الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: حدود و تعزیرات سے متعلق احکام و مسائل
The Book on Legal Punishments (Al-Hudud)
22. باب مَا جَاءَ فِي الْمَرْأَةِ إِذَا اسْتُكْرِهَتْ عَلَى الزِّنَا
22. باب: زنا پر مجبور کی گئی عورت کے حکم کا بیان۔
Chapter: What Has Been Relates About A Woman Who Is Forced To Commit Adultery
حدیث نمبر: 1454
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن يحيى النيسابوري , حدثنا محمد بن يوسف , عن إسرائيل , حدثنا سماك بن حرب , عن علقمة بن وائل الكندي , عن ابيه " ان امراة خرجت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم تريد الصلاة , فتلقاها رجل فتجللها , فقضى حاجته منها , فصاحت , فانطلق , ومر عليها رجل , فقالت: إن ذاك الرجل فعل بي كذا وكذا , ومرت بعصابة من المهاجرين , فقالت: إن ذاك الرجل فعل بي كذا وكذا , فانطلقوا , فاخذوا الرجل الذي ظنت انه وقع عليها واتوها , فقالت: نعم هو هذا , فاتوا به رسول الله صلى الله عليه وسلم , فلما امر به ليرجم , قام صاحبها الذي وقع عليها , فقال: يا رسول الله , انا صاحبها , فقال لها: اذهبي فقد غفر الله لك وقال للرجل قولا حسنا , وقال للرجل الذي وقع عليها: ارجموه , وقال: لقد تاب توبة لو تابها اهل المدينة لقبل منهم " , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب صحيح , وعلقمة بن وائل بن حجر , سمع من ابيه , وهو اكبر من عبد الجبار بن وائل , وعبد الجبار لم يسمع من ابيه.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى النَّيْسَابُورِيُّ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ , عَنْ إِسْرَائِيلَ , حَدَّثَنَا سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ , عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ الْكِنْدِيِّ , عَنْ أَبِيهِ " أَنَّ امْرَأَةً خَرَجَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُرِيدُ الصَّلَاةَ , فَتَلَقَّاهَا رَجُلٌ فَتَجَلَّلَهَا , فَقَضَى حَاجَتَهُ مِنْهَا , فَصَاحَتْ , فَانْطَلَقَ , وَمَرَّ عَلَيْهَا رَجُلٌ , فَقَالَتْ: إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ فَعَلَ بِي كَذَا وَكَذَا , وَمَرَّتْ بِعِصَابَةٍ مِنْ الْمُهَاجِرِينَ , فَقَالَتْ: إِنَّ ذَاكَ الرَّجُلَ فَعَلَ بِي كَذَا وَكَذَا , فَانْطَلَقُوا , فَأَخَذُوا الرَّجُلَ الَّذِي ظَنَّتْ أَنَّهُ وَقَعَ عَلَيْهَا وَأَتَوْهَا , فَقَالَتْ: نَعَمْ هُوَ هَذَا , فَأَتَوْا بِهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَلَمَّا أَمَرَ بِهِ لِيُرْجَمَ , قَامَ صَاحِبُهَا الَّذِي وَقَعَ عَلَيْهَا , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَنَا صَاحِبُهَا , فَقَالَ لَهَا: اذْهَبِي فَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكِ وَقَالَ لِلرَّجُلِ قَوْلًا حَسَنًا , وَقَالَ لِلرَّجُلِ الَّذِي وَقَعَ عَلَيْهَا: ارْجُمُوهُ , وَقَالَ: لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَقُبِلَ مِنْهُمْ " , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ , وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ , سَمِعَ مِنْ أَبِيهِ , وَهُوَ أَكْبَرُ مِنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ , وَعَبْدُ الْجَبَّارِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ.
وائل بن حجر کندی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت نماز کے لیے نکلی، اسے ایک آدمی ملا، اس نے عورت کو ڈھانپ لیا اور اس سے اپنی حاجت پوری کی (یعنی اس سے زبردستی زنا کیا)، وہ عورت چیخنے لگی اور وہ چلا گیا، پھر اس کے پاس سے ایک (دوسرا) آدمی گزرا تو یہ عورت بولی: اس (دوسرے) آدمی نے میرے ساتھ ایسا ایسا (یعنی زنا) کیا ہے ۱؎ اور اس کے پاس سے مہاجرین کی بھی ایک جماعت گزری تو یہ عورت بولی: اس آدمی نے میرے ساتھ ایسا ایسا (یعنی زنا) کیا ہے، (یہ سن کر) وہ لوگ گئے اور جا کر انہوں نے اس آدمی کو پکڑ لیا جس کے بارے میں اس عورت نے گمان کیا تھا کہ اسی نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے اور اسے اس عورت کے پاس لائے، وہ بولی: ہاں، وہ یہی ہے، پھر وہ لوگ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے، چنانچہ جب آپ نے اسے رجم کرنے کا حکم دیا، تو اس عورت کے ساتھ زنا کرنے والا کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اس کے ساتھ زنا کرنے والا میں ہوں، پھر آپ نے اس عورت سے فرمایا: تو جا اللہ نے تیری بخشش کر دی ہے ۲؎ اور آپ نے اس آدمی کو (جو قصوروار نہیں تھا) اچھی بات کہی ۳؎ اور جس آدمی نے زنا کیا تھا اس کے متعلق آپ نے فرمایا: اسے رجم کرو، آپ نے یہ بھی فرمایا: اس (زانی) نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ اس طرح توبہ کر لیں تو ان سب کی توبہ قبول ہو جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے،
۲- علقمہ بن وائل بن حجر کا سماع ان کے والد سے ثابت ہے، یہ عبدالجبار بن وائل سے بڑے ہیں اور عبدالجبار کا سماع ان کے والد سے ثابت نہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحدود 7 (4379)، (تحفة الأشراف: 1177)، و مسند احمد (6/399) (حسن) (اس میں رجم کی بات صحیح نہیں ہے، راجح یہی ہے کہ رجم نہیں کیا گیا، دیکھئے: الصحیحہ رقم 900)»

