الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book on Business
40. باب مَا جَاءَ فِي الاِحْتِكَارِ
40. باب: ذخیرہ اندوزی کا بیان۔
حدیث نمبر: 1267
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسحاق بن منصور، اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا محمد بن إسحاق، عن محمد بن إبراهيم، عن سعيد بن المسيب، عن معمر بن عبد الله بن نضلة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا يحتكر إلا خاطئ "، فقلت لسعيد: يا ابا محمد، إنك تحتكر، قال: ومعمر، قد كان يحتكر. قال ابو عيسى: وإنما روي عن سعيد بن المسيب، انه كان يحتكر الزيت والحنطة ونحو هذا. قال ابو عيسى: وفي الباب، عن عمر، وعلي، وابي امامة، وابن عمر، وحديث معمر حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم كرهوا احتكار الطعام، ورخص بعضهم في الاحتكار في غير الطعام، وقال ابن المبارك: لا باس بالاحتكار في القطن، والسختيان ونحو ذلك.حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ مَعْمَرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نَضْلَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا يَحْتَكِرُ إِلَّا خَاطِئٌ "، فَقُلْتُ لِسَعِيدٍ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، إِنَّكَ تَحْتَكِرُ، قَالَ: وَمَعْمَرٌ، قَدْ كَانَ يَحْتَكِرُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَإِنَّمَا رُوِيَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ كَانَ يَحْتَكِرُ الزَّيْتَ وَالْحِنْطَةَ وَنَحْوَ هَذَا. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب، عَنْ عُمَرَ، وَعَلِيٍّ، وَأَبِي أُمَامَةَ، وَابْنِ عُمَرَ، وَحَدِيثُ مَعْمَرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ كَرِهُوا احْتِكَارَ الطَّعَامِ، وَرَخَّصَ بَعْضُهُمْ فِي الِاحْتِكَارِ فِي غَيْرِ الطَّعَامِ، وقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: لَا بَأْسَ بِالِاحْتِكَارِ فِي الْقُطْنِ، وَالسِّخْتِيَانِ وَنَحْوِ ذَلِكَ.
معمر بن عبداللہ بن نضلہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: گنہگار ہی احتکار (ذخیرہ اندوزی) کرتا ہے ۱؎۔ محمد بن ابراہیم کہتے ہیں: میں نے سعید بن المسیب سے کہا: ابو محمد! آپ تو ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا: معمر بھی ذخیرہ اندوزی کرتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- معمر کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- سعید بن مسیب سے مروی ہے، وہ تیل، گیہوں اور اسی طرح کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی کرتے تھے،
۳- اس باب میں عمر، علی، ابوامامہ، اور ابن عمر رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ ان لوگوں نے کھانے کی ذخیرہ اندوزی ناجائز کہا ہے،
۵- بعض اہل علم نے کھانے کے علاوہ دیگر اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کی اجازت دی ہے،
۶- ابن مبارک کہتے ہیں: روئی، دباغت دی ہوئی بکری کی کھال، اور اسی طرح کی چیزوں کی ذخیرہ اندوزی میں کوئی حرج نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساقاة 26 (البیوع 47)، (1605)، سنن ابی داود/ البیوع 49 (3447)، سنن ابن ماجہ/التجارات 6 (2154)، (تحفة الأشراف: 11481)، و مسند احمد (6/400) وسنن الدارمی/البیوع 12 (2585) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: «احتکار»: ذخیرہ اندوزی کو کہتے ہیں، یہ اس وقت منع ہے جب لوگوں کو غلے کی ضرورت ہو تو مزید مہنگائی کے انتظار میں اسے بازار میں نہ لایا جائے، اگر بازار میں غلہ دستیاب ہے تو ذخیرہ اندوزی منع نہیں۔ کھانے کے سوا دیگر غیر ضروری اشیاء کی ذخیرہ اندوزی میں کوئی حرج نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2154)
   صحيح مسلم4122معمر بن عبد اللهمن احتكر فهو خاطئ
   صحيح مسلم4123معمر بن عبد اللهلا يحتكر إلا خاطئ
   جامع الترمذي1267معمر بن عبد اللهلا يحتكر إلا خاطئ
   سنن أبي داود3447معمر بن عبد اللهلا يحتكر إلا خاطئ
   سنن ابن ماجه2154معمر بن عبد اللهلا يحتكر إلا خاطئ

