الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
The Book on Purification
13. بَابُ مَا جَاءَ فِي الاِسْتِنْجَاءِ بِالْحَجَرَيْنِ
13. باب: دو پتھروں سے استنجاء کرنے کا بیان​۔
حدیث نمبر: 17
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا هناد، وقتيبة , قالا: حدثنا وكيع، عن إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن ابي عبيدة، عن عبد الله، قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم لحاجته فقال: " التمس لي ثلاثة احجار " , قال: فاتيته بحجرين وروثة، فاخذ الحجرين والقى الروثة , وقال: " إنها ركس ". قال ابو عيسى: وهكذا روى قيس بن الربيع هذا الحديث، عن ابي إسحاق، عن ابي عبيدة، عن عبد الله، نحو حديث إسرائيل، وروى معمر , وعمار بن رزيق، عن ابي إسحاق، عن علقمة، عن عبد الله، وروى زهير، عن ابي إسحاق، عن عبد الرحمن بن الاسود، عن ابيه الاسود بن يزيد، عن عبد الله، وروى زكريا بن ابي زائدة، عن ابي إسحاق، عن عبد الرحمن بن يزيد، عن الاسود بن يزيد، عن عبد الله، وهذا فيه اضطراب. حدثنا محمد بن بشار العبدي، حدثنا محمد بن جعفر، حدثنا شعبة، عن عمرو بن مرة قال: سالت ابا عبيدة بن عبد الله: هل تذكر من عبد الله شيئا؟ قال: لا. قال ابو عيسى: سالت عبد الله بن عبد الرحمن: اي الروايات في هذا الحديث عن ابي إسحاق اصح؟ فلم يقض فيه بشيء , وسالت محمدا عن هذا؟ فلم يقض فيه بشيء وكانه راى حديث زهير، عن ابي إسحاق، عن عبد الرحمن بن الاسود، عن ابيه، عن عبد الله اشبه ووضعه في كتاب الجامع. قال ابو عيسى: واصح شيء في هذا عندي حديث إسرائيل , وقيس، عن ابي إسحاق، عن ابي عبيدة، عن عبد الله، لان إسرائيل اثبت واحفظ لحديث ابي إسحاق من هؤلاء، وتابعه على ذلك قيس بن الربيع. قال ابو عيسى: سمعت ابا موسى محمد بن المثنى، يقول: سمعت عبد الرحمن بن مهدي، يقول: ما فاتني الذي فاتني من حديث سفيان الثوري، عن ابي إسحاق إلا لما اتكلت به على إسرائيل. قال ابو عيسى: وزهير في ابي إسحاق ليس بذاك لان سماعه منه بآخرة، قال: وسمعت احمد بن الحسن الترمذي، يقول: سمعت احمد بن حنبل، يقول: إذا سمعت الحديث عن زائدة وزهير فلا تبالي ان لا تسمعه من غيرهما إلا حديث ابي إسحاق، وابو إسحاق اسمه: عمرو بن عبد الله السبيعي الهمداني , وابو عبيدة بن عبد الله بن مسعود لم يسمع من ابيه ولا يعرف اسمه.حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، وَقُتَيْبَةُ , قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَاجَتِهِ فَقَالَ: " الْتَمِسْ لِي ثَلَاثَةَ أَحْجَارٍ " , قَالَ: فَأَتَيْتُهُ بِحَجَرَيْنِ وَرَوْثَةٍ، فَأَخَذَ الْحَجَرَيْنِ وَأَلْقَى الرَّوْثَةَ , وَقَالَ: " إِنَّهَا رِكْسٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَهَكَذَا رَوَى قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ هَذَا الْحَدِيثَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، نَحْوَ حَدِيثِ إِسْرَائِيلَ، وَرَوَى مَعْمَرٌ , وَعَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَرَوَى زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَرَوَى زَكَرِيَّا بْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، وَهَذَا فِيهِ اضْطِرَابٌ. حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ الْعَبْدِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ: هَلْ تَذْكُرُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ شَيْئًا؟ قَالَ: لَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ: أَيُّ الرِّوَايَاتِ فِي هَذَا الْحَدِيثِ عَنْ أَبِي إِسْحَاق أَصَحُّ؟ فَلَمْ يَقْضِ فِيهِ بِشَيْءٍ , وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا؟ فَلَمْ يَقْضِ فِيهِ بِشَيْءٍ وَكَأَنَّهُ رَأَى حَدِيثَ زُهَيْرٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَشْبَهَ وَوَضَعَهُ فِي كِتَابِ الْجَامِعِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَأَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا عِنْدِي حَدِيثُ إِسْرَائِيلَ , وَقَيْسٍ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، لِأَنَّ إِسْرَائِيلَ أَثْبَتُ وَأَحْفَظُ لِحَدِيثِ أَبِي إِسْحَاق مِنْ هَؤُلَاءِ، وَتَابَعَهُ عَلَى ذَلِكَ قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت أَبَا مُوسَى مُحَمَّدَ بْنَ الْمُثَنَّى، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ، يَقُولُ: مَا فَاتَنِي الَّذِي فَاتَنِي مِنْ حَدِيثِ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق إِلَّا لِمَا اتَّكَلْتُ بِهِ عَلَى إِسْرَائِيلَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَزُهَيْرٌ فِي أَبِي إِسْحَاق لَيْسَ بِذَاكَ لِأَنَّ سَمَاعَهُ مِنْهُ بِآخِرَةٍ، قَالَ: وسَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ الْحَسَنِ التِّرْمِذِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ، يَقُولُ: إِذَا سَمِعْتَ الْحَدِيثَ عَنْ زَائِدَةَ وَزُهَيْرٍ فلا تبالي أن لا تسمعه من غيرهما إلا حديث أبي إسحاق، وأبو إسحاق اسمه: عمرو بن عبد الله السبيعي الهمداني , وأبو عبيدة بن عبد الله بن مسعود لم يسمع من أبيه ولا يعرف اسمه.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے نکلے تو آپ نے فرمایا: میرے لیے تین پتھر ڈھونڈ لاؤ، میں دو پتھر اور ایک گوبر کا ٹکڑا لے کر آپ کی خدمت میں آیا تو آپ نے دونوں پتھروں کو لے لیا اور گوبر کے ٹکڑے کو پھینک دیا اور فرمایا: یہ ناپاک ہے ۱؎۔
(ابواسحاق سبیعی ثقہ اور مدلس راوی ہیں، بڑھاپے میں حافظہ میں اختلاط ہو گیا تھا اس لیے جن رواۃ نے ان سے اختلاط سے پہلے سنا ان کی روایت مقبول ہے، اور جن لوگوں نے اختلاط کے بعد سنا ان کی روایت ضعیف، یہ حدیث ابواسحاق سے ان کے تلامذہ نے مختلف انداز سے روایت کی ہے)۔
امام ترمذی نے یہاں:
ابن مسعود کی اس حدیث کو بسند «اسرائیل عن ابی اسحاق عن ابی عبیدہ عن ابن مسعود» روایت کرنے کے بعد اسرائیل کی متابعت ۲؎ میں قیس بن الربیع کی روایت کا ذکر کیا ہے، پھر بسند «معمر و عمار بن رزیق عن ابی اسحاق عن علقمہ عن ابن مسعود» کی روایت ذکر کی ہے، پھر بسند «زکریا بن ابی زائدہ و زہیر عن ابی اسحاق عن عبدالرحمٰن بن یزید عن اسود بن یزید عن عبداللہ بن مسعود» روایت ذکر کی اور فرمایا کہ اس حدیث میں اضطراب ہے، نیز اسرائیل کی روایت کو صحیح ترین قرار دیا، یہ بھی واضح کیا کہ ابو عبیدۃ کا سماع اپنے والد ابن مسعود سے نہیں ہے پھر واضح کیا کہ زہیر نے اس حدیث کو بسند «ابواسحاق عن عبدالرحمٰن بن الاسود عن أبیہ عن عبداللہ بن مسعود» روایت کیا ہے، تو ان محمد بن اسماعیل بخاری نے اپنی صحیح میں اس کو جگہ دے کر اپنی ترجیح کا ذکر کر دیا ہے، جب کہ ترمذی کا استدلال یہ ہے کہ «اسرائیل و قیس عن أبی اسحاق» زیادہ صحیح روایت اس لیے ہے کہ اسرائیل ابواسحاق کی حدیث کے زیادہ حافظ و متقن ہیں، قیس نے بھی اسرائیل کی متابعت کی ہے، اور واضح رہے کہ زہیر نے ابواسحاق سے آخر میں اختلاط کے بعد سنا ہے، اس لیے ان کی روایت اسرائیل کی روایت کے مقابلے میں قوی نہیں ہے ۳؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف بہذا السند (تحفة الأشراف 9622)، وأخرجہ کل من صحیح البخاری/الطہارة 21 (156) و سنن النسائی/الطہارة 38 (42) وسنن ابن ماجہ/الطہارة 16 (314) من طریق الأسود بن یزید عنہ کما في تحفة الأشراف: 9170) (صحیح) (متابعت کی بنا پر یہ حدیث صحیح ہے، لیکن اس کی سند میں ابو عبیدہ اور ان کے والد ابن مسعود رضی الله عنہ کے درمیان انقطاع ہے جیسا کہ مولف نے بیان کر دیا ہے۔)»

وضاحت:
۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز خود ناپاک و نجس ہو اس سے طہارت حاصل نہیں ہو سکتی، امام احمد اور دارقطنی کی روایت میں «ائتني بغيرها» اس کے بدلے دوسرا پتھر لے آؤ کا اضافہ ہے جس سے معلوم ہوا کہ قضائے حاجت کے بعد تین پتھر استعمال کرنا واجب ہے خواہ صفائی اس سے کم ہی میں کیوں نہ حاصل ہو جائے، اور اگر تین سے بھی مطلوبہ صفائی حاصل نہ ہو تو مزید بھی پتھر استعمال کئے جا سکتے ہیں البتہ ان کی تعداد طاق ہونی چاہیئے، آج کل صفائی کے لیے ٹشو پیپر استعمال ہوتے ہیں ان کی تعداد بھی اتنی ہی ہونی چاہیئے۔
۲؎: متابعت سے مراد ایک راوی کا دوسرے کے ساتھ اس حدیث کی روایت میں شریک ہونا ہے، اس کے جاننے کا یہ ہوتا ہے کہ اگر راوی ضعیف ہے تو اس کی حدیث کو تقویت حاصل ہو جاتی ہے اور اگر ثقہ ہے تو اس کا تفرد ختم ہو جاتا ہے۔
۳؎: واضح رہے کہ امام ترمذی نے اسرائیل کی روایت کو زہیر کی روایت پر جسے امام بخاری نے اپنی صحیح میں جگہ دی ہے تین وجہوں سے ترجیح دی ہے۔
(الف) ابواسحاق کے تلامذہ میں اسرائیل: زہیر، معمر اور دیگر لوگوں سے زیادہ ثقہ اور ابواسحاق سبیعی کی حدیث کو زیادہ یاد رکھنے والے ہیں۔
(ب) قیس بن ربیع نے اسرائیل کی متابعت کی ہے۔
(ج) اسرائیل کا سماع ابواسحاق سبیعی سے اختلاط سے پہلے ہے، ان کی آخری عمر میں نہیں ہے اس کے برخلاف زہیر کا ابواسحاق سے سماع ان کی آخری عمر میں ہے، لیکن صاحب تحفہ الأحوذی کے نزدیک یہ تینوں وجہیں محل نظر ہیں، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تحفہ الاحوذی ج ۱ ص ۲۸۔ صاحب تحفۃ الاحوذی کے معارضات کا خلاصہ یہ ہے کہ
(۱) بقول امام ابوداؤد: زہیر اسرائیل کے مقابلہ میں اثبت ہیں۔
(۲) زہیر کی بھی متابعت موجود ہے بلکہ دو دو متابعت ہے۔
(۳) بقول ذہبی: امام احمد کہتے ہیں کہ زہیر نے ابواسحاق سبیعی سے اختلاط سے پہلے سنا ہے جبکہ اسرائیل نے آخری عمر میں سنا ہے، علاوہ ازیں اگر اسرائیل کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں تو ان کی روایت ابوعبیدہ سے ہے اور ابوعبیدہ کی اپنے باپ ابن مسعود سے سماع نہیں ہے تو روایت کو ضعیف ماننا پڑے گا، جبکہ زہیر کی روایت سے حدیث متصل ہوتی ہے، اور اکثر ائمہ نے اسے صحیح ہی قرار دہا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
   صحيح البخاري156عبد الله بن مسعودآتيه بثلاثة أحجار فوجدت حجرين والتمست الثالث فلم أجده فأخذت روثة فأتيته بها فأخذ الحجرين ألقى الروثة وقال هذا ركس
   جامع الترمذي17عبد الله بن مسعودالتمس لي ثلاثة أحجار قال فأتيته بحجرين وروثة فأخذ الحجرين ألقى الروثة وقال إنها ركس
   سنن النسائى الصغرى42عبد الله بن مسعودآتيه بثلاثة أحجار فوجدت حجرين والتمست الثالث فلم أجده فأخذت روثة فأتيت بهن النبي فأخذ الحجرين ألقى الروثة وقال هذه ركس
   سنن ابن ماجه314عبد الله بن مسعودائتني بثلاثة أحجار فأتيته بحجرين وروثة فأخذ الحجرين ألقى الروثة وقال هي ركس
   بلوغ المرام88عبد الله بن مسعوداتى رسول الله الغائط،‏‏‏‏ فامرني ان آتيه بثلاثة احجار،‏‏‏‏ فوجدت حجرين،‏‏‏‏ ولم اجد ثالثا،‏‏‏‏ فاتيته بروثة،‏‏‏‏ فاخذهما والقى الروثة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 88  
´جو چیز خود ناپاک ونجس ہو اس سے طہارت حاصل نہیں ہو سکتی`
«. . . وعن ابن مسعود رضى الله عنه قال: اتى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم الغائط،‏‏‏‏ فامرني ان آتيه بثلاثة احجار،‏‏‏‏ فوجدت حجرين،‏‏‏‏ ولم اجد ثالثا،‏‏‏‏ فاتيته بروثة،‏‏‏‏ فاخذهما والقى الروثة،‏‏‏‏ وقال: ‏‏‏‏إنها ركس . . .»
. . . سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کو چلے تو مجھے حکم دیا کہ میں ان کیلئے تین پتھر لے آؤں۔ مجھے دو پتھر تو مل گئے تیسرا نہ مل سکا۔ میں (مجبوراً) گوبر کا ایک خشک ٹکڑا لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں پتھر تو لے لئے اور گوبر کے خشک ٹکڑے کو دور پھینک دیا اور فرمایا یہ تو بذات خود پلید ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 88]

