الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: حج کے احکام و مناسک
The Book of Hajj
111. بَابُ : تَحْرِيمِ الْقِتَالِ فِيهِ
111. باب: مکہ مکرمہ میں جنگ و جدال کی حرمت کا بیان۔
Chapter: The Prohibition Of Fighting In Makkah
حدیث نمبر: 2879
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا الليث، عن سعيد بن ابي سعيد، عن ابي شريح، انه قال لعمرو بن سعيد وهو يبعث البعوث إلى مكة: ائذن لي ايها الامير احدثك قولا قام به رسول الله صلى الله عليه وسلم الغد من يوم الفتح، سمعته اذناي ووعاه قلبي وابصرته عيناي، حين تكلم به حمد الله، واثنى عليه، ثم قال:" إن مكة حرمها الله، ولم يحرمها الناس، ولا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر، ان يسفك بها دما، ولا يعضد بها شجرا، فإن ترخص احد لقتال رسول الله صلى الله عليه وسلم فيها فقولوا له: إن الله اذن لرسوله، ولم ياذن لكم، وإنما اذن لي فيها ساعة من نهار، وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها بالامس، وليبلغ الشاهد الغائب".
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ، أَنَّهُ قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوثَ إِلَى مَكَّةَ: ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيرُ أُحَدِّثْكَ قَوْلًا قَامَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ، سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاهُ قَلْبِي وَأَبْصَرَتْهُ عَيْنَايَ، حِينَ تَكَلَّمَ بِهِ حَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ، وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا، وَلَا يَعْضُدَ بِهَا شَجَرًا، فَإِنْ تَرَخَّصَ أَحَدٌ لِقِتَالِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهَا فَقُولُوا لَهُ: إِنَّ اللَّهَ أَذِنَ لِرَسُولِهِ، وَلَمْ يَأْذَنْ لَكُمْ، وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، وَقَدْ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ كَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ، وَلْيُبَلِّغْ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ".
ابوشریح سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید سے کہا، اور وہ (عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما پر حملہ کے لیے) مکہ پر چڑھائی کے لیے فوج بھیج رہے تھے، امیر (محترم)! آپ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں آپ سے ایک ایسی بات بیان کروں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن کہی تھی اور جسے میرے دونوں کانوں نے سنی ہے میرے دل نے یاد رکھا ہے اور میری دونوں آنکھوں نے دیکھا ہے جس وقت آپ نے اسے زبان سے ادا کیا ہے آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: مکہ کو اللہ نے حرام کیا ہے، اسے لوگوں نے حرام قرار نہیں دیا ہے، اور آدمی کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو جائز نہیں کہ اس میں خونریزی کرے، یا یہاں کا کوئی درخت کاٹے۔ اگر کوئی اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتال کی وجہ سے اس کی رخصت دے تو اس سے کہو: یہ اجازت اللہ تعالیٰ نے تمہیں نہیں دی ہے صرف اپنے رسول کو دی تھی، دن کے ایک تھوڑے سے حصہ میں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کی اجازت دی، پھر اس کی حرمت آج اسی طرح واپس لوٹ آئی جیسے کل تھی، اور چاہیئے کہ جو موجود ہے وہ غائب کو یہ بات پہنچا دے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العلم 37 (104)، جزاء الصید 8 (1832)، المغازي 51 (4295)، صحیح مسلم/الحج 82 (1354)، سنن الترمذی/الحج 1 (809)، الدیات 13 (1406)، (تحفة الأشراف: 12057)، مسند احمد (4/31و6/385) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
   صحيح البخاري4295خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   صحيح البخاري104خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   صحيح البخاري1832خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   صحيح مسلم3304خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   جامع الترمذي809خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس
   سنن النسائى الصغرى2879خويلد بن عمرومكة حرمها الله لم يحرمها الناس لا يحل لامرئ يؤمن بالله واليوم الآخر أن يسفك بها دما لا يعضد بها شجرة الله أذن لرسوله ولم يأذن لكم أذن لي فيها ساعة من نهار وقد عادت حرمتها اليوم كحرمتها أمس

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 104  
´مکہ میں خون ریزی جائز نہیں`
«. . . ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ مَكَّةَ حَرَّمَهَا اللَّهُ وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ، فَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْفِكَ بِهَا دَمًا، وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پہلے) اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، پھر فرمایا کہ مکہ کو اللہ نے حرام کیا ہے، آدمیوں نے حرام نہیں کیا۔ تو (سن لو) کہ کسی شخص کے لیے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو جائز نہیں ہے کہ مکہ میں خون ریزی کرے، یا اس کا کوئی پیڑ کاٹے، پھر اگر کوئی اللہ کے رسول (کے لڑنے) کی وجہ سے اس کا جواز نکالے تو اس سے کہہ دو اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اجازت دی تھی، تمہارے لیے نہیں دی اور مجھے بھی دن کے کچھ لمحوں کے لیے اجازت ملی تھی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 104]

تشریح:
عمرو بن سعید یزید کی طرف سے مدینہ کے گورنر تھے، انھوں نے ابوشریح سے حدیث نبوی سن کر تاویل سے کام لیا اور صحابی رسول حضرت عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کو باغی فسادی قرار دے کر مکہ شریف پر فوج کشی کا جواز نکالا حالانکہ ان کا خیال بالکل غلط تھا۔ حضرت ابن زبیر نہ باغی تھے نہ فسادی تھے۔ نص کے مقابلہ پر رائے و قیاس و تاویلات فاسدہ سے کام لینے والوں نے ہمیشہ اسی طرح فسادات برپا کر کے اہل حق کو ستایا ہے۔ حضرت ابوشریح کا نام خویلد بن عمرو بن صخر ہے اور بخاری شریف میں ان سے صرف تین احادیث مروی ہیں۔ 68ھ میں آپ نے انتقال فرمایا رحمہ اللہ و رضی اللہ عنہ۔

