الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book on Business
43. باب مَا جَاءَ إِذَا اخْتَلَفَ الْبَيِّعَانِ
43. باب: بائع (بیچنے والے) اور مشتری (خریدنے والے) کے اختلاف کا بیان۔
حدیث نمبر: 1270
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا قتيبة، حدثنا سفيان، عن ابن عجلان، عن عون بن عبد الله، عن ابن مسعود، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا اختلف البيعان، فالقول قول البائع، والمبتاع بالخيار ". قال ابو عيسى: هذا حديث مرسل عون بن عبد الله لم يدرك ابن مسعود. وقد روي عن القاسم بن عبد الرحمن، عن ابن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم هذا الحديث ايضا، وهو مرسل ايضا، قال ابو عيسى 12: قال إسحاق بن منصور، قلت لاحمد: إذا اختلف البيعان، ولم تكن بينة، قال: القول ما قال رب السلعة، او يترادان، قال إسحاق: كما قال، وكل من كان القول قوله فعليه اليمين. قال ابو عيسى: هكذا روي عن بعض اهل العلم من التابعين منهم: شريح وغيره نحو هذا.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا اخْتَلَفَ الْبَيِّعَانِ، فَالْقَوْلُ قَوْلُ الْبَائِعِ، وَالْمُبْتَاعُ بِالْخِيَارِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ مُرْسَلٌ عَوْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ لَمْ يُدْرِكْ ابْنَ مَسْعُودٍ. وَقَدْ رُوِيَ عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثُ أَيْضًا، وَهُوَ مُرْسَلٌ أَيْضًا، قَالَ أَبُو عِيسَى 12: قَالَ إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ، قُلْتُ لِأَحْمَدَ: إِذَا اخْتَلَفَ الْبَيِّعَانِ، وَلَمْ تَكُنْ بَيِّنَةٌ، قَالَ: الْقَوْلُ مَا قَالَ رَبُّ السِّلْعَةِ، أَوْ يَتَرَادَّانِ، قَالَ إِسْحَاق: كَمَا قَالَ، وَكُلُّ مَنْ كَانَ الْقَوْلُ قَوْلَهُ فَعَلَيْهِ الْيَمِينُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا رُوِيَ عَنْ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ التَّابِعِينَ مِنْهُمْ: شُرَيْحٌ وَغَيْرُهُ نَحْوُ هَذَا.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب بائع اور مشتری میں اختلاف ہو جائے تو بات بائع کی مانی جائے گی، اور مشتری کو اختیار ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث مرسل ہے، عون بن عبداللہ نے ابن مسعود کو نہیں پایا،
۲- اور قاسم بن عبدالرحمٰن سے بھی یہ حدیث مروی ہے، انہوں نے ابن مسعود سے اور ابن مسعود نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے۔ اور یہ روایت بھی مرسل ہے،
۳- اسحاق بن منصور کہتے ہیں: میں نے احمد سے پوچھا: جب بائع اور مشتری میں اختلاف ہو جائے اور کوئی گواہ نہ ہو تو کس کی بات تسلیم کی جائے گی؟ انہوں نے کہا: بات وہی معتبر ہو گی جو سامان کا مالک کہے گا، یا پھر دونوں اپنی اپنی چیز واپس لے لیں یعنی بائع سامان واپس لے لے اور مشتری قیمت۔ اسحاق بن راہویہ نے بھی وہی کہا ہے جو احمد نے کہا ہے،
۴- اور بات جس کی بھی مانی جائے اس کے ذمہ قسم کھانا ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
تابعین میں سے بعض اہل علم سے اسی طرح مروی ہے، انہیں میں شریح بھی ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9531) (صحیح) وانظر أیضا: سنن ابی داود/ البیوع 74 (3511)، سنن النسائی/البیوع 82 (4652)، سنن ابن ماجہ/التجارات 19 (2186)، مسند احمد (1/446)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1322 - 1324)، أحاديث البيوع
   جامع الترمذي1270عبد الله بن مسعودإذا اختلف البيعان فالقول قول البائع والمبتاع بالخيار
   سنن أبي داود3511عبد الله بن مسعودإذا اختلف البيعان وليس بينهما بينة فهو ما يقول رب السلعة أو يتتاركان
   سنن ابن ماجه2186عبد الله بن مسعودإذا اختلف البيعان وليس بينهما بينة والبيع قائم بعينه فالقول ما قال البائع أو يترادان البيع
   سنن النسائى الصغرى4652عبد الله بن مسعودإذا اختلف البيعان وليس بينهما بينة فهو ما يقول رب السلعة أو يتركا
   بلوغ المرام650عبد الله بن مسعود إذا اختلف المتبايعان ،‏‏‏‏ وليس بينهما بينة ،‏‏‏‏ فالقول ما يقول رب السلعة أو يتتاركان

