اخبرنا محمد بن عبد الله بن بزيع، قال: حدثنا يزيد وهو ابن زريع، قال: حدثنا خالد، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يسال ايام منى فيقول:" لا حرج" فساله رجل، فقال: حلقت قبل ان اذبح؟ قال:" لا حرج" فقال رجل: رميت بعد ما امسيت، قال:" لا حرج". أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَزِيعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ وَهُوَ ابْنُ زُرَيْعٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْأَلُ أَيَّامَ مِنًى فَيَقُولُ:" لَا حَرَجَ" فَسَأَلَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَذْبَحَ؟ قَالَ:" لَا حَرَجَ" فَقَالَ رَجُلٌ: رَمَيْتُ بَعْدَ مَا أَمْسَيْتُ، قَالَ:" لَا حَرَجَ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ منیٰ کے ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (حج کے مسائل) پوچھے جاتے تو آپ فرماتے ”کوئی حرج نہیں“، ایک شخص نے آپ سے پوچھا: میں نے قربانی کرنے سے پہلے ہی سر منڈا لیا؟ آپ نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں“، اور ایک دوسرے شخص نے کہا: شام ہو جانے کے بعد میں نے کنکریاں ماریں؟ آپ نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں“۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3069
´شام ہو جانے کے بعد رمی کرنے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ منیٰ کے ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (حج کے مسائل) پوچھے جاتے تو آپ فرماتے ”کوئی حرج نہیں“، ایک شخص نے آپ سے پوچھا: میں نے قربانی کرنے سے پہلے ہی سر منڈا لیا؟ آپ نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں“، اور ایک دوسرے شخص نے کہا: شام ہو جانے کے بعد میں نے کنکریاں ماریں؟ آپ نے فرمایا: ”کوئی حرج نہیں۔“[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 3069]
اردو حاشہ: (1) رمی کا وقت تو دن ہے مگر دن میں رمی نہ ہو سکے تو رات کو کرنی پڑے گی، لیکن ایسا کسی مجبوری ہی کی بنا پر ہو سکتا ہے۔ یوم نحر کو چار کام بالترتیب کیے جاتے ہیں: رمی، قربانی، حجامت اور طواف وداع، البتہ اگر ترتیب میں فرق پڑ جائے تو اس روایت کی رو سے کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ ترتیب سنت ہے، فرض نہیں۔ اگرچہ جہالت یا غلطی سے ترتیب قائم نہ رہے تو وہ معذور ہے۔ اس پر کوئی تاوان نہیں۔ بعض فقہاء نے اس روایت کو گناہ کی نفی پر محمول کیا ہے اور بے ترتیبی کی صورت میں وہ جانور ذبح کرنے کے قائل ہیں، مگر کسی مرفوع روایت سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ جمہور اہل علم کسی تاوان کے قائل نہیں۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ اگر قارن یا متمتع قربانی ذبح کرنے سے قبل حجامت بنوالے تو اسے بطور سزا جانور ذبح کرنا ہوگا۔ ﴿وَلا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ﴾(البقرۃ:2: 196) لیکن اس سے مراد تو یہ ہے کہ عمداً ایسے نہیں کرنا چاہیے جیسا کہ وَ لَا تَحْلِقُوْا سے اشارہ ملتا ہے۔ وگرنہ سہواً یا لا علمی کی وجہ سے ایسے ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں جس طرح کہ رسول اللہﷺ کے فرمان عالی سے ظاہر ہوتا ہے۔ آپ شارع ہیں اور قرآن کی غرض کو یقینا جانتے تھے۔ (2) نبی اکرمﷺ نے کما حقہ دین کے احکام پہنچائے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس قدر اہتمام اور لگن سے سیکھے کہ سیکھنے کا حق ادا کر دیا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3069
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1983
´بال منڈانے اور کٹوانے کا بیان۔` عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منیٰ کے دن پوچھا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: ”کوئی حرج نہیں“، چنانچہ ایک شخص نے پوچھا: میں نے ذبح کرنے سے پہلے حلق کرا لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ذبح کر لو، کوئی حرج نہیں“، دوسرے نے کہا: مجھے شام ہو گئی اور میں نے اب تک رمی نہیں کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمی اب کر لو، کوئی حرج نہیں ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1983]
1983. اردو حاشیہ: یوم النحر(دسویں تاریخ) اعمال اگر اس ترتیب سے ہوں کہ پہلے رمی جمرہ پھرقربانی حجامت اور طواف افاضہ ہو تو بہت ہی افضل ہے۔ورنہ آگے پیچھے بھی جائز ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1983