الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل
The Book of Marriage
12. بَابُ : تَزْوِيجِ الزَّانِيَةِ
12. باب: زانی اور بدکار عورت سے شادی کا بیان۔
Chapter: Marrying An Adulteress
حدیث نمبر: 3231
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا محمد بن إسماعيل بن إبراهيم، قال: حدثنا يزيد، قال: حدثنا حماد بن سلمة , وغيره , عن هارون بن رئاب، عن عبد الله بن عبيد بن عمير , وعبد الكريم , عن عبد الله بن عبيد بن عمير، عن ابن عباس , عبد الكريم يرفعه إلى ابن عباس , وهارون لم يرفعه، قالا: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: إن عندي امراة، هي من احب الناس إلي، وهي لا تمنع يد لامس، قال:" طلقها" , قال: لا اصبر عنها، قال:" استمتع بها" , قال ابو عبد الرحمن: هذا الحديث ليس بثابت , وعبد الكريم ليس بالقوي، وهارون بن رئاب اثبت منه , وقد ارسل الحديث وهارون ثقة، وحديثه اولى بالصواب من حديث عبد الكريم.
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , وَغَيْرُهُ , عَنْ هَارُونَ بْنِ رِئَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ , وَعَبْدِ الْكَرِيمِ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , عَبْدُ الْكَرِيمِ يَرْفَعُهُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ , وَهَارُونُ لَمْ يَرْفَعْهُ، قَالَا: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ عِنْدِي امْرَأَةً، هِيَ مِنْ أَحَبِّ النَّاسِ إِلَيَّ، وَهِيَ لَا تَمْنَعُ يَدَ لَامِسٍ، قَالَ:" طَلِّقْهَا" , قَالَ: لَا أَصْبِرُ عَنْهَا، قَالَ:" اسْتَمْتِعْ بِهَا" , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا الْحَدِيثُ لَيْسَ بِثَابِتٍ , وَعَبْدُ الْكَرِيمِ لَيْسَ بِالْقَوِيِّ، وَهَارُونُ بْنُ رِئَابٍ أَثْبَتُ مِنْهُ , وَقَدْ أَرْسَلَ الْحَدِيثَ وَهَارُونُ ثِقَةٌ، وَحَدِيثُهُ أَوْلَى بِالصَّوَابِ مِنْ حَدِيثِ عَبْدِ الْكَرِيمِ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میری ایک بیوی ہے جو مجھے سبھی لوگوں سے زیادہ محبوب ہے مگر خرابی یہ ہے کہ وہ کسی کو ہاتھ لگانے سے نہیں روکتی ۱؎، آپ نے فرمایا: اسے طلاق دے دو، اس نے کہا: میں اس کے بغیر رہ نہ پاؤں گا۔ تو آپ نے کہا: پھر تو تم اس سے فائدہ اٹھاؤ (اور وہ جو دوسروں کو تیرا مال لے لینے دیتی ہے، اسے نظر انداز کر دے)۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ حدیث (صحیح) ثابت نہیں ہے، عبدالکریم (راوی) زیادہ قوی نہیں ہے اور ہارون بن رئاب (راوی) عبدالکریم سے زیادہ قوی راوی ہیں۔ انہوں نے اس حدیث کو مرسل بیان کیا ہے ہارون ثقہ راوی ہیں اور ان کی حدیث عبدالکریم کی حدیث کے مقابل میں زیادہ صحیح اور درست لگتی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي (تحفة الأشراف: 5807)، ویأتي عند المؤلف برقم: 3495 (صحیح الإسناد)»

وضاحت:
۱؎: اس کے دو مفہوم ہیں، ایک مفہوم تو یہ ہے کہ وہ فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتی ہے، دوسرا مفہوم یہ ہے کہ شوہر کا مال ہر مانگنے والے کو اس کی اجازت کے بغیر دے دیتی ہے، یہ مفہوم مناسب اور بہتر ہے کیونکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا کہنا ہے: یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی فاجرہ عورت کو روکے رکھنے کا مشورہ دیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
   سنن النسائى الصغرى3231عبد الله بن عباسطلقها قال لا أصبر عنها قال استمتع بها
   سنن النسائى الصغرى3494عبد الله بن عباسغربها إن شئت قال إني أخاف أن تتبعها نفسي قال استمتع بها
   سنن النسائى الصغرى3495عبد الله بن عباسطلقها قال إني لا أصبر عنها قال فأمسكها
   سنن أبي داود2049عبد الله بن عباسامرأتي لا تمنع يد لامس قال غربها قال أخاف أن تتبعها نفسي قال فاستمتع بها
   بلوغ المرام941عبد الله بن عباسإن امراتي لا ترد يد لامس قال: ‏‏‏‏غربها

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3231  
´زانی اور بدکار عورت سے شادی کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میری ایک بیوی ہے جو مجھے سبھی لوگوں سے زیادہ محبوب ہے مگر خرابی یہ ہے کہ وہ کسی کو ہاتھ لگانے سے نہیں روکتی ۱؎، آپ نے فرمایا: اسے طلاق دے دو، اس نے کہا: میں اس کے بغیر رہ نہ پاؤں گا۔ تو آپ نے کہا: پھر تو تم اس سے فائدہ اٹھاؤ (اور وہ جو دوسروں کو تیرا مال لے لینے دیتی ہے، اسے نظر انداز کر دے)۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: یہ حدیث (صح۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3231]
