الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: ہبہ اور عطیہ کے احکام و مسائل
The Book of Presents
1. بَابُ : ذِكْرِ اخْتِلاَفِ أَلْفَاظِ النَّاقِلِينَ لِخَبَرِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ فِي النُّحْلِ
1. باب: عطیہ و ہبہ (بخشش) کے سلسلہ میں نعمان بن بشیر رضی الله عنہما کی حدیث کے ناقلین کے سیاق کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 3704
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
اخبرنا محمد بن هاشم، قال: حدثنا الوليد بن مسلم، قال: حدثنا الاوزاعي، عن الزهري، عن حميد بن عبد الرحمن، وعن محمد بن النعمان , عن النعمان بن بشير، ان اباه بشير بن سعد جاء بابنه النعمان، فقال: يا رسول الله إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اكل بنيك نحلت" قال: لا، قال:" فارجعه".
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ هَاشِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَعَنْ مُحَمَّدِ بْنِ النُّعْمَانِ , عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، أَنَّ أَبَاهُ بَشِيرَ بْنَ سَعْدٍ جَاءَ بِابْنِهِ النُّعْمَانِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي نَحَلْتُ ابْنِي هَذَا غُلَامًا كَانَ لِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَكُلَّ بَنِيكَ نَحَلْتَ" قَالَ: لَا، قَالَ:" فَارْجِعْهُ".
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کے والد بشیر بن سعد اپنے بیٹے نعمان کو لے کر آئے اور آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے اپنا ایک غلام اپنے اس بیٹے کو دے دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اپنے سارے بیٹوں کو بھی دیا ہے؟ کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: پھر تو تم اسے واپس لے لو۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 3702 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن
   صحيح البخاري2650نعمان بن بشيرألك ولد سواه قال نعم قال فأراه قال لا تشهدني على جور
   صحيح البخاري2587نعمان بن بشيرأعطيت سائر ولدك مثل هذا قال لا قال فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم
   صحيح البخاري2586نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلت مثله قال لا قال فارجعه
   صحيح مسلم4178نعمان بن بشيرأكل بنيك نحلت قال لا قال فاردده
   صحيح مسلم4185نعمان بن بشيرأكل بنيك قد نحلت مثل ما نحلت النعمان قال لا قال فأشهد على هذا غيري ثم قال أيسرك أن يكونوا إليك في البر سواء قال بلى قال فلا إذا
   صحيح مسلم4181نعمان بن بشيرأفعلت هذا بولدك كلهم قال لا قال اتقوا الله واعدلوا في أولادكم
   صحيح مسلم4186نعمان بن بشيرأكل ولدك أعطيته ما أعطيت هذا فقال لا فكره رسول الله أن يشهد له
   صحيح مسلم4182نعمان بن بشيرألك ولد سوى هذا قال نعم فقال أكلهم وهبت له مثل هذا قال لا قال فلا تشهدني إذا فإني لا أشهد على جور
   صحيح مسلم4177نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلته مثل هذا فقال لا فقال رسول الله فارجعه
   صحيح مسلم4183نعمان بن بشيرألك بنون سواه قال نعم قال فكلهم أعطيت مثل هذ
   صحيح مسلم4184نعمان بن بشيرلأبيه لا تشهدني على جور
   صحيح مسلم4180نعمان بن بشيركل إخوته أعطيته كما أعطيت هذا قال لا قال فرده
   جامع الترمذي1367نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلته مثل ما نحلت هذا قال لا قال فاردده
   سنن أبي داود3542نعمان بن بشيركلهم أعطيت مثل ما أعطيت النعمان قال لا هذا جور وقال بعضهم هذا تلجئة فأشهد على هذا غيري
   سنن أبي داود3544نعمان بن بشيراعدلوا بين أولادكم اعدلوا بين أبنائكم
   سنن النسائى الصغرى3715نعمان بن بشيرألك ولد غيره قال نعم وصف بيده بكفه أجمع كذا ألا سويت بينهم
   سنن النسائى الصغرى3702نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلت قال لا قال فاردده
   سنن النسائى الصغرى3703نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلته قال لا قال رسول الله فارجعه
   سنن النسائى الصغرى3704نعمان بن بشيرأكل بنيك نحلت قال لا قال فارجعه
   سنن النسائى الصغرى3706نعمان بن بشيرأباه نحله نحلا فقالت له أمه أشهد النبي على ما نحلت ابني فأتى النبي فذكر ذلك له فكره النبي أن يشهد له
   سنن النسائى الصغرى3710نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلت مثل ما نحلته قال لا قال فلا أشهد على شيء أليس يسرك أن يكونوا إليك في البر سواء قال بلى قال فلا إذا
   سنن النسائى الصغرى3709نعمان بن بشيركل بنيك نحلت مثل الذي نحلت النعمان
   سنن النسائى الصغرى3711نعمان بن بشيرألك ولد سوى هذا قال نعم فقال رسول الله أفكلهم وهبت لهم مثل الذي وهبت لابنك هذا قال لا قال رسول الله فلا تشهدني إذا فإني لا أشهد على جور
   سنن النسائى الصغرى3712نعمان بن بشيرألك ابن غير هذا قال نعم قال فوهبت له مثل ما وهبت لهذا قال لا قال فلا تشهدني إذا فإني لا أشهد على جور
   سنن النسائى الصغرى3717نعمان بن بشيراعدلوا بين أبنائكم
   سنن ابن ماجه2375نعمان بن بشيركل بنيك نحلت مثل الذي نحلت النعمان قال لا قال فأشهد على هذا غيري أليس يسرك أن يكونوا لك في البر سواء قال بلى قال فلا إذا
   سنن ابن ماجه2376نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلته قال لا قال فاردده
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم283نعمان بن بشيراكل ولدك نحلته مثل هذا؟
   بلوغ المرام788نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلته مثل هذا ؟
   مسندالحميدي948نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلت مثل هذا؟
   مسندالحميدي951نعمان بن بشيرأكل ولدك نحلت مثل هذا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 283  
´ساری اولاد کو (بیٹے ہوں یا بیٹیاں) برابر برابر تحفہ دینا بہتر اور افضل`
«. . . عن النعمان بن بشير انه قال: إن اباه اتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاما كان لي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اكل ولدك نحلته مثل هذا؟ فقال: لا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فارجعه. . . .»
. . . سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے ابا انہیں لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: میں نے اپنے اس بیٹے کو اپنا ایک غلام اپنی مرضی سے تحفہ دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تم نے اپنی ساری اولاد کو اسی طرح غلام تحفے میں دئیے ہیں؟ تو انہوں (نعمان بن بشیر کے والد رضی اللہ عنہ) نے جواب دیا: نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر اس (غلام) کو واپس لے لو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 283]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2586، ومسلم 1623/9، من حديث مالك به .]

