الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: شکار اور ذبیحہ کے احکام و مسائل
The Book of Hunting and Slaughtering
26. بَابُ : الضَّبِّ
26. باب: ضب کا بیان۔
Chapter: Mastigures
حدیث نمبر: 4321
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا كثير بن عبيد، عن محمد بن حرب، عن الزبيدي، قال: اخبرني الزهري، عن ابي امامة بن سهل، عن عبد الله بن عباس، عن خالد بن الوليد، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتي بضب مشوي , فقرب إليه، فاهوى إليه بيده لياكل منه، قال له من حضر: يا رسول الله، إنه لحم ضب , فرفع يده عنه، فقال له خالد بن الوليد: يا رسول الله , احرام الضب؟، قال:" لا، ولكن لم يكن بارض قومي فاجدني اعافه"، فاهوى خالد إلى الضب فاكل منه، ورسول الله صلى الله عليه وسلم ينظر.
أَخْبَرَنَا كَثِيرُ بْنُ عُبَيْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ حَرْبٍ، عَنِ الزُّبَيْدِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الزُّهْرِيُّ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِضَبٍّ مَشْوِيٍّ , فَقُرِّبَ إِلَيْهِ، فَأَهْوَى إِلَيْهِ بِيَدِهِ لِيَأْكُلَ مِنْهُ، قَالَ لَهُ مَنْ حَضَرَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ لَحْمُ ضَبٍّ , فَرَفَعَ يَدَهُ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَحَرَامٌ الضَّبُّ؟، قَالَ:" لَا، وَلَكِنْ لَمْ يَكُنْ بِأَرْضِ قَوْمِي فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ"، فَأَهْوَى خَالِدٌ إِلَى الضَّبِّ فَأَكَلَ مِنْهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ.
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھنا ہوا ضب لایا گیا اور آپ کے قریب رکھا گیا، آپ نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تاکہ اس سے کھائیں، تو وہاں موجود کچھ لوگوں نے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو ضب کا گوشت ہے، آپ نے اس سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا، اس پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا کہ اللہ کے رسول! کیا ضب حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، لیکن میری قوم کی زمین میں نہیں تھا، لہٰذا مجھے اس سے گھن آ رہی ہے، پھر خالد رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ ضب کی طرف بڑھایا اور اس میں سے کھایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأطعمة 10 (5391)، 14 (5400)، الذبائح 33 (5537)، صحیح مسلم/الذبائح 7 (1946)، سنن ابی داود/الأطعمة 28 (3794)، سنن ابن ماجہ/الصید 16 (3241)، (تحفة الأشراف: 3504)، موطا امام مالک/الإستئذان 4 (10)، مسند احمد (4/88، 89)، سنن الدارمی/الصید 8 (2060) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
   صحيح البخاري5537خالد بن الوليدلم يكن بأرض قومي فأجدني أعافه
   صحيح البخاري5391خالد بن الوليدلم يكن بأرض قومي فأجدني أعافه
   صحيح البخاري5400خالد بن الوليدلا يكون بأرض قومي فأجدني أعافه
   سنن أبي داود3794خالد بن الوليدلم يكن بأرض قومي فأجدني أعافه
   سنن النسائى الصغرى4321خالد بن الوليدلم يكن بأرض قومي فأجدني أعافه
   سنن ابن ماجه3241خالد بن الوليدلم يكن بأرضي فأجدني أعافه
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم404خالد بن الوليدلم يكن بارض قومي فاجدني اعافه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 404  
´ہر حلال چیز کا کھانا ضروری نہیں`
«. . . عن خالد بن الوليد بن المغيرة المخزومي: انه دخل مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بيت ميمونة، قال: فاتي بضب محنوذ فاهوى إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده، فقال بعض النسوة اللاتي فى بيت ميمونة: اخبروا رسول الله صلى الله عليه وسلم بما يريد ان ياكل منه. فقيل: هو ضب يا رسول الله. فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم يده، قال: فقلت: احرام هو يا رسول الله؟ قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا، ولكنه لم يكن بارض قومي فاجدني اعافه . . .»
. . . سیدنا خالد بن ولید بن مغیرہ المخرومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں داخل ہوئے تو بھنا ہو ایک سو سمار (سمسار، ضب) آپ کے پاس لایا گیا تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے لیے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں بعض عورتوں میں سے کسی نے کہا: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جسے کھانا چاہتے ہیں اس کے بارے میں آپ کو بتا دو کہا گیا: یا رسول اﷲ! یہ سمسار (ضب) ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اٹھا لیا۔ میں نے کہا: یا رسو ل اﷲ! کیا یہ حرام ہے؟ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں لیکن یہ ہماری قوم کے علاقے میں نہیں ہوتی، پس اس لیے میری طبیعت اس سے انکار کرتی ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 404]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5537، من حديث مالك به ورواه مسلم 44/1944، من حديث الزهري به]

