الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book of Funerals
61. بَابُ : الصَّلاَةِ عَلَى الشُّهَدَاءِ
61. باب: شہداء کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔
Chapter: Offering The Funeral Prayer For Martyrs
حدیث نمبر: 1955
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا سويد بن نصر، قال: انبانا عبد الله , عن ابن جريج، قال: اخبرني عكرمة بن خالد، ان ابن ابي عمار اخبره، عن شداد بن الهاد، ان رجلا من الاعراب جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم فآمن به واتبعه، ثم قال: اهاجر معك , فاوصى به النبي صلى الله عليه وسلم بعض اصحابه، فلما كانت غزوة، غنم النبي صلى الله عليه وسلم سبيا فقسم وقسم له، فاعطى اصحابه ما قسم له وكان يرعى ظهرهم، فلما جاء دفعوه إليه , فقال: ما هذا؟ قالوا: قسم قسمه لك النبي صلى الله عليه وسلم فاخذه، فجاء به إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: ما هذا؟ قال:" قسمته لك" , قال: ما على هذا اتبعتك، ولكني اتبعتك على ان ارمى إلى هاهنا واشار إلى حلقه بسهم فاموت فادخل الجنة، فقال:" إن تصدق الله يصدقك" , فلبثوا قليلا ثم نهضوا في قتال العدو، فاتي به النبي صلى الله عليه وسلم يحمل قد اصابه سهم حيث اشار، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اهو هو؟" , قالوا: نعم , قال:" صدق الله فصدقه" ثم كفنه النبي صلى الله عليه وسلم في جبة النبي صلى الله عليه وسلم، ثم قدمه فصلى عليه فكان فيما ظهر من صلاته:" اللهم هذا عبدك خرج مهاجرا في سبيلك فقتل شهيدا انا شهيد على ذلك".
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ , عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، قال: أَخْبَرَنِي عِكْرِمَةُ بْنُ خَالِدٍ، أَنَّ ابْنَ أَبِي عَمَّارٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَعْرَابِ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَآمَنَ بِهِ وَاتَّبَعَهُ، ثُمَّ قَالَ: أُهَاجِرُ مَعَكَ , فَأَوْصَى بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْضَ أَصْحَابِهِ، فَلَمَّا كَانَتْ غَزْوَةٌ، غَنِمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْيًا فَقَسَمَ وَقَسَمَ لَهُ، فَأَعْطَى أَصْحَابَهُ مَا قَسَمَ لَهُ وَكَانَ يَرْعَى ظَهْرَهُمْ، فَلَمَّا جَاءَ دَفَعُوهُ إِلَيْهِ , فَقَالَ: مَا هَذَا؟ قَالُوا: قِسْمٌ قَسَمَهُ لَكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذَهُ، فَجَاءَ بِهِ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: مَا هَذَا؟ قَالَ:" قَسَمْتُهُ لَكَ" , قَالَ: مَا عَلَى هَذَا اتَّبَعْتُكَ، وَلَكِنِّي اتَّبَعْتُكَ عَلَى أَنْ أُرْمَى إِلَى هَاهُنَا وَأَشَارَ إِلَى حَلْقِهِ بِسَهْمٍ فَأَمُوتَ فَأَدْخُلَ الْجَنَّةَ، فَقَالَ:" إِنْ تَصْدُقِ اللَّهَ يَصْدُقْكَ" , فَلَبِثُوا قَلِيلًا ثُمَّ نَهَضُوا فِي قِتَالِ الْعَدُوِّ، فَأُتِيَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحْمَلُ قَدْ أَصَابَهُ سَهْمٌ حَيْثُ أَشَارَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَهُوَ هُوَ؟" , قَالُوا: نَعَمْ , قَالَ:" صَدَقَ اللَّهَ فَصَدَقَهُ" ثُمَّ كَفَّنَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جُبَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَدَّمَهُ فَصَلَّى عَلَيْهِ فَكَانَ فِيمَا ظَهَرَ مِنْ صَلَاتِهِ:" اللَّهُمَّ هَذَا عَبْدُكَ خَرَجَ مُهَاجِرًا فِي سَبِيلِكَ فَقُتِلَ شَهِيدًا أَنَا شَهِيدٌ عَلَى ذَلِكَ".
