الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: نیکی اور صلہ رحمی
Chapters on Righteousness And Maintaining Good Relations With Relatives
21. باب مَا جَاءَ فِي كَرَاهِيَةِ الْهَجْرِ لِلْمُسْلِمِ
21. باب: مسلمان سے ترک تعلق اور اس سے بےرخی برتنے کی حرمت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1932
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، حدثنا الزهري. ح قال: وحدثنا سعيد بن عبد الرحمن، حدثنا سفيان، عن الزهري، عن عطاء بن يزيد الليثي، عن ابي ايوب الانصاري، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث، يلتقيان فيصد هذا ويصد هذا وخيرهما الذي يبدا بالسلام "، قال: وفي الباب عن عبد الله بن مسعود، وانس، وابي هريرة، وهشام بن عامر، وابي هند الداري، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ. ح قَالَ: وَحَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثٍ، يَلْتَقِيَانِ فَيَصُدُّ هَذَا وَيَصُدُّ هَذَا وَخَيْرُهُمَا الَّذِي يَبْدَأُ بِالسَّلَامِ "، قَالَ: وَفِي الْبَابِ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، وَأَنَسٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَهِشَامِ بْنِ عَامِرٍ، وَأَبِي هِنْدٍ الدَّارِيِّ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوایوب انصاری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے (کسی دوسرے مسلمان) بھائی سے تین دن سے زیادہ سلام کلام بند رکھے، جب دونوں کا آمنا سامنا ہو تو وہ اس سے منہ پھیر لے اور یہ اس سے منہ پھیر لے، اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو پہلے سلام کرے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں عبداللہ بن مسعود، انس، ابوہریرہ، ہشام بن عامر اور ابوہند داری رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأدب 62 (6077)، والإستئذان 9 (6237)، صحیح مسلم/البر والصلة 8 (2560) (تحفة الأشراف: 3479) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: معلوم ہوا کہ تین دن سے زیادہ کسی مسلمان بھائی سے ذاتی نوعیت کے معاملات کی وجہ سے ناراض رہنا درست نہیں، اور اگر اس ناراضگی کا تعلق کسی دینی معاملہ سے ہو تو علماء کا کہنا ہے کہ اس وقت تک قطع تعلق درست ہے جب تک وہ سبب دور نہ ہو جائے جس سے یہ دینی ناراضگی پائی جا رہی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (2029)
   صحيح البخاري6077خالد بن زيدلا يحل لرجل أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا وخيرهما الذي يبدأ بالسلام
   صحيح البخاري6237خالد بن زيدلا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث يلتقيان فيصد هذا ويصد هذا خيرهما الذي يبدأ بالسلام
   صحيح مسلم6534خالد بن زيدلا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا خيرهما الذي يبدأ بالسلام
   جامع الترمذي1932خالد بن زيدلا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث يلتقيان فيصد هذا ويصد هذا خيرهما الذي يبدأ بالسلام
   سنن أبي داود4911خالد بن زيدلا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاثة أيام يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا خيرهما الذي يبدأ بالسلام
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم469خالد بن زيدلا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال، يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا، وخيرهما الذى يبدا بالسلام
   بلوغ المرام1259خالد بن زيد‏‏‏‏لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا وخيرهما الذي يبدا بالسلام
   مسندالحميدي381خالد بن زيدلا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث يلتقيان فيصد هذا ويصد هذا وخيرهما الذي يبدأ بالسلام

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 469  
´مسلمان کا مسلمان سے تین دن رات سے زیادہ بائیکاٹ کرنا حرام ہے`
«. . . عن ابى ايوب الانصاري ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال، يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا، وخيرهما الذى يبدا بالسلام . . .»
. . . سیدنا ابوایوب الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ تین راتوں سے زیادہ اپنے بھائی سے بائیکاٹ کرے (ایسا نہ ہو کہ) جب ان کی ملاقات ہو تو ایک بھائی دوسرے سے منہ پھیر لے اور دوسرا اس سے منہ پھیر لے۔ ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو دوسرے کو پہلے سلام کرے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 469]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6077، ومسلم 2560، من حديث مالك به]

