الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
The Book on Fasting
81. باب مَا جَاءَ فِي قِيَامِ شَهْرِ رَمَضَانَ
81. باب: ماہ رمضان کی راتوں میں قیام (تہجد پڑھنے) کا بیان۔
حدیث نمبر: 806
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا هناد، حدثنا محمد بن الفضيل، عن داود بن ابي هند، عن الوليد بن عبد الرحمن الجرشي، عن جبير بن نفير، عن ابي ذر، قال: صمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فلم يصل بنا حتى بقي سبع من الشهر، فقام بنا حتى ذهب ثلث الليل، ثم لم يقم بنا في السادسة وقام بنا في الخامسة حتى ذهب شطر الليل، فقلنا له: يا رسول الله لو نفلتنا بقية ليلتنا هذه؟ فقال: " إنه من قام مع الإمام حتى ينصرف كتب له قيام ليلة "، ثم لم يصل بنا حتى بقي ثلاث من الشهر، وصلى بنا في الثالثة ودعا اهله ونساءه، فقام بنا حتى تخوفنا الفلاح، قلت له: وما الفلاح؟ قال: " السحور ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، واختلف اهل العلم في قيام رمضان، فراى بعضهم ان يصلي إحدى واربعين ركعة مع الوتر، وهو قول اهل المدينة، والعمل على هذا عندهم بالمدينة، واكثر اهل العلم على ما روي عن عمر، وعلي وغيرهما من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم عشرين ركعة، وهو قول الثوري، وابن المبارك، والشافعي، وقال الشافعي: وهكذا ادركت ببلدنا بمكة يصلون عشرين ركعة، وقال احمد: روي في هذا الوان ولم يقض فيه بشيء، وقال إسحاق: بل نختار إحدى واربعين ركعة على ما روي عن ابي بن كعب، واختار ابن المبارك، واحمد، وإسحاق الصلاة مع الإمام في شهر رمضان، واختار الشافعي ان يصلي الرجل وحده إذا كان قارئا، وفي الباب عن عائشة، والنعمان بن بشير، وابن عباس.حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفُضَيْلِ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ، عَنْ الْوَلِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُرَشِيِّ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ، قَالَ: صُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّى بَقِيَ سَبْعٌ مِنَ الشَّهْرِ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ، ثُمَّ لَمْ يَقُمْ بِنَا فِي السَّادِسَةِ وَقَامَ بِنَا فِي الْخَامِسَةِ حَتَّى ذَهَبَ شَطْرُ اللَّيْلِ، فَقُلْنَا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَوْ نَفَّلْتَنَا بَقِيَّةَ لَيْلَتِنَا هَذِهِ؟ فَقَالَ: " إِنَّهُ مَنْ قَامَ مَعَ الْإِمَامِ حَتَّى يَنْصَرِفَ كُتِبَ لَهُ قِيَامُ لَيْلَةٍ "، ثُمَّ لَمْ يُصَلِّ بِنَا حَتَّى بَقِيَ ثَلَاثٌ مِنَ الشَّهْرِ، وَصَلَّى بِنَا فِي الثَّالِثَةِ وَدَعَا أَهْلَهُ وَنِسَاءَهُ، فَقَامَ بِنَا حَتَّى تَخَوَّفْنَا الْفَلَاحَ، قُلْتُ لَهُ: وَمَا الْفَلَاحُ؟ قَالَ: " السُّحُورُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ، فَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يُصَلِّيَ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً مَعَ الْوِتْرِ، وَهُوَ قَوْلُ أَهْلِ الْمَدِينَةِ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَهُمْ بِالْمَدِينَةِ، وَأَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ، وَابْنِ الْمُبَارَكِ، وَالشَّافِعِيِّ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: وَهَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً، وقَالَ أَحْمَدُ: رُوِيَ فِي هَذَا أَلْوَانٌ وَلَمْ يُقْضَ فِيهِ بِشَيْءٍ، وقَالَ إِسْحَاق: بَلْ نَخْتَارُ إِحْدَى وَأَرْبَعِينَ رَكْعَةً عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، وَاخْتَارَ ابْنُ الْمُبَارَكِ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق الصَّلَاةَ مَعَ الْإِمَامِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، وَاخْتَارَ الشَّافِعِيُّ أَنْ يُصَلِّيَ الرَّجُلُ وَحْدَهُ إِذَا كَانَ قَارِئًا، وَفِي الْبَاب عَنْ عَائِشَةَ، وَالنُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، وَابْنِ عَبَّاسٍ.
