الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book of Funerals
121. بَابُ : نَوْعٌ آخَرُ
121. باب: تعزیت کی ایک اور قسم کا بیان۔
Chapter: Another Kind (Of Condolence)
حدیث نمبر: 2091
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا محمد بن رافع، عن عبد الرزاق، قال: حدثنا معمر، عن ابن طاوس، عن ابيه، عن ابي هريرة، قال: ارسل ملك الموت إلى موسى عليه السلام، فلما جاءه صكه ففقا عينه فرجع إلى ربه , فقال: ارسلتني إلى عبد لا يريد الموت،" فرد الله عز وجل إليه عينه , وقال: ارجع إليه فقل له يضع يده على متن ثور، فله بكل ما غطت يده بكل شعرة سنة"، قال: اي رب , ثم مه، قال:" الموت" قال: فالآن ," فسال الله عز وجل ان يدنيه من الارض المقدسة رمية بحجر" , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فلو كنت ثم لاريتكم قبره إلى جانب الطريق تحت الكثيب الاحمر".
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ فَفَقَأَ عَيْنَهُ فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ , فَقَالَ: أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ،" فَرَدَّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِ عَيْنَهُ , وَقَالَ: ارْجِعْ إِلَيْهِ فَقُلْ لَهُ يَضَعُ يَدَهُ عَلَى مَتْنِ ثَوْرٍ، فَلَهُ بِكُلِّ مَا غَطَّتْ يَدُهُ بِكُلِّ شَعْرَةٍ سَنَةٌ"، قَالَ: أَيْ رَبِّ , ثُمَّ مَهْ، قَالَ:" الْمَوْتُ" قَالَ: فَالْآنَ ," فَسَأَلَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُدْنِيَهُ مِنَ الْأَرْضِ الْمُقَدَّسَةِ رَمْيَةً بِحَجَرٍ" , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَلَوْ كُنْتُ ثَمَّ لَأَرَيْتُكُمْ قَبْرَهُ إِلَى جَانِبِ الطَّرِيقِ تَحْتَ الْكَثِيبِ الْأَحْمَرِ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں موت کا فرشتہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا گیا، جب وہ ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے ایک طمانچہ رسید کیا، تو اس کی ایک آنکھ پھوٹ کر بہہ گئی، چنانچہ اس نے اپنے رب کے پاس واپس جا کر شکایت کی کہ تو نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیج دیا جو مرنا نہیں چاہتا، اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ اچھی کر دی، اور کہا: اس کے پاس دوبارہ جاؤ، اور اس سے کہہ: تم اپنا ہاتھ بیل کی پیٹھ پر رکھو اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے ہر بال کے عوض انہیں ایک سال کی مزید عمر مل جائے گی، تو انہوں نے عرض کیا: اے میرے رب! پھر کیا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: پھر مرنا ہو گا، (موسیٰ علیہ السلام) نے کہا: تب تو ابھی (مرنا بہتر ہے)، تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ وہ انہیں ارض مقدس سے پتھر پھینکنے کی مسافت کے برابر قریب کر دے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں اس جگہ ہوتا تو تمہیں راستے کی طرف سرخ ٹیلے کے نیچے ان کی قبر دکھلاتا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 68 (1339)، والأنبیاء 33 (3407)، صحیح مسلم/الفضائل 42 (2372)، (تحفة الأشراف: 13519)، مسند احمد 2/269- 315 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
