الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غلاموں کی آزادی کے بیان میں
The Book of Manumission (of Slaves)
20. بَابُ إِذَا ضَرَبَ الْعَبْدَ فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ:
20. باب: اگر کوئی غلام یا لونڈی کو مارے تو چہرے پر نہ مارے۔
(20) Chapter. If somebody beats a slave, he should avoid his face.
حدیث نمبر: 2559
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
حدثنا محمد بن عبيد الله، حدثنا ابن وهب، قال: حدثني مالك بن انس، قال: واخبرني ابن فلان، عن سعيد المقبري، عن ابيه، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم. ح وحدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا عبد الرزاق، اخبرنا معمر، عن همام، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا قاتل احدكم فليجتنب الوجه".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، قَالَ: وَأَخْبَرَنِي ابْنُ فُلَانٍ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ هَمَّامٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا قَاتَلَ أَحَدُكُمْ فَلْيَجْتَنِبِ الْوَجْهَ".
ہم سے محمد بن عبیداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے امام مالک بن انس نے بیان کیا، کہا کہ مجھے ابن فلاں (ابن سمعان) نے خبر دی، انہیں سعید مقبری نے، انہیں ان کے باپ نے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اور (دوسری سند اور امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا) اور ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا، کہا ہم کو معمر نے خبر دی ہمام سے اور انہیں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی کسی سے جھگڑا کرے تو چہرے (پر مارنے) سے پرہیز کرے۔

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "If somebody fights (or beats somebody) then he should avoid the face."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 46, Number 734

   صحيح البخاري2559عبد الرحمن بن صخرإذا قاتل أحدكم فليجتنب الوجه
   صحيح مسلم6653عبد الرحمن بن صخرإذا قاتل أحدكم أخاه فليجتنب الوجه
   صحيح مسلم6656عبد الرحمن بن صخرإذا قاتل أحدكم أخاه فليجتنب الوجه
   صحيح مسلم6654عبد الرحمن بن صخرإذا قاتل أحدكم أخاه فليتق الوجه
   صحيح مسلم6655عبد الرحمن بن صخرإذا قاتل أحدكم أخاه فلا يلطمن الوجه
   صحيح مسلم6656عبد الرحمن بن صخرإذا قاتل أحدكم أخاه فليجتنب الوجه الله خلق آدم على صورته
   سنن أبي داود4493عبد الرحمن بن صخرإذا ضرب أحدكم فليتق الوجه
   صحيفة همام بن منبه13عبد الرحمن بن صخرإذا قاتل أحدكم أخاه فليتجنب الوجه
   بلوغ المرام1287عبد الرحمن بن صخر‏‏‏‏إذا قاتل احدكم فليجتنب الوجه
   بلوغ المرام1066عبد الرحمن بن صخر إذا ضرب أحدكم فليتق الوجه
   مسندالحميدي1154عبد الرحمن بن صخرإذا ضرب أحدكم فليجتنب الوجه؛ فإن الله خلق آدم على صورته

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1287  
مسلمان کو چہرے پر مارنا منع ہے
«وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم:‏‏‏‏إذا قاتل احدكم فليجتنب الوجه ‏‏‏‏ متفق عليه .»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص لڑے تو چہرے سے بچے۔ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع: 1287]
تخریج:
[بخاري 2559]،
[مسلم/البر والصلة 112]،
[تحفة الاشراف 204/10]

