الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: طلاق کے احکام و مسائل
The Book of Divorce
20. بَابُ : مَتَى يَقَعُ طَلاَقُ الصَّبِيِّ
20. باب: بچہ کی طلاق کس عمر میں واقع ہو گی۔
Chapter: When Does The Divorce Of A Boy Count?
حدیث نمبر: 3461
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا عبيد الله بن سعيد، قال: حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال: اخبرني نافع , عن ابن عمر ," ان رسول الله صلى الله عليه وسلم عرضه يوم احد وهو ابن اربع عشرة سنة، فلم يجزه، وعرضه يوم الخندق وهو ابن خمس عشرة سنة، فاجازه".
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَخْبَرَنِي نَافِعٌ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ ," أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَضَهُ يَوْمَ أُحُدٍ وَهُوَ ابْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَلَمْ يُجِزْهُ، وَعَرَضَهُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ وَهُوَ ابْنُ خَمْسَ عَشْرَةَ سَنَةً، فَأَجَازَهُ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو جنگ احد کے موقع پر (جنگ میں شریک ہونے کے لیے) ۱۴ سال کی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا تو آپ نے انہیں (جنگ میں شرکت کی) اجازت نہ دی۔ اور غزوہ خندق کے موقع پر جب کہ وہ پندرہ سال کے ہو چکے تھے اپنے آپ کو پیش کیا تو آپ نے اجازت دے دی (اور مجاہدین میں شامل کر لیا)۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشہادات 18 (2664)، المغازي 29 (4097)، سنن ابی داود/الخراج 16 (2957)، الحدود 17 (4406)، (تحفة الأشراف: 8153)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الإمارة 23 (1868)، سنن الترمذی/الأحکام 24 (1316)، الجہاد 31 (1711)، سنن ابن ماجہ/الحدود 4 (5243)، مسند احمد (2/17) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ پندرہ سال کا لڑکا جوان ہو جاتا ہے اور جب تک جوان نہیں ہو جاتا جس طرح جنگ میں شریک نہیں ہو سکتا اسی طرح طلاق بھی نہیں دے سکتا، ابن عمر رضی الله عنہما نے جو یہ کہا کہ جنگ احد کے موقع پر چودہ سال کی عمر میں اور غزوہ خندق کے موقع پر پندرہ سال کی عمر میں پیش ہوا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ چودہ سال کی عمر میں داخل ہو چکے تھے اور پندرہ سال کا مطلب ہے اس سے تجاوز کر چکے تھے، اس توجیہ سے غزوہ خندق کے وقوع سے متعلق جو اختلاف ہے اور اس اختلاف سے ابن عمر رضی الله عنہما کی عمر سے متعلق جو اشکال پیدا ہوتا ہے وہ رفع ہو جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
   صحيح البخاري4097عبد الله بن عمرعرضه يوم أحد وهو ابن أربع عشرة سنة فلم يجزه وعرضه يوم الخندق وهو ابن خمس عشرة سنة فأجازه
   صحيح البخاري2664عبد الله بن عمرعرضه يوم أحد وهو ابن أربع عشرة سنة فلم يجزني ثم عرضني يوم الخندق وأنا ابن خمس عشرة سنة فأجازني قال نافع فقدمت على عمر بن عبد العزيز وهو خليفة فحدثته هذا الحديث فقال إن هذا لحد بين الصغير والكبير وكتب إلى عماله أن يفرضوا لمن بلغ خمس عشرة
   صحيح مسلم4837عبد الله بن عمرعرضني رسول الله يوم أحد في القتال وأنا ابن أربع عشرة سنة فلم يجزني وعرضني يوم الخندق وأنا ابن خمس عشرة سنة فأجازني
   جامع الترمذي1711عبد الله بن عمرعرضت على رسول الله في جيش وأنا ابن أربع عشرة فلم يقبلني ثم عرضت عليه من قابل في جيش وأنا ابن خمس عشرة فقبلني
   جامع الترمذي1361عبد الله بن عمرعرضت على رسول الله في جيش وأنا ابن أربع عشرة فلم يقبلني فعرضت عليه من قابل في جيش وأنا ابن خمس عشرة فقبلني
   سنن أبي داود2957عبد الله بن عمرعرضه يوم أحد وهو ابن أربع عشرة فلم يجزه وعرضه يوم الخندق وهو ابن خمس عشرة سنة فأجازه
   سنن أبي داود4406عبد الله بن عمرعرضه يوم أحد وهو ابن أربع عشرة سنة فلم يجزه وعرضه يوم الخندق وهو ابن خمس عشرة سنة فأجازه
   سنن النسائى الصغرى3461عبد الله بن عمرعرضه يوم أحد وهو ابن أربع عشرة سنة فلم يجزه وعرضه يوم الخندق وهو ابن خمس عشرة سنة فأجازه
   سنن ابن ماجه2543عبد الله بن عمرعرضت على رسول الله يوم أحد وأنا ابن أربع عشرة سنة فلم يجزني وعرضت عليه يوم الخندق وأنا ابن خمس عشرة سنة فأجازني
   بلوغ المرام731عبد الله بن عمرعرضت على النبي يوم احد وانا ابن اربع عشرة سنة فلم يجزني وعرضت عليه يوم الخندق

