الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: رضاعت کے احکام و مسائل
The Book on Suckling
8. باب مَا جَاءَ أَنَّ الْوَلَدَ لِلْفِرَاشِ
8. باب: بچہ شوہر یا مالک کا ہو گا۔
Chapter: What has been related about the child the bed belong to
حدیث نمبر: 1157
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا احمد بن منيع، حدثنا سفيان، عن الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الولد للفراش، وللعاهر الحجر ". قال: وفي الباب، عن عمر، وعثمان، وعائشة، وابي امامة، وعمرو بن خارجة، وعبد الله بن عمرو، والبراء بن عازب، وزيد بن ارقم. قال ابو عيسى: حديث ابي هريرة حديث حسن صحيح، وقد رواه الزهري، عن سعيد بن المسيب، عن ابي هريرة، والعمل على هذا عند اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُمَرَ، وَعُثْمَانَ، وَعَائِشَةَ، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَعَمْرِو بْنِ خَارِجَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، وَالْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، وَزَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاهُ الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بچہ صاحب فراش (یعنی شوہر یا مالک) کا ہو گا ۱؎ اور زانی کے لیے پتھر ہوں گے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ابوہریرہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عمر، عثمان، عائشہ، ابوامامہ، عمرو بن خارجہ، عبداللہ بن عمر، براء بن عازب اور زید بن ارقم رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام میں سے اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الرضاع 10 (1458)، سنن النسائی/الطلاق 48 (3512)، سنن ابن ماجہ/النکاح 59 (2006) مسند احمد (2/239) (تحفة الأشراف: 13134) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الفرائض 17 (6750)، والحدود 23 (6818)، مسند احمد (2/280، 386، 409، 492) من غیر ہذا الوجہ۔»

وضاحت:
۱؎: فراش سے صاحب فراش یعنی شوہر یا مالک مراد ہے کیونکہ یہی دونوں عورت کو بستر پر لٹاتے اور اس کے ساتھ سوتے ہیں۔
۲؎: زانی کے لیے پتھر ہے، یعنی ناکامی و نامرادی ہے، بچے میں اس کا کوئی حق نہیں، ایک قول یہ بھی ہے کہ «حجر» سے مراد یہ ہے کہ اسے رجم کیا جائے گا، یعنی پتھر سے مار مار کر ہلاک کیا جائے گا، مگر یہ قول کمزور و ضعیف ہے کیونکہ رجم صرف شادی شدہ کو کیا جائے گا، حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عورت جب بچے کو جنم دے گی تو وہ جس کی بیوی یا لونڈی ہو گی اسی کی طرف بچے کی نسبت ہو گی اور وہ اسی کا بچہ شمار کیا جائے گا، میراث اور ولادت کے دیگر احکام ان کے درمیان جاری ہوں گے خواہ کوئی دوسرا اس عورت کے ساتھ زنا کا ارتکاب کرنے کا دعویٰ کرے اور یہ بھی دعویٰ کرے کہ یہ بچہ اس کے زنا سے پیدا ہوا ہے اس کے ساتھ اس بچے کی مشابہت بھی ہو اور صاحب فراش کے ساتھ نہ ہو اس ساری صورتحال کے باوجود بچہ کو صاحب فراش کی طرف منسوب کیا جائے گا، اس میں زانی کا کوئی حق نہ ہو گا اور اگر اس نے اس کی نفی کر دی تو پھر بچہ ماں کی طرف منسوب ہو گا اور اس بچہ کا نسب ماں کے ساتھ جوڑا جائے گا زانی کے ساتھ نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
   صحيح البخاري6818عبد الرحمن بن صخرالولد للفراش للعاهر الحجر
   صحيح البخاري6750عبد الرحمن بن صخرالولد لصاحب الفراش
   صحيح مسلم3615عبد الرحمن بن صخرالولد للفراش للعاهر الحجر
   جامع الترمذي1157عبد الرحمن بن صخرالولد للفراش للعاهر الحجر
   سنن النسائى الصغرى3512عبد الرحمن بن صخرالولد للفراش للعاهر الحجر
   سنن النسائى الصغرى3513عبد الرحمن بن صخرالولد للفراش للعاهر الحجر
   سنن ابن ماجه2006عبد الرحمن بن صخرالولد للفراش للعاهر الحجر
   بلوغ المرام963عبد الرحمن بن صخر الولد للفراش وللعاهر الحجر
   مسندالحميدي1116عبد الرحمن بن صخرالولد للفراش وللعاهر الحجر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2006  
´بچے کا حقدار بستر والا (شوہر) ہے اور پتھر کا مستحق زانی۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بچہ صاحب فراش کا ہے اور زانی کے لیے پتھر ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 2006]
اردو حاشہ:
فائدہ:
الحجر، جیم کی جزم کے ساتھ ہوتو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس بچے کے قانونی فوائد (وراثت وغیرہ)
سے محروم ہے، اور جیم کے فتحہ کے ساتھ مطلب یہ ہے کہ سزا کا مستحق ہے، اسے رجم کیا جانا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2006   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 963  
´عدت، سوگ اور استبراء رحم کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بچہ اس کا ہے جس کے بستر پر پیدا ہوا اور زانی کیلئے پتھر۔ (بخاری و مسلم) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ایک قصہ کے متعلق بھی اسی طرح روایت ہے اور سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے نسائی نے اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے ابوداؤد نے یہی روایت بیان کی ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 963»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الحدود، باب للعاهر الحجر، حديث:6818، ومسلم، الرضاع، باب الولد للفراش...، حديث:1458، وحديث عائشة: أخرجه البخاري، الفرائض، حديث:6749، 2053، ومسلم، الرضاع، حديث:1457، وحديث ابن مسعود: أخرجه النسائي، الطلاق، حديث:3517 وهو صحيح، وحديث عثمان: أخرجه أبوداود، الطلاق، حديث: 2275، وهو صحيح.»