تفقه
➊ ہر حلال چیز کا کھانا ضروری نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سمسار (سانڈا) کے بارے میں فرمایا: نہ میں اسے کھاتا ہوں اور نہ میں اسے حرام قرار دیتا ہوں۔ [الموطأ 1/968 ح1872، وسنده صحيح وصححه الترمذي: 1790]
➋ سمسار (ضب/سانڈا) حلال ہے۔ بعض لوگ اس کا ترجمہ گوہ یا گرگوہ کرتے ہیں جو کہ صحیح نہیں ہے۔
➌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب نہیں تھے بلکہ صرف اللہ ہی عالم الغیب ہے اور یہ اللہ کی صفت خاصہ ہے۔
➍ اپنے دوستوں اور شاگردوں وغیرہم کی بہترین دعوت کرنا جائز ہے۔
➎ حلال و حرام قرار دینے کا اختیار کسی امتی کو نہیں ہے بلکہ اس کا دارومدار کتاب و سنت اور دلائل شرعیہ پر ہے۔
➏ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا، سیدنا خالد بن الولید رضی اللہ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم دونوں کی خالہ تھیں۔
➐ گوشت کھانا جائز ہے۔
➑ یہ عین ممکن ہے کہ آدمی پر اپنے علاقے کی بعض مباح عادات و اطوار کا کچھ اثر باقی رہے۔
➒ جس مباح چیز کو دل نہ چاہے اسے چھوڑ دینا جائز ہے۔
➓ جو کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کیا جائے اور آپ اسے دیکھتے ہوئے خاموشی اختیار کریں تو اسے تقریری حدیث کہتے ہیں اور یہ بھی قولی و فعلی حدیث کی طرح حجت ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 70   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5400  
´بھنا ہوا گوشت کھانا`
«. . . عَنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، قَالَ:" أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِضَبٍّ مَشْوِيٍّ، فَأَهْوَى إِلَيْهِ لِيَأْكُلَ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّهُ ضَبٌّ، فَأَمْسَكَ يَدَهُ، فَقَالَ خَالِدٌ: أَحَرَامٌ هُوَ؟ قَالَ: لَا، وَلَكِنَّهُ لَا يَكُونُ بِأَرْضِ قَوْمِي، فَأَجِدُنِي أَعَافُهُ، فَأَكَلَ خَالِدٌ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْظُرُ . . .»
. . . خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھنا ہوا ساہنہ پیش کیا گیا تو آپ اسے کھانے کے لیے متوجہ ہوئے۔ اسی وقت آپ کو بتایا گیا کہ یہ ساہنہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ روک لیا۔ خالد رضی اللہ عنہ نے پوچھا کیا یہ حرام ہے؟ فرمایا کہ نہیں لیکن چونکہ یہ میرے ملک میں نہیں ہوتا اس لیے طبیعت اسے گوارا نہیں کرتی۔ پھر خالد رضی اللہ عنہ نے اسے کھایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ رہے تھے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَطْعِمَةِ: 5400]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5400 کا باب: «بَابُ الشِّوَاءِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد ترجمۃ الباب سے بھنا ہوا گوشت کے کھانے کے بارے میں ہے کہ اسے کھانا درست ہے، تحت الباب ضب والی روایت نقل فرمائی ہے، ضب تو آپ علیہ السلام نے طبیع ناگواری کی وجہ سے تناول نہیں فرمایا اور غور طلب پہلو یہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے اس کے مشوی اور بھنے ہوئے ہونے پر اعتراض نہیں فرمایا اور نہ ہی اس پر کسی قسم کی نکیر فرمائی، جو اس بات کی دلیل ہے کہ بھنا ہوا گوشت کھانے میں مضائقہ نہیں ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ امام ابن بطال رحمہ اللہ نے اشارہ فرمایا کہ:
«واشار ابن بطال إلى أن أخذ الحكم للترجمة ظاهر من جهة أنه صلى الله عليه وسلم أهدى ليأكل ثم لم يمتنع الا لكونه ضباً فلو كان غير ضب لأكل.» [فتح الباري لابن حجر: 463/10]
ترجمۃ الباب کے لیے اخذ حکم اس جہت سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھانے کے لیے آگے ہوئے صرف اس کے ساہنہ کی وجہ سے ممتنع رہے، گویا اگر وہ نہ ہوتا تو یہ بھنا ہوا گوشت تناول فرماتے۔
قریب قریب یہی توجیہ ابن الملقن نے بھی دی، چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
«والحديث ظاهر لما ترجم له وهو جواز أكل الشواء، لأنه صلى الله عليه وسلم أهدى ليأكل منه، لو كان مما لا يتقزز أكله غير الضب.» [التوضيح لشرح الجامع الصحيح: 150/26]

