الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل
The Book of Marriage
27. بَابُ : كَيْفَ الاِسْتِخَارَةُ
27. باب: نماز استخارہ کس طرح پڑھی جائے؟
Chapter: How To Do Istikharah
حدیث نمبر: 3255
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا ابن ابي الموال، عن محمد بن المنكدر، عن جابر بن عبد الله، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمنا الاستخارة في الامور كلها، كما يعلمنا السورة من القرآن، يقول:" إذا هم احدكم بالامر، فليركع ركعتين من غير الفريضة، ثم يقول: اللهم إني استخيرك بعلمك، واستعينك بقدرتك، واسالك من فضلك العظيم، فإنك تقدر ولا اقدر، وتعلم ولا اعلم، وانت علام الغيوب، اللهم إن كنت تعلم ان هذا الامر خير لي في ديني، ومعاشي، وعاقبة امري، او قال: في عاجل امري، وآجله، فاقدره لي، ويسره لي، ثم بارك لي فيه، وإن كنت تعلم ان هذا الامر شر لي في ديني، ومعاشي، وعاقبة امري، او قال: في عاجل امري، وآجله، فاصرفه عني واصرفني عنه، واقدر لي الخير حيث كان، ثم ارضني به، قال: ويسمي حاجته".
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الْمَوَالِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُنَا الِاسْتِخَارَةَ فِي الْأُمُورِ كُلِّهَا، كَمَا يُعَلِّمُنَا السُّورَةَ مِنَ الْقُرْآنِ، يَقُولُ:" إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِالْأَمْرِ، فَلْيَرْكَعْ رَكْعَتَيْنِ مِنْ غَيْرِ الْفَرِيضَةِ، ثُمَّ يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ، وَأَسْتَعِينُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي، وَمَعَاشِي، وَعَاقِبَةِ أَمْرِي، أَوْ قَالَ: فِي عَاجِلِ أَمْرِي، وَآجِلِهِ، فَاقْدِرْهُ لِي، وَيَسِّرْهُ لِي، ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي، وَمَعَاشِي، وَعَاقِبَةِ أَمْرِي، أَوْ قَالَ: فِي عَاجِلِ أَمْرِي، وَآجِلِهِ، فَاصْرِفْهُ عَنِّي وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِي الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ، ثُمَّ أَرْضِنِي بِهِ، قَالَ: وَيُسَمِّي حَاجَتَهُ".
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تمام امور (و معاملات) میں استخارہ کرنے کی تعلیم دیتے تھے، جیسا کہ ہمیں قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے، فرماتے: جب تم میں سے کوئی کسی (اچھے) کام کا ارادہ کرے تو فرض (اور اس کے توابع) کے علاوہ دو رکعتیں پڑھے پھر (دعا کرتے ہوئے) کہے: «اللہم إني أستخيرك بعلمك وأستعينك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللہم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري - أو قال في عاجل أمري وآجله - فاقدره لي ويسره لي ثم بارك لي فيه وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري - أو قال في عاجل أمري وآجله - فاصرفه عني واصرفني عنه واقدر لي الخير حيث كان ثم أرضني به» اے اللہ! میں تیرے علم کی برکت سے تجھ سے بھلائی اور خیر کا طالب ہوں اور تیری قدرت کا واسطہ دے کر تیری مدد کا چاہتا ہوں اور تیرے عظیم فضل کا طالب ہوں کیونکہ تو قدرت والا ہے، میں قدرت والا نہیں، تو (اچھا و برا سب) جانتا ہے، میں نہیں جانتا، تو ہی غیب کی باتوں کو جانتا ہے، اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ معاملہ، (پھر متعلق کام یا چیز کا نام لے) میرے لیے میرے دین، دنیا اور کے اعتبار سے، یا یہ کہا: اس دار فانی اور اخروی زندگی کے اعتبار سے بہتر ہے تو اس کام کو میرے لیے مقدر کر دے اور اس کا حصول میرے لیے آسان کر دے اور مجھے اس میں برکت دے۔ اور اگر تو جانتا اور سمجھتا ہے کہ یہ کام میرے لیے برا ہے، میرے دین، دنیا اور انجام کار کے لحاظ سے یا اس دار فانی اور اخروی زندگی کے لحاظ سے تو اس کام کو مجھ سے دور رکھ اور مجھے اس سے بچا لے۔ اور بھلائی جہاں بھی ہو اسے میرے لیے مقدر فرما دے اور مجھے اس پر راضی و خوش رکھ۔ آپ نے فرمایا: (دعا کرتے وقت) اپنی ضرورت کا نام لے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التہجد 25 (1162)، والدعوات 48 (6382)، والتوحید 10 (7390)، سنن ابی داود/الصلاة 366 (1538)، سنن الترمذی/الصلاة 237 (480)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 188 (1383)، مسند احمد 3/344 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