   صحيح البخاري3407عبد الرحمن بن صخرارجع إليه فقل له يضع يده على متن ثور فله بما غطت يده بكل شعرة سنة قال أي رب ثم ماذا قال ثم الموت قال فالآن قال فسأل الله أن يدنيه من الأرض المقدس
   صحيح البخاري1339عبد الرحمن بن صخرلو كنت ثم لأريتكم قبره إلى جانب الطريق عند الكثيب الأحمر
   صحيح مسلم6148عبد الرحمن بن صخرلو كنت ثم لأريتكم قبره إلى جانب الطريق تحت الكثيب الأحمر
   صحيح مسلم6149عبد الرحمن بن صخرلو أني عنده لأريتكم قبره إلى جانب الطريق عند الكثيب الأحمر
   سنن النسائى الصغرى2091عبد الرحمن بن صخرارجع إليه فقل له يضع يده على متن ثور فله بكل ما غطت يده بكل شعرة سنة قال أي رب ثم مه قال الموت قال فالآن فسأل الله أن يدنيه من الأرض المقدسة رمية بحجر قال رسول الله فلو كنت ثم لأريتكم قبره إلى جانب الطريق تحت الكثيب الأحمر
   صحيفة همام بن منبه60عبد الرحمن بن صخرارجع إلى عبدي فقل له الحياة تريد فإن كنت تريد الحياة فضع يدك على متن ثور فما وارت يدك من شعرة فإنك تعيش بها سنة قال ثم مه قال ثم تموت قال فالآن من قريب قال رب أدنني من الأرض المقدسة رمية بحجر قال رسول الله لو أني عنده لأريتكم قبره إلى جانب الطريق عند الكث

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1339  
´ملک الموت کا (انسانی شکل میں) موسیٰ علیہ السلام کے پاس آنا `
«... أُرْسِلَ مَلَكُ الْمَوْتِ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلَام، فَلَمَّا جَاءَهُ صَكَّهُ فَرَجَعَ إِلَى رَبِّهِ ,فَقَالَ: أَرْسَلْتَنِي إِلَى عَبْدٍ لَا يُرِيدُ الْمَوْتَ ...»
۔۔۔ ملک الموت (آدمی کی شکل میں) موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجے گئے۔ وہ جب آئے تو موسیٰ علیہ السلام نے (نہ پہچان کر) انہیں ایک زور کا طمانچہ مارا اور ان کی آنکھ پھوڑ ڈالی۔ وہ واپس اپنے رب کے حضور میں پہنچے اور عرض کیا کہ یا اللہ! تو نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا۔۔۔

تخریج الحدیث:
یہ روایت صحیح بخاری میں دو مقامات پر ہے [1339، 3407]
امام بخاری رحمہ اللہ کے علاوہ درج ذیل محدثین نے بھی اسے روایت کیا ہے۔
مسلم النیسابوری [صحيح مسلم: 2372 وترقيم دارالسلام: 6148، 6149]
النسائي [سنن النسائي 4؍118، 119 ح2091]
ابن حبان [صحيح ابن حبان، الاحسان 8؍38 ح6223، پرانا نسخه: ح6190]
ابن ابي عاصم [السنة: 599]
البيهقي فى الاسماء والصفات [ص492]
البغوي فى شرح السنة [265/5، 266 ح 451 او قال: هذا حدهث متفق على صحته]
الطبري فى التاريخ [434/1 دوسرا نسخه 505/1]
الحاكم فى المستدرك [578/2 ح 4107 و قال: هذا حديث صحيح على شرط مسلم ولم يخرجاه]
وابوعوانه فى مسنده [اتحاف المهرة 15؍104]
امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے درج ذیل محدثین نے اسے روایت کیا ہے:
أحمد بن حنبل [المسند 2؍269، 315، 533]
عبدالرزاق فى المصنف [11؍274، 375 ح20530، 20531]
همام بن منبه [الصحيفة: 60]
اس حدیث کو سیدنا الامام ابوہریرہ رضى اللہ عنہ سے درج ذیل تابعین نے بیان کیا ہے:
