اخبرنا الحسين بن حريث، قال: حدثنا الوليد بن مسلم، قال: حدثنا يزيد بن ابي مريم، قال: لحقني عباية بن رافع وانا ماش إلى الجمعة، فقال: ابشر فإن خطاك هذه في سبيل الله، سمعت ابا عبس يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من اغبرت قدماه في سبيل الله فهو حرام على النار". أَخْبَرَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: لَحِقَنِي عَبَايَةُ بْنُ رَافِعٍ وَأَنَا مَاشٍ إِلَى الْجُمُعَةِ، فَقَالَ: أَبْشِرْ فَإِنَّ خُطَاكَ هَذِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، سَمِعْتُ أَبَا عَبْسٍ يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنِ اغْبَرَّتْ قَدَمَاهُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَهُوَ حَرَامٌ عَلَى النَّارِ".
یزید بن ابی مریم کہتے ہیں کہ میں جمعہ کی نماز کے لیے جا رہا تھا کہ (راستے میں) مجھے عبایہ بن رافع ملے، کہا: خوش ہو جاؤ! آپ کے یہ قدم اللہ کے راستے میں اٹھ رہے ہیں (کیونکہ) میں نے ابوعبس بن جبر انصاری رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے دونوں قدم اللہ کے راستے میں گرد آلود ہو جائیں تو وہ آگ یعنی جہنم کے لیے حرام ہے“۱؎۔
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3118
´اللہ کے راستے میں جس کے قدم گرد آلود ہو جائیں اس کے ثواب کا بیان۔` یزید بن ابی مریم کہتے ہیں کہ میں جمعہ کی نماز کے لیے جا رہا تھا کہ (راستے میں) مجھے عبایہ بن رافع ملے، کہا: خوش ہو جاؤ! آپ کے یہ قدم اللہ کے راستے میں اٹھ رہے ہیں (کیونکہ) میں نے ابوعبس بن جبر انصاری رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کے دونوں قدم اللہ کے راستے میں گرد آلود ہو جائیں تو وہ آگ یعنی جہنم کے لیے حرام ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الجهاد/حدیث: 3118]
اردو حاشہ: (1) اس روایت میں فی سبیل اللہ عام معنیٰ میں استعمال کیا گیا ہے، یعنی ہر نیکی کا کام۔ لغت کے لحاظ سے یہی درست ہے مگر شرعی اصطلاح لغت سے زیادہ معتبر ہوتی ہے اور قرآن وحدیث میں فی سبیل اللہ کا لفظ بالعموم جہاد کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔ (2)”حرام ہے“ بشرطیکہ اس نے کوئی ایسا گناہ نہ کیا ہو جو قابل معافی نہ ہو یا وہ حقوق العباد میں گرفتار نہ ہو کیونکہ حقوق العباد نیکیوں کو ختم کردیتے ہیں۔ ممکن ہے جہاد کا ثواب اس قدر زیادہ ہو کہ وہ تمام حقوق العباد کی ادائیگی کے بعد بھی نجات اولیں کے لیے کافی ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آگ سے ابدی آگ مراد ہے نہ کہ وقتی اور عارضی جیسے کہ گناہ گار مومنین کے لیے ہے‘ یعنی وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3118