الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
The Book on Purification
41. بَابُ فِيمَا يُقَالُ بَعْدَ الْوُضُوءِ
41. باب: وضو کے بعد کیا دعا پڑھی جائے؟
حدیث نمبر: 55
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا جعفر بن محمد بن عمران الثعلبي الكوفي، حدثنا زيد بن حباب، عن معاوية بن صالح، عن ربيعة بن يزيد الدمشقي، عن ابي إدريس الخولاني، وابي عثمان , عن عمر بن الخطاب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من توضا فاحسن الوضوء، ثم قال: اشهد ان لا إله إلا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمدا عبده ورسوله، اللهم اجعلني من التوابين واجعلني من المتطهرين، فتحت له ثمانية ابواب الجنة يدخل من ايها شاء ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن انس , وعقبة بن عامر. قال ابو عيسى: حديث عمر قد خولف زيد بن حباب في هذا الحديث، قال: وروى عبد الله بن صالح وغيره، عن معاوية بن صالح، عن ربيعة بن يزيد، عن ابي إدريس، عن عقبة بن عامر، عن عمرو، عن ربيعة، عن ابي عثمان، عن جبير بن نفير، عن عمر، وهذا في إسناده اضطراب يصح عن النبي صلى الله عليه وسلم، في هذا الباب كبير شيء. قال محمد: وابو إدريس لم يسمع من عمر شيئا.حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِمْرَانَ الثَّعْلَبِيُّ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ الدِّمَشْقِيِّ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، وَأَبيِ عُثْمَانَ , عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ، فُتِحَتْ لَهُ ثَمَانِيَةُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ يَدْخُلُ مِنْ أَيِّهَا شَاءَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ أَنَسٍ , وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ عُمَرَ قَدْ خُولِفَ زَيْدُ بْنُ حُبَابٍ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: وَرَوَى عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ وَغَيْرُهُ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ عُمَرَوَ، عَنْ رَبِيعَةَ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ عُمَرَ، وَهَذَا فِي إِسْنَادِهِ اضْطِرَابٌ يَصِحُّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي هَذَا الْبَابِ كَبِيرُ شَيْءٍ. قَالَ مُحَمَّدٌ: وَأَبُو إِدْرِيسَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُمَرَ شَيْئًا.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو وضو کرے اور اچھی طرح کرے پھر یوں کہے: «أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله اللهم اجعلني من التوابين واجعلني من المتطهرين» میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، اے اللہ! مجھے توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں میں سے بنا دے تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے وہ جس سے بھی چاہے جنت میں داخل ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں انس اور عقبہ بن عامر رضی الله عنہما سے بھی احادیث آئی ہیں،
۲- امام ترمذی نے عمر رضی الله عنہ کی حدیث کے طرق ۱؎ ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اس حدیث کی سند میں اضطراب ہے،
۳- اس باب میں زیادہ تر چیزیں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے صحیح ثابت نہیں ہیں ۲؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 14080) وأخرجہ بدون قولہ ”اللھم اجعلني …“ کل من: صحیح مسلم/الطھارة 6 (234)، والطھارة 65 (169)، و سنن النسائی/الطھارة 109 (148)، والطھارة 60 (470)، و مسند احمد (1/146، 151، 153) من طریق عقبة بن عامر عن عمر (تحفة الأشراف: 10609) (صحیح) (سند میں اضطراب ہے، لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث مذکور اضافہ کے ساتھ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح أبی داود رقم 162)»

وضاحت:
۱؎: عمر رضی الله عنہ کی اس حدیث کی تخریج امام مسلم نے اپنی صحیح میں ایک دوسری سند سے کی ہے (رقم: ۲۳۴) اور اس میں «اللهم اجعلني من التوابين واجعلني من المتطهرين» کا اضافہ نہیں ہے، اور یہ روایت اضطراب سے پاک اور محفوظ ہے، احناف اور شوافع نے اپنی کتابوں میں ہر عضو کے دھونے کے وقت جو الگ الگ دعائیں نقل کی ہیں: مثلاً چہرہ دھونے کے وقت «اللهم بيض وجهي يوم تبيض وجوه» اور دایاں ہاتھ دھونے کے وقت «اللهم أعطني كتابي في يميني وحاسبني حساباً يسيراً» ان کی کوئی اصل نہیں ہے۔
۳؎: ترمذی کی سند میں ابو ادریس کی روایت براہ راست عمر رضی الله عنہ سے ہے، لیکن زید بن حباب ہی سے مسلم کی بھی روایت ہے مگر اس میں ابو ادریس کے بعد جبیر بن نفیر عن عقبہ بن عامر، عن عمر ہے جیسا کہ ترمذی نے خود تصریح کی ہے، بہرحال ترمذی کی روایت میں «اللهم أجعلني …» کا اضافہ بزار اور طبرانی کے یہاں ثوبان رضی الله عنہ کی حدیث میں موجود ہے، حافظ ابن حجر نے اس کو تلخیص میں ذکر کر کے سکوت اختیار کیا ہے۔ (ملاحظہ ہو: الإرواء رقم ۹۶، وصحیح أبی داود رقم ۱۶۲)

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (470)

