الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book of Funerals
48. بَابُ : اسْتِرَاحَةِ الْمُؤْمِنِ بِالْمَوْتِ
48. باب: موت سے مومن کو آرام مل جاتا ہے۔
Chapter: The Believer Finds Believer Finds Relief In Death
حدیث نمبر: 1932
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا قتيبة، عن مالك، عن محمد بن عمرو بن حلحلة، عن معبد بن كعب بن مالك، عن ابي قتادة بن ربعي، انه كان يحدث، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر عليه بجنازة فقال:" مستريح ومستراح منه" , فقالوا: ما المستريح وما المستراح منه؟ قال:" العبد المؤمن يستريح من نصب الدنيا واذاها، والعبد الفاجر يستريح منه العباد والبلاد والشجر والدواب".
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَلْحَلَةَ، عَنْ مَعْبَدِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ بْنِ رِبْعِيٍّ، أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرَّ عَلَيْهِ بِجَنَازَةٍ فَقَالَ:" مُسْتَرِيحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْهُ" , فَقَالُوا: مَا الْمُسْتَرِيحُ وَمَا الْمُسْتَرَاحُ مِنْهُ؟ قَالَ:" الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ يَسْتَرِيحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْيَا وَأَذَاهَا، وَالْعَبْدُ الْفَاجِرُ يَسْتَرِيحُ مِنْهُ الْعِبَادُ وَالْبِلَادُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ".
ابوقتادہ بن ربعی رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ لے جایا گیا، تو آپ نے فرمایا: (یہ) «مستریح» ہے یا «مستراح منہ» ہے، تو لوگوں نے پوچھا: «مستریح» اور «مستراح منہ» سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ مومن (موت کے بعد) دنیا کی بلا اور تکلیف سے راحت پا لیتا ہے، اور فاجر ۱؎ بندہ مرتا ہے تو اس سے اللہ کے بندے، بستیاں، پیڑ پودے، اور چوپائے (سب) راحت پا لیتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 42 (6512)، صحیح مسلم/الجنائز 21 (950)، (تحفة الأشراف: 12128)، موطا امام مالک/الجنائز 16 (54)، مسند احمد 5/296، 202، 304 (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: بعض لوگوں نے کہا ہے فاجر سے مراد کافر ہے کیونکہ یہاں مومن کے بالمقابل استعمال ہوا ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ اسے کافر اور فاجر دونوں کے لیے عام مانا جائے، کیونکہ کافر کی طرح فاجر مسلمان بھی بندگان اللہ کو اپنے مظالم کا شکار بناتے ہیں، واللہ اعلم۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
   صحيح البخاري6513حارث بن ربعيمستريح ومستراح منه المؤمن يستريح
   صحيح البخاري6512حارث بن ربعيالمؤمن يستريح من نصب الدنيا وأذاها إلى رحمة الله العبد الفاجر يستريح منه العباد والبلاد والشجر
   صحيح مسلم2202حارث بن ربعيالمؤمن يستريح من نصب الدنيا العبد الفاجر يستريح منه العباد والبلاد والشجر والدواب
   سنن النسائى الصغرى1932حارث بن ربعيالمؤمن يستريح من نصب الدنيا وأذاها العبد الفاجر يستريح منه العباد والبلاد والشجر والدواب
   سنن النسائى الصغرى1933حارث بن ربعيالمؤمن يموت فيستريح من أوصاب الدنيا ونصبها وأذاها الفاجر يموت فيستريح منه العباد والبلاد والشجر والدواب
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم467حارث بن ربعيالعبد المؤمن يستريح من نصب الدنيا واذاها إلى رحمة الله، والعبد الفاجر يستريح منه العباد والبلاد والشجر والدواب

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 467  
´دنیا دکھوں اور مصیبتوں کا گھر ہے`
«. . . عن ابى قتادة بن ربعي انه كان يحدث ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر عليه بجنازة فقال: مستريح ومستراح منه. فقالوا: يا رسول الله، ما المستريح والمستراح منه؟ قال: العبد المؤمن يستريح من نصب الدنيا واذاها إلى رحمة الله، والعبد الفاجر يستريح منه العباد والبلاد والشجر والدواب . . .»