تشریح:
1.حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ بیوی یا لونڈی جب بچے کو جنم دے تو اس بچے کا نسب اسی آدمی کے ساتھ ملحق کیا جائے گا جو خاوند یا آقا ہے اور وہ اس کا بچہ شمار کیا جائے گا۔
اور بوجہ ولادت ان دونوں کے مابین وراثت وغیرہ کے احکام جاری ہوں گے۔
اور اگر کوئی دوسرا شخص اس عورت کے ساتھ ارتکاب زنا کا دعویٰ کرے اور یہ دعویٰ بھی کرے کہ یہ بچہ اس کے زنا سے پیدا ہوا ہے اور اس کے ساتھ اس بچے کی مشابہت بھی ہو جبکہ صاحب فراش کے ساتھ نہ ہو تو اس ساری صورتحال کے باوجود بچے کو صاحب فراش کے ساتھ ملحق کیا جائے گااور اس میں زانی کا کوئی حق نہیں ہوگا۔
اور یہ سب کچھ اس صورت میں ہے جب صاحب فراش بچے کی نفی نہ کرے۔
اگر اس نے نفی کر دی تو پھر بچہ ماں کے ساتھ ملحق کر دیا جائے گا اور اس کا نسب ماں کے ساتھ ہوگا‘ زانی کے ساتھ نہیں۔
یاد رہے! جمہور کا قول ہے کہ عورت صرف نکاح سے فراش بن جاتی ہے۔
اب اگر چھ ماہ یا اس سے زیادہ مدت کے بعد بچے کو جنم دیتی ہے اور خاوند کا اس کے ساتھ جماع کرنا بھی ممکن ہے تو بچہ خاوند کے ساتھ ملحق کر دیا جائے گا اور اگر جماع کا امکان نہ ہو تو پھر بچے کو اس کے ساتھ نہیں ملایا جائے گا۔
2. احناف کہتے ہیں کہ محض عقد کی وجہ سے بچے کو عورت کے خاوند کے ساتھ ملحق کر دیا جائے گا‘ خواہ جماع کا امکان ہو یا نہ ہو‘ حتیٰ کہ اگر مغرب کے رہنے والے نے مشرق میں رہنے والی خاتون سے نکاح کیا اور دونوں میں سے کسی نے بھی اپنا وطن مالوف نہ چھوڑا یا کسی آدمی نے عقد نکاح کے بعد طلاق دے دی‘ پھر چھ ماہ بعد اس عورت نے بچہ جنم دیا تو اس صورت میں بچہ اسی مرد کے ساتھ ملحق کیا جائے گا۔
یہ قول ایسا ہے کہ اس کی تردید کی ضرورت ہی نہیں۔
3. امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس طرف گئے ہیں کہ عورت سے دخول محقق کی معرفت ضروری ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ اور صاحب منار السبیل نے ان کی تائید کی ہے اور یہ بات لفظ فراش سے لغوی‘ عرفی اور عقلی طور پر سمجھی جاسکتی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 963   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1157  
´بچہ شوہر یا مالک کا ہو گا۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بچہ صاحب فراش (یعنی شوہر یا مالک) کا ہو گا ۱؎ اور زانی کے لیے پتھر ہوں گے ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1157]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
فراش سے صاحب فراش یعنی شوہر یا مالک مراد ہے کیونکہ یہی دونوں عورت کو بستر پر لٹاتے اور اس کے ساتھ سوتے ہیں۔

2؎:
زانی کے لیے پتھر ہے،
یعنی ناکامی و نامرادی ہے،
بچے میں اس کا کوئی حق نہیں،
ایک قول یہ بھی ہے کہ حجر سے مراد یہ ہے کہ اسے رجم کیا جائے گا،
یعنی پتھر سے مارمار کر ہلاک کیا جائے گا،
مگر یہ قول کمزور و ضعیف ہے کیونکہ رجم صرف شادی شدہ کو کیا جائے گا،
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عورت جب بچے کو جنم دے گی تو وہ جس کی بیوی یا لونڈی ہو گی اسی کی طرف بچے کی نسبت ہو گی اور وہ اسی کا بچہ شمار کیا جائے گا،
میراث اور ولادت کے دیگر احکام ان کے درمیان جاری ہوں گے خواہ کوئی دوسرا اس عورت کے ساتھ زنا کا ارتکاب کرنے کا دعویٰ کرے اور یہ بھی دعویٰ کرے کہ یہ بچہ اس کے زنا سے پیدا ہوا ہے اس کے ساتھ اس بچے کی مشابہت بھی ہو اور صاحب فراش کے ساتھ نہ ہو اس ساری صورتحال کے باوجود بچہ کو صاحب فراش کی طرف منسوب کیا جائے گا،
اس میں زانی کا کوئی حق نہ ہو گا اور اگر اس نے اس کی نفی کر دی تو پھر بچہ ماں کی طرف منسوب ہو گا اور اس بچہ کا نسب ماں کے ساتھ جوڑا جائے گا زانی کے ساتھ نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1157   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.