الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book of Funerals
62. بَابُ : تَرْكِ الصَّلاَةِ عَلَيْهِمْ
62. باب: شہیدوں کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کا بیان۔
Chapter: Not Offering the Funeral Prayer for Them (Matyrs)
حدیث نمبر: 1957
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن عبد الرحمن بن كعب بن مالك، ان جابر بن عبد الله اخبره، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يجمع بين الرجلين من قتلى احد في ثوب واحد ثم يقول:" ايهما اكثر اخذا للقرآن"، فإذا اشير إلى احدهما قدمه في اللحد , قال:" انا شهيد على هؤلاء" وامر بدفنهم في دمائهم ولم يصل عليهم ولم يغسلوا.
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَجْمَعُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ مِنْ قَتْلَى أُحُدٍ فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ ثُمَّ يَقُولُ:" أَيُّهُمَا أَكْثَرُ أَخْذًا لِلْقُرْآنِ"، فَإِذَا أُشِيرَ إِلَى أَحَدِهِمَا قَدَّمَهُ فِي اللَّحْدِ , قَالَ:" أَنَا شَهِيدٌ عَلَى هَؤُلَاءِ" وَأَمَرَ بِدَفْنِهِمْ فِي دِمَائِهِمْ وَلَمْ يُصَلِّ عَلَيْهِمْ وَلَمْ يُغَسَّلُوا.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد کے مقتولین میں سے میں سے دو آدمیوں کو ایک کپڑے میں اکٹھا کرتے، پھر پوچھتے: ان دونوں میں کس کو قرآن زیادہ یاد تھا؟ جب لوگ ان دونوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کرتے تو آپ اسے قبر میں پہلے رکھتے، اور فرماتے: میں ان پر گواہ ہوں، آپ نے انہیں ان کے خون سمیت دفن کرنے کا حکم دیا، اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی ۱؎ اور نہ انہیں غسل دیا گیا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 72 (1344)، 73 (1345)، 75 (1346)، 78 (1348)، والمغازي 26 (4079)، سنن ابی داود/الجنائز 31 (3138، 3139)، سنن الترمذی/الجنائز 46 (1036)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 28 (1514)، (تحفة الأشراف: 2382) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: جو لوگ شہید کی نماز جنازہ پڑھی جانے کے قائل ہیں، وہ اس روایت کی یہ توجیہ کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ان میں کسی پر اس طرح نماز نہیں پڑھی جیسے حمزہ رضی الله عنہ پر کئی بار پڑھی تھی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
   صحيح البخاري4079جابر بن عبد اللهيجمع بين الرجلين من قتلى أحد في ثوب واحد ثم يقول أيهم أكثر أخذا للقرآن فإذا أشير له إلى أحد قدمه في اللحد أنا شهيد على هؤلاء يوم القيامة أمر بدفنهم بدمائهم ولم يصل عليهم ولم يغسلوا
   صحيح البخاري1345جابر بن عبد اللهيجمع بين الرجلين من قتلى أحد
   سنن أبي داود3138جابر بن عبد اللهيجمع بين الرجلين من قتلى أحد ويقول أيهما أكثر أخذا للقرآن فإذا أشير له إلى أحدهما قدمه في اللحد أنا شهيد على هؤلاء يوم القيامة أمر بدفنهم بدمائهم ولم يغسلوا
   سنن النسائى الصغرى1957جابر بن عبد اللهأيهما أكثر أخذا للقرآن فإذا أشير إلى أحدهما قدمه في اللحد أنا شهيد على هؤلاء أمر بدفنهم في دمائهم ولم يصل عليهم ولم يغسلوا
   سنن ابن ماجه1514جابر بن عبد اللهأيهم أكثر أخذا للقرآن فإذا أشير له إلى أحدهم قدمه في اللحد أنا شهيد على هؤلاء أمر بدفنهم في دمائهم ولم يصل عليهم ولم يغسلوا
   بلوغ المرام441جابر بن عبد الله يجمع بين الرجلين من قتلى احد في ثوب واحد
   صحيح البخاري1346جابر بن عبد اللهادفنوهم في دمائهم يعني يوم احد، ولم يغسلهم
   صحيح البخاري1347جابر بن عبد الله يجمع بين الرجلين من قتلى احد في ثوب واحد

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 441  
´ضرورت کے وقت ایک کفن میں دو آدمیوں کو کفنانا`
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہداء احد کے دو دو آدمیوں کو ایک لباس میں جمع کرتے تھے . . . [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 441]
لغوی تشریح:
«قَتْلٰي» «قتيل» کی جمع ہے جو مقتول کے معنی میں ہے۔
«اُحدٟ» ہمزہ اور حا دونوں پر ضمہ ہے۔ اضافت کی وجہ سے مجرور ہے۔ مدینہ کے شمال میں مشہور و معروف پہاڑ کا نام ہے۔ غزوہ احد اسی پہاڑ کے پاس لڑا گیا جو تاریخ اسلام میں مشہور و معروف ہے۔ یہ غزوہ 3 ہجری شوال کے مہینے میں ہوا تھا جس میں ستر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جام شہادت نوش کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رباعی دانت بھی زخمی ہوئے۔
«اَيُّهُمْ اَكْثَرُ اَخْذاً لِلْقُرْآنِ» جسے قرآن زیادہ ازبر ہو اور اس کا زیادہ علم رکھتا ہو۔
«فَيُقَدَّمُهُ» تقدیم سے ماخوذ ہے، یعنی اسے پہلے رکھتے اور آگے کرتے۔
«الَلَّحُدِ» میت کو قبر میں رکھنے کے لیے قبر کے پہلو میں جو شگاف رکھا جاتا ہے اسے لحد کہتے ہیں۔