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف بهذا اللفظ
أبو إدريس لم يسمع من عمر، وأبو عثمان هو سعيد بن هاتي (مسند الفاروق لابن كثير 111/1) وهما يرويان عن جبير بن نفير عن عقبه بن عامر (مسلم 234ب) فالمسند معلل والحديث صحح بدون الزيادة: ”اللهم اجعلني التوابين واجعلني من المتطهرين“ انظر صحيح مسلم: 234
   جامع الترمذي55عمر بن الخطابمن توضأ فأحسن الوضوء ثم قال أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله اللهم اجعلني من التوابين واجعلني من المتطهرين فتحت له ثمانية أبواب الجنة يدخل من أيها شاء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 52  
´اچھی طرح وضو کرنا`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم:‏‏‏‏ما منكم من احد يتوضا فيسبغ الوضوء،‏‏‏‏ ثم يقول: اشهد ان لا إله إلا الله،‏‏‏‏ وحده لا شريك له،‏‏‏‏ واشهد ان محمدا عبده ورسوله،‏‏‏‏ إلا فتحت له ابواب الجنة الثمانية،‏‏‏‏ يدخل من ايها شاء . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں کہ وضو کرے اور خوب اچھی طرح کرے پھر یوں کہے «أشهد أن لا إله إلا الله، وحده لا شريك له، ‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» کہ میں اس بات کی شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، اس کا کوئی ساجھی و شریک نہیں اور نیز میں اس بات کی بھی شہادت دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں مگر اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جاتے ہیں کہ اب جس دروازے سے چاہے داخل جنت ہو . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 52]
لغوی تشریح:
«اِلَّا فُتِحَتْ» یہ «اِلَّا» استثنا کا ہے، اس سے مقصود کلام اول میں موجود نفی سے استثنا ہے اور یہ اسلوب عبارت کلام میں حصر پیدا کرنے کے لئے اختیار کیا گیا ہے۔
«فُتِحَتْ» صیغہ مجہول ہے اس صورت میں معنی یہ ہیں کہ قیامت کے روز کھولے جائیں گے۔ صیغۂ ماضی سے تعبیر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ اس کا وقوع یقینی اور حتمی ہے۔ جس طرح گزرے ہوئے زمانے کا یقین ہوتا ہے، اسی طرح اس کا واقع ہونا بھی یقینی اور لابدی امر ہے۔
«وَزَادَ» یعنی امام ترمذی نے «مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ» نقل کرنے کے بعد «اَللّهُمَّ اجْعَلْنِي۔۔۔ إلخ» کے الفاظ مزید نقل کیے ہیں۔
«اَلتَّوَّابُ» میں واؤ مشدد ہے۔ اس کے معنی ہیں: کثرت سے توبہ کرنے والا شخص۔

راویٔ حدیث:
SR سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ER مراد عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی رضی اللہ عنہ ہیں۔ ان کی کنیت ابوحفص ہے۔ نادر الوجود شخصیت تھے۔ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ تھے۔ انہوں نے آفاق ارض کو حکم، عدل اور فتوحات سے بھر دیا تھا۔ دور جاہلیت میں قبیلہ قریش کے سفیر تھے۔ 6 نبوت ذی الحجہ کو دار ارقم میں دست نبوت پر بیعت کر کے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ ان کے قبول اسلام میں ان کے بہنوئی سعید اور بہن فاطمہ رضی اللہ عنہما کا بڑا کردار ہے۔ سارے غزوات میں شریک رہے۔ ان کے عہد خلافت میں فتوحات کا سیلاب امنڈ آیا تھا۔ عراق، فارس، شام اور مصر وغیرہ کے علاقے اسلامی سلطنت کی حدود میں شامل ہوئے۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے مجوسی غلام ابولؤلؤ کے قاتلانہ حملے سے یکم محرم، 24 ہجری میں شہادت پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 52   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 55  
´وضو کے بعد کیا دعا پڑھی جائے؟`
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جو وضو کرے اور اچھی طرح کرے پھر یوں کہے: «أشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله اللهم اجعلني من التوابين واجعلني من المتطهرين» میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، اے اللہ! مجھے توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں میں سے بنا دے تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے وہ جس سے بھی چاہے جنت میں داخل ہو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 55]
اردو حاشہ:
1؎:
عمر رضی اللہ عنہ کی اس حدیث کی تخریج امام مسلم نے اپنی صحیح میں ایک دوسری سند سے کی ہے (رقم: 234) اور اس میں ((اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنْ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنْ الْمُتَطَهِّرِينَ)) کا اضافہ نہیں ہے،
اور یہ روایت اضطراب سے پاک اور محفوظ ہے،
احناف اور شوافع نے اپنی کتابوں میں ہرعضو کے دھونے کے وقت جو الگ الگ دعائیں نقل کی ہیں:
مثلاً چہرہ دھونے کے وقت ((اللهم بيض وجهي يوم تبيض وجوه)) اور دایاں ہاتھ دھونے کے وقت ((اللهم أعطني كتابي في يميني وحاسبني حساباً يسيراً)) ان کی کوئی اصل نہیں ہے۔

2؎:
ترمذی کی سند میں ابو ادریس کی روایت براہ راست عمر رضی اللہ عنہ سے ہے،
لیکن زید بن حباب ہی سے مسلم کی بھی روایت ہے مگر اس میں ابو ادریس کے بعد جبیر بن نفیرعن عقبہ بن عامر،
عن عمر ہے جیسا کہ ترمذی نے خود تصریح کی ہے،
بہر حال ترمذی کی روایت میں ((اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي...)) کا اضافہ بزار اور طبرانی کے یہاں ثوبان رضی اللہ عنہ کی حدیث میں موجود ہے،
حافظ ابن حجر نے اس کو تلخیص میں ذکر کر کے سکوت اختیار کیا ہے۔
 (ملاحظہ ہو:
الإرواء رقم 96،
وصحیح أبی داود رقم 162)

نوٹ:
(سند میں اضطراب ہے،
لیکن شواہد کی بنا پر یہ حدیث مذکور اضافہ کے ساتھ صحیح ہے،
ملاحظہ ہو:
صحیح أبی داود رقم 162)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 55   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.