شداد بن ہاد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک بادیہ نشین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ پر ایمان لے آیا، اور آپ کے ساتھ ہو گیا، پھر اس نے عرض کیا: میں آپ کے ساتھ ہجرت کروں گا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض اصحاب کو اس کا خیال رکھنے کی وصیت کی، جب ایک غزوہ ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت میں کچھ لونڈیاں ملیں، تو آپ نے انہیں تقسیم کیا، اور اس کا (بھی) حصہ لگایا، چنانچہ اس کا حصہ اپنے ان اصحاب کو دے دیا جن کے سپرد اسے کیا گیا تھا، وہ ان کی سواریاں چراتا تھا، جب وہ آیا تو انہوں نے (اس کا حصہ) اس کے حوالے کیا، اس نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ حصہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے لیے لگایا تھا، تو اس نے اسے لے لیا، (اور) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آیا، اور عرض کیا: (اللہ کے رسول!) یہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: میں نے تمہارا حصہ دیا ہے، تو اس نے کہا: میں نے اس (حقیر بدلے) کے لیے آپ کی پیروی نہیں کی ہے، بلکہ میں نے اس بات پر آپ کی پیروی کی ہے کہ میں تیر سے یہاں مارا جاؤں، (اس نے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا) پھر میں مروں اور جنت میں داخل ہو جاؤں، تو آپ نے فرمایا: اگر تم سچے ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اپنا وعدہ سچ کر دکھائے گا، پھر وہ لوگ تھوڑی دیر ٹھہرے رہے، پھر دشمنوں سے لڑنے کے لیے اٹھے، تو انہیں (کچھ دیر کے بعد) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اٹھا کر لایا گیا، اور انہیں ایسی جگہ تیر لگا تھا جہاں انہوں نے اشارہ کیا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا یہ وہی شخص ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: اس نے اللہ تعالیٰ سے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا تو (اللہ تعالیٰ) نے (بھی) اپنا وعدہ اسے سچ کر دکھایا ۱؎ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جبّے (قمیص) میں اسے کفنایا، پھر اسے اپنے سامنے رکھا، اور اس کی جنازے کی نماز پڑھی ۲؎ آپ کی نماز میں سے جو چیز لوگوں کو سنائی دی وہ یہ دعا تھی: «اللہم هذا عبدك خرج مهاجرا في سبيلك فقتل شهيدا أنا شهيد على ذلك» اے اللہ! یہ تیرا بندہ ہے، یہ تیری راہ میں ہجرت کر کے نکلا، اور شہید ہو گیا، میں اس بات پر گواہ ہوں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 4833) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی اس کی مراد پوری کر دی۔ ۲؎: اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شہداء پر نماز جنازہ پڑھی جائے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1955  
´شہداء کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔`
شداد بن ہاد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ایک بادیہ نشین نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ پر ایمان لے آیا، اور آپ کے ساتھ ہو گیا، پھر اس نے عرض کیا: میں آپ کے ساتھ ہجرت کروں گا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض اصحاب کو اس کا خیال رکھنے کی وصیت کی، جب ایک غزوہ ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مال غنیمت میں کچھ لونڈیاں ملیں، تو آپ نے انہیں تقسیم کیا، اور اس کا (بھی) حصہ لگایا، چنانچہ اس کا حصہ اپنے ان اصحاب کو دے دیا جن کے سپرد اسے کیا گیا تھا، وہ ان کی سواریاں چراتا تھا، جب وہ آیا تو انہوں نے (اس کا حصہ) اس کے حوالے کیا، اس نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا: یہ حصہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہارے