الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: صلح کے مسائل کا بیان
The Book of Peacemaking
12. بَابُ إِذَا أَشَارَ الإِمَامُ بِالصُّلْحِ فَأَبَى حَكَمَ عَلَيْهِ بِالْحُكْمِ الْبَيِّنِ:
12. باب: اگر حاکم صلح کرنے کے لیے اشارہ کرے اور کوئی فریق نہ مانے تو قاعدے کا حکم دے دے۔
(12) Chapter. If the Imam (i.e., ruler) suggests a (re)conciliation but the defendant refuses it, he is to be judged by the evident valid law.
حدیث نمبر: 2708
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني عروة بن الزبير،" ان الزبير كان يحدث انه خاصم رجلا من الانصار قد شهد بدرا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في شراج من الحرة، كانا يسقيان به كلاهما، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم للزبير: اسق يا زبير، ثم ارسل إلى جارك، فغضب الانصاري، فقال: يا رسول الله، آن كان ابن عمتك؟ فتلون وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: اسق، ثم احبس حتى يبلغ الجدر، فاستوعى رسول الله صلى الله عليه وسلم حينئذ حقه للزبير، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل ذلك اشار على الزبير براي سعة له وللانصاري، فلما احفظ الانصاري رسول الله صلى الله عليه وسلم استوعى للزبير حقه في صريح الحكم". قال عروة: قال الزبير: والله ما احسب هذه الآية نزلت إلا في ذلك فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم سورة النساء آية 65 الآية.حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ،" أَنَّ الزُّبَيْرَ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّهُ خَاصَمَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ قَدْ شَهِدَ بَدْرًا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شِرَاجٍ مِنَ الْحَرَّةِ، كَانَا يَسْقِيَانِ بِهِ كِلَاهُمَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْزُّبَيْرِ: اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ أَرْسِلْ إِلَى جَارِكَ، فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، آنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ؟ فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: اسْقِ، ثُمَّ احْبِسْ حَتَّى يَبْلُغَ الْجَدْرَ، فَاسْتَوْعَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَئِذٍ حَقَّهُ لِلْزُّبَيْرِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ ذَلِكَ أَشَارَ عَلَى الزُّبَيْرِ بِرَأْيٍ سَعَةٍ لَهُ وَلِلْأَنْصَارِيِّ، فَلَمَّا أَحْفَظَ الْأَنْصَارِيُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَوْعَى لِلْزُّبَيْرِ حَقَّهُ فِي صَرِيحِ الْحُكْمِ". قَالَ عُرْوَةُ: قَالَ الزُّبَيْرُ: وَاللَّهِ مَا أَحْسِبُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ إِلَّا فِي ذَلِكَ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ سورة النساء آية 65 الْآيَةَ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا، انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ زبیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے تھے کہ ان میں اور ایک انصاری صحابی میں جو بدر کی لڑائی میں بھی شریک تھے، مدینہ کی پتھریلی زمین کی نالی کے بارے میں جھگڑا ہوا۔ وہ اپنا مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئے۔ دونوں حضرات اس نالے سے (اپنے باغ) سیراب کیا کرتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، زبیر! تم پہلے سیراب کر لو، پھر اپنے پڑوسی کو بھی سیراب کرنے دو، اس پر انصاری کو غصہ آ گیا اور کہا، یا رسول اللہ! اس وجہ سے کہ یہ آپ کی پھوپھی کے لڑکے ہیں۔۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے زبیر! تم سیراب کرو اور پانی کو (اپنے باغ میں) اتنی دیر تک آنے دو کہ دیوار تک چڑھ جائے۔ اس مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کو ان کا پورا حق عطا فرمایا، اس سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فیصلہ کیا تھا، جس میں زبیر رضی اللہ عنہ اور انصاری صحابی دونوں کی رعایت تھی۔ لیکن جب انصاری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ دلایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ کو قانون کے مطابق پورا حق عطا فرمایا۔ عروہ نے بیان کیا کہ زبیر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، قسم اللہ کی! میرا خیال ہے کہ یہ آیت «فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم‏» اسی واقعہ پر نازل ہوئی تھی پس ہرگز نہیں! تیرے رب کی قسم، یہ لوگ اس وقت تک مومن نہ ہوں گے جب تک اپنے اختلافات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو دل و جان سے تسلیم نہ کر لیں۔

Narrated `Urwa bin Az-Zubair: Az-Zubair told me that he quarreled with an Ansari man who had participated in (the battle of) Badr in front of Allah's Apostle about a water stream which both of them used for irrigation. Allah's Apostle said to Az-Zubair, "O Zubair! Irrigate (your garden) first, and then let the water flow to your neighbor." The Ansari became angry and said, "O Allah's Apostle! Is it because he is your cousin?" On that the complexion of Allah's Apostle changed (because of anger) and said (to Az-Zubair), "I irrigate (your garden) and then withhold the water till it reaches the walls (surrounding the palms)." So, Allah's Apostle gave Az-Zubair his full right. Before that Allah's Apostle had given a generous judgment beneficial for Az-Zubair and the Ansari, but when the Ansan irritated Allah's Apostle he gave Az-Zubair his full right according to the evident law. Az-Zubair said, "By Allah ! I think the following Verse was revealed concerning that case: "But no by your Lord They can have No faith Until they make you judge In all disputes between them." (4.65)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 49, Number 871