فوائد و مسائل:
اس حدیث سے کئی مسائل ثابت ہوتے ہیں:
➊ ضرورت کے وقت ایک کفن میں دو آدمیوں کو کفنانا درست ہے۔
➋ دو یا اس سے زیادہ میتوں کو ایک ہی قبر میں دفن کرنا بھی جائز ہے، البتہ ان میں صاحب قرآن کو پہلے داخل کرنا چاہیے اور قبلے کی جانب مقدم کرنا چاہیے۔
➌ شہدائے فی سبیل اللہ کو غسل نہیں دیا جاتا جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شہدائے احد کے بارے میں فرمایا: انھیں غسل مت دو، ان کا ہر ایک زخم قیامت کے روز مشک اور کستوری جیسی خوشبو دے رہا ہو گا۔ [مسند احمد: 299/3]
➍ شہداء کا جنازہ بھی ضروری نہیں۔ جن روایات میں شہدائے احد کی نماز جنازہ پڑھنے کا ذکر ہے اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ پر ستر تکبیریں کہنے کا ذکر ہے، امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ روایات صحیح نہیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے آٹھ سال بعد شہدائے احد کا جنازہ پڑھا۔ [صحيح البخاري، الجنائز، حديث: 1344]
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد ان کے لیے دعائے مغفرت ہے ورنہ شہید کی نماز جنازہ کے قائلین مدت درار کے بعد قبر پر جنازہ پڑھنے کے قائل کیوں نہیں؟

   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 441   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1957  
´شہیدوں کی نماز جنازہ نہ پڑھنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد کے مقتولین میں سے میں سے دو آدمیوں کو ایک کپڑے میں اکٹھا کرتے، پھر پوچھتے: ان دونوں میں کس کو قرآن زیادہ یاد تھا؟ جب لوگ ان دونوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کرتے تو آپ اسے قبر میں پہلے رکھتے، اور فرماتے: میں ان پر گواہ ہوں، آپ نے انہیں ان کے خون سمیت دفن کرنے کا حکم دیا، اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی ۱؎ اور نہ انہیں غسل دیا گیا۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1957]
1957۔ اردو حاشیہ:
آگے رکھتے تاکہ اس کی فضیلت ظاہر ہو۔
خون سمیت تاکہ ان کی مظلومیت قائم رہے اور قیامت کے دن ان کی فضیلت ظاہر ہو کیونکہ جس حال میں کوئی دفن ہو گا اسی حال میں قیامت کے دن اٹھایا جائے گا۔
➌ شہید کو غسل اور جنازے کے بغیر دفن کرنا اس کی امتیازی شان ہے۔ شہید کے جنازے کی بحث سابقہ حدیث میں گزر چکی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1957   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1514  
´شہداء کی نماز جنازہ اور ان کی تدفین۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ احد کے شہداء میں سے دو دو تین تین کو ایک کپڑے میں لپیٹتے، پھر پوچھتے: ان میں سے قرآن کس کو زیادہ یاد ہے؟ جب ان میں سے کسی ایک کی جانب اشارہ کیا جاتا، تو اسے قبر (قبلہ کی طرف) میں آگے کرتے، اور فرماتے: میں ان لوگوں پہ گواہ ہوں،، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کے خونوں کے ساتھ دفن کرنے کا حکم دیا، نہ تو آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی، اور نہ غسل دلایا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1514]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت ان لوگوں کی دلیل ہے۔
جو شہید کی نماز جنازہ پڑھنے کے قائل نہیں ہیں۔
لیکن بعض روایات سے نماز جنازہ پڑھنے کا جواز بھی ثابت ہوتا ہے۔
جیسا کہ گزشتہ روایات میں مذکور ہے اس لئے اس مسئلے میں توسع ہے۔
تاہم نماز جنازہ پڑھنا بھی علماء کے نزدیک مستحب ہے۔
جیسا کہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے۔
کیونکہ نماز جنازہ دعا اور عبادت ہے۔
لیکن اس استحباب پر شہید کی نماز جنازہ پڑھنے کو اشتہار بازی اور دنیاوی اغراض ومقاصد کے ذریعہ بنا لینا کوئی پسندیدہ امر نہیں ہے۔
اس طریقے سے تو اس کا جواز اور استحباب بھی محل نظر ہوجاتا ہے۔

(2)
خاص حالات میں ایک سے زیادہ افراد کو ایک قبر میں دفن کرنا جائز ہے۔

(3)
حفظ قرآن ایک شرف ہے۔
جس کا خیال دفن کرتے ہوئے بھی رکھا جانا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1514   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.