فوائد:
چہرے پر مارنے کی ممانعت:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کو ایک دوسرے کے چہرے پر کوئی بھی چیز مارنا منع ہے حتیٰ کہ اپنے غلام، خادم یا شاگرد کو ادب سکھانے کے لئے یا سزا دیتے وقت بھی منہ پر کوئی چیز مارنا حرام ہے۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع روایت میں یہ لفظ آئے ہیں:
«اذا ضرب احدكم خادمه فليجتنب الوجه» [صحيح الادب المفرد حديث نمبر130]
جب تم میں سے کوئی اپنے خادم کو مارے تو چہرے سے بچے۔
آپس میں لڑائی ہو جائے غصہ اور جذبات کتنے ہی مشتعل کیوں نہ ہوں مسلمان کے منہ پر ہتھیار چھوڑ کر تھپٹر بھی نہ مارے۔
ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں:
«اذا قاتل احدكم اخاه فلا يلطمن الوجه» [مسلم/البروالصلة 116]
جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے لڑے تو منہ پر تھپٹر نہ مارے۔
سزا دیتے وقت بھی منہ پر نہ مارے:
ایک روایت میں «قَاتَلَ» کی جگہ «اِذَا ضَرَبَ اَحَدُكُمْ» کے لفظ ہیں۔ [مسلم - البر والصلة 112]
یعنی صرف لڑائی ہی نہیں کسی وجہ سے بھی مارے تو چہرے پر مارنے سے بچے۔
باکسنگ:
باکسنگ میں چونکہ ایک دوسرے کے چہرے کو نشانہ بنایا جاتا ہے اس لئے اس حدیث کی رو سے یہ وحشیانہ کھیل حرام ہے۔
چہرے پر مارنا کیوں منع ہے؟:
چہرے پر مارنے کی حرمت کی ایک وجہ تو صاف ظاہر ہے کہ یہ انسانی حسن و جمال کا مظہر ہے اور آدمی کے اکثر حواس مثلاً دیکھنا، سننا، چکھنا اور سونگھنا چہرے میں ہی پائے جاتے ہیں۔ چہرے پر مارنے کی صورت میں ان تمام حواس کا یا ان میں سے کسی ایک کا ختم ہو جانا یا خراب ہو جانا عین ممکن ہے اور شکل بگڑنے کا بھی اندیشہ ہے۔ کسی مسلم بھائی کے ساتھ اتنی زیادتی کی صورت بھی جائز قرار نہیں دی جا سکتی۔
دوسری وجہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے۔ صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ:
«‏‏‏‏اذا قاتل احدكم اخاه فليجتنب الوجه فان الله خلق آدم على صورته» [مسلم البر والصلة 115]
جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے لڑے تو چہرے سے بچے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا۔
اس حدیث میں مارنے سے ممانعت کی وجہ سے انسانی چہرے کی تکریم قرار دی گئی ہے۔ بعض لوگ اس حدیث کی یہ تشریح کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو اس (آدم) کی صورت پر پیدا فرمایا، مگر ابن ابی عاصم نے کتاب السنہ میں ابويونس عن ابی ہریرة رضی اللہ عنہ کے طریق سے یہی روایت ان الفاظ میں بیان کی ہے:
«من قاتل فليجتنب الوجه فان صورة وجه الانسان على صورة وجه الرحمن»
جو شخص لڑے وہ چہرے سے بچے کیونکہ انسان کے چہرے کی صورت رحمان کے چہرے کی صورت پر ہے۔ فتح الباری میں اس مفہوم کی اور روایات بھی لکھی ہیں، دیکھیے: [جلد 5 حديث 2559]
اسحاق بن راہویہ اور احمد بن حنبل رحمها الله نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا جس میں ہے کہ اللہ نے آدم کو رحمان کی صورت پر پیدا فرمایا۔ [فتح الباري، حواله مذكوره ]
البتہ یہ بات خاص طور پر مدنظر رہنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کہ:
«لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ» [الشوريٰ 11]
اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں اور وہ سمیع و بصیر ہے۔