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صیام رمضان رکھے تو آپ نے ہمیں نماز (تراویح) نہیں پڑھائی، یہاں تک کہ رمضان کے صرف سات دن باقی رہ گئے تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا (یعنی تہجد پڑھی) یہاں تک کہ ایک تہائی رات گزر گئی۔ پھر جب چھ راتیں رہ گئیں تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا، (یعنی تہجد نہیں پڑھی) اور جب پانچ راتیں رہ گئیں تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا (یعنی تہجد پڑھی) یہاں تک کہ آدھی رات ہو گئی۔ تو ہم نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ اس رات کے باقی ماندہ حصہ میں بھی ہمیں نفل پڑھاتے رہتے (تو بہتر ہوتا)؟ آپ نے فرمایا: جس نے امام کے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ وہ فارغ ہو جائے تو اس کے لیے پوری رات کا قیام لکھا جائے گا، پھر آپ نے ہمیں نماز نہیں پڑھائی، یہاں تک کہ مہینے کے صرف تین دن باقی رہ گئے، پھر آپ نے ہمیں ستائیسویں رات کو نماز پڑھائی۔ اور اپنے گھر والوں اور اپنی عورتوں کو بھی بلایا، آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ ہمیں فلاح کے چھوٹ جانے کا اندیشہ ہوا۔ (راوی کہتے ہیں) میں نے پوچھا: فلاح کیا چیز ہے؟ تو انہوں نے کہا: سحری ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عائشہ، نعمان بن بشیر اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- رمضان کے قیام کے سلسلے میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ وتر کے ساتھ اکتالیس رکعتیں پڑھے گا، یہ اہل مدینہ کا قول ہے، ان کے نزدیک مدینے میں اسی پر عمل تھا،
۴- اور اکثر اہل علم ان احادیث کی بنا پر جو عمر، علی اور دوسرے صحابہ کرام رضی الله عنہم سے مروی ہے بیس رکعت کے قائل ہیں۔ یہ سفیان ثوری، ابن مبارک اور شافعی کا قول ہے۔ اور شافعی کہتے ہیں: اسی طرح سے میں نے اپنے شہر مکے میں پایا ہے کہ بیس رکعتیں پڑھتے تھے،
۵- احمد کہتے ہیں: اس سلسلے میں کئی قسم کی باتیں مروی ہیں ۱؎ انہوں نے اس سلسلے میں کوئی فیصلہ کن بات نہیں کہی،
۶- اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: ہمیں ابی بن کعب کی روایت کے مطابق ۴۱ رکعتیں مرغوب ہیں،
۷- ابن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ نے ماہ رمضان میں امام کے ساتھ نماز پڑھنے کو پسند کیا ہے،
۸- شافعی نے اکیلے پڑھنے کو پسند کیا ہے جب وہ قاری ہو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 318 (137)، سنن النسائی/السہو 103 (1365)، الإقامة 173 (1327)، (تحفة الأشراف: 11903)، مسند احمد (5/159)، سنن الدارمی/الصوم (1818) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: امام ترمذی نے اس سلسلے میں صرف دو قول کا ذکر کیا ہے ان کے علاوہ اور بھی بہت سے اقوال اس سلسلہ میں وارد ہیں ان میں راجح اور مختار اور دلائل کے اعتبار سے سب سے قوی گیارہ رکعت کا قول ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند سے یہی قول ثابت ہے دیگر اقوال میں سے کوئی بھی آپ سے صحیح سند سے ثابت نہیں اور نہ ہی خلفاء راشدین رضی الله عنہم میں سے کسی سے صحیح سند سے ثابت ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1327)
   سنن النسائى الصغرى1365جندب بن عبد اللهالرجل إذا صلى مع الإمام حتى ينصرف حسب له قيام ليلة
   سنن النسائى الصغرى1606جندب بن عبد اللهمن قام مع الإمام حتى ينصرف كتب الله له قيام ليلة ثم لم يصل بنا ولم يقم حتى بقي ثلاث من الشهر فقام بنا في الثالثة وجمع أهله ونساءه حتى تخوفنا أن يفوتنا الفلاح قلت وما الفلاح قال السحور
   جامع الترمذي806جندب بن عبد اللهمن قام مع الإمام حتى ينصرف كتب له قيام ليلة ثم لم يصل بنا حتى بقي ثلاث من الشهر وصلى بنا في الثالثة ودعا أهله ونساءه فقام بنا حتى تخوفنا الفلاح قلت له وما الفلاح قال السحور
   سنن ابن ماجه1327جندب بن عبد اللهمن قام مع الإمام حتى ينصرف فإنه يعدل قيام ليلة ثم كانت الرابعة التي تليها فلم يقمها حتى كانت الثالثة التي تليها قال فجمع نساءه وأهله واجتمع الناس قال فقام بنا حتى خشينا أن يفوتنا الفلاح قيل وما الفلاح قال السحور قال ثم لم يقم بنا شيئا من بقية