   صحيح البخاري7390جابر بن عبد اللهيعلم أصحابه الاستخارة في الأمور كلها كما يعلمهم السورة من القرآن يقول إذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم فإن كنت تعلم هذا
   صحيح البخاري6382جابر بن عبد اللهإذا هم بالأمر فليركع ركعتين ثم يقول اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري وآجله فاقدره لي وإن ك
   صحيح البخاري1162جابر بن عبد اللهإذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال عاجل أمري وآج
   جامع الترمذي480جابر بن عبد اللهإذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري
   سنن أبي داود1538جابر بن عبد اللهإذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة وليقل اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر يسميه بعينه الذي يريد خير لي في ديني ومعاشي ومعادي وعاقب
   سنن النسائى الصغرى3255جابر بن عبد اللهإذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم يقول اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستعينك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري
   سنن ابن ماجه1383جابر بن عبد اللهإذا هم أحدكم بالأمر فليركع ركعتين من غير الفريضة ثم ليقل اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم هذا الأمر فيسميه ما كان من شيء خيرا لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أ

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3255  
´نماز استخارہ کس طرح پڑھی جائے؟`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تمام امور (و معاملات) میں استخارہ کرنے کی تعلیم دیتے تھے، جیسا کہ ہمیں قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے، فرماتے: جب تم میں سے کوئی کسی (اچھے) کام کا ارادہ کرے تو فرض (اور اس کے توابع) کے علاوہ دو رکعتیں پڑھے پھر (دعا کرتے ہوئے) کہے: «اللہم إني أستخيرك بعلمك وأستعينك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللہم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب النكاح/حدیث: 3255]
اردو حاشہ:
(1) استخارہ سے مراد اللہ تعالیٰ سے خیر طلب کرنا ہے۔ اور ایسے کام میں ہوتا ہے جس کا اچھا یا برا ہونا یقینی نہ ہو، جس میں تردد ہو، لہٰذا استخارہ کسی فرض، سنت یا حرام کام میں نہیں ہوسکتا کیونکہ فرض وسنت کا خیر ہونا اور حرام کا شروع ہونا پہلے سے واضح ہے۔
(2) استخارہ کا مقصد تردد ختم کرنا ہے، لہٰذا جب تک تردد ختم اور شرح صدر نہ ہو اور کوئی ایک کام راجح معلوم نہ ہو، اس وقت تک استخارہ جاری رکھنا چاہیے۔
(3) عام لوگ سمجھتے ہیں کہ استخارے کے بعد سونا چاہیے، نیند میں صحیح راستہ نظر آئے گا، مگر ایسا عمل کسی حدیث میں ذکر نہیں اور نہ کسی میں خوا ب کا ذکر ہے۔ اسی طرح چوری تلاش کرنے کے لیے استخارے کرنا قرآن وسنت سے خارج بات ہے۔ اس قسم کے کسی استخارے کو حقیقت سمجھنا بھی بے بنیاد ہے۔ رسول اللہﷺ کو بہت سے معاملات میں تحقیقات کی ضرورت پڑی مگر آپ نے ایسے استخارے نہیں کیے بلکہ شواہد کی مدد سے تحقیق فرمائی، لہٰذا ایسے استخارے ڈھونگ اور بے بنیاد ہیں۔ ان سے جائز بدگمانیاں اور باہمی فساد پیدا ہوتا ہے۔
(4) دورکعت نفل یعنی خالص نفل۔ فرض وسنن کے علاوہ۔
(5) اگر تو جانتا ہے یعنی اگر تو اس کام کو میرے لیے بہتر جانتا ہے۔ گویا علم کے بارے میں کوئی شک نہیں۔ بلکہ خیروشر ہونے کے بارے میں سوال کا ایک اندازہ ہے۔
(6) اپنے کام کا بھی ذکر کرے یعنی ھٰذا الْأَمَرَ کی جگہ اپنی اس حاجت اور کام کا نام لے جس کے بارے میں استخارہ کررہا ہے۔
(7) آدمی کو تمام معاملات میں اپنے رب کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔
(8) اللہ رب العزت بندے کو جو انعام واکرام سے نوازتا ہے، یہ محض اس کا فعل ہے، کسی کا اللہ پر حق نہیں۔ اہل السنۃ کا یہی مذہب ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3255   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1383  
´نماز استخارہ کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز استخارہ سکھاتے تھے جس طرح قرآن کی سورۃ سکھایا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: جب کوئی شخص کسی کام کا ارادہ کرے، تو فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے، پھر یہ دعا پڑھے: «اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم هذا الأمر (پھر متعلق کام یا چیز کا نام لے) خيرا لي في ديني ومعاشي وعاقبة أمري أو خيرا لي في عاجل أمري وآجله- فاقدره لي ويسره لي وبارك لي فيه وإن كنت تعلم (پھر ویسا ہی کہے جی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1383]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  استخارے کا مطلب اللہ سے خیر اور بہتری کی درخواست ہے۔
جب کسی کام کا ارادہ ہوتو اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرلینا بہتر ہے۔
کہ اگر اس کا انجام میرے لئے بہتر ہے تو یہ خیریت سے مکمل ہو ورنہ جوکچھ میرے لئے بہتر ہو وہ حاصل ہوجائے۔

(2)
استخارے کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ دو رکعت نماز پڑھ کر دعا کی جائے۔
اس کے علاوہ جو مختلف قسم کے استخارے مشہور ہیں۔
وہ سب غیر مسنون ہیں۔

(3)
استخارے کے بعد خواب آنا شرط نہیں بلکہ کام کا انتظام کرنا چاہیے۔
اگر بہتر ہوگا تو خیریت سے مکمل ہوجائےگا۔
ورنہ کوئی رکاوٹ آئے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا اس انداز سے مکمل ہونا میرے حق میں بہتر نہیں۔
اسی طرح اگر استخارے کے بعد اس کام پر دل مطمئن ہوجائے۔
تو وہ کام کرلیا جائے ورنہ چھوڑ دیا جائے۔

(4)
دعا میں ھٰذَ الأَمْر کی جگہ مطلوبہ کام کا نام لیناچاہیے۔
مثلاً ھٰذاَ النِّکَاح (یہ نکاح)
ھذ السفر (یہ سفر)
ھذہ التجارۃ (یہ تجارت وغیرہ یا ھٰذَ الأَمْر امر کہتے وقت دل میں اس کاتصور کرلیا جائے۔

(5)
  مجھے اس سے پھیر دے کامطلب یہ ہے کہ میں وہ کام نہ کروں اور دل میں بھی یہ خیال نہ رہے کہ کاش یوں کرلیتا تو بہتر ہوتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1383   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 480  
´صلاۃ استخارہ کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ہر معاملے میں استخارہ کرنا ۱؎ اسی طرح سکھاتے جیسے آپ ہمیں قرآن کی سورتیں سکھاتے تھے۔ آپ فرماتے: تم میں سے کوئی شخص جب کسی کام کا ارادہ کرے تو دو رکعت پڑھے، پھر کہے: «اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولا أقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر خير لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري أو قال في عاجل أمري» یا کہے «فِي عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ فيسره لي ثم بارك لي فيه وإن كنت تعلم أن هذا الأمر شر لي في ديني ومعيشتي وعاقبة أمري» ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/أبواب الوتر​/حدیث: 480]
اردو حاشہ:
1؎:
استخارہ کے لغوی معنی خیر طلب کرنے کے ہیں،
چونکہ اس دعا کے ذریعہ انسان اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی طلب کرتا ہے اس لیے اسے دعائے استخارہ کہا جاتا ہے،
اس کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ فرض نماز کے علاوہ دو رکعت پڑھنے کے بعد یہ دعا پڑھی جائے،
استخارے کا تعلق صرف مباح کاموں سے ہے،
فرائض و واجبات اور سنن و مستحبات کی ادائیگی اور محرمات و مکروہاتِ شرعیہ سے اجتناب ہر حا ل میں ضروری ہے،
ان میں استخارہ نہیں ہے۔

2؎:
یعنی:
لفظ ((هَذَا الْأَمْرَ)) یہ کام کی جگہ اپنی ضرورت کا نام لے۔
اور کسی دوسرے شخص کے لیے استخارہ کرنا کسی بھی حدیث سے ثابت نہیں ہے،