اسی طرح اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا مگر اس سے مراد کیا ہے؟ اس کی اصل حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے اتنی بات یقینی ہے کہ اللہ کی مثل کوئی چیز نہیں۔ مخلوق کو خالق کے ساتھ تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔
کافر کو چہرے پر مارنے کا حکم:
بعض علماء نے لکھا ہے کہ جہاد میں بھی چہرے پر مارنا جائز نہیں، مگر یہ بات درست نہیں۔ اصل یہ ہے کہ کفار اپنے کفر کی وجہ سے شرف انسانی سے محروم ہیں ان کی کوئی تکریم نہیں «أُولَـٰئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَـٰئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ» [7-الأعراف:179]
یہ لوگ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بڑھ کر گمراه۔
قیامت کے دن اس حقیقت کا اظہار اس طرح ہو گا کہ ابراہیم علیہ السلام کے والد آزر کا چہرہ انسان کی بجائے بجو کا کر دیا جائے گا۔ [بخاري۔ كتاب احاديث الانبياء /8 ]
عزت و تکریم صرف مومن کے لئے ہے۔
«وَلِلَّـهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ» [المنافقون: 8]
عزت صرف اللہ کے لئے، اس کے رسول کے لئے اور مومنوں کے لئے ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کفار کے متعلق فرمایا۔
«فَاضْرِبُوا فَوْقَ الْأَعْنَاقِ وَاضْرِبُوا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ» [8-الأنفال:12]
ان کی گردنوں کے اوپر مارو اور ان کے ہر پورے پر مارو۔
اب ظاہر ہے گر دنوں سے اوپر کھوپڑی اور چہرہ ہی ہے۔ اور اتنی نفاست سے مارنا کہ صرف کھوپڑی پر لگے اور چہرے پر نہ لگے۔ ممکن ہی نہیں اور فرمایا کہ فرشتے کفار کو فوت کرتے وقت «يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ» [محمد: 27] ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے ہیں۔
سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غزوہ حنین میں جب کفار نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو چاروں طرف سے گھیر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر سے اتر پڑے پھر آپ نے زمین سے مٹی کی ایک مٹھی پکڑی اور اسے ان کے چہروں کی طرف پھینک کر فرمایا: «شَاهَتِ الْوُجُوْهُ» چہرے بگڑ جائیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان سب کی آنکھوں کو مٹی سے بھر دیا، وہ پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے اور اللہ نے انہیں شکست دے دی۔ [مسلم۔ كتاب الجهاد والسير /81]
دیکھئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے چہروں کو نشانہ بنایا اور ان کے چہروں کے بگڑنے کے لئے خاص بددعا کی۔
بدلے کی صورت میں چہرے پر مارنا جائز ہے:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ» [2-البقرة:194]
جو تم پر زیادتی کرے تم اس پر اس کی مثل زیادتی کرو جو اس نے کی۔
اور فرمایا:
«وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ» [5-المائدة:45]
ہم نے ان پر اس (توراة) میں لکھ دیا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور زخموں کا بدلہ ہے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 173   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1066  
´شراب پینے والے کی حد اور نشہ آور چیزوں کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی حد لگائے تو چہرے کو بچائے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1066»
تخریج:
«أخرجه البخاري، العتق، باب إذا ضرب العبد فليجتنب الوجه، حديث:2559، ومسلم، البروالصلة، باب النهي عن ضرب الوجه، حديث:2612.»
