الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: قسامہ، قصاص اور دیت کے احکام و مسائل
The Book of Oaths (qasamah), Retaliation and Blood Money
39. بَابُ : دِيَةِ جَنِينِ الْمَرْأَةِ
39. باب: عورت کے پیٹ کے بچے کی دیت کا بیان۔
حدیث نمبر: 4819
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اخبرنا احمد بن سليمان، قال: حدثنا يزيد، قال: انبانا كهمس، عن عبد الله بن بريدة , عن عبد الله بن مغفل انه راى رجلا يخذف، فقال: لا تخذف , فإن نبي الله صلى الله عليه وسلم" كان ينهى عن الخذف، او يكره الخذف". شك كهمس.
أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ، قَالَ: أَنْبَأَنَا كَهْمَسٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ أَنَّهُ رَأَى رَجُلًا يَخْذِفُ، فَقَالَ: لَا تَخْذِفْ , فَإِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يَنْهَى عَنِ الْخَذْفِ، أَوْ يَكْرَهُ الْخَذْفَ". شَكَّ كَهْمَسٌ.
عبداللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو پتھر پھینکتے دیکھا تو کہا: مت پھینکو، اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پتھر پھینکنے سے منع فرماتے تھے، یا پتھر پھینکنا آپ کو پسند نہ تھا، یہ کہمس کا شک ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیرسورة الفتح 5 (4841)، الذبائح 5 (5479)، الأدب122(6220)، صحیح مسلم/الذبائح 10 (1954)، (تحفة الأشراف: 9659)، سنن ابن ماجہ/الصید 11 (3226)، مسند احمد 4/86 و5/ 56، 57، سنن الدارمی/المقدمة 40 (453) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
   صحيح البخاري6220عبد الله بن مغفللا يقتل الصيد ولا ينكأ العدو وإنه يفقأ العين ويكسر السن
   صحيح البخاري5479عبد الله بن مغفلالخذف أو كان يكره الخذف وقال إنه لا يصاد به صيد ولا ينكى به عدو ولكنها قد تكسر السن وتفقأ العينن ثم رآه بعد ذلك يخذف فقال له أحدثك عن رسول الله أنه نهى عن الخذف أو كره الخذف وأنت تخذف لا أكلمك كذا وكذا
   صحيح البخاري4841عبد الله بن مغفلإني ممن شهد الشجرة نهى النبي عن الخذف
   صحيح مسلم5053عبد الله بن مغفلنهى عن الخذف وقال إنها لا تصيد صيدا ولا تنكأ عدوا ولكنها تكسر السن وتفقأ العين
   صحيح مسلم5050عبد الله بن مغفللا يصطاد به الصيد ولا ينكأ به العدو ولكنه يكسر السن ويفقأ العين
   صحيح مسلم5052عبد الله بن مغفلعن الخذف
   سنن أبي داود5270عبد الله بن مغفلعن الخذف قال إنه لا يصيد صيدا ولا ينكأ عدوا وإنما يفقأ العين ويكسر السن
   سنن النسائى الصغرى4819عبد الله بن مغفلينهى عن الخذف أو يكره الخذف
   سنن ابن ماجه3227عبد الله بن مغفلإنها لا تقتل الصيد ولا تنكي العدو ولكنها تفقأ العين وتكسر السن
   سنن ابن ماجه3226عبد الله بن مغفلإنها لا تصيد صيدا ولا تنكأ عدوا ولكنها تكسر السن وتفقأ العين
   سنن ابن ماجه17عبد الله بن مغفلإنها لا تصيد صيدا ولا تنكي عدوا وإنها تكسر السن وتفقأ العين
   المعجم الصغير للطبراني677عبد الله بن مغفلنهى عن الخذف
   المعجم الصغير للطبراني688عبد الله بن مغفلعن الخذف وقال إنه لا يصاد بها صيد ولا ينكأ بها عدوا ولكنها تفقأ العين وتكسر السن
   مسندالحميدي911عبد الله بن مغفلأحدثك عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه نهى عنها وتعود، لا أكلمك أبدا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4819  
´عورت کے پیٹ کے بچے کی دیت کا بیان۔`
عبداللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو پتھر پھینکتے دیکھا تو کہا: مت پھینکو، اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پتھر پھینکنے سے منع فرماتے تھے، یا پتھر پھینکنا آپ کو پسند نہ تھا، یہ کہمس کا شک ہے۔ [سنن نسائي/كتاب القسامة والقود والديات/حدیث: 4819]
اردو حاشہ:
مطلب یہ ہے کَھْمَس راوی کو شک ہے کہ نهى عنِ الخَذْفِ کے الفاظ ہیں یا يَكْرَهُ الْخَذْفَ کے، تاہم یہ شک صحت روایت پر اثر انداز نہیں ہوگا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 4819   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث17  
´حدیث نبوی کی تعظیم و توقیر اور مخالفین سنت کے لیے سخت گناہ کی وعید۔`
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کا ایک بھتیجا ان کے بغل میں بیٹھا ہوا تھا، اس نے دو انگلیوں کے درمیان کنکری رکھ کر پھینکی، تو انہوں نے اسے منع کیا اور کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام سے روکا ہے اور فرمایا ہے کہ: یہ کنکری نہ تو کوئی شکار کرتی ہے، اور نہ ہی دشمن کو زخمی کرتی ہے، البتہ یہ دانت توڑ دیتی ہے اور آنکھ پھوڑ دیتی ہے۔‏‏‏‏ سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ ان کا بھتیجا دوبارہ کنکریاں پھینکنے لگا تو انہوں نے کہا: میں تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں کہ آپ صلی اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 17]
اردو حاشہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر غلط اور نقصان دہ کام سے منع فرمایا ہے، اگرچہ بظاہر وہ معمولی ہو، کیونکہ بعض اوقات ایک کام بظاہر معمولی نظر آتا ہے، لیکن اس کا انجام معمولی نہیں ہوتا۔