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1327  
´ماہ رمضان میں قیام اللیل (تراویح) کا بیان۔`
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے، آپ نے کسی بھی رات ہمارے ساتھ نماز تراویح نہ ادا فرمائی، یہاں تک کہ جب سات راتیں باقی رہ گئیں، تو ساتویں (یعنی تیئیسویں) رات کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا، یہاں تک کہ رات تہائی کے قریب گزر گئی، پھر اس کے بعد چھٹی (یعنی چوبیسویں) رات کو جو اس کے بعد آتی ہے، آپ نے قیام نہیں کیا یہاں تک کہ اس کے بعد والی پانچویں یعنی (پچیسویں) رات کو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا یہاں تک کہ رات آدھی کے قریب گزر گئی، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش آپ باقی رات ب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1327]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رمضان کے آخری عشرہ میں عبادت کا اہتمام معمول سے زیادہ کرنا چاہیے۔

(2)
نماز تراویح نفل نماز ہے۔
اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا مہینہ نہیں پڑھائی۔
صرف چند راتیں پڑھائی۔

(3)
نماز تراویح میں قیام رکوع اور سجود وغیرہ طویل ہونے سے زیادہ وقت تک نماز اد کی جا سکتی ہے۔
اور کم تلاوت اور مختصر رکوع وسجود کے ساتھ کم وقت میں بھی فراغت حاصل کی جا سکتی ہے۔
اس میں عام نمازیوں کے شوق اور ہمت کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔

(4)
نفل نماز میں تلاوت کی کوئی خاص مقد ار مقرر کرنا ضروری نہیں۔
کسی دن طویل اور کسی دن مختصر قیام ہوسکتا ہے۔

(5)
طویل نماز پڑھنے کا ارادہ ہو تو تلاوت زیادہ کرلی جائے۔
یا تلاوت ترتیل کے ساتھ کی جائے رکعتیں زیادہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
کسی روایت میں یہ صراحت نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان راتوں میں رکعتوں کی تعداد میں اضافہ فرمایا تھا۔
بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے فرمان کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز رمضان میں بھی اوردوسرے مہینوں میں بھی وتروں سمیت گیارہ رکعت ہی ہوتی تھی۔ (صحیح البخاري، التھجد، باب قیام النبی صلی اللہ علیہ وسلم باللیل فی رمضان وغیرہ، حدیث: 1147)

(6)
نماز تراویح میں عورتوں اور بچوں کو بھی شریک ہونا چاہیے۔

(7)
سحری کا کھانا بھی اہمیت کا حامل ہے۔
یہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے روزوں میں امتیاز بھی ہے۔
اور باعث برکت بھی اس لئے صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نے اسے فلاح یعنی کامیابی کا نام دیا ہے۔

(8)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورا رمضان تراویح نہیں پڑھائی کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطرہ محسوس ہوا کہ اگر فرض ہوگئی۔
تو امت کو اس پر عمل کرنا مشکل ہوگا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد چونکہ یہ خطرہ نہیں رہا اس لئے صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین نے پورا مہینہ باجماعت تراویح کا اہتمام فرمایا۔
ویسے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام ر مضان کی ترغٰب دی تھی۔
اس لئے اس پر عمل کرنا مسنون ہے۔
اسے بدعت میں شما ر نہیں کیا جاسکتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1327   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 806  
´ماہ رمضان کی راتوں میں قیام (تہجد پڑھنے) کا بیان۔`
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صیام رمضان رکھے تو آپ نے ہمیں نماز (تراویح) نہیں پڑھائی، یہاں تک کہ رمضان کے صرف سات دن باقی رہ گئے تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا (یعنی تہجد پڑھی) یہاں تک کہ ایک تہائی رات گزر گئی۔ پھر جب چھ راتیں رہ گئیں تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام نہیں کیا، (یعنی تہجد نہیں پڑھی) اور جب پانچ راتیں رہ گئیں تو آپ نے ہمارے ساتھ قیام کیا (یعنی تہجد پڑھی) یہاں تک کہ آدھی رات ہو گئی۔ تو ہم نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! اگر آپ اس رات کے باقی ماندہ حصہ میں بھی ہمیں نفل پڑھاتے ر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 806]
اردو حاشہ:
1؎:
امام ترمذی نے اس سلسلے میں صرف دو قول کا ذکر کیا ہے ان کے علاوہ اور بھی بہت سے اقوال اس سلسلہ میں وارد ہیں ان میں راجح اور مختار اور دلائل کے اعتبار سے سب سے قوی گیارہ رکعت کا قول ہے،
کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے صحیح سند سے یہی قول ثابت ہے دیگر اقوال میں سے کوئی بھی آپ سے صحیح سند سے ثابت نہیں اور نہ ہی خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم میں سے کسی سے صحیح سند سے ثابت ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 806   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.