تشریح:
1. مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ سزا دیتے وقت چہرے پر مارنا ناجائز اور غلط ہے۔
2.اگر کسی وجہ سے بچوں‘ زیر دستوں یا کسی بھی انسان یا حیوان کو مارنے کی نوبت آجائے تو چہرے پر مارنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
3.چہرہ شرف انسانی کا ترجمان ہے۔
4. مذکورہ حدیث کو یہاں ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حدود کے اجرا میں چہرے اور دیگر نازک اعضاء پر مارنے سے احتراز کرنا چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1066   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4493  
´حد میں چہرے پر مارنا منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی کسی کو مارے تو چہرے پر مارنے سے بچے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4493]
فوائد ومسائل:
اس حديث كو اس باب میں دوباره لانے سے یہ بتلانا مقصود ہے کہ جس طرح حج میں چہرے پر نہیں مارنا اسی طرح تعزیری سزا میں چہرہ زد و کوب سے محفوظ رہنا چاہیے۔
واللہ اعلم
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4493   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2559  
2559. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اگر کسی کو مار پیٹ کرے تو چہرے پر مارنے سے پرہیز کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2559]
حدیث حاشیہ:
مارپیٹ میں چہرے پر مارنے سے پرہیز صرف غلام کے ساتھ خاص نہیں ہے۔
یہاں چونکہ غلاموں کا بیان ہورہا تھا اس لیے عنوان میں اسی کا خصوصیت سے ذکر کیا۔
بلکہ چہرے پر مارنے سے پرہیز کا حکم تمام انسانوں بلکہ جانوروں تک کے لیے ہے۔
حضرت امام ؒنے روایت میں ایک راوی کا نام نہیں لیا۔
صرف ابن فلاں سے یاد کیا ہے اور وہ ابن سمعان ہے اور وہ ضعیف ہے۔
اسے امام مالک ؒ اور امام محمد ؒ نے جھوٹا کہا ہے اور امام بخاری نے اس کی روایت اس مقام کے سوا اور کہیں اس کتاب میں نہیں نکالی اور یہاں بھی بطور متابعت کے ہے۔
کیوں کہ امام مالک اور عبدالرزاق کی روایت بھی بیان کی۔
تشریح:
اسلم کی روایت میں صاف إذا ضرب هے اور اس حدیث میں گو خادم کو مارنے کی صراحت نہیں ہے مگر امام بخاری نے اس طریق کی طرف اشارہ کیا جس کو انہوں نے ادب المفرد میں نکالا اس میں یوں ہے۔
إذا ضرب خادمه یعنی جب کوئی تم میں سے اپنے خادم کو مارے۔
حافظ ؒنے کہا یہ عام ہے خواہ کسی حد میں مارے یا تعزیر میں ہر حال میں منه پر نہ مارنا چاہئے۔
اس کی وجہ مسلم کی روایت میں یوں مذکور ہے۔
کیوں کہ اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر بنایا (وحیدی)
ویسے چہرے پر مارنا ادب اور اخلاق کے بھی سراسر خلاف ہے۔
اگر مارنا ہی ہو تو جسم کے دیگر اعضاءموجود ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں:
قَالَ النَّوَوِيُّ قَالَ الْعُلَمَاءُ إِنَّمَا نَهَى عَنْ ضَرْبِ الْوَجْهِ لِأَنَّهُ لَطِيفٌ يَجْمَعُ الْمَحَاسِنَ وَأَكْثَرُ مَا يَقَعُ الْإِدْرَاكُ بِأَعْضَائِهِ فَيُخْشَى مِنْ ضَرْبِهِ أَنْ تَبْطُلَ أَوْ تَتَشَوَّهَ كُلُّهَا أَوْ بَعْضُهَا وَالشَّيْنُ فِيهَا فَاحِشٌ لِظُهُورِهَا وَبُرُوزِهَا بَلْ لَا يَسْلَمُ إِذَا ضَرَبَهُ غَالِبًا مِنْ شَيْنٍ اه وَالتَّعْلِيلُ الْمَذْكُورٌ حَسَنٌ لَكِنْ ثَبَتَ عِنْدَ مُسْلِمٍ تَعْلِيلٌ آخَرُ فَإِنَّهُ أَخْرَجَ الْحَدِيثَ الْمَذْكُورَ مِنْ طَرِيقِ أَبِي أَيُّوبَ الْمَرَاغِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَزَادَ فَإِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَتِهِ وَاخْتُلِفَ فِي الضَّمِيرِ عَلَى مَنْ يَعُودُ فَالْأَكْثَرُ عَلَى أَنَّهُ يَعُودُ عَلَى الْمَضْرُوبِ لِمَا تَقَدَّمَ مِنَ الْأَمْرِ بِإِكْرَامِ وَجْهِهِ وَلَوْلَا أَنَّ الْمُرَادَ التَّعْلِيلُ بِذَلِكَ لَمْ يَكُنْ لِهَذِهِ الْجُمْلَةِ ارْتِبَاطٌ بِمَا قَبْلَهَا وَقَالَ الْقُرْطُبِيُّ أَعَادَ بَعْضُهُمُ الضَّمِيرَ عَلَى اللَّهِ مُتَمَسِّكًا بِمَا وَرَدَ فِي بَعْضِ طُرُقِهِ إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ عَلَى صُورَةِ الرَّحْمَنِ إلی آخرہ۔
(فتح الباري)
خلاصہ مطلب یہ کہ علماءنے کہا ہے چہرے پر مارنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ یہ عضو لطیف ہے جو جملہ محاسن کا مجموعہ ہے اور اکثر ادراک کا وقوع چہرے کے اعضاء ہی سے ہوتا ہے۔
پس اس پر مارنے سے خطرہ ہے کہ اس میں کئی ایک نقائص و عیوب پیدا ہوجائیں، پس یہ علت بہتر ہے جن کی بنا پر چہرے پر مارنا منع کیاگیا ہے۔
لیکن امام مسلم کے نزدیک ایک اور علت ہے۔
انہوں نے اس حدیث کو ابوایوب مراغی کی سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کیا ہے۔
جس میں یہ لفظ زیادہ ہیں کہ اللہ نے آدم کو اس کی صورت پر پیدا کیا ہے اگر چہ ضمیر کے مرجع میں اختلاف ہے مگر اکثر علماءکے نزدیک یہ ضمیر مضروب ہی کی طرف لوٹتی ہے۔
اس لیے کہ پہلے چہرے کے اکرام کا حکم ہوچکا ہے۔
اگر یہ تعلیل مراد نہ لی جائے تو اس جملہ کا ماقبل سے کوئی ربط باقی نہیں رہ جاتا۔
قرطبی نے کہا کہ بعض نے ضمیر کو اللہ کی طرف لوٹایا ہے۔
دلیل میں بعض طرق کی اس عبارت کو پیش کیا ہے جس میں ذکر ہے کہ اللہ نے آدم کو رحمن کی صورت پر پیدا کیا۔
مترجم کہتا ہے کہ قرآن کی نص صریح ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ﴾ دلیل ہے کہ اللہ پاک کو اور اس کے چہرے کو کسی سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی۔
واللہ أعلم بالصواب۔
اہل حدیث کا یہی مذہب ہے کہ اللہ پاک اپنی ذات اور جملہ صفات میں وحدہ لاشریک لہ ہے اور اس بارے میں کرید کرنا بدعت ہے۔
جیسا کہ استواءعلی العرش کے متعلق سلف کا عقیدہ ہے۔
وباللہ التوفیق۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2559   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2559  
2559. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اگر کسی کو مار پیٹ کرے تو چہرے پر مارنے سے پرہیز کرے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2559]
حدیث حاشیہ:
(1)
صحیح مسلم کی روایت میں قاتل کی جگہ کی جگہ لفظ ضرب ہے۔
(صحیح مسلم، البروالصلة، حدیث: 6652(2612)
اس حدیث میں اگرچہ خادم کو مارنے کی صراحت نہیں مگر امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب "الادب المفرد" میں یہ روایت بیان کی ہے کہ جب تم میں سے کوئی اپنے خادم کو مارے تو چہرے پر مارنے سے پرہیز کرے۔
(الأدب المفرد، حدیث: 174) (2)
مار پیٹ کے دوران چہرے پر مارنے سے بچنا صرف غلام یا خادم کے ساتھ خاص نہیں بلکہ چہرے پر مارنے سے پرہیز کا حکم تمام انسانوں بلکہ جانوروں تک کے لیے ہے کیونکہ چہرہ ایک ایسا عضو لطیف ہے جو جملہ محاسن (تمام خوبصورتیوں)
کا مجموعہ ہے۔
اس پر مارنے سے کئی ایک عیوب اور نقائص کا اندیشہ ہے۔
ویسے بھی چہرے پر مارنا ادب اور اخلاق کے سراسر خلاف ہے۔
اگر مارنا ضروری ہو تو جسم کے دوسرے اعضاء کو زدوکوب کر لیا جائے۔
سکول کے اساتذہ اور مدارس کے قراء حضرات کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2559   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.