(2)
کسی گناہ کے عام ہو جانے کی وجہ سے بھی ہم اسے معمولی سمجھ لیتے ہیں، حالانکہ اللہ کے ہاں وہ بڑا گناہ ہوتا ہے، اس لیے صغیرہ گناہوں سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔

(3)
ہر وہ کام جس میں کوئی دینی یا دنیوی فائدہ نہ ہو اور نقصان کا اندیشہ ہو، اس سے بچنا ہی چاہیے۔

(4)
گناہ کا ارتکاب کرنے والے کو تنبیہ کرنے کے لیے اور اس کے گناہ سے نفرت کے اظہار کے لیے ملاقات ترک کر دینا جائز ہے، تاکہ وہ توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لے۔

(5)
ہر اس کام سے اجتناب ضروری ہے جس سے کسی مسلمان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 17   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 5270  
´کنکریاں پھینکنے کی ممانعت۔`
عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کھیل کود اور ہنسی مذاق میں) ایک دوسرے کو کنکریاں مارنے سے منع فرمایا ہے، آپ نے فرمایا: نہ تو یہ کسی شکار کا شکار کرتی ہے، نہ کسی دشمن کو گھائل کرتی ہے۔ یہ تو صرف آنکھ پھوڑ سکتی ہے اور دانت توڑ سکتی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/أبواب السلام /حدیث: 5270]
فوائد ومسائل:

بے مقصد کام سے ہر مسلمان کو ہمیشہ رہنا چاہیے بالخصوص بچوں کو دیکھا جاتا ہے کہ بلا مقصد بیٹھےکنکر، پتھر مارتے رہتے ہیں تو یہ ایک لغو اور مضر کام ہے نو خیزبچوں کو عمدہ طریقے سے سمجھاتے رہنا چاہیے تاکہ ا ن کی اٹھان خیر کے اعمال پر ہو۔

2: شکار ایک عمدہ مقصد ہے اور اسی طرح میدان جہاد میں کفار کو نشانہ بنانا بھی ایک فضیلت کا عمل ہے۔

3: نشانہ بازی کی مشق کے لئے اگر یہ کام کرنا ہو تو کسی ایسی جگہ ہونا چاہیے جہاں کسی کے لئے کو ئی ضررنہ ہو۔

4: اگر اس کارستانی میں کسی عاقل بالغ سے کسی کی آنکھ پھوٹ گئی یادانت ٹوٹ گیا، تو دیت لازم آئے گی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 5270   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.