لغوی تشریح:
«بِرَوْتَةٍ» چوپائے جانور کا گوبر یا لید۔ ابن خزیمہ نے یہ اضافہ ذکر کیا ہے کہ وہ گدھے کی لید تھی۔ [صحيح ابن خزيمة: 39/1، حديث: 70]
«رِكْسٌ» را کے نیچے کسرہ ہے اور کاف ساکن ہے۔ نجاست اور گندگی و پلیدی۔
«اِئْتِنِي بِغَيْرِهَا» إتیان سے امر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قضائے حاجت کے بعد مقعد کی صفائی کے لیے تین پتھر استعمال کرنا واجب ہے، خواہ صفائی تین سے کم ڈھیلوں سے حاصل ہو جائے۔ اور اگر تین سے مکمل صفائی حاصل نہ ہو تو پھر مزید بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں، البتہ ان کی تعداد طاق ہونی چاہئے۔ (پانچ، سات علیٰ ہذا القیاس)

فوائد و مسائل:
➊ اس سے ثابت ہوا کہ جو چیز خود ناپاک و نجس ہو اس سے طہارت حاصل نہیں ہو سکتی، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
➋ تعداد کے ساتھ صفائی بھی مشروط ہے، خواہ تعداد میں اضافہ ہی کرنا پڑے۔

