الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: شراکت کے مسائل کے بیان میں
The Book of Partnership
9. بَابُ إِذَا اقْتَسَمَ الشُّرَكَاءُ الدُّورَ أَوْ غَيْرَهَا فَلَيْسَ لَهُمْ رُجُوعٌ وَلاَ شُفْعَةٌ:
9. باب: جب شریک لوگ گھروں وغیرہ کو تقسیم کر لیں تو اب اس سے پھر نہیں سکتے اور نہ ان کو شفعہ کا حق رہے گا۔
(9) Chapter. If partners divide the houses, etc., none of them has the right of backing out or the right of pre-emption.
حدیث نمبر: 2496
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا مسدد، حدثنا عبد الواحد، حدثنا معمر، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، قال:"قضى النبي صلى الله عليه وسلم بالشفعة في كل ما لم يقسم، فإذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة".حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:"قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالشُّفْعَةِ فِي كُلِّ مَا لَمْ يُقْسَمْ، فَإِذَا وَقَعَتِ الْحُدُودُ وَصُرِّفَتِ الطُّرُقُ فَلَا شُفْعَةَ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے معمر نے بیان کیا، ان سے زہری نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس جائیداد میں شفعہ کا حق دیا تھا جس کی شرکاء میں ابھی تقسیم نہ ہوئی ہو۔ لیکن اگر حد بندی ہو جائے اور راستے الگ ہو جائیں تو پھر شفعہ کا حق باقی نہیں رہتا۔

Narrated Jabir bin `Abdullah: The Prophet said, "The right of preemption is valid in every joint property, but when the land is divided and the way is demarcated, then there is no right of pre-emption."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 44, Number 676

   صحيح البخاري2496جابر بن عبد اللهالشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   صحيح البخاري2213جابر بن عبد اللهالشفعة في كل مال لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   صحيح البخاري6976جابر بن عبد اللهالشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   صحيح البخاري2495جابر بن عبد اللهالشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   صحيح مسلم4129جابر بن عبد اللهالشفعة في كل شرك في أرض أو ربع أو حائط لا يصلح أن يبيع حتى يعرض على شريكه فيأخذ أو يدع إن أبى فشريكه أحق به حتى يؤذنه
   صحيح مسلم4128جابر بن عبد اللهالشفعة في كل شركة لم تقسم ربعة أو حائط لا يحل له أن يبيع حتى يؤذن شريكه إن شاء أخذ وإن شاء ترك إذا باع ولم يؤذنه فهو أحق به
   جامع الترمذي1369جابر بن عبد اللهالجار أحق بشفعته ينتظر به إن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا
   جامع الترمذي1312جابر بن عبد اللهمن كان له شريك في حائط فلا يبيع نصيبه من ذلك حتى يعرضه على شريكه
   سنن أبي داود3514جابر بن عبد اللهالشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   سنن أبي داود3513جابر بن عبد اللهالشفعة في كل شرك ربعة أو حائط لا يصلح أن يبيع حتى يؤذن شريكه إن باع فهو أحق به حتى يؤذنه
   سنن أبي داود3518جابر بن عبد اللهالجار أحق بشفعة جاره ينتظر بها إن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا
   سنن النسائى الصغرى4709جابر بن عبد اللهالشفعة والجوار
   سنن النسائى الصغرى4705جابر بن عبد اللهالشفعة في كل شركة لم تقسم ربعة وحائط لا يحل له أن يبيعه حتى يؤذن شريكه إن شاء أخذ وإن شاء ترك إن باع ولم يؤذنه فهو أحق به
   سنن النسائى الصغرى4650جابر بن عبد اللهالشفعة في كل شرك ربعة أو حائط لا يصلح له أن يبيع حتى يؤذن شريكه إن باع فهو أحق به حتى يؤذنه
   سنن ابن ماجه2499جابر بن عبد اللهالشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة
   سنن ابن ماجه2494جابر بن عبد اللهالجار أحق بشفعة جاره ينتظر بها إن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا
   المعجم الصغير للطبراني513جابر بن عبد اللهالشفعة في كل شرك في ربع أو حائط لا يصلح له أن يبيعه حتى يؤذن شريكه فيأخذ أو يدع
   بلوغ المرام763جابر بن عبد اللهالجار أحق بشفعة جاره ينتظر بها وإن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا
   مسندالحميدي1309جابر بن عبد اللهأيكم كانت له أرض أو نخل فلا يبعها حتى يعرضها على شريكه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2499  
´جائیداد کی حد بندی کے بعد حق شفعہ نہیں ہے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ ہر اس جائیداد میں ٹھہرایا ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو، اور جب حد بندی ہو جائے اور راستے جدا ہو جائیں تو اب شفعہ نہیں ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الشفعة/حدیث: 2499]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مشترک چیز میں اگر ایک شریک اپنا حصہ فروخت کرنا چاہے تو پہلے اپنے دوسرے شریکوں کو بتائے تاکہ اگر وہ خریدنا چاہیں تو خرید لیں۔

