الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: دیت و قصاص کے احکام و مسائل
The Book on Blood Money
9. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَقْتُلُ ابْنَهُ يُقَادُ مِنْهُ أَمْ لاَ
9. باب: آدمی اپنے بیٹے کو قتل کر دے تو کیا قصاص لیا جائے گا یا نہیں؟
حدیث نمبر: 1399
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا علي بن حجر , حدثنا إسماعيل بن عياش , حدثنا المثنى بن الصباح , عن عمرو بن شعيب , عن ابيه , عن جده , عن سراقة بن مالك بن جعشم , قال: " حضرت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقيد الاب من ابنه , ولا يقيد الابن من ابيه ". قال ابو عيسى: هذا حديث لا نعرفه من حديث سراقة إلا من هذا الوجه , وليس إسناده بصحيح , رواه إسماعيل بن عياش , عن المثنى بن الصباح , والمثنى بن الصباح يضعف في الحديث , وقد روى هذا الحديث , ابو خالد الاحمر , عن الحجاج بن ارطاة , عن عمرو بن شعيب , عن ابيه , عن جده , عن عمر , عن النبي صلى الله عليه وسلم , وقد روي هذا الحديث , عن عمرو بن شعيب , مرسلا , وهذا حديث فيه اضطراب , والعمل على هذا عند اهل العلم , ان الاب إذا قتل ابنه لا يقتل به , وإذا قذف ابنه لا يحد.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ , حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ , عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ , عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشَمٍ , قَالَ: " حَضَرْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقِيدُ الْأَبَ مِنَ ابْنِهِ , وَلَا يُقِيدُ الِابْنَ مِنْ أَبِيهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ سُرَاقَةَ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ , وَلَيْسَ إِسْنَادُهُ بِصَحِيحٍ , رَوَاهُ إِسْمَاعِيل بْنُ عَيَّاشٍ , عَنْ الْمُثَنَّى بْنِ الصَّبَّاحِ , وَالْمُثَنَّى بْنُ الصَّبَّاحِ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ , وَقَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ , أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ , عَنْ الْحَجَّاجِ بْنِ أَرْطَاةَ , عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ جَدِّهِ , عَنْ عُمَرَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ , عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ , مُرْسَلًا , وَهَذَا حَدِيثٌ فِيهِ اضْطِرَابٌ , وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ , أَنَّ الْأَبَ إِذَا قَتَلَ ابْنَهُ لَا يُقْتَلُ بِهِ , وَإِذَا قَذَفَ ابْنَهُ لَا يُحَدُّ.
سراقہ بن مالک بن جعشم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، (تو دیکھا) کہ آپ باپ کو بیٹے سے قصاص دلواتے تھے اور بیٹے کو باپ سے قصاص نہیں دلواتے تھے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- سراقہ رضی الله عنہ کی اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔ اس کی سند صحیح نہیں ہے، اسے اسماعیل بن عیاش نے مثنیٰ بن صباح سے روایت کی ہے اور مثنیٰ بن صباح حدیث میں ضعیف گردانے جاتے ہیں،
۲- اس حدیث کو ابوخالد اُحمر نے بطریق: «عن الحجاج بن أرطاة عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده عن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم» روایت کیا ہے،
۴- یہ حدیث عمرو بن شعیب سے مرسلاً بھی مروی ہے، اس حدیث میں اضطراب ہے،
۴- اہل علم کا عمل اسی پر ہے کہ باپ جب اپنے بیٹے کو قتل کر دے تو بدلے میں (قصاصاً) اسے قتل نہیں کیا جائے گا اور جب باپ اپنے بیٹے پر (زنا کی) تہمت لگائے تو اس پر حد قذف نافذ نہیں ہو گی۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3818) (ضعیف) (سند میں ”المثنی بن صباح“ ضعیف ہیں، اخیر عمر میں مختلط ہو گئے تھے، نیز حدیث میں بہت اضطراب ہے)»

وضاحت:
۱؎: علماء کہتے ہیں کہ باپ اور بیٹے کے مابین تفریق کا سبب یہ ہے کہ باپ کے دل میں اولاد کی محبت کسی دنیوی منفعت کی لالچ کے بغیر ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ باپ کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد باقی زندہ اور خوش رہے، جب کہ اولاد کے دل میں پائی جانے والی محبت کا تعلق «الاما شاء اللہ» صرف دنیاوی منفعت سے ہے (یہ حدیث گرچہ سنداً ضعیف ہے مگر دیگر طرق سے مسئلہ ثابت ہے)۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الإرواء (7 / 272) // ضعيف سنن ابن ماجة برقم (2214) //

قال الشيخ زبير على زئي: (1399) إسناده ضعيف
المثني ضعيف (تقدم:641)
   جامع الترمذي1399يقيد الأب من ابنه ولا يقيد الابن من أبيه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1399  
´آدمی اپنے بیٹے کو قتل کر دے تو کیا قصاص لیا جائے گا یا نہیں؟`
سراقہ بن مالک بن جعشم رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، (تو دیکھا) کہ آپ باپ کو بیٹے سے قصاص دلواتے تھے اور بیٹے کو باپ سے قصاص نہیں دلواتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1399]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
علماء کہتے ہیں کہ باپ اور بیٹے کے مابین تفریق کا سبب یہ ہے کہ باپ کے دل میں اولاد کی محبت کسی دنیوی منفعت کی لالچ کے بغیر ہوتی ہے،
یہی وجہ ہے کہ باپ کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد باقی زندہ اورخوش رہے،
جب کہ اولاد کے دل میں پائی جانے والی محبت کا تعلق (الاما شاء اللہ) صرف دنیاوی منفعت سے ہے۔
(یہ حدیث اگرچہ سنداً ضعیف ہے مگر دیگر طرق سے مسئلہ ثابت ہے)
نوٹ:
(سند میں المثنی بن صباح ضعیف ہیں،
اخیرعمر میں مختلط ہوگئے تھے،
نیز حدیث میں بہت اضطراب ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1399   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.