تفقه:
➊ اگر کوئی شخص بیماری سے پہلے اپنی اولاد کو کوئی چیز برابر برابر انصاف کے ساتھ بطور تحفہ ہبہ کرے تو جائز ہے۔ بیماری کی حالت میں کیا گیا ہبہ وصیت ہوتا ہے۔ صحیح احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں:
«والوصية للوارث باطلة» اور وارث کے لئے وصیت باطل ہے۔ [التمهيد 225/7]
➋ ساری اولاد کو (بیٹے ہوں یا بیٹیاں) برابر برابر تحفہ دینا بہتر اور افضل ہے۔ اگر بعض اولاد کو دوسروں کی نسبت زیادہ تحفہ دیا جائے تو بعض علماء کے نزدیک یہ جائز ہے بشرطیکہ دوسری اولاد راضی ہو اورضرر نہ پایا جائے لیکن بہتر یہی ہے کہ یہ برابر برابر ہی ہو۔
➌ ایک آدمی تحفہ دینے میں اپنی بعض اولاد کو بعض پر فضیلت دینا چاہتا تھا تو قاضی شریح رحمہ اللہ نے اسے ظلم قرار دیا اور گواہی دینے سے انکار کر دیا۔ [مصنف ابن ابي شيبه 221/11، 222/11 ح 30989 وسنده صحيح، سعيد بن حيان تيمي ثقته]
➍ اس حدیث سے اشارتاً اور دوسری حدیث سے صراحتاً ثابت ہے کہ ہبہ واپس کرنا جائز نہیں ہے سوائے والد کے، وہ اپنی اولاد سے ہبہ واپس لے سکتا ہے۔ دیکھئے: [سنن ابي داود: 3539 وسنده صحيح، سنن الترمذي 1299، وقال: حسن صحيح، وصححه ابن الجارود: 994 وابن حبان، الاحسان:5101 5123 والحاكم 46/2 والذهبي]
● بعض علماء کے نزدیک والدہ کا بھی یہی حکم ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 33   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2376  
´اپنی اولاد کو عطیہ دینے اور ہبہ کرنے کا بیان۔`
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان کے والد نے ان کو ایک غلام دیا، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تاکہ آپ کو اس پر گواہ بنائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے اپنے سارے بیٹوں کو ایسے ہی دیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تب اس کو واپس لے لو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الهبات/حدیث: 2376]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  اولاد سے برابراسلوک کرنا چاہيے۔
روز مرہ کی ضروریات میں برابری یہ ہے کہ ہر ایک کواس کی ضرورت کےمطابق دیا جائے، مثلاً:
جس بچے کولباس کی ضرورت ہو اسےلباس مہیا کیا جائے۔
جسے علاج کی ضرورت ہو اس کاعلاج کرایا جائے۔
اس کے علاوہ عطیات میں برابر ضروری ہے۔