   صحيح البخاري2708زبير بن العواماسق يا زبير ثم أرسل إلى جارك فغضب الأنصاري فقال يا رسول الله آن كان ابن عمتك فتلون وجه رسول الله ثم قال اسق ثم احبس حتى يبلغ الجدر فاستوعى رسول الله حينئذ حقه للزبير وكان رسول الله قبل ذلك أشار على الزبير برأي سعة له وللأنصاري فلما أحفظ الأنصاري رسول الله
   سنن النسائى الصغرى5409زبير بن العواماسق يا زبير ثم أرسل الماء إلى جارك فغضب الأنصاري وقال يا رسول الله أن كان ابن عمتك فتلون وجه رسول الله ثم قال يا زبير اسق ثم احبس الماء حتى يرجع إلى الجدر فاستوفى رسول الله للزبير حقه وكان رسول الله قبل ذلك أشار على الزبير برأي فيه السعة له وللأنصاري فلما

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2708  
2708. حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، وہ حضرت زبیر بن عوام ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ ان کا ایک انصاری بدری صحابی سے حرہ کے برساتی نالے کے متعلق جھگڑا ہوا جس سے وہ دونوں (اپنی زمینوں کو) پانی پلایاکرتے تھے۔ وہ اپنا مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: زبیر! تم زمین سیراب کر کے پھر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑدو۔ اس سے انصاری غضبناک ہوکر کہنے لگا: اللہ کے رسول ﷺ! یہ اس وجہ سے کہ وہ آپ کا پھوپھی زاد ہے؟یہ بات سن کر رسول اللہ ﷺ کاچہرہ انور متغیر ہوگیا، پھر آپ نے فرمایا: اے زبیر! تم ا پنی زمین کو سیراب کرو، پھر پانی کو روکے رکھو حتیٰ کہ وہ منڈیر تک چڑھ جائے۔ اس مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کو ان کا پورا پورا حق دیا۔ قبل ازیں رسول اللہ ﷺ نے جو فیصلہ کیا تھا اس میں حضرت زبیر ؓ اور انصاری دونوں کی رعایت تھی۔ پھر جب انصاری نے رسول اللہ ﷺ کو غصہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2708]
حدیث حاشیہ:
قاعدے اور ضابطے کا جہاں تک تعلق ہے آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی حضرت زبیر ؓ کے حق میں بالکل انصاف پر مبنی تھا۔
مگر انصاری صحابی کو اس میں رو رعایت کا پہلو نظر آیا جو صحیح نہ تھا، اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور بلا چوں و چرا اطاعت رسول ﷺ کو ایمان کی بنیاد قرار دیاگیا۔
آیت کریمہ سے ان مقلدین جامدین کا بھی رد ہوتا ہے جو صحیح احادیث پر اپنے ائمہ کو ترجیح دیتے اور مختلف حیلوں بہانوں سے فیصلہ نبوی کو ٹال دیتے ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ حجۃ اللہ البالغہ جلد اول صفحہ: 365، 366 پر فرماتے ہیں۔
پس اگر ہمیں رسول معصوم کی حدیث بہ سند صحیح پہنچے جس کی اطاعت خدا نے ہم پر فرض کی ہے اور مجتہد کا مذہب اس سے مخالف ہو اور اس کے باوجود ہم حدیث صحیح کو چھوڑ کر مجتہد کی تخمین اور ظنی بات کی پیروی کریں تو ہم سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا اور ہم اس وقت کیا عذر پیش کریں گے جب کہ لوگ اللہ رب العالمین کے سامنے حاضر ہوں گے۔
دوسری جگہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب ؒنے ایسی تقلید کو آیت ﴿اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ﴾ (التوبة: 31)
کا مصداق قرار دیا ہے۔
(حجة اللہ البالغة)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2708   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2708  
2708. حضرت عروہ بن زبیر سے روایت ہے، وہ حضرت زبیر بن عوام ؓ سے بیان کرتے ہیں کہ ان کا ایک انصاری بدری صحابی سے حرہ کے برساتی نالے کے متعلق جھگڑا ہوا جس سے وہ دونوں (اپنی زمینوں کو) پانی پلایاکرتے تھے۔ وہ اپنا مقدمہ رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: زبیر! تم زمین سیراب کر کے پھر اپنے پڑوسی کے لیے پانی چھوڑدو۔ اس سے انصاری غضبناک ہوکر کہنے لگا: اللہ کے رسول ﷺ! یہ اس وجہ سے کہ وہ آپ کا پھوپھی زاد ہے؟یہ بات سن کر رسول اللہ ﷺ کاچہرہ انور متغیر ہوگیا، پھر آپ نے فرمایا: اے زبیر! تم ا پنی زمین کو سیراب کرو، پھر پانی کو روکے رکھو حتیٰ کہ وہ منڈیر تک چڑھ جائے۔ اس مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کو ان کا پورا پورا حق دیا۔ قبل ازیں رسول اللہ ﷺ نے جو فیصلہ کیا تھا اس میں حضرت زبیر ؓ اور انصاری دونوں کی رعایت تھی۔ پھر جب انصاری نے رسول اللہ ﷺ کو غصہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2708]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس میں کوئی شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کو جو پہلے حکم دیا تھا اس میں فریقین کے لیے وسعت اور رعایت تھی، لیکن جب انصاری نے اس رعایت کو غلط رنگ دیا تو قاعدے اور ضابطے کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے حضرت زبیر ؓ کو پورا پورا حق دیا۔
اس آیت کریمہ میں رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کو ایمان کی بنیاد قرار دیا گیا ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جب حاکم فریقین کو آپس میں صلح کا حکم دے لیکن کوئی فریق اس پر دل و جان سے آمادہ نہ ہو تو پھر حسب قاعدہ کاروائی کرنا ہو گی اور قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے گا جس میں کسی کے لیے رعایت کا پہلو نہیں ہو گا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2708   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.