وضاحت:
۱؎: حالانکہ زنا کرنے والا کوئی اور تھا، عورت نے غلطی سے اسے سمجھ لیا۔
۲؎: کیونکہ تجھ سے حد والا کام زبردستی کرایا گیا ہے۔
۳؎: یعنی اس کے لیے تسلی کے کلمات کہے، کیونکہ یہ بےقصور تھا۔
۴؎: چونکہ اس نے خود سے زنا کا اقرار کیا اور شادی شدہ تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اسے رجم کیا جائے۔

قال الشيخ الألباني: حسن - دون قوله " ارجموه " والأرجح أنه لم يرجم -، المشكاة (3572)، الصحيحة (900)
   جامع الترمذي1454وائل بن حجرلقد تاب توبة لو تابها أهل المدينة لقبل منهم
   سنن أبي داود4379وائل بن حجراذهبي فقد غفر الله لك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1454  
´زنا پر مجبور کی گئی عورت کے حکم کا بیان۔`
وائل بن حجر کندی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت نماز کے لیے نکلی، اسے ایک آدمی ملا، اس نے عورت کو ڈھانپ لیا اور اس سے اپنی حاجت پوری کی (یعنی اس سے زبردستی زنا کیا)، وہ عورت چیخنے لگی اور وہ چلا گیا، پھر اس کے پاس سے ایک (دوسرا) آدمی گزرا تو یہ عورت بولی: اس (دوسرے) آدمی نے میرے ساتھ ایسا ایسا (یعنی زنا) کیا ہے ۱؎ اور اس کے پاس سے مہاجرین کی بھی ایک جماعت گزری تو یہ عورت بولی: اس آدمی نے میرے ساتھ ایسا ایسا (یعنی زنا) کیا ہے، (یہ سن کر) وہ لوگ گئے اور جا کر انہوں نے اس آدمی کو ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الحدود/حدیث: 1454]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
حالانکہ زنا کرنے والا کوئی اور تھا،
عورت نے غلطی سے اسے سمجھ لیا۔

2؎:
کیونکہ تجھ سے حد والا کام زبردستی کرایا گیا ہے۔

3؎:
یعنی اس کے لیے تسلی کے کلمات کہے،
کیونکہ یہ بے قصور تھا۔

4؎:
چونکہ اس نے خود سے زنا کا اقرار کیا اور شادی شدہ تھا،
اس لیے آپ ﷺ نے حکم دیا کہ اسے رجم کیا جائے۔

نوٹ:
(اس میں رجم کی بات صحیح نہیں ہے،
راجح یہی ہے کہ رجم نہیں کیا گیا۔
دیکھئے:
الصحیحة رقم: 900)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1454   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4379  
´جس نے حد کا کام کیا پھر خود آ کر اقرار جرم کیا اس کے حکم کا بیان۔`
وائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نماز پڑھنے کے ارادہ سے نکلی تو اس سے ایک مرد ملا اور اسے دبوچ لیا، اور اس سے اپنی خواہش پوری کی تو وہ چلائی، وہ جا چکا تھا، اتنے میں اس کے پاس سے ایک اور شخص گزرا تو وہ کہنے لگی کہ اس (فلاں) نے میرے ساتھ ایسا ایسا کیا ہے، اتنے میں مہاجرین کی ایک جماعت بھی آ گئی ان سے بھی اس نے یہی کہا کہ اس نے اس کے ساتھ ایسا ایسا کیا ہے، تو وہ سب گئے اور اس شخص کو پکڑا جس کے متعلق اس نے کہا تھا کہ اس نے اس کے ساتھ زنا کیا ہے، اور اسے لے کر آئے، تو اس ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الحدود /حدیث: 4379]
فوائد ومسائل:
1) اسلامی معاشرے کا یہ مفہوم کہ اس کے سب افراد گناہوں اور غلطیوں سے مبرا ہوتے ہیں، درست نہیں، بلکہ درست یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں شرعی طرز معاشرت کا چلن غالب ہوتا ہے۔
اگر کسی سے کوئی جرم ہوجائے تو اس کے بارے مین شرعی قانون پر پورا پورا عمل بھی کیا جاتا ہے۔

2) مجرم جب ازخود اقرار کرے اور تحقیق سے ثابت ہو کہ اس کے اقرار میں کوئی شبہ نہیں تو اس پر شرعی حد نافذ ہو گی، مگر اس روایت کے سلسلے میں علامہ البانی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ راجح یہ ہے کہ شخص رجم نہیں کیا گیا تھا اور لفظ (ارجموه) اسے رجم کردو صحیح نہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4379   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.