لہٰذا ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ضب اس لیے تناول نہیں فرمایا تھا کہ وہ آپ کی طبیعت مبارک کو پسند نہ تھا، حالانکہ وہ بھنا ہوا تھا، اس کے علاوہ اگر کوئی اور بھنا ہوا گوشت ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے تناول فرماتے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھنی ہوئی اشیاء پر نکیر نہیں فرمائی، لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔

نوٹ:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یاد رکھیں کہ ساہنہ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام نہیں ٹھہرایا پس یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت کو ناگوار تھا اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو تناول نہیں فرماتے تھے۔ باقی دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ علیہ السلام کے سامنے ساہنہ کھاتے تھے لیکن آپ علیہ السلام ان کو روکتے نہ تھے جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ساہنہ حلال ہے۔

امام ابن عبد البر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ آدمی ساہنہ کھائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حرام نہیں قرار دیا، یقیناًً نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر پر اسے کھایا گیا ہے آپ کی موجودگی میں اگر یہ حرام ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو کھانے کی اجازت نہ دینے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 129   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4321  
´ضب کا بیان۔`
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھنا ہوا ضب لایا گیا اور آپ کے قریب رکھا گیا، آپ نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تاکہ اس سے کھائیں، تو وہاں موجود کچھ لوگوں نے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو ضب کا گوشت ہے، آپ نے اس سے اپنا ہاتھ اٹھا لیا، اس پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا کہ اللہ کے رسول! کیا ضب حرام ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں، لیکن میری قوم کی زمین میں نہیں تھا، لہٰذا مجھے اس سے گھن آ رہی ہے، پھر خالد رضی اللہ عنہ [سنن نسائي/كتاب الصيد والذبائح/حدیث: 4321]
اردو حاشہ:
(1) کسی حلال چیز سے مطلقاً نفرت کرنا یا طبیعت کو اس کا اچھا نہ لگنا اس کی حرمت کو لازم نہیں، تفصیل گزشتہ حدیث کے فوائد میں دیکھی جا سکتی ہے۔
(2) کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دینا صرف اللہ تعالیٰ کا اختیار ہے۔ اس کے سوا کوئی شخص طبعی کراہت یا کسی اور وجہ سے کسی حلال چیز کو حرام قرار نہیں دے سکتا۔
(3) حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ کسی کھانے پر عیب نہیں لگاتے تھے جبکہ اس حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے۔ بظاہر تعارض ہے، دونوں میں کیا تطبیق ہے؟ تعارض والی کوئی بات نہیں کیونکہ کسی چیز کی ناپسندیدگی اور چیز ہے اور اس پر عیب لگانا اور ہے۔ عیب لگانا تو یہ ہے کہ کوئی شخص یا اہل خانہ آپ کے لیے چیز پکائیں اور آپ اس پکی پکائی چیز میں کیڑے نکالنا شروع کر دیں وغیرہ۔
(4) حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اچھے لوگوں کی طبیعتیں بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے سانڈے کا گوشت کھانے سے کراہت محسوس فرمائی جبکہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے کھا لیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4321   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3241  
´ضب (صحرائے نجد میں پائے جانے والے گوہ) کا بیان۔`
خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک بھنی ہوئی ضب (گوہ) لائی گئی، اور آپ کو پیش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کے لیے اس کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا ۱؎، تو وہاں موجود ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ ضب (گوہ) کا گوشت ہے (یہ سن کر) آپ نے اس سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا، خالد رضی اللہ عنہ نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا ضب (گوہ) حرام ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، لیکن وہ میرے علاقہ میں نہیں ہوتی اس لیے میں اس سے گھن محسوس کرتا ہوں، (یہ سن کر) خالد رض۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الصيد/حدیث: 3241]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جوچیز دل کواچھی نہ لگے اسے نہ کھانا جائز ہے۔
یہ حلال چیز کو حرام قرار دینے میں شامل نہیں۔

(2)
میرے علاقے میں۔
اور ایک روایت میں (بارض قومی)
میری قوم کے علاقے میں۔
اس سے مراد مکہ مکرمہ اور اس کے قریب و جوار کا علاقہ ہے جوقریش کامسکن تھا۔
حجاز کے دوسرے حصوں میں ضب (سانڈے)
بکثرت موجود ہیں۔ (فتح الباری: 9/ 822)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3241   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.