حدثنا ابو موسى محمد بن مثنى، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن حماد بن سلمة، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة، ان النبي صلى الله عليه وسلم: " نهى عن بيع الحيوان بالحيوان نسيئة ". قال: وفي الباب، عن ابن عباس، وجابر، وابن عمر. قال ابو عيسى: حديث سمرة حديث حسن صحيح، وسماع الحسن من سمرة صحيح، هكذا قال: علي بن المديني وغيره، والعمل على هذا عند اكثر اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، في بيع الحيوان بالحيوان نسيئة، وهو قول: سفيان الثوري، واهل الكوفة، وبه يقول احمد، وقد رخص بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، في بيع الحيوان بالحيوان نسيئة، وهو قول: الشافعي، وإسحاق.حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ مُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى عَنْ بَيْعِ الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ نَسِيئَةً ". قَالَ: وَفِي الْبَاب، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَجَابِرٍ، وَابْنِ عُمَرَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَمُرَةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَسَمَاعُ الْحَسَنِ مِنْ سَمُرَةَ صَحِيحٌ، هَكَذَا قَالَ: عَلِيُّ بْنُ الْمَدِينِيِّ وَغَيْرُهُ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، فِي بَيْعِ الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ نَسِيئَةً، وَهُوَ قَوْلُ: سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَبِهِ يَقُولُ أَحْمَدُ، وَقَدْ رَخَّصَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، فِي بَيْعِ الْحَيَوَانِ بِالْحَيَوَانِ نَسِيئَةً، وَهُوَ قَوْلُ: الشَّافِعِيِّ، وَإِسْحَاق.
سمرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور کو جانور سے ادھار بیچنے سے منع فرمایا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- سمرہ رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے، ۲- حسن کا سماع سمرہ سے صحیح ہے۔ علی بن مدینی وغیرہ نے ایسا ہی کہا ہے، ۳- اس باب میں ابن عباس، جابر اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں، ۴- صحابہ کرام وغیرہم میں سے اکثر اہل علم کا جانور کو جانور سے ادھار بیچنے کے مسئلہ میں اسی حدیث پر عمل ہے۔ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا یہی قول ہے۔ احمد بھی اسی کے قائل ہیں، ۵- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے جانور کے جانور سے ادھار بیچنے کی اجازت دی ہے۔ اور یہی شافعی، اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 704
´سود کا بیان` سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیوان کو حیوان کے بدلے میں ادھار فروخت کرنا ممنوع قرار دیا ہے۔ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے۔ ترمذی اور ابن جارود نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 704»
تخریج: «أخرجه أبوداود، البيوع، باب في الحيوان بالحيوان نسيئة، حديث:3356، والترمذي، البيوع، حديث:1237، والنسائي، البيوع، حديث:4624، وابن ماجه، التجارات، حديث:2270، وأحمد:5 /12، 19، 3 /310.»
تشریح: یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ حیوان کے بدلے میں حیوان کی ادھار فروخت جائز نہیں‘ مگر اسی باب میں آنے والی حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کی روایت اور دیگر روایات اس کے معارض ہیں‘ اسی بنا پر جمہور حیوان کے بدلے میں حیوان کو مطلقاً ادھار فروخت کرنا جائز سمجھتے ہیں‘ اگرچہ کمی بیشی بھی ہو۔ اور بعض اس سے منع کرتے ہیں۔ مگر امام شافعی رحمہ اللہ نے ان دونوں کے درمیان تطبیق یوں دی ہے کہ یہاں ادھار سے مراد دونوں طرف سے ادھار ہے‘ اس لیے کہ نسیئۃکا لفظ اس کا احتمال رکھتا ہے کہ یہ ادھار کے بدلے میں ادھار بیع کی صورت ہے اور یہ کسی کے نزدیک بھی صحیح نہیں ہے۔ امام خطابی رحمہ اللہ نے اس تطبیق اور جمع کی صورت کو پسند کیا ہے اور کہا ہے کہ جمع کی یہ صورت اچھی اور عمدہ ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ کا رجحان منع کی احادیث کی طرف ہے مگر راجح رائے وہی ہے جسے امام شافعی‘ علامہ خطابی رحمہما اللہ اور جمہور نے اختیار کیا ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 704