راویٔ حدیث: (سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ) ان کا نام عبداللہ ہے۔ سابقین اوّلین میں سے ہیں۔ بزرگ اور نہایت عقل مند و دانش مند فقہاء صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شمار ہوتے ہیں۔ غزوہ بدر اور دیگر معرکوں میں شریک ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم خاص تھے۔ حضر و سفر کے ساتھی تھے۔ انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تقرب حاصل تھا۔ ان کے مناقب و فضائل بہت زیادہ ہیں۔ مدینہ منورہ میں 32 ہجری میں فوت ہوئے۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً ساٹھ برس تھی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 88   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 42  
´دو پتھروں سے استنجاء کرنے کی اجازت کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت (پاخانے) کی جگہ میں آئے، اور مجھے تین پتھر لانے کا حکم فرمایا، مجھے دو پتھر ملے، تیسرے کی میں نے تلاش کی مگر وہ نہیں ملا، تو میں نے گوبر لے لیا اور ان تینوں کو لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو آپ نے دونوں پتھر لے لیے، اور گوبر پھینک دیا ۱؎ اور فرمایا: یہ «رکس» (ناپاک) ہے۔‏‏‏‏ ابوعبدالرحمٰن النسائی کہتے ہیں: «رکس» سے مراد جنوں کا کھانا ہے ۲؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 42]
42۔ اردو حاشیہ:
➊امام نسائی رحمہ اللہ حدیث میں مذکور لفظ «رِکْسٌ» کا مطلب بیان کر رہے ہیں، مگر یہ معنی لغت کی کسی کتاب میں نہیں پایا جاتا۔ ممکن ہے امام صاحب کا مطلب یہ ہو کہ لید سے استنجا نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ جنوں کی خوراک ہے، نہ یہ کہ وہ پلید ہے۔ واللہ أعلم۔
➋سنن نسائئی کی اس حدیث میں تو یہاں اتنے ہی الفاظ ہیں مگر مسند احمد میں اس کے بعد یہ الفاظ بھی ہیں کہ آپ نے فرمایا: «إئتني بحجر» ایک ڈھیلا اور لا۔ [مسند احمد: 450/1]
اس سے گویا دو ڈھیلوں پر اکتفا ثابت نہ ہوا بلکہ اس سے تو تین ڈھیلوں کی شرطیت اخذ ہوتی ہے۔ اگر بالفرض بہ امر مجبوری دو یا ایک ڈھیلا ہی ہو تو انہیں بھی مختلف اطراف سے احتیاط کے ساتھ تین دفعہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [التبیان في تخریج و تبویب أحادیث بلوغ المرام: 214، 213/3]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 42   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 88  
«و روث»
اور گوبر (نجس ہے)۔
گوبر
➊ جیسا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے چلے تو مجھے حکم دیا کہ میں ان کے لیے تین پتھر لے کر آؤں۔ مجھے دو پتھر ملے، تیسرا نہ مل سکا تو میں (مجبوراً) گوبر کا ایک خشک ٹکڑا لے آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں پتھر لے لیے اور گوبر کے ٹکڑے کو دور پھینک کر فرمایا: «فإنها رکس» یہ تو بذات خود نجس و پلید ہے۔ [بخاري 156] ۱؎
(حنابلہ، مالکیہ) جانوروں کا گوبر اور پیشاب ان کے گوشت کے تابع ہے۔ یعنی جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کا پیشاب و گوبر پاک ہے اور جن کا گوشت نہیں کھایا جاتا ان کا پیشاب و گوبر نجس ہے۔ (انہوں نے حدیث عرنیین [بخاري 233] اور بکریوں کے باڑوں میں نماز کی اجازت والی حدیث [ترمذي 348] سے استدلال کیا ہے اور تمام ماکول اللحم جانوروں کو اونٹوں اور بکریوں پر قیاس کیا ہے۔) [بداية المجتهد 77/1] ۲؎
(شافعیہ، حنفیہ) ہر جانور کا گوبر اور پیشاب مطلق طور پر نجس ہے خواہ وہ جانور ماکول اللحم ہو یا غیر ماکول اللحم۔ (انہوں نے گزشتہ حدیث «إنها ركس» [بخاري 156] اور اونٹوں کے باڑوں میں نماز کی ممانعت والی حدیث [سنن ابي داود 493] سے استدلال کیا ہے اور جانوروں کے گوبر و پیشاب کو انسان کے بول و براز پر قیاس کیا ہے)۔ [الهداية 36/1] ۳؎
(راجح) گزشتہ صحیح حدیث [بخاري 156] سے صرف گوبر کی نجاست ثابت ہوتی ہے علاوہ ازیں اصل اباحت و طہارت ہے جب تک کہ کسی چیز کی نجاست نص شرعی سے نہ ثابت ہو جائے۔
(شوکانی رحمہ اللہ) اسی کے قائل ہیں۔ [نيل الأوطار 100/1] ۴؎
------------------
۱؎ [بخاري 156، كتاب الوضوء: باب لا يستنجي بروث، ترمذي 17، نسائي 46، بيهقي 102/1، ابو عوانة 195/1، ابن حبان 1442، أبن خزيمة 86، 85 دارمي 138/1، احمد 250/2 ابن ماجة 313، شرح معاني الآثار 123/1]
۲؎ [بداية المجتهد 77/1، قوانين الأحكام الشرعية ص/ 48، كشاف القناع 220/1]
۳؎ [المغني 490/2، المبسوط 54/1، الهداية 36/1، المهذب 567/2]
۴؎ [السيل الجرار 31/1، نيل الأوطار 100/1]
* * * * * * * * * * * * * *

   فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 148   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث314  
´پتھر سے استنجاء کے جواز اور گوبر اور ہڈی سے ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے گئے اور فرمایا: میرے پاس تین پتھر لاؤ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں دو پتھر اور گوبر کا ایک ٹکڑا لے کر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں پتھر لے لیے اور گوبر پھینک دیا، اور فرمایا: یہ ناپاک ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 314]
اردو حاشہ:
(1)
اس سے معلوم ہوا کہ اگر تین ڈھیلے نہ ملیں تو دو ڈھیلوں پر بھی اکتفاء کیا جاسکتا ہے تاہم افضل یہی ہے کہ تین ڈھیلوں سے صفائی کی جائے۔
یہ بھی احتمال ہے کہ تیسرا ڈھیلا آپ نے خود ڈھونڈ لیا ہو۔

(2)
ساتھی یا شاگرد سے چھوٹی موٹی خدمت لینا درست ہے۔
خصوصاً جب کہ وہ اس میں کراہت محسوس نہ کرتا ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 314   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 17  
´دو پتھروں سے استنجاء کرنے کا بیان​۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے نکلے تو آپ نے فرمایا: میرے لیے تین پتھر ڈھونڈ لاؤ، میں دو پتھر اور ایک گوبر کا ٹکڑا لے کر آپ کی خدمت میں آیا تو آپ نے دونوں پتھروں کو لے لیا اور گوبر کے ٹکڑے کو پھینک دیا اور فرمایا: یہ ناپاک ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 17]
اردو حاشہ:
1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز خود نا پاک و نجس ہو اس سے طہارت حاصل نہیں ہو سکتی،
امام احمد اور دارقطنی کی روایت میں ((ائْتِنِي بِغَيْرِهَا)) اس کے بدلے دوسرا پتھر لے آؤ کا اضافہ ہے جس سے معلوم ہوا کہ قضائے حاجت کے بعد تین پتھر استعمال کرنا واجب ہے خواہ صفائی اس سے کم ہی میں کیوں نہ حاصل ہو جائے،
اور اگر تین سے بھی مطلوبہ صفائی حاصل نہ ہو تو مزید بھی پتھر استعمال کئے جاسکتے ہیں البتہ ان کی تعداد طاق ہونی چاہئے،
آج کل صفائی کے لیے ٹشو پیپر استعمال ہوتے ہیں ان کی تعداد بھی اتنی ہی ہونی چاہئے۔

2؎:
متابعت سے مراد ایک راوی کا دوسرے کے ساتھ اس حدیث کی روایت میں شریک ہونا ہے،
اس کے جاننے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اگر راوی ضعیف ہے تو اس کی حدیث کو تقویت حاصل ہو جاتی ہے اور اگر ثقہ ہے تو اس کا تفرد ختم ہو جاتا ہے۔

3؎:
واضح رہے کہ امام ترمذی نے اسرائیل کی روایت کو زہیر کی روایت پر جسے امام بخاری نے اپنی صحیح میں جگہ دی ہے تین وجہوں سے ترجیح دی ہے۔

(الف)
ابواسحاق کے تلامذہ میں اسرائیل:
زہیر،
معمراور دیگر لوگوں سے زیادہ ثقہ اور ابو اسحاق سبیعی کی حدیث کو زیادہ یاد رکھنے والے ہیں۔

(ب)
قیس بن ربیع نے اسرائیل کی متابعت کی ہے۔

(ج)
اسرائیل کا سماع ابواسحاق سبیعی سے اختلاط سے پہلے ہے،
ان کی آخری عمر میں نہیں ہے اس کے بر خلاف زہیر کا ابواسحاق سے سماع ان کی آخری عمر میں ہے،
لیکن صاحب تحفہ الأحوذی کے نزدیک یہ تینوں وجہیں محل نظر ہیں،
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تحفہ الاحوذی ج1ص28۔

 صاحب تحفۃالاحوذی کے معارضات کا خلاصہ یہ ہے کہ (1)
بقول امام ابو داؤد:
زہیر اسرائیل کے مقابلہ میں أثبت ہیں۔

(2)
زہیر کی بھی متابعت موجود ہے بلکہ دو دو متابعت ہے۔

(3)
بقول ذہبی:
امام احمد کہتے ہیں کہ زہیر نے ابو اسحاق سبیعی سے اختلاط سے پہلے سنا ہے جبکہ اسرائیل نے آخری عمر میں سنا ہے،
علاوہ ازیں اگر اسرائیل کی روایت کو ترجیح دیتے ہیں تو ان کی روایت ابو عبیدہ سے ہے اور ابوعبیدہ کا اپنے باپ ابن مسعود سے سماع نہیں ہے تو روایت کوضعیف ماننا پڑے گا،
جبکہ زہیر کی روایت سے حدیث متصل ہوتی ہے،
اور اکثر أئمہ نے اسے صحیح ہی قرار ديا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 17   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.