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3461  
´بچہ کی طلاق کس عمر میں واقع ہو گی۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو جنگ احد کے موقع پر (جنگ میں شریک ہونے کے لیے) ۱۴ سال کی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا تو آپ نے انہیں (جنگ میں شرکت کی) اجازت نہ دی۔ اور غزوہ خندق کے موقع پر جب کہ وہ پندرہ سال کے ہو چکے تھے اپنے آپ کو پیش کیا تو آپ نے اجازت دے دی (اور مجاہدین میں شامل کر لیا)۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3461]
اردو حاشہ:
سرکاری دستاویزات میں پندرہ سال کے لڑکے کو بالغ اور اس سے کم کو نابالغ لکھا جائے گا کیونکہ حکومت کے پاس عمر وغیرہ کا ریکارڈ ہوتا ہے۔ باقی دو علامات میں ہیر پھیر ممکن ہے اگرچہ وہ قطعی علامات ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 3461   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2543  
´جس پر حد واجب نہیں ہے اس کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے غزوہ احد کے دن پیش کیا گیا، اس وقت میری عمر چودہ سال کی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (غزوہ میں شریک ہونے کی) اجازت نہیں دی، لیکن جب مجھے آپ کے سامنے غزوہ خندق کے دن پیش کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی، اس وقت میری عمر پندرہ سال تھی۔ نافع کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں نے عمر بن عبدالعزیز سے ان کے عہد خلافت میں بیان کی تو انہوں نے کہا: یہی نابالغ اور بالغ کی حد ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2543]
اردو حاشہ:
فوائد و  مسائل:

(1)
اس حدیث سے علماء نے استدلال کیا ہے کہ پندرہ سال کی عمر بلوغت کی عمر ہے لہٰذااس عمر کےبچے کو بالغ شمار کرنا چاہیے۔

