الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: جہاد کے احکام و مسائل
The Book on Military Expeditions
13. باب مَا جَاءَ فِيمَنْ قَتَلَ قَتِيلاً فَلَهُ سَلَبُهُ
13. باب: کافر کا قاتل مقتول کے سامان کا حقدار گا۔
حدیث نمبر: 1562
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك بن انس، عن يحيى بن سعيد، عن عمر بن كثير بن افلح، عن ابي محمد مولى ابي قتادة، عن ابي قتادة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قتل قتيلا له عليه بينة، فله سلبه "، قال ابو عيسى: وفي الحديث قصة،حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ، فَلَهُ سَلَبُهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْحَدِيثِ قِصَّةٌ،
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی کافر کو قتل کرے اور اس کے پاس گواہ موجود ہو تو مقتول کا سامان اسی کا ہو گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
حدیث میں ایک قصہ مذکور ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 37 (2100)، والخمس 18 (3142)، والمغازي 54 (4321)، والأحکام 21 (7170)، صحیح مسلم/الجہاد 13 (1571)، سنن ابی داود/ الجہاد 147)، (2717)، سنن ابن ماجہ/الجہاد 29 (2837)، (تحفة الأشراف: 12132)، وط/الجہاد 10 (18)، سنن الدارمی/السیر 44 (2528) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ قصہ صحیح البخاری کی حدیث ۳۱۴۳، ۴۳۲۲ اور صحیح مسلم کی حدیث ۱۷۵۱ میں دیکھا جا سکتا ہے، واقعہ دلچسپ ہے ضرور مطالعہ کریں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (5 / 52 - 53)، صحيح أبي داود (243)
   صحيح البخاري4321حارث بن ربعيمن قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه
   صحيح البخاري3142حارث بن ربعيمن قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه
   صحيح البخاري7170حارث بن ربعيمن له بينة على قتيل قتله فله سلبه
   صحيح البخاري2100حارث بن ربعيخرجنا مع رسول الله عام حنين فأعطاه يعني درعا فبعت الدرع فابتعت به مخرفا في بني سلمة فإنه لأول مال تأثلته في الإسلام
   صحيح مسلم3142حارث بن ربعيمن قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه
   جامع الترمذي1562حارث بن ربعيمن قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه
   سنن أبي داود2717حارث بن ربعيمن قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه
   سنن ابن ماجه2837حارث بن ربعينفله سلب قتيل قتله يوم حنين
   المعجم الصغير للطبراني601حارث بن ربعي اللهم اغفر له ثلاثا ونفلني سلب مسعدة
   مسندالحميدي427حارث بن ربعينفلني رسول الله صلى الله عليه وسلم سلب قتيل قتلته يوم حنين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1562  
´کافر کا قاتل مقتول کے سامان کا حقدار گا۔`
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کسی کافر کو قتل کرے اور اس کے پاس گواہ موجود ہو تو مقتول کا سامان اسی کا ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1562]
اردو حاشہ:
وضاحت: 1 ؎:
یہ قصہ صحیح البخاری کی حدیث: 4322، 3143 اورصحیح مسلم کی حدیث: 1751 میں دیکھا جا سکتا ہے،
واقعہ دلچسپ ہے ضرورمطالعہ کریں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1562   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2717  
´جو شخص کسی کافر کو قتل کر دے تو اس سے چھینا ہوا مال اسی کو ملے گا۔`