چونکہ حضرت عبداللہ بن زبیر نے یزید کی بیعت سے انکار کر کے حرم مکہ شریف کو اپنے لیے جائے پناہ بنایاتھا۔ اسی لیے یزید نے عمرو بن سعید کو مکہ پر فوج کشی کرنے کا حکم دیا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ شہید کئے گئے۔ اور حرم مکہ کی سخت بے حرمتی کی گئی  انا للہ وانا الیہ راجعون۔  حضرت زبیر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نواسے تھے۔ آج کل بھی اہل بدعت حدیث نبوی کو ایسے بہانے نکال کر رد کر دیتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 104   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2879  
´مکہ مکرمہ میں جنگ و جدال کی حرمت کا بیان۔`
ابوشریح سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید سے کہا، اور وہ (عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما پر حملہ کے لیے) مکہ پر چڑھائی کے لیے فوج بھیج رہے تھے، امیر (محترم)! آپ مجھے اجازت دیجئیے کہ میں آپ سے ایک ایسی بات بیان کروں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن کہی تھی اور جسے میرے دونوں کانوں نے سنی ہے میرے دل نے یاد رکھا ہے اور میری دونوں آنکھوں نے دیکھا ہے جس وقت آپ نے اسے زبان سے ادا کیا ہے آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2879]
اردو حاشہ:
(1) عمرو بن سعید یہ یزید کی طرف سے مدینہ منورہ کا گورنر تھا۔ حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت نہیں کی تھی بلکہ مدینہ منورہ سے نکل کر مکہ مکرمہ چلے گئے تھے تاکہ حکومت جبر نہ کر سکے۔ یزید نے عمرو بن سعید کو حضرت عبداللہ بن ز بیر رضی اللہ عنہ کے خلاف کارروائی کے لیے لکھا تھا۔ یہ 61 یا 63 ہجری کی بات ہے۔
(2)لوگوں نے نہیں بعض اوقات لوگ بھی تو اپنے طور پر ہی کسی علاقے کی حرمت کے قائل ہو جاتے ہیں جیسے آج کل عوام الناس بعض پیروں کی گدیوں اور ان سے ملحقہ علاقوں کو حرم کی طرح سمجھتے ہیں اور کسی قسم کے تصرف کو گناہ سمجھتے ہیں، اسی لیے نفی فرمائی کہ مکہ مکرمہ کی حرمت منجانب اللہ ہے، اس میں لوگوں کا کوئی دخل نہیں، نیز یہ حرمت ازلی وابدی ہے، کسی ایک ملت یا شریعت کے ساتھ خاص نہیں۔
(3) تھوڑی دیر کے لیے حملے کے آغاز سے لے کر تسلط قائم ہونے تک۔ اور یہ وقت طلوع شمس سے عصر تک تھا۔ اس میں بھی رسول اللہﷺ کے لشکر نے از خود کسی کو قتل نہیں کیا بلکہ جس نے مزاحمت کی، وہی قتل ہوا۔ یا ان چند مجرموں کو قتل کیا گیا جنھوں نے ناقابل معافی گناہوں کا ارتکاب کیا تھا۔ اور یہ شرعی حکم تھا۔
(4) ہر حاضر، غائب کو پہنچا دے تاکہ سب کو معلوم ہو جائے کہ نبی اکرمﷺ نے حرم کی حرمت کو قائم رکھا ہے۔
(5) حلال وحرام کا اختیار اللہ تعالیٰ کو ہے، کسی بشر کو اس میں دخل نہیں۔ رسولوں کا کام بھی احکام لوگوں تک پہنچانا ہے۔ اپنی طرف سے چیز حلال وحرام کرنے کا اختیار انھیں بھی نہیں ہے۔
(6) امراء کے شریعت کے خلاف دیے گئے اوامر کا انکار اور حق بات کی تبلیغ علمائے کرام کی ذمہ داری ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 2879   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 809  
´مکہ کی حرمت کا بیان۔`
ابوشریح عدوی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے عمرو بن سعید ۲؎ سے - جب وہ مکہ کی طرف (عبداللہ بن زبیر سے قتال کے لیے) لشکر روانہ کر رہے تھے کہا: اے امیر! مجھے اجازت دیجئیے کہ میں آپ سے ایک ایسی بات بیان کروں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دوسرے دن فرمایا، میرے کانوں نے اسے سنا، میرے دل نے اسے یاد رکھا اور میری آنکھوں نے آپ کو دیکھا، جب آپ نے یہ حدیث بیان فرمائی تو اللہ کی حمد و ثنا بیان کی پھر فرمایا: مکہ (میں جنگ و جدال کرنا) اللہ نے حرام کیا ہے۔ لوگوں نے حرام نہیں کیا ہے، لہٰذا کسی شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 809]
اردو حاشہ:
1؎: (حج کے احکام و مناسک کی وضاحت ہے) حج اسلام کا پانچواں بنیادی رکن ہے اس کی فرضیت 5ھ؁ یا 6ھ؁میں ہوئی اور بعض نے 9ھ؁ یا 10ھ؁کہا ہے،
زادالمعاد میں ابن القیم کا رجحان اسی طرف ہے۔

2؎:
عمرو بن سعید:
یزید کی طرف سے مدینہ کا گونر تھا اور یزید کی حکومت کا عبداللہ بن زبیر رضی الله عنہما کی خلافت کے خلاف لشکر کشی کرنا اور وہ بھی مکہ مکرمہ پر قطعا غلط تھی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 809   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.