اخبرنا مجاهد بن موسى، قال: حدثنا إسماعيل وهو ابن علية، عن يونس، عن الحسن، عن ابي موسى الاشعري، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إذا تواجه المسلمان بسيفيهما , فقتل احدهما صاحبه، فالقاتل والمقتول في النار". قال رجل: يا رسول الله، هذا القاتل , فما بال المقتول؟، قال:" إنه اراد قتل صاحبه". أَخْبَرَنَا مُجَاهِدُ بْنُ مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل وَهُوَ ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا تَوَاجَهَ الْمُسْلِمَانِ بِسَيْفَيْهِمَا , فَقَتَلَ أَحَدُهُمَا صَاحِبَهُ، فَالْقَاتِلُ وَالْمَقْتُولُ فِي النَّارِ". قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا الْقَاتِلُ , فَمَا بَالُ الْمَقْتُولِ؟، قَالَ:" إِنَّهُ أَرَادَ قَتْلَ صَاحِبِهِ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ آمنے سامنے ہوں پھر ان میں سے ایک دوسرے کو قتل کر دے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم میں ہوں گے“، ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو قاتل ہے لیکن مقتول کا کیا معاملہ ہے؟ آپ نے فرمایا: ”اس نے بھی اپنے ساتھی کے قتل کا ارادہ کیا تھا“۔
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3964
´جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم بھڑ جائیں تو ان کے حکم کا بیان۔` ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم لڑ پڑیں، تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہوں گے“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو قاتل ہے (قتل کرنے کی وجہ سے جہنم میں جائے گا) مگر مقتول کا کیا گناہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ بھی تو اپنے ساتھی کے قتل کا ارادہ رکھتا تھا۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3964]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) ۔ جب کوئی شخص جرم کی پوری کوشش کرے لیکن کسی وجہ سے کامیاب نہ ہوسکے تو اللہ کے ہاں وہ بھی مجرم ہے۔
(2) جو شخص ارتکاب جرم کا عزم رکھتا ہو لیکن ارتکاب سے پہلے رجوع کرلے تو اس کا گناہ معاف ہوجاتا ہے اور تو بہ کی وجہ سے ثواب کا مستحق ہوجاتا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3964