① همام بن منبه [البخاري: 3407 مختصراً، مسلم: 2372 وترقيم دارالسلام: 6149]
② طاؤس [البخاري: 1339، 3407 ومسلم: 2372 وترقيم دارالسلام: 6148]
③ عمار بن ابي عمار [أحمد 2؍533 ح10917 وسنده صحيح وصححه الحاكم على شرط مسلم 2؍578]
اس روايت كي دوسری سند کے لئے دیکھئے:
مسند أحمد [2؍351]
↰ معلوم ہوا کہ یہ روایت بالکل صحیح ہے، اسے بخاری، مسلم، ابن حبان، حاکم اور بغوی نے صحیح قرار دیا ہے۔

سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے پاس ملک الموت ایسی انسانی شکل میں آئے تھے جسے موسیٰ علیہ السلام نہیں پہچانتے تھے۔
◈ حافظ ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وكان موسيٰ غيورًا، فرأي فى داره رجلاً لم يعرفه، فشال يده فلطمه، فأتت لطمته على فقءِ عينه التى فى الصورة التى يتصور بها، لا الصورة التى خلقه الله عليها»
اور موسیٰ (علیہ السلام) غیور تھے۔ پس انہوں نے اپنے گھر میں ایسا آدمی دیکھا جسے وہ پہچان نہ سکے تو ہاتھ بڑھا کر مکا مار دیا۔ یہ مکا اس (فرشتے) کی (انسانی صورت والی) اس آنکھ پر لگا جو اس نے اختیار کی تھی۔ جس (اصلی) صورت پر اللہ نے اسے پیدا کیا، اس پر یہ مکا نہیں لگا۔ إلخ [الاحسان، نسخه محققه 14؍115]
◈ امام بغوی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر تفصیلی بحث کی ہے جس سے حافظ ابن حبان کی تائید ہوتی ہے۔ [ديكهئے شرح السنة 5؍266۔ 268]
◈ اور فرمایا کہ: یہ مفہوم ابوسلیمان الخطابی نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے تاکہ ان بدعتی اور ملحد لوگوں پر رد ہو جو اس حدیث اور اس جیسی دوسری احادیث پر طعن کرتے ہیں، اللہ ان (گمراہوں) کو ہلاک کرے اور مسلمانوں کو ان کے شر سے بچائے۔ [شرح السنة 5؍268]
↰ مختصر یہ کہ موسیٰ علیہ السلام کو یہ پتا نہیں تھا کہ یہ فرشتہ ہے اور ان کی روح قبض کرنے کے لئے آیا ہے، لہٰذا انہوں نے اسے غیر آدمی سمجھ کر مارا۔ جب انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ فرشتہ ہے اور روح قبض کرنا چاہتا ہے تو لبیک کہا اور سر تسلیم خم کیا۔ پس یہ حدیث «وَلَنْ يُؤَخِّرَ اللَّـهُ نَفْسًا إِذَا جَاءَ أَجَلُهَا وَاللَّـهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ» [63-المنافقون:11] اللہ تعالیٰ ہرگز تاخیر نہیں کرتا جب کسی کی اجل آجائے۔ کے خلاف نہیں ہے۔ «والحمدلله»
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث\صفحہ نمبر: 12   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2091  
´تعزیت کی ایک اور قسم کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں موت کا فرشتہ موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجا گیا، جب وہ ان کے پاس آیا تو انہوں نے اسے ایک طمانچہ رسید کیا، تو اس کی ایک آنکھ پھوٹ کر بہہ گئی، چنانچہ اس نے اپنے رب کے پاس واپس جا کر شکایت کی کہ تو نے مجھے ایسے بندے کے پاس بھیج دیا جو مرنا نہیں چاہتا، اللہ تعالیٰ نے اس کی آنکھ اچھی کر دی، اور کہا: اس کے پاس دوبارہ جاؤ، اور اس سے کہہ: تم اپنا ہاتھ بیل کی پیٹھ پر رکھو اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے ہر بال کے عوض انہیں ایک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2091]