اردو حاشہ:
(1) [لا تَرُدُّ يدَ لامِسٍ] اس کے مفہوم میں اختلاف ہے۔ بعض نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ وہ عورت چھیڑ چھاڑ کو برا محسوس نہیں کرتی تھی اور چھیڑ چھاڑ کرنے والے کو روکتی نہیں تھی۔ بعض نے اس سے مراد مالی سخاوت لی ہے، یعنی وہ عورت بہت زیادہ صدقہ وخیرات کرتی تھی۔ یہ بات تو پکی ہے وہ عورت فاحشہ نہ تھی ورنہ رسول اللہﷺ اسے اپنے پاس ٹھہرائے رکھنے کا اختیار کبھی نہ دیتے کیونکہ دینی مسائل میں آپ وحی کے بغیر نہیں بولتے تھے۔ ارشاد ربانی تعالیٰ ہے: {وَماَ یَنْطِقُ عَنِ الْھَوَی اِنْ ھُوَ اِلاَّ وَحْیٌ یُوْحیٰ} اور وحی میں فحاشی کی ممانعت ہے اجازت نہیں۔ {وَیَنْھیٰ عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ} (الأعراف 7:28) نیز ایسی بیوی کو اگر خاوند برداشت کرے تو وہ دیوث کہلاتا ہے۔ اور دیوث کے بارے میں وعید ہے۔ سخاوت والا مفہو م بھی معتبر نہیں، اس لیے کہ سخاوت مندوب ومطلوب چیز ہے۔ ایسی خاتون کو تنبیہ کی جاسکتی ہے، خاوند اس پر پابندی عائد کرسکتا ہے اور اس کا خرچ تو کم کرسکتا ہے، لیکن اس کی وجہ سے طلاق کسی صورت بھی جائز نہیں، نہ نبیﷺ اس کا حکم ہی دے سکتے ہیں، نیز اگر یہ معنیٰ ہوتے تو [یَدَ لاَمِسٍ] کی بجائے یَدَ مُلْتَمِسٍ ہونا چاہیے تھا کیونکہ سائل کو متلمس کہتے ہیں لامس نہیں۔ بہر حال اس کا راجح مفہوم یہ ہے کہ خاوند کو اپنی بیوی کی طبیعت اور مزاج کا علم تھا۔ اس نے قرآئن کی رو سے یہ اندازہ لگایا کہ اگر کوئی اسے چھیڑنا چاہے تو یہ اسے روک نہیں سکے گی۔ فی الواقع ایسا ہوا نہیں تھا۔ اس خدشے کا اظہار انہوں نے نبی اکرمﷺ سے کیا تو اس خدشے سے بچنے کے لیے آپ نے اسے الگ کردینے کا مشورہ دیا، پھر جب اس نے اس سے اپنی بے پناہ محبت کا اظہار کیا تو آپ نے اسے عقد میں رکھنے کا مشورہ دیا کیونکہ محض وہم اور اندیشے کی بنا پر اسے الگ کردینا درست نہ تھا۔ واللہ أعلم۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اور شیخ ایتوبی نے بھی اسی مفہوم کو راجح قراردیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذحیرة العقبیٰ‘ شرح سنن النسائي: 27/105۔107)
(2) امام نسائی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ یہ روایت مرسل صحیح ہے، یعنی اس میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ذکر صحیح نہیں۔ بعض نے اس حدیث کو موضوع قراردیا ہے مگر یہ بات صحیح نہیں ہے۔ درست یہ ہے کہ یہ حدیث متصلاً بھی حسن صحیح ہے کیونکہ یہ دیگر صحیح سندوں سے بھی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے متصلاً ثابت ہے۔ دیکھیے‘ حدیث:3494‘ 3495۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3231   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2049  
´بانجھ عورت سے شادی کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہنے لگا کہ میری عورت کسی ہاتھ لگانے والے کو نہیں روکتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے اپنے سے جدا کر دو، اس شخص نے کہا: مجھے ڈر ہے میرا دل اس میں لگا رہے گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو تم اس سے فائدہ اٹھاؤ۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2049]
فوائد ومسائل:
یہ حدیث صحیح ہے۔
اور یہ جملہ (لاتمنع يد  لامس) کا مفہوم یہ ہے کہ ایک مسلمان باوقار اور باغیر ت خاتون ہونے کے ناطے اس کے اندر غیروں سے کوئی نفرت ووحشت نہیں ہے۔
(مگر فعلا ً اس سے کوئی بدکاری صادرنہیں ہوئی) تو نبیﷺ نے اولاً اسے طلاق دینے کا فرمایا۔
مگر شوہر نے اپنی کیفیت بتائی تو رخصت دے دی جیسے کہ دین سے دور معاشروں میں ایسی کیفیات پائی جاتی ہیں۔
مگر یہ معنی کرنا کہ وہ فعلاً بدکار تھی۔
پھر نبی کریمﷺ نے ا س کو گھر میں رکھنے کی اجازت دے دی۔
ایک ناقابل تصور معنی ہے۔
کیونکہ زانیہ سے نکاح حرام ہے۔
اور ایسا انسان جو اپنے اہل میں فحش کاری پرخاموش ہو دیوث ہوتا ہے۔
اسی لئے کچھ محدثین نے اس کا وہی مفہوم بیان کیا ہے۔
جو ہم نے شروع میں بیان کیا ہے۔
بہرحال بُری عادات کی بنا پر عورت کو طلاق دی جا سکتی ہے۔
یہ حدیث اس باب سے مطابقت نہیں رکھتی۔
اگلی حدیث اس باب کے مطابق ہے۔
اس حدیث پر باب سہواً رہ گیا ہے یا کسی ناسخ (نقل کرنے والے) سے کوئی سہو ہوگیا ہے۔
واللہ اعلم
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2049   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.