9. بَابُ إِذَا اقْتَسَمَ الشُّرَكَاءُ الدُّورَ أَوْ غَيْرَهَا فَلَيْسَ لَهُمْ رُجُوعٌ وَلاَ شُفْعَةٌ:
9. باب: جب شریک لوگ گھروں وغیرہ کو تقسیم کر لیں تو اب اس سے پھر نہیں سکتے اور نہ ان کو شفعہ کا حق رہے گا۔
(9) Chapter. If partners divide the houses, etc., none of them has the right of backing out or the right of pre-emption.
Narrated Jabir bin `Abdullah: The Prophet said, "The right of preemption is valid in every joint property, but when the land is divided and the way is demarcated, then there is no right of pre-emption."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 44, Number 676
● صحيح البخاري | 2496 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● صحيح البخاري | 2213 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل مال لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● صحيح البخاري | 6976 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● صحيح البخاري | 2495 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● صحيح مسلم | 4129 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل شرك في أرض أو ربع أو حائط لا يصلح أن يبيع حتى يعرض على شريكه فيأخذ أو يدع إن أبى فشريكه أحق به حتى يؤذنه |
● صحيح مسلم | 4128 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل شركة لم تقسم ربعة أو حائط لا يحل له أن يبيع حتى يؤذن شريكه إن شاء أخذ وإن شاء ترك إذا باع ولم يؤذنه فهو أحق به |
● جامع الترمذي | 1369 | جابر بن عبد الله | الجار أحق بشفعته ينتظر به إن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا |
● جامع الترمذي | 1312 | جابر بن عبد الله | من كان له شريك في حائط فلا يبيع نصيبه من ذلك حتى يعرضه على شريكه |
● سنن أبي داود | 3514 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● سنن أبي داود | 3513 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل شرك ربعة أو حائط لا يصلح أن يبيع حتى يؤذن شريكه إن باع فهو أحق به حتى يؤذنه |
● سنن أبي داود | 3518 | جابر بن عبد الله | الجار أحق بشفعة جاره ينتظر بها إن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا |
● سنن النسائى الصغرى | 4709 | جابر بن عبد الله | الشفعة والجوار |
● سنن النسائى الصغرى | 4705 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل شركة لم تقسم ربعة وحائط لا يحل له أن يبيعه حتى يؤذن شريكه إن شاء أخذ وإن شاء ترك إن باع ولم يؤذنه فهو أحق به |
● سنن النسائى الصغرى | 4650 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل شرك ربعة أو حائط لا يصلح له أن يبيع حتى يؤذن شريكه إن باع فهو أحق به حتى يؤذنه |
● سنن ابن ماجه | 2499 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل ما لم يقسم إذا وقعت الحدود وصرفت الطرق فلا شفعة |
● سنن ابن ماجه | 2494 | جابر بن عبد الله | الجار أحق بشفعة جاره ينتظر بها إن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا |
● المعجم الصغير للطبراني | 513 | جابر بن عبد الله | الشفعة في كل شرك في ربع أو حائط لا يصلح له أن يبيعه حتى يؤذن شريكه فيأخذ أو يدع |
● بلوغ المرام | 763 | جابر بن عبد الله | الجار أحق بشفعة جاره ينتظر بها وإن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا |
● مسندالحميدي | 1309 | جابر بن عبد الله | أيكم كانت له أرض أو نخل فلا يبعها حتى يعرضها على شريكه |
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2499
´جائیداد کی حد بندی کے بعد حق شفعہ نہیں ہے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ ہر اس جائیداد میں ٹھہرایا ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو، اور جب حد بندی ہو جائے اور راستے جدا ہو جائیں تو اب شفعہ نہیں ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الشفعة/حدیث: 2499]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مشترک چیز میں اگر ایک شریک اپنا حصہ فروخت کرنا چاہے تو پہلے اپنے دوسرے شریکوں کو بتائے تاکہ اگر وہ خریدنا چاہیں تو خرید لیں۔
(2)
یہ حق زمین یا مکان میں بھی ہے اوردوسری کسی بھی مشترک چیز میں بھی۔
(3)
جب مشترک چیز تقسیم کر لی جائے اورمکان یا زمین کو تقسیم کرکے ہرشخص کا حصہ مقرر ہو جائے کہ یہاں تک فلاں کا حصہ ہے اوراس سے آگے فلاں کا حصہ ہے توشراکت ختم ہوجاتی ہے صرف ہمسائیگی باقی رہ جاتی ہے اس صورت میں جو شخص پہلے شریک تھا وہ ہمسائیگی کی بنیاد پرشفعے کا دعوی نہیں کر سکتا۔
(4)
بعض احادیث میں جو پڑوسی کے حق شفعہ کا ذکر ہے تو اس سے مراد مطلق پڑوسی نہیں بلکہ صرف وہ پڑوسی مراد ہے جو راستے یا زمین وغیرہ میں شریک ہو، اگر ایسا نہ ہوتو پھر پڑوسی بھی شفعے کا حق دار نہیں ہے اس لیے کہ جب یہ فرما دیا گیا کہ حد بندی اورراستے الگ الگ ہو جانےکے بعد حق شفعہ نہیں تو پھر محض پڑوسی ہونا پڑوسی کےحق شفعہ کا جواز نہیں بن سکتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2499
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1369
´غائب (جو شخص موجود نہ ہو) کے شفعہ کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پڑوسی اپنے پڑوسی (ساجھی) کے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے، جب دونوں کا راستہ ایک ہو تو اس کا انتظار کیا جائے گا ۱؎ اگرچہ وہ موجود نہ ہو۔“ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1369]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ حدیث اس بات پردلیل ہے کہ غیرحاضرشخص کا شفعہ باطل نہیں ہو تا،
نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شفعہ کے لیے مجرد ہمسائیگی ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے راستے میں اشتراک بھی ضروری ہے،
اس کی تائید ذیل کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ ”جب حدبندی ہوجائے اورراستے جدا جدا ہو جائیں تو پھر شفعہ کا استحقاق نہیں رہتا“۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1369
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2496
2496. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے ہر اس چیز میں شفعے کا فیصلہ فرمایا ہے جو ابھی تقسیم نہ کی گئی ہو۔ جب حد بندی ہوجائے اور راستے بدل دیے جائیں تو شفعہ نہیں رہتا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2496]
حدیث حاشیہ:
(1)
جب شرکاء مشترکہ چیز تقسیم کر لیں تو پھر شفعے اور رجوع کا حق باقی نہیں رہتا کیونکہ معاشرے کا استحکام اسی بنیاد پر ہے کہ جب معاہدہ طے پا جائے تو رجوع کا حق ساقط ہو جائے۔
اگر ایسے حالات میں رجوع کا حق دیا جائے تو معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا اور ریاست میں انتشار اور بدنظمی پھیلے گی۔
ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بیس سال پہلے خرید و فروخت کا ایک معاہدہ ہوا اور آج کسی کو شفعے کا حق دیا جائے تو اس طریقے سے تو کوئی کاروبار نہیں چل سکتا۔
(2)
حدیث میں شفعے کا ذکر ہے جبکہ باب میں رجوع کا بھی ذکر کیا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر شرکاء کو شفعے کا حق نہ رہے تو رجوع کا حق بالاولیٰ ختم ہو جائے گا کیونکہ اگر رجوع کا حق تسلیم کیا جائے تو شفعے کا بالاولیٰ تسلیم کرنا پڑے گا۔
جب نفئ شفعہ نفئ رجوع کو لازم ہے تو امام بخاری ؒ نے شفعے کے ساتھ رجوع کا بھی ذکر کر دیا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2496