اردو حاشہ:
(1) بعض بدعقیدہ حضرات نے اس واقعے کا انکار کیا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک نبی ملک الموت کو تھپڑ مار دے اور مرنے سے انکار کرے، حالانکہ یہ ان کی جہالت ہے۔ اس واقعے میں کوئی استبعاد نہیں۔ نقلاً یہ واقعہ بالکل صحیح ہے، عقلاً بھی کوئی اشکال نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ ملک الموت انجانی انسانی صورت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچے کہ میں تیری جان نکالنے آیا ہوں۔ ظاہر ہے اس طرح تو کوئی بھی شخص کسی بھی انسان کو جان نکالنے نہیں دیتا بلکہ اپنا دفاع کرتا ہے، لہٰذا انھوں نے انسان سمجھ کر ملک الموت کو تھپڑ مارا۔ تھپڑ چہرے پر لگا اور آنکھ کو نقصان پہنچا۔ فرشتہ جب انسانی صورت میں آئے گا تو اس پر انسانی احکام ہی لاگو ہوں گے، لہٰذا آنکھ کے نقصان پر کوئی تعجب نہیں۔ فرشتے نے اللہ تعالیٰ سے شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے آنکھ درست کر کے بھیجا تو موسیٰ علیہ السلام سمجھ گئے کہ یہ انسان نہیں فرشتہ ہے (تبھی تو آنکھ فوراً ٹھیک ہوگئی۔) لہٰذا فوراً موت کے لیے تیار ہوگئے اگرچہ انھیں لمبی زندگی کی پیش کش کی گئی تھی۔ بتائیے اس میں کون سا عقلی اشکال ہے جس کی بنا پر صحیح حدیث کا انکار کیا جائے؟ [وکم من عائب قولا صحیحا و افته من الفھم السقیم] کتنے ہی نقص نکالنے والے راست بول کو معیوب سمجھتے ہیں ان (عیب جوؤں) پر یہ سختی کمزور فہم کی وجہ سے ہوئی۔
(2) آنکھ پھوڑ دی یہ دلیل ہے کہ فرشتہ انسانی صورت میں آیا تھا، ورنہ فرشتے کی تو آنکھ نظر ہی نہیں آتی، پھوٹے گی کیسے؟
(3) مرنا نہیں چاہتا یہ ملک الموت کا ظاہری حالات سے اندازہ ہے، ورنہ یہ وجہ نہ تھی بلکہ تھپڑ مارنے کی وجہ یہ تھی کہ فرشتہ اس حالت میں نہیں آیا تھا جس حالت میں روح قبض کرتا ہے، اس لیے انھوں نے اسے انسان سمجھا اور اپنا دفاع فرمایا، اور یہ ان کا حق تھا۔
(4) بیل کی پشت پر ہاتھ رکھے اس بات کا مقصد دراصل فرشتے کو یہ سمجھانا تھا کہ موسیٰ کا تھپڑ مارنا موت سے انکار کی بنا پر نہیں اور واقعتاً ایسا ہی ہوا۔ جب موسیٰ علیہ السلام کو پتا چل گیا کہ یہ فرشتہ ہے تو زندگی کی پیش کش قبول نہیں کی۔ درحقیقت یہ پیش کش نہیں تھی بلکہ موسیٰ علیہ السلام کی براءت مقصود تھی۔ ورنہ موت کا دن تو مقرر ہے۔ آگے پیچھے نہیں ہوسکتا، پیش کش کیسی؟
(5) قریب کر دیا جائے معلوم ہوا مقدس مقام میں دفن ہونے کی خواہش درست ہے کیونکہ پڑوس کا بھی اثر ہوتا ہے۔ حضرات ابوبکر صدیق و عمر فاروق و عائشہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوار میں دفن ہونا پسند فرمایا، خواہش کی، اجازت حاصل کی اور پہلے وہ بزرگ تو دفن بھی ہوئے۔
(6) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ پوری روایت ہی آپ کا فرمان ہے۔ اگرچہ اس سند میں آپ کا ذکر صرف آخر میں ہے۔
(7) اس روایت میں تسلی اس طرح ہے کہ جب آخر کار مرنا ہی مقدر ہے تو کسی کی موت پر ضرورت سے زائد گھبراہٹ کیوں؟
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2091   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.