(2)
عام حالات میں بلوغت کی دوسری علامت پراعتماد کیا جاتا ہے مثلا:
زیر ناف بال آ جانا یا احتلام ہونا، لڑکیوں کا مہانہ نظام شروع ہونا۔
لیکن اگر کسی بچے یابچی میں مناسب عمرمیں یہ علامتیں ظاہرنہ ہوتوپندرہ سال عمر مکمل ہونے پرانھیں بالغ قرار دیا جا سکتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2543   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 731  
´مفلس قرار دینے اور تصرف روکنے کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ مجھے احد کے روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو پیش کیا گیا۔ اس وقت میری عمر چودہ برس تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے جنگ میں شرکت کی اجازت نہ دی۔ پھر خندق کے روز مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا اس وقت میری عمر پندرہ برس تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے شرکت کی اجازت دے دی۔ (بخاری و مسلم) اور بیہقی کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت نہ دی اور مجھے بالغ نہیں سمجھا۔ ابن خزیمہ نے اسے صحیح کہا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 731»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الشهادات، باب بلوغ الصبيان وشهادتهم، حديث:2664، ومسلم، الإمارة، باب بيان سن البلوغ، حديث:1868، والبيهقي:3 /83.»
تشریح:
1. اس حدیث کی رو سے تصرفات کی عمر پندرہ سال میں شروع ہو جاتی ہے جسے قابل قبول اور قابل تسلیم سمجھا گیا ہے۔
2. مصنف بھی اس حدیث کو اس باب میں یہی بتانے کے لیے لائے ہیں کہ خرید و فروخت کس عمر کی قابل اعتبار ہے۔
گویا پندرہ سال سے کم عمر‘ بچہ اور پندرہ سال کا نوجوان‘ مردوں کے حکم میں آجاتا ہے۔
3.اس حدیث سے نوجوان کا شوق جہاد ملاحظہ کیجیے کہ آگے بڑھ کر خود اپنے آپ کو خدمت جہاد کے لیے پیش کرتا ہے۔
پہلی بار ناکامی کے بعد اگلے سال پھر قسمت آزمائی کرتا ہے اور اپنے عزم و ارادے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
4.معلوم ہوا کہ فوج میں بھرتی کے لیے اس سے کم عمر والوں کو نہیں لینا چاہیے۔
5.اس سے یہ اصول بھی نکلا کہ فوج کی بھرتی کے لیے پہلے جسمانی ٹیسٹ لینا چاہیے‘ اگر مناسب نہ ہو تو واپس بھیج دیا جائے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 731   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1711  
´حد بلوغت کا ذکر اور غنیمت سے اس کو کب حصہ دیا جائے گا اس کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک لشکر میں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا، میں چودہ سال کا تھا، تو آپ نے مجھے (جہاد میں لڑنے کے لیے) قبول نہیں کیا، پھر مجھے آپ کے سامنے آئندہ سال ایک لشکر میں پیش کیا گیا اور میں پندرہ سال کا تھا، تو آپ نے مجھے (لشکر میں) قبول کر لیا، نافع کہتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کو عمر بن عبدالعزیز سے بیان کیا تو انہوں نے کہا: چھوٹے اور بڑے کے درمیان یہی حد ہے، پھر انہوں نے فرمان جاری کیا کہ جو پندرہ سال کا ہو جائے اسے مال غنیمت سے حصہ دیا جائے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1711]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
لڑکا یا لڑکی کی عمر سن ہجری سے جب پندرہ سال کی ہوجائے تو وہ بلوغت کی حدکو پہنچ جاتا ہے،
اسی طرح سے زیرناف بال نکل آنا اوراحتلام کا ہونا بھی بلوغت کی علامات میں سے ہے،
اور لڑکی کو حیض آجائے تو یہ بھی بلوغت کی نشانی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1711   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2957  
´لڑائی میں کس عمر کے مرد کا حصہ لگایا جائے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ وہ غزوہ احد کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے اس وقت ان کی عمر (۱۴) سال تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غزوہ میں شرکت کی اجازت نہیں دی، پھر وہ غزوہ خندق کے موقع پر پیش کئے گئے اس وقت وہ پندرہ سال کے ہو گئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غزوہ میں شرکت کی اجازت دے دی۔ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 2957]
فوائد ومسائل:

بچہ پندرہ سال کی عمر میں بالغ شمار ہوتا ہے۔
اور شرعی امور کا مکلف ہوجاتا ہے۔
لہذا اسے جنگ وقتال میں بھی شریک کیا جا سکتا ہے۔
اس سے پہلے اسے جنگ میں لے جانا درست نہیں۔


اور جب جنگ میں شریک ہوگا۔
تو غنیمت میں سے باقاعدہ حصہ پائے گا۔


پندرہ سال یا علامات بلوغت سے پہلے اگر کسی جرم کا ارتکاب کرے تو اس پر شرعی حد لاگو نہیں ہوگی۔
تعزیر وتادیب ہوگی۔
اسی طرح اس کی دی ہوئی طلاق بھی نافذ العمل نہیں ہوگی۔
فیصلے میں اس کے ولی کی شمولیت ضروری ہوگی اور اسے اپنے مال سے باقاعدہ اور آزادانہ تصرف کا اختیار بھی اس کے بعد حاصل ہوگا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2957   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.