. . . سیدنا ابوقتادہ بن ربعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مستريح» (پرسکون و پُرآرام) یا «مسترح منه» (لوگ جس سے سکون و آرام میں ہوں) ہے۔ صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! «مستريح» اور «مستراح منه» کسے کہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن بندہ دنیا کی مصیبتوں اور تکلیفوں سے اللہ کی رحمت کی طرف سکون و آرام حا صل کرتا ہے اور فاطر (گناہ گار) بندے سے بندوں، شہروں درختوں اور جانوروں کو آ رام و سکون حاصل ہو تا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 467]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6512، ومسلم 950، من حديث مالك به]

تفقه
➊ مومن کے لئے دنیا راحت و آرام کی جگہ نہیں بلکہ قید خانہ ہے اور موت اس کے لئے راحت کا پیغام ہے۔
➋ دنیا دکھوں اور مصیبتوں کا گھر ہے جن کا علاج اللہ، رسول اور آخرت پر ایمان ہے۔ یہ ایمان انسان کے دل و دماغ میں صبر و تحمل اور قرآن و حدیث کی مسلسل اطاعت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
➌ کتاب و سنت کے مخالفین چاہے کفار ہوں یا فساق و فجار، انہوں نے دنیا میں ظلم و تشدد، فسق و فجور، قتل و قتال اور نافرمانی کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
➍ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا خیر خواہ ہوتا ہے۔
➎ ہر مسلمان کو ہمہ وقت کوشش میں رہنا چاہیے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کو راحت و آرام پہنچائے اور کبھی کسی کو تکلیف نہ دے۔
➏ موت مومن کے لئے ایک نعمت ہے جس کے ذریعے سے بندہ مومن دنیا کی مصیبتوں سے نجات پا کر راحت آخرت کی طرف سفر کرتا ہے جبکہ کافر و فاسق کی موت سے دنیا میں کچھ لوگوں کو اس کے ظلم و ستم سے راحت نصیب ہوتی ہے۔
➐ اللہ کے نافرمان بندوں سے زمین ہی نہیں درخت و جانور تک تنگ ہوتے ہیں اور اس کی موت سے راحت پاتے ہیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 101   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1932  
´موت سے مومن کو آرام مل جاتا ہے۔`
ابوقتادہ بن ربعی رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک جنازہ لے جایا گیا، تو آپ نے فرمایا: (یہ) «مستریح» ہے یا «مستراح منہ» ہے، تو لوگوں نے پوچھا: «مستریح» اور «مستراح منہ» سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ مومن (موت کے بعد) دنیا کی بلا اور تکلیف سے راحت پا لیتا ہے، اور فاجر ۱؎ بندہ مرتا ہے تو اس سے اللہ کے بندے، بستیاں، پیڑ پودے، اور چوپائے (سب) راحت پا لیتے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1932]
1932۔ اردو حاشیہ:
مومن شخص یہاں مومن سے متقی شخص مراد ہے جو لوگوں کو بھی ایذا نہیں پہنچاتا اور جانوروں پر بھی ظلم نہیں کرتا۔ اس کے ساتھ ساتھ حقوق اللہ کی پابندی کرتا ہے۔ ان کاموں میں سے اسے دنیا میں تکلیف وغیرہ پہنچے تو اس پر صبر کرتا ہے۔ دنیا میں معاش کے سلسلے میں اسے محنت و مشقت کرنی پڑتی ہے۔ دنیا میں بیماری اور پریشانیاں دنیا کے رنجو غم سب اس میں داخل ہیں۔
بکار شخص اس سے مراد صرف کافر ہی نہیں بلکہ وہ اشخاص بھی اس میں داخل ہیں جو لوگوں پر ظلم و ستم کرتے ہیں، جانوروں کو ایذا پہنچاتے ہیں، آبادیوں کو ویران کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ حقوق اللہ کی بھی پروا نہیں کرتے۔ فسق و فجور میں بگ ٹٹ دوڑے جاتے ہیں، حتی کہ ان کے فسق و فجور کی وجہ سے بارش رک جاتی ہے اور ان کی نحوست سے قحط سالی آپڑتی ہے۔ بے گناہ جانور اور درخت اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں، البتہ وہ لوگ جن سے گناہ تو صادر ہوتے ہیں (کیونکہ ہر انسان خطاکار ہے) مگر وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں، معافی مانگتے ہیں تو وہ فاجر اور بکار کے تحت داخل نہیں کیونکہ معافی اور توبہ گناہ ک ختم کر دیتے ہیں، بلکہ توبہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ رحمتیں فرماتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (استغفروا ربکم انہ کان غفارا o یرسل السمآء علیکم مدرارا) (نوح 11، 10/71) لہٰذا توبہ اور استغفار کرنے والا انسان، خواہ کتنا ہی گناہ گار ہو، لوگوں، شہروں، جانوروں اور درختوں کے لیے رحمت کا سبب ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1932   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.