(2)
وراثت میں لڑکے اورلڑکی کےحصے میں فرق ہے لیکن عطیے میں یہ فرق نہیں۔

(3)
خریدوفروخت کی طرح قیمتی چیز ہبہ کرتے وقت بھی گواہ بنا لینا مناسب ہے۔

(4)
اولاد سے برابر حسن سلوک کا یہ فائدہ ہے کہ سب بچوں کےدل میں والدین کی محبت برابر ہو گی لہٰذا وہ بھی برابر احترام اورخدمت کرنے کی کوشش کریں گے۔

(5)
شرعی حکم بیان کرکے اس کی حکمت بھی بیان کردینے کا یہ فائدہ ہے کہ سائل مطمئن ہوجاتا ہےاورخوشی سےاس پرعمل کرتا ہے۔

(6)
والدین اپنی اولاد کوبہہ کی ہوئی چیز واپس لےسکتے ہیں۔

(7)
اگر لاعلمی میں کوئی ایسا کام ہو جائے جوشرعاً ممنوع ہوتو اس کی ہرممکن تلافی کرنا ضروری ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2376   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 788  
´ھبہ عمری اور رقبی کا بیان`
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنا ذاتی غلام اپنے اس بیٹے کو ہبہ کر دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کیا تو نے اپنی ساری اولاد کو اس طرح (غلام) ہبہ کیا ہے؟ اس نے کہا نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر اسے واپس کر لو اور ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ میرے والد صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ میرے ہبہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو گواہ بنائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کیا تو نے ایسا اپنی ساری اولاد کے ساتھ کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل و انصاف کرو چنانچہ میرے والد نے وہ ہبہ واپس کر لیا۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر میرے سوا کسی اور کو اس پر گواہ بنا لو۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تجھے یہ پسند نہیں ہے کہ تیری ساری اولاد تیرے ساتھ یکساں بھلائی کا سلوک کرے؟ وہ بولا کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر ایسا مت کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 788»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الهبة، باب الإشهاد في الهبة، حديث:2587، ومسلم، الهبات، باب كراهة تفضيل بعض الأولاد في الهبة،حديث:1623.»
تشریح:
یہ حدیث دلیل ہے کہ اولاد کو‘ خواہ مذکر ہو یا مؤنث‘ عطیہ دینے میں مساویانہ سلوک کرنا چاہیے۔
امام احمد‘ ثوری اور اسحاق رحمہم اللہ وغیرہ کا قول ہے کہ جب برابری نہ ہو تو ہبہ باطل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت بشیر رضی اللہ عنہ کو یہ فرمانا کہ غلام کو واپس لے لو اسی کی تائید کرتا ہے۔
مگر جمہور علماء کے نزدیک یہ برابری مستحب ہے‘ واجب نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 788   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1367  
´عطیہ دینے اور اولاد کے درمیان برابری کرنے کا بیان۔`
نعمان بن بشیر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ان کے باپ (بشیر) نے اپنے ایک بیٹے کو ایک غلام دیا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تاکہ آپ کو اس پر گواہ بنائیں، تو آپ نے ان سے پوچھا: کیا تم نے اپنے تمام لڑکوں کو ایسا ہی غلام عطیہ میں دیا ہے ۱؎ جیسا اس کو دیا ہے؟ کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: تو اسے واپس لے لو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1367]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اولاد کو ہبہ کر نے میں مساوات کا یہ حکم جمہور کے نزدیک استحباب کے لیے ہے،
