الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: دیت و قصاص کے احکام و مسائل
The Book on Blood Money
13. باب مَا جَاءَ فِي حُكْمِ وَلِيِّ الْقَتِيلِ فِي الْقِصَاصِ وَالْعَفْوِ
13. باب: قصاص اور عفو کے سلسلے میں مقتول کے ولی (وارث) کے فیصلے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Guardian Of One Who Was Killed Deciding Between Qisas or Pardon
حدیث نمبر: 1407
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو كريب، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قتل رجل على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فدفع القاتل إلى وليه , فقال القاتل: يا رسول الله , والله ما اردت قتله , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اما إنه إن كان قوله صادقا فقتلته دخلت النار " , فخلى عنه الرجل , قال: وكان مكتوفا بنسعة , قال: فخرج يجر نسعته , قال: فكان يسمى: ذا النسعة. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح , والنسعة حبل.حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قُتِلَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدُفِعَ الْقَاتِلُ إِلَى وَلِيِّهِ , فَقَالَ الْقَاتِلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ قَتْلَهُ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمَا إِنَّهُ إِنْ كَانَ قَوْلُهُ صَادِقًا فَقَتَلْتَهُ دَخَلْتَ النَّارَ " , فَخَلَّى عَنْهُ الرَّجُلُ , قَالَ: وَكَانَ مَكْتُوفًا بِنِسْعَةٍ , قَالَ: فَخَرَجَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ , قَالَ: فَكَانَ يُسَمَّى: ذَا النِّسْعَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ , وَالنِّسْعَةُ حَبْلٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی قتل کر دیا گیا، تو قاتل مقتول کے ولی (وارث) کے سپرد کر دیا گیا، قاتل نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں نے اسے قصداً قتل نہیں کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار! اگر وہ (قاتل) اپنے قول میں سچا ہے پھر بھی تم نے اسے قتل کر دیا تو تم جہنم میں جاؤ گے ۱؎، چنانچہ مقتول کے ولی نے اسے چھوڑ دیا، وہ آدمی رسی سے بندھا ہوا تھا، تو وہ رسی گھسیٹتا ہوا باہر نکلا، اس لیے اس کا نام ذوالنسعہ (رسی یا تسمے والا) رکھ دیا گیا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور «نسعہ»: رسی کو کہتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الدیات 3 (4498)، سنن النسائی/القسامة 5 (4726)، سنن ابن ماجہ/الدیات 34 (2690)، (تحفة الأشراف: 12507) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: کیونکہ قاتل اپنے دعویٰ میں اگر سچا ہے تو اسے قتل کر دینے کی صورت میں ولی کے گناہ گار ہونے کا خدشہ ہے، اس لیے اس کا نہ قتل کرنا زیادہ مناسب ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2690)
   جامع الترمذي1407عبد الرحمن بن صخرإن كان قوله صادقا فقتلته دخلت النار
   سنن أبي داود4498عبد الرحمن بن صخرأما إنه إن كان صادقا ثم قتلته دخلت النار قال فخلى سبيله قال و
   سنن ابن ماجه2690عبد الرحمن بن صخرإن كان صادقا ثم قتلته دخلت النار
   سنن النسائى الصغرى4726عبد الرحمن بن صخرأما إنه إن كان صادقا ثم قتلته دخلت النار فخلى سبيله قال وكان مكتوفا بنسعة فخرج يجر نسعته فسمي ذا النسعة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1407  
´قصاص اور عفو کے سلسلے میں مقتول کے ولی (وارث) کے فیصلے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی قتل کر دیا گیا، تو قاتل مقتول کے ولی (وارث) کے سپرد کر دیا گیا، قاتل نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میں نے اسے قصداً قتل نہیں کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار! اگر وہ (قاتل) اپنے قول میں سچا ہے پھر بھی تم نے اسے قتل کر دیا تو تم جہنم میں جاؤ گے ۱؎، چنانچہ مقتول کے ولی نے اسے چھوڑ دیا، وہ آدمی رسی سے بندھا ہوا تھا، تو وہ رسی گھسیٹتا ہوا باہر نکلا، اس لیے اس کا نام ذوالنسعہ (رسی یا تسمے والا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الديات/حدیث: 1407]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کیوں کہ قاتل اپنے دعویٰ میں ا گر سچا ہے تو اسے قتل کردینے کی صورت میں ولی کے گناہ گار ہونے کا خدشہ ہے،
اس لیے اس کا نہ قتل کرنا زیادہ مناسب ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1407   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.