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2154  
´ذخیرہ اندوزی اور جلب کا بیان۔`
معمر بن عبداللہ بن نضلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ذخیرہ اندوزی صرف خطاکار کرتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2154]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
  ذخیرہ اندوزی کا مطلب یہ ہے کہ جب عوام کو کسی چیز کی زیادہ ضرورت ہو، تاجر اس وقت اپنا مال روک لے تا کہ قیمت اور بڑھ جائے۔
اس میں لالچ اور خود غرضی پائی جاتی ہے۔
ایسے شخص کے دل میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ عوام مصیبت میں مبتلا ہوں تا کہ وہ دولت جمع کرسکے۔
اس قسم کی خواہشات ایک مسلمان کی شان کے لائق نہیں۔

(2)
  ذخیرہ اندوزی شرعاً ممنوع ہے، اور ممنوع کام کے ارتکاب سے روزی میں حرام شامل ہوجاتا ہے۔

(3)
  گناہ گار کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ ایسا غلط کام وہی کرسکتا ہے جو گناہوں کا عادی ہوچکا ہو۔
جس سے کبھی کبھار کوئی گناہ کا کام ہوجاتا ہے وہ اتنے بڑے جرم کا ارتکاب نہیں کر سکتا۔

(4)
  اپنی ذاتی ضروریات کے لیے مناسب مقدار میں چیز خرید رکھ لینا ذخیرہ اندوزی میں شامل نہیں، مثلاً:
اگر کوی شخص اپنے گھر میں استعمال کے لیے سال بھی کی ضروریات کے مطابق فصل کے موسم میں غلہ خرید لیتا ہے تو وہ مجرم نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2154   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1267  
´ذخیرہ اندوزی کا بیان۔`
معمر بن عبداللہ بن نضلہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: گنہگار ہی احتکار (ذخیرہ اندوزی) کرتا ہے ۱؎۔ محمد بن ابراہیم کہتے ہیں: میں نے سعید بن المسیب سے کہا: ابو محمد! آپ تو ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا: معمر بھی ذخیرہ اندوزی کرتے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1267]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
احتکار:
ذخیرہ اندوزی کوکہتے ہیں،
یہ اس وقت منع ہے جب لوگوں کو غلّے کی ضرورت ہو تو مزید مہنگائی کے انتظارمیں اسے بازار میں نہ لایا جائے،
اگربازار میں غلّہ دستیاب ہے تو ذخیرہ اندوزی منع نہیں۔
کھانے کے سوا دیگرغیرضروری اشیاء کی ذخیرہ اندوزی میں کوئی حرج نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1267   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3447  
´ذخیرہ اندوزی منع ہے۔`
بنو عدی بن کعب کے ایک فرد معمر بن ابی معمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بھاؤ بڑھانے کے لیے احتکار (ذخیرہ اندوزی) وہی کرتا ہے جو خطاکار ہو۔‏‏‏‏ محمد بن عمرو کہتے ہیں: میں نے سعید بن مسیب سے کہا: آپ تو احتکار کرتے ہیں، انہوں نے کہا: معمر بھی احتکار کرتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے امام احمد سے پوچھا: حکرہ کیا ہے؟ (یعنی احتکار کا اطلاق کس چیز پر ہو گا) انہوں نے کہا: جس پر لوگوں کی زندگی موقوف ہو۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اوزاعی کہتے ہیں: احتکار (ذخیرہ اندوزی) کرنے والا وہ ہے جو بازار کے آڑے آئے یعنی اس کے لیے رکاوٹ بنے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3447]
فوائد ومسائل:
ایسی تمام چیزیں جن پر انسانوں یا ان کے جانوروں کی گزران ہو اور وہ کسی کے پاس فروخت کےلئے رکھی ہوں۔
اور بازار میں ان کی قلت ہوجائے۔
پھر انہیں اس غرض سے روکے رکھے کہ مذید مہنگی ہوں گی۔
تو فروخت کروں گا۔
ذخیرہ اندوزی ہے۔
جس کی حرمت آئی ہے۔
اگر بازار میں وہ چیز حسب طلب موجود ہو یا کسی نے اپنی ضرورت کےلئے رکھی ہو تو اسے روکنا ممنوع ذخیرہ اندوزی نہیں ہے۔
قلت اور قحط کے ایام میں روکنا حرام ہے۔
جناب سعید بن مسیب۔
اور حضرت معمر کا عمل بھی اسی دوسری صورت کے مطابق تھا۔
بعض آئمہ کرام بنیادی غذائوں کےعلاوہ پھلوں اور دوسری چیزوں کو روک رکھنا مباح سمجھتے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3447   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.