(2)
یہ حق زمین یا مکان میں بھی ہے اوردوسری کسی بھی مشترک چیز میں بھی۔

(3)
جب مشترک چیز تقسیم کر لی جائے اورمکان یا زمین کو تقسیم کرکے ہرشخص کا حصہ مقرر ہو جائے کہ یہاں تک فلاں کا حصہ ہے اوراس سے آگے فلاں کا حصہ ہے توشراکت ختم ہوجاتی ہے صرف ہمسائیگی باقی رہ جاتی ہے اس صورت میں جو شخص پہلے شریک تھا وہ ہمسائیگی کی بنیاد پرشفعے کا دعوی نہیں کر سکتا۔

(4)
بعض احادیث میں جو پڑوسی کے حق شفعہ کا ذکر ہے تو اس سے مراد مطلق پڑوسی نہیں بلکہ صرف وہ پڑوسی مراد ہے جو راستے یا زمین وغیرہ میں شریک ہو، اگر ایسا نہ ہوتو پھر پڑوسی بھی شفعے کا حق دار نہیں ہے اس لیے کہ جب یہ فرما دیا گیا کہ حد بندی اورراستے الگ الگ ہو جانےکے بعد حق شفعہ نہیں تو پھر محض پڑوسی ہونا پڑوسی کےحق شفعہ کا جواز نہیں بن سکتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2499   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1369  
´غائب (جو شخص موجود نہ ہو) کے شفعہ کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پڑوسی اپنے پڑوسی (ساجھی) کے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے، جب دونوں کا راستہ ایک ہو تو اس کا انتظار کیا جائے گا ۱؎ اگرچہ وہ موجود نہ ہو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1369]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حدیث اس بات پردلیل ہے کہ غیرحاضرشخص کا شفعہ باطل نہیں ہو تا،
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شفعہ کے لیے مجرد ہمسائیگی ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے راستے میں اشتراک بھی ضروری ہے،
اس کی تائید ذیل کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ جب حدبندی ہوجائے اورراستے جدا جدا ہو جائیں تو پھر شفعہ کا استحقاق نہیں رہتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1369   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2496  
2496. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ہر اس چیز میں شفعے کا فیصلہ فرمایا ہے جو ابھی تقسیم نہ کی گئی ہو۔ جب حد بندی ہوجائے اور راستے بدل دیے جائیں تو شفعہ نہیں رہتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2496]
حدیث حاشیہ:
(1)
جب شرکاء مشترکہ چیز تقسیم کر لیں تو پھر شفعے اور رجوع کا حق باقی نہیں رہتا کیونکہ معاشرے کا استحکام اسی بنیاد پر ہے کہ جب معاہدہ طے پا جائے تو رجوع کا حق ساقط ہو جائے۔
اگر ایسے حالات میں رجوع کا حق دیا جائے تو معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا اور ریاست میں انتشار اور بدنظمی پھیلے گی۔
ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بیس سال پہلے خرید و فروخت کا ایک معاہدہ ہوا اور آج کسی کو شفعے کا حق دیا جائے تو اس طریقے سے تو کوئی کاروبار نہیں چل سکتا۔
(2)
حدیث میں شفعے کا ذکر ہے جبکہ باب میں رجوع کا بھی ذکر کیا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر شرکاء کو شفعے کا حق نہ رہے تو رجوع کا حق بالاولیٰ ختم ہو جائے گا کیونکہ اگر رجوع کا حق تسلیم کیا جائے تو شفعے کا بالاولیٰ تسلیم کرنا پڑے گا۔
جب نفئ شفعہ نفئ رجوع کو لازم ہے تو امام بخاری ؒ نے شفعے کے ساتھ رجوع کا بھی ذکر کر دیا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2496   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.