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حنین کے سال نکلے، جب کافروں سے ہماری مڈبھیڑ ہوئی تو مسلمانوں میں بھگدڑ مچ گئی، میں نے مشرکین میں سے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ ایک مسلمان پر چڑھا ہوا ہے، تو میں پلٹ پڑا یہاں تک کہ اس کے پیچھے سے اس کے پاس آیا اور میں نے تلوار سے اس کی گردن پر مارا تو وہ میرے اوپر آ پڑا، اور مجھے ایسا دبوچا کہ میں نے اس سے موت کی مہک محسوس کی، پھر اسے موت آ گئی اور اس نے مجھے چھوڑ دیا، پھر میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے پوچھا کہ لوگوں کا کیا حال ہے؟ ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2717]
فوائد ومسائل:
جو مال مقتول کے پاس ہو۔
اس کا قاتل ہی اس کا حق دار سمجھا جاتا ہے۔
اور اسے اصطلاحا ً سلب کہتے ہیں۔
یعنی لباس سواری اور اسلحہ پیچھے اس کے ٹھکانے پر جو کچھ ہو وہ اس میں شامل اور شمار نہیں ہوتا۔
اس کی نقدی اور زیورات جو مخفی ہوتے ہیں۔
ان کے بارے میں اختلاف ہے۔
(نیل الأوطار: 305/7)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2717   

حدیث نمبر: 1562M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن يحيى بن سعيد، بهذا الإسناد، نحوه، وفي الباب، عن عوف بن مالك، وخالد بن الوليد، وانس، وسمرة بن جندب، وهذا حديث حسن صحيح، وابو محمد هو نافع مولى ابي قتادة، والعمل على هذا عند بعض اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم، وهو قول الاوزاعي، والشافعي، واحمد، وقال بعض اهل العلم: للإمام ان يخرج من السلب الخمس، وقال الثوري: النفل، ان يقول الإمام: من اصاب شيئا فهو له، ومن قتل قتيلا فله سلبه، فهو جائز، وليس فيه الخمس، وقال إسحاق: السلب للقاتل، إلا ان يكون شيئا كثيرا، فراى الإمام ان يخرج منه الخمس كما فعل عمر بن الخطاب.حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، نَحْوَهُ، وَفِي الْبَاب، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ، وَخَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ، وَأَنَسٍ، وَسَمُرَةَ بْنِ جُنْدَبٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو مُحَمَّدٍ هُوَ نَافِعٌ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ بَعْضِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمْ، وَهُوَ قَوْلُ الْأَوْزَاعِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: لِلْإِمَامِ أَنْ يُخْرِجَ مِنَ السَّلَبِ الْخُمُسَ، وقَالَ الثَّوْرِيُّ: النَّفَلُ، أَنْ يَقُولَ الْإِمَامُ: مَنْ أَصَابَ شَيْئًا فَهُوَ لَهُ، وَمَنْ قَتَلَ قَتِيلًا فَلَهُ سَلَبُهُ، فَهُوَ جَائِزٌ، وَلَيْسَ فِيهِ الْخُمُسُ، وقَالَ إِسْحَاق: السَّلَبُ لِلْقَاتِلِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ شَيْئًا كَثِيرًا، فَرَأَى الْإِمَامُ أَنْ يُخْرِجَ مِنْهُ الْخُمُسَ كَمَا فَعَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ.
اس سند سے بھی ابوقتادہ رضی الله عنہ سے اسی جیسی حدیث مروی ہے۔
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عوف بن مالک، خالد بن ولید، انس اور سمرہ بن جندب رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- صحابہ کرام اور دیگر لوگوں میں سے بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے، اوزاعی، شافعی اور احمد کا بھی یہی قول ہے،
۴- اور بعض اہل علم کہتے ہیں کہ مقتول کے سامان سے خمس نکالنے کا امام کو اختیار ہے، ثوری کہتے ہیں: «نفل» یہی ہے کہ امام اعلان کر دے کہ جو کافروں کا سامان چھین لے وہ اسی کا ہو گا اور جو کسی کافر کو قتل کرے تو مقتول کا سامان اسی کا ہو گا اور ایسا کرنا جائز ہے، اس میں خمس واجب نہیں ہے، اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں کہ مقتول کا مال قاتل کا ہے مگر جب سامان زیادہ ہو اور امام اس میں سے خمس نکالنا چاہے جیسا کہ عمر بن خطاب نے کیا۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (5 / 52 - 53)، صحيح أبي داود (243)


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.