موطا میں صحیح سند سے مذکور ہے کہ ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے اپنے مرض الموت میں عائشہ رضی الله عنہا سے فرمایا تھا إني كنت نحلت نحلا فلو كنت اخترتيه لكان لك وإنما هو اليوم للوارث (میں نے تم کو کچھ ہبہ کے طور پر دینا چاہا تھا اگر وہ تم لے لیتی تو وہ تمہارا ہو جاتا،
اور اب تو وہ وارثوں ہی کا ہے،
)
اسی طرح عمر رضی الله عنہ کا واقعہ طحاوی وغیرہ نے ذکر کیا ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے عاصم کو کچھ ہبہ کے طور پر دیا تھا،
امام احمد بن حنبل وغیرہ کی رائے ہے کہ اولاد کے درمیان ہبہ میں عدل کرنا واجب ہے اور ایک کو دوسرے سے زیادہ دینا حرام ہے،
یہ لوگ شیخین (ابوبکر وعمر رضی الله عنہما) کے ان اقدامات کا جواب یہ دیتے ہیں کہ ان اقدامات پر ان کے دیگر بچے راضی تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1367   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3542  
´باپ اپنے بعض بیٹوں کو زیادہ عطیہ دے تو کیسا ہے؟`
نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے کوئی چیز (بطور عطیہ) دی، (اسماعیل بن سالم کی روایت میں ہے کہ انہیں اپنا ایک غلام بطور عطیہ دیا) اس پر میری والدہ عمرہ بنت رواحہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جایئے (اور میرے بیٹے کو جو دیا ہے اس پر) آپ کو گواہ بنا لیجئے، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (آپ کو گواہ بنانے کے لیے) حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا ذکر کیا اور کہا کہ میں نے اپنے بیٹے نعمان کو ایک عطیہ دیا ہے اور (میری بیوی) عمرہ نے کہا ہے کہ میں آپ کو اس۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3542]
فوائد ومسائل:

والدین پرواجب ہے عطیہ وہدیہ کے سلسلے میں سب اولاد لڑکے اور لڑکیوں میں بلا امتیاز برابری رکھیں۔
اور اگر کوئی بچہ زیادہ خدمت کرتا ہو۔
تو وہ اس کی اپنی سعادت ہے۔
جس کا اجر اسے اللہ کے ہاں ملے گا۔
علاوہ ازیں اسے ماں باپ کی شفقت اور دعایئں بھی زیادہ حاصل ہوں گی۔
لیکن والدین مالی لحاظ سے اسے دوسروں پرترجیح نہیں دے سکتے۔
اگر ایسا کریں گے تو یہ ظلم ہوگا۔


اولاد پر واجب ہے کہ اپنے والدین کی خدمت اور احسان مندی کو سعادت جانیں اور اس طرح مت سوچیں کہ فلاں تو کرتا نہیں۔
بلکہ یوں سوچیں کہ یہ خدمت میں نے ہی کرنی ہے۔


ظلم کا گواہ بننا بھی ناجائز اور گناہ میں تعاون ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
(وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ) (المائدة: 2) یعنی گناہ اورزیادتی پر ایک دوسرے پر تعاون مت کرو

داعی اور مربی پر لازم ہے کہ حق سمجھانے میں مخاطب کو فکری اور نظری اعتبار سے قائل اور مطمین کرے۔


اس روایت میں مجالد کے الفاظ کا اضافہ صحیح نہیں ہے۔
(علامہ البانی)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3542   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.