لیے لگایا تھا، تو اس نے اسے لے لیا، (اور) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آیا، اور عرض کیا: (اللہ کے رسول!) یہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: میں نے تمہارا حصہ دیا ہے، تو اس نے کہا: میں نے اس (حقیر بدلے) کے لیے آپ کی پیروی نہیں کی ہے، بلکہ میں نے اس بات پر آپ کی پیروی کی ہے کہ میں تیر سے یہاں مارا جاؤں، (اس نے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا) پھر میں مروں اور جنت میں داخل ہو جاؤں، تو آپ نے فرمایا: اگر تم سچے ہو تو اللہ تعالیٰ بھی اپنا وعدہ سچ کر دکھائے گا، پھر وہ لوگ تھوڑی دیر ٹھہرے رہے، پھر دشمنوں سے لڑنے کے لیے اٹھے، تو انہیں (کچھ دیر کے بعد) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اٹھا کر لایا گیا، اور انہیں ایسی جگہ تیر لگا تھا جہاں انہوں نے اشارہ کیا تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا یہ وہی شخص ہے؟ لوگوں نے جواب دیا: جی ہاں، آپ نے فرمایا: اس نے اللہ تعالیٰ سے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا تو (اللہ تعالیٰ) نے (بھی) اپنا وعدہ اسے سچ کر دکھایا ۱؎ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جبّے (قمیص) میں اسے کفنایا، پھر اسے اپنے سامنے رکھا، اور اس کی جنازے کی نماز پڑھی ۲؎ آپ کی نماز میں سے جو چیز لوگوں کو سنائی دی وہ یہ دعا تھی: «اللہم هذا عبدك خرج مهاجرا في سبيلك فقتل شهيدا أنا شهيد على ذلك» اے اللہ! یہ تیرا بندہ ہے، یہ تیری راہ میں ہجرت کر کے نکلا، اور شہید ہو گیا، میں اس بات پر گواہ ہوں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1955]
1955۔ اردو حاشیہ:
➊ زہے قسمت! کیا بلند مرتبہ ملا اس اعرابی کو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان زوردار الفاظ سے اس کے حق میں گواہی دے رہے ہیں۔ رضی اللہ عنہ ہ ہر مدعی کے واسطے دارور سن کہاں؟
نماز پڑھی بعض اہل علم نے اس کے بجائے دعا کرنے کے معنی کیے ہیں کیونکہ یہاں صف بندی کا ذکر ہے نہ تکبیروں کا، صرف دعا کا ذکر ہے، لہٰذا ان کے نزدیک یہی معنی مناسب ہیں تاکہ ان صحیح ترین احادیث کی موافقت ہو جائے جن میں شہدائے احد کے جنازہ نہ پڑھنے کا ذکر ہے جبکہ اس حدیث میں مذکورہ اعمال کے عدم ذکر سے یہ لازم نہیں تھا کہ سرے سے ان امور کا وقوع ہی نہیں ہوا بلکہ یہ اختصار کے پیش نظر بھی ہو سکتا ہے۔ بعض نے اس روایت سے شہید کے جنازے پر استدلال کیا ہے۔ اگر ترجیح دی جائے تو ترجیح اصح روایات ہی کو ہے جن میں جنازہ نہ پڑھنے کا ذکر ہے۔ تطبیق دی جائے تو اس روایت میں دعا کے معنی کرلیے جائیں۔ یا امام احمد رحمہ اللہ کے مطابق کہا جائے کہ شہید کا جنازہ پڑھ سکتے ہیں، ضروری نہیں۔ یہی موقف درست اور اقرب الی الصواب ہے۔ حدیث کے ظاہر کا تقاضا بھی یہی ہے۔ باقی سب احتمالات ہیں، نیز غزوۂ احد کے شہداء پر ترک جنازہ سے یہ لازم نہیں آتاکہ شہداء کی نماز جنازہ درست نہیں، نہ اس سے یہ لازم آتا ہے کہ کسی اور شہید کی نماز جنازہ بھی نہ پڑھی جائے یا آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے نہ پڑھی ہو، دونوں طرح جائز ہے، پڑھنا نہ پڑھنا بھی، لیکن چونکہ یہ دعا ہے اور بخشش اور رفع درجات کا ایک ذریعہ ہے جس کا ہر مسلمان، خواہ کتنے ہی بڑے درجے پر فائز کیوں نہ ہو، محتاج رہتا ہے، اس لیے شہید کی نماز جنازہ بجائے ترک کے پڑھ لینا اولی اور افضل ہے۔ واللہ أعلم۔
➋ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ خاص کر غرباء کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے۔
➌ شہید کو غسل نہیں دیا جائے گا۔
➎ شہید کو کفن پہنایا جائے گا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1955   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.