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2186  
´خریدنے والے اور بیچنے والے کے درمیان اختلاف ہو جائے تو وہ کیا کریں؟`
عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کے ہاتھ حکومت کے غلاموں میں سے ایک غلام بیچا، پھر دونوں میں قیمت کے بارے میں اختلاف ہو گیا، ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا کہ میں نے آپ سے اسے بیس ہزار میں بیچا ہے، اور اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اسے دس ہزار میں خریدا ہے، اس پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر چاہیں تو میں ایک حدیث بیان کروں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، اشعث رضی اللہ عنہ نے کہا: بیان کریں، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ ع۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2186]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  ادھار خرید فروخت جائز ہے۔
اس قسم کا اختلاف اسی وقت ہوتا ہے جب چیز وصول کر لی گئی ہو اور قیمت ادا نہ کی گئی ہے۔

(2)
  اس قسم کی غلط فہمی اس وقت پیدا ہوتی ہے جب قرض یا ادھار کا معاملہ زبانی طے کیا گیا ہو اور اسے لکھا نہ گیا ہو، اس لیے بہتر ہے کہ ایسے موقع پر تحریر لکھ لی جائے جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ لَا تَسْـَٔمُوْۤا اَنْ تَكْتُبُوْهُ صَغِیْرًا اَوْ كَبِیْرًا اِلٰی اَجَلِهٖ ؕ ذٰلِكُمْ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ وَ اَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَ اَدْنٰۤی اَلَّا تَرْتَابُوْا﴾ اور قرض کو، جس کی مدت مقرر ہے، خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو لکھنے میں کاہلی نہ کرو۔
اللہ کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے۔
اور گواہی کو درست رکھنے والی اور شک و شبہ سے بھی زیادہ بچانے والی ہے۔

(3)
  صحابہ کرام کی نظر میں حدیث کا مقام اس قدر بلند تھا کہ جب حدیث سامنے آ جاتی تو فریقین اسے تسلیم کر کے جھگڑا ختم کردیتے تھے۔
مسلمان کا عمل اسی طرح ہونا چاہیے۔

(4)
  اختلاف کی صورت میں اگر گواہی موجود ہو تو گواہی پر فیصلہ کرنا چاہیے۔

(5)
  اگر گواہ موجود نہ ہو اور خریدی ہوئی چیز کو واپس کرنا ممکن ہو تو بیچنے والے کے دعویٰ کو تسلیم کر لیا جائے یا سودا ختم کرکے چیز واپس کر دی جائے۔
دونوں طرح جائز ہے۔ 6۔
اختلاف کی صورت میں باہمی احترام کو قائم رکھنا ضروری ہے گالی گلوچ اور الزام تراشی سے پرہیز کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2186   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 650  
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جب فروخت کرنے والے اور خریدنے والے میں اختلاف واقع ہو جائے اور ثبوت و شہادت کسی کے پاس نہ ہو، تو صاحب مال کی بات معتبر ہو گی، یا وہ دونوں اس سودے کو چھوڑ دیں۔ اسے پانچوں نے روایت کیا ہے اور حاکم نے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 650»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، البيوع، باب إذا اختلف البيعان والمبيع قائم، حديث:3511، والترمذي، البيوع، حديث:1270، والنسائي، البيوع، حديث:4652، وابن ماجه، التجارات، حديث:2186، وأحمد:1 /466، والحاكم:2 /45.»
تشریح:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جب فروخت کنندہ اور خریدار کے مابین کسی چیز کے بارے میں اختلاف واقع ہو جائے تو فروخت کرنے والے کی بات کو ترجیح ہوگی۔
اگر وہ بات خریدار کو قابل قبول ہوئی تو ٹھیک ورنہ خریدار اپنی ادا شدہ رقم واپس لے لے اور فروخت کرنے والا اپنی فروخت شدہ چیز واپس لے اور سودا فسخ کر دیا جائے۔
یہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے جب وہی چیز اپنی اصلی حالت میں موجود ہو۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 650   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3511  
´جب بیچنے والے اور خریدنے والے کے درمیان قیمت میں اختلاف ہو جائے اور بیچی گئی چیز موجود ہو تو اس کے حکم کا بیان۔`
محمد بن اشعث کہتے ہیں اشعث نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے خمس کے غلاموں میں سے چند غلام بیس ہزار میں خریدے، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اشعث سے ان کی قیمت منگا بھیجی تو انہوں نے کہا کہ میں نے دس ہزار میں خریدے ہیں تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: کسی شخص کو چن لو جو ہمارے اور تمہارے درمیان معاملے کا فیصلہ کر دے، اشعث نے کہا: آپ ہی میرے اور اپنے معاملے میں فیصلہ فرما دیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الإجارة /حدیث: 3511]
فوائد ومسائل:
فائدہ۔
اس میں اختلاف کے خاتمے کےلئے ایک مناسب طریقہ تجویز کیا گیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3511   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.