ [إرشاد الساري، ج 5، ص: 341 - تكملة فتح الملهم: 10/4]
بائیں جانب جو شیوخ تھے وہ کون تھے؟
امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا: «اشياخ» میں سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی داخل ہیں۔ [إرشاد الساري، ج 5، ص: 341]
ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«و الأشياخ: خالد بن الوليد أو منهم خالد» [التوضيح، ج 15، ص: 311]
عبداللہ سالم البصری فرماتے ہیں:
«الأشياخ» میں خالد بن ولید شامل تھے۔ [ضياء الساري، ج 18، ص: 11]
بعض حضرات نے ابن التین رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے: اگلی روایت میں جو فرمان «عن يمينه أعرابي» اس سے مراد سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ہیں۔ [عمدة القاري، ج 12، ص 282]
علامہ عینی رحمہ اللہ نے تعقب فرمایا ہے کہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو اعرابی کہنا درست نہیں ہے اور نہ وہ مشائخ کی عمر کو پہنچے تھے۔
لہذا اگر دونوں واقعات جو مذکورہ احادیث میں موجود ہیں اور وہ واقعہ جو ترمذی، کتاب الدعوات، رقم 3455 میں مرقوم ہے، اگر ایک ہی ہے تو کوئی اشکال اس میں وارد نہیں ہے۔ مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان کا رد کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
«وتعقب بأن مثله لا يقال له اعرابي، وكأن الحامل له على ذالك أنه رأى فى حديث ابن عباس الذى أخرجه الترمذي قال دخلت أنا و خالد بن الوليد على ميمونة . . . فظن أن القصة واحدة، وليس كذالك فان هذه القصة فى بيت ميمونة وقصة أنس فى دار أنس فافترقا . . .» [فتح الباري، ج 5، ص: 27-28]
بعض حضرات کا یہ گمان ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما والی احادیث کا تعلق ایک ہی واقعے سے ہے تو انہوں نے اعرابی سے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو مراد لیا۔ حالانکہ حقیقت اس کے خلاف ہے کیونکہ یہ قصہ تو سیدہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا کے گھر میں پیش آیا اور دوسرا واقعہ جو سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے گھر میں پیش آیا۔
اور جہاں تک روایت مذکورہ میں «أشياخ» میں سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی شمولیت کا مسئلہ ہے تو یہ قصہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما والی حدیث کا قصہ ایک ہی ہے تو اس میں سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی شمولیت میں کوئی بھی اشکال وارد نہیں ہوتا۔ یہ اس لیے کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں اس بات کی کوئی ممانعت نہیں ہے کہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے علاوہ وہاں کوئی اور نہیں تھا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 362   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2351  
2351. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا گیا اور آپ نے اس سے کچھ نوش فرمایا۔ آپ کی دائیں جانب ایک لڑکا تھا جو حاضرین میں سب سے چھوٹا تھا جبکہ آپ کی بائیں جانب بزرگ حضرات بیٹھے تھے۔ آپ نے فرمایا: برخوردار!تم اجازت دیتے ہو کہ میں ان بزرگوں کو یہ پیالہ دے دوں؟ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! یہ ممکن نہیں کہ آپ کے پس خوردہ پر کسی کو ترجیح دوں، چنانچہ آپ نے وہ پیالہ اسی کو دے دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2351]
حدیث حاشیہ:
یہ نوعمر لڑکے حضرت عبداللہ بن عباس ؓ تھے اور اتفاق سے یہ اس وقت مجلس میں دائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے۔
دیگر شیوخ اور بزرگ صحابہ بائیں جانب تھے۔
آنحضرت ﷺ نے جب باقی ماندہ مشروب کو تقسیم فرمانا چاہا تو یہ تقسیم دائیں طرف سے شروع ہونی تھی۔
اور اس کا حق حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو پہنچتا تھا۔
آنحضرت ﷺ نے بائیں جانب والے بزرگوں کا خیال فرما کر عبداللہ بن عباس سے اجازت چاہی لیکن وہ اس لیے تیار نہ ہوئے کہ اس طور پر آنحضرت ﷺ کا بچایا ہوا پانی کہاں اور کب نصیب ہونا تھا۔
اس لیے انہوں نے اس ایثار سے صاف انکار کر دیا۔
اس حدیث کی باب سے مناسبت یوں ہے کہ پانی کی تقسیم ہو سکتی ہے اور اس کے حصے کی ملک جائز ہے۔
ورنہ آپ ﷺ اس لڑکے سے اجازت کیوں طلب فرماتے۔
حدیث سے یہ بھی نکلا کہ تقسیم میں داہنی طرف والوں کا حصہ ہے، پھر بائیں طرف والوں کا۔
پس آنحضرت ﷺ نے اپنا بچا ہوا پانی اس لڑکے پر ہبہ فرما دیا۔
اس سے پانی کا ہبہ کر دینا بھی ثابت ہوا۔
اور یہ بھی ثابت ہوا کہ حق اور ناحق کے مقابلہ میں کسی بڑے سے بڑے آدمی کا بھی لحاظ نہیں کیا جاسکتا۔
حق بہرحال حق ہے اگر وہ کسی چھوٹے آدمی کو پہنچتا ہے تو بڑوں کا فرض ہے۔
کہ بہ رضا رغبت اسے اس کے حق میں منتقل ہونے دیں۔
اور اپنی بڑائی کا خیال چھوڑدیں، لیکن آج کے دور میں ایسے ایثار کرنے والے لوگ بہت کم ہیں، ایثار اور قربانی ایمان کا تقاضا ہے اللہ ہر مسلمان کو یہ توفیق بخشے۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2351   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2351  
2351. حضرت سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا گیا اور آپ نے اس سے کچھ نوش فرمایا۔ آپ کی دائیں جانب ایک لڑکا تھا جو حاضرین میں سب سے چھوٹا تھا جبکہ آپ کی بائیں جانب بزرگ حضرات بیٹھے تھے۔ آپ نے فرمایا: برخوردار!تم اجازت دیتے ہو کہ میں ان بزرگوں کو یہ پیالہ دے دوں؟ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! یہ ممکن نہیں کہ آپ کے پس خوردہ پر کسی کو ترجیح دوں، چنانچہ آپ نے وہ پیالہ اسی کو دے دیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2351]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے پانی کی تقسیم کا جواز ثابت ہوا، نیز اس کے حصے کی ملکیت بھی جائز ہے بصورت دیگر اس لڑکے سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں تھی۔
(2)
یہ بھی معلوم ہوا کہ تقسیم سے پہلے دائیں طرف والوں کا حق فائق ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے اپنا بچا ہوا پانی لڑکے کو دیا اس سے پانی کا ہبہ کرنا بھی ثابت ہوا۔
واضح رہے کہ حدیث میں مذکور برخوردار حضرت عبداللہ بن عباس ؓ تھے جو اتفاق سے اس وقت رسول اللہ ﷺ کی دائیں جانب بیٹھے تھے، باقی بزرگ حضرات بائیں طرف تھے۔
جب رسول اللہ ﷺ نے باقی ماندہ مشروب تقسیم کرنا چاہا تو یہ تقسیم دائیں طرف سے شروع ہونا تھی اور اس کا حق حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کو پہنچتا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے بائیں جانب والے بزرگوں کا لحاظ کرتے ہوئے ان سے اجازت چاہی تو انہوں نے صاف انکار کر دیا کیونکہ نہ معلوم آپ کا بچا ہوا پانی کب اور کہاں نصیب ہو، اس بنا پر انہوں نے ایثار سے صاف انکار کر دیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2351   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.