ہر آدمی اپنے لیے استخارہ خود کرے تاکہ اپنی حاجت اپنے رب کریم سے خود باسلوب احسن بیان کر سکے اور اُسے اپنے رب سے خود مانگنے کی عادت پڑے،
یہ جو آج کل دوسروں سے استخارہ کروانے والا عمل جاری ہو چکا ہے یہ نری بدعت ہے،
استخارہ کے بعد سو جانا اور خواب دیکھنا وغیرہ بھی نہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے اور نہ ہی صحابہ کرام و تابعین عظام سے بلکہ استخارہ کے بعد کہ جب اسے ایک،
تین پانچ یا سات بار کیا جائے،
دل کا اطمینان،
مطلوبہ عمل کے لیے جس طرف ہو جائے اُسے آدمی اختیار کر لے،
خواب میں بھی اس کی وضاحت ہو سکتی ہے مگر خواب استخارہ کا جزء نہیں ہے،
عورتیں بھی استخارہ خود کر سکتی ہیں،
کہیں پر ممانعت نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 480   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1538  
´استخارہ کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں استخارہ سکھاتے جیسے ہمیں قرآن کی سورۃ سکھاتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے فرماتے: جب تم میں سے کوئی کسی کام کا ارادہ کرے تو فرض کے علاوہ دو رکعت نفل پڑھے اور یہ دعا پڑھے: «اللهم إني أستخيرك بعلمك وأستقدرك بقدرتك وأسألك من فضلك العظيم فإنك تقدر ولاأقدر وتعلم ولا أعلم وأنت علام الغيوب اللهم إن كنت تعلم أن هذا الأمر ۱؎ خير لي في ديني ومعاشي ومعادي وعاقبة أمري فاقدره لي ويسره لي وبارك لي فيه اللهم وإن كنت تعلمه شرا لي فاصرفني عنه واصرفه عني واقدر لي الخير حيث كان ثم رضني به» اے اللہ! میں تجھ سے تیرے علم کے وسیلے سے خیر طلب کرتا ہوں، تجھ سے تیری قدرت کے وسیلے سے قوت طلب کرتا ہوں، تجھ سے تیرے بڑے فضل میں سے کچھ کا سوال کرتا ہوں، تو قدرت رکھتا ہے مجھ کو قدرت نہیں۔ تو جانتا ہے، میں نہیں جانتا، تو پوشیدہ چیزوں کا جاننے والا ہے، اے اللہ! اگر تو جانتا ہے کہ یہ معاملہ یا یہ کام ۱؎ میرے واسطے دین و دنیا، آخرت اور انجام کار کے لیے بہتر ہے تو اسے میرا مقدر بنا دے اور اسے میرے لیے آسان بنا دے اور میرے لیے اس میں برکت عطا کر، اے اللہ! اور اگر تو جانتا ہے کہ یہ کام میرے لیے دین، دنیا، آخرت اور انجام میں برا ہے تو مجھ کو اس سے پھیر دے اور اسے مجھ سے پھیر دے اور جہاں کہیں بھلائی ہو، اسے میرے لیے مقدر کر دے، پھر مجھے اس پر راضی فرما۔‏‏‏‏ ابن مسلمہ اور ابن عیسیٰ کی روایت میں «عن محمد بن المنكدر عن جابر» ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1538]
1538. اردو حاشیہ:
➊ استخارے کے معنی ہیں خیر مانگنا اور اس [خیر]
کےلئے آسانی کی توفیق طلب کرنا۔ اور یہ ایسے امور میں ہوتا ہے۔ جن میں خیر اورشر کے دونوں پہلووں کا احتمال ہو۔ فرائض اور واجبات شرعیہ میں استخارے کے کوئی معنی نہیں۔ ہاں وقت وکیفیت کے متعلق استخارہ ہوسکتا ہے۔ مثلا ً یا اللہ حج کو اس سال جائوں۔ یا آئندہ سال۔ فضائی راستہ اختیار کروں یا بری یا بحری وغیرہ۔
➋ استخارے کا یہی طریقہ مشروع اور سنت ہے۔ یہ نماز اور دُعا اوقات کراہت کے علاوہ کسی بھی وقت ہوسکتی ہے۔ اس سے انسان کا اضطراب ختم ااور کسی ایک جانب پر استقرار حاصل ہو جاتا ہے۔ تب انسان کو وہ کام کرگزرنا چاہیے۔ اللہ اس میں برکت دے گا۔ اور اگر اضطراب قائم رہے تو مسلسل کئی روز تک یہ عمل دہرانا چاہیے۔ ان شاء اللہ کسی ایک پہلو پر دل ٹک جائے گا۔ خیال رہے کہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ خواب ہی میں نظرآئے۔۔۔ اور ایسا بھی ہو سکتا ہے۔۔۔ کچھ لوگ دوسروں سے استخارہ کراتے ہیں۔ یہ بے معنی سی بات ہے۔ صاحب معاملہ کو خود نماز پڑھ کر دعا کرنی چاہیے۔ شریعت کا اصرار اسی امر پر ہے کہ ہر بندہ اپنے رب سے براہ راست تعلق قائم کرے۔
➌ اس دعا میں ھذا الأمر۔۔۔ کی جگہ اپنی حاجت کا نام لے۔ مثلا ھذا النکاح یا ھذا البیع وغیرہ یا ھذا الأمر پر پہنچ کر اپنے اس کام کی نیت مستحضر کرلے۔ جس کے لئے وہ استخارہ کررہا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1538   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.