تفقه
➊ مسلمان کا بغیر کسی شرعی عذر کے دوسرے مسلمان سے تین دن رات سے زیادہ ہجر (بائیکاٹ کرنا) حرام ہے۔ نیز دیکھئے: [ح4، 443]
➋ مسلمان کا اپنے صحیح العقیدہ مسلمان بھائی کو سلام کہنے میں پہل کرنا بہت نیکی کا کام ہے۔ سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِاللهِ مَنْ بَدَأَهُمْ بِالسَّلَامِ» لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ کے قریب وہ شخص ہے جو (انہیں) سلام کہنے میں ابتدا (پہل) کرے۔ [سنن ابي داؤد: 5197 وسنده صحيح وحسنه ابن الملقن فى تحفة المحتاج: 1624]
➌ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہر ہفتے میں پیر اور جمعرات کے دن دو دفعہ لوگوں کے اعمال (اللہ کے سامنے) پیش کئے جاتے ہیں پھر ہر مومن کی مغفرت کر دی جاتی ہے سوائے اس بندے کے جو اپنے بھائی سے بغض رکھتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کو اس وقت تک چھوڑ دو جب تک یہ صلح نہ کر لیں۔ [الموطأ رواية يحييٰ 2/909 ح1752، وسنده صحيح]
یہ روایت صحیح مسلم [2565] میں مرفوعاً یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام مبارک سے موجود ہے، لہٰذا یہ حدیث مرفوعاً اور موقوفاً دونوں طرح صحیح ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 79   
   الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1259    
تین دن سے زیادہ بول چال چھوڑنا حلال نہیں
«وعن ابي ايوب رضى الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: ‏‏‏‏لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا وخيرهما الذى يبدا بالسلام . ‏‏‏‏ متفق عليه»
سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان کیلئے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین روز سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔ جب دونوں کا آمنا سامنا ہو تو یہ اپنا منہ ادھر کر لے اور وہ ادھر کر لے۔ دونوں میں بہتر انسان وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔ بخاري و مسلم۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1259]

تخریج:
[بخاري 6077]،
[مسلم البروالصلة35]،
[تحفة الاشراف 3/98 ]

فوائد:
➊ تین راتوں سے زیادہ حلال نہ ہونے سے صاف ظاہر ہے کہ تین راتوں سے زیادہ آپس میں بول چال چھوڑ دینا حرام ہے۔ کیونکہ بات چیت چھوڑ دی تو سارے حقوق ہی ضائع کر دیئے جو ایک دوسرے پر واجب تھے مثلاً سلام، قبول دعوت، عیادت، چھینک کا جواب وغیرہ۔
تین رات تک باہمی گفتگو چھوڑنا جائز ہے کیونکہ ناراضگی اور غصہ انسانی فطرت ہے۔ اسے مدنظر رکھتے ہوئے اتنی رعایت دی گئی ہے تاکہ پہلے دن غصے میں ٹھہراؤ آ جائے دوسرے دن انسان کچھ سوچے تیسرے دن واپس لوٹ آئے عموماً تین دنوں میں غصہ ختم یا کم ہو جاتا ہے۔ اس سے زیادہ قطع تعلق کرے گا تو قطع حقوق لازم آئے گا۔
➌ قطع تعلق جو حرام ہے سلام کہنے سے ختم ہو جاتا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«‏‏‏‏لا يكون لمسلم ان يهجر مسلما فوق ثلاثة فإذا لقيه سلم عليه ثلاث مرار كل ذلك لا يرد عليه فقد باء بإثمه» ‏‏‏‏ [ ابوداود 4913 ]
کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ کسی مسلمان کو تین دن سے زیادہ چھوڑ دے۔ پس جب وہ اسے ملے تو اسے تین دفعہ سلام کہے اگر (دوسرا آدمی) ہر دفعہ اسے جواب نہیں دیتا تو وہ اس کے گناہ کے ساتھ لوٹے گا۔
امام احمد رحمہ الله نے فرمایا کہ اگر دوسرے بھائی کو اس کے بات نہ کرنے سے تکلیف ہوتی ہو تو صرف سلام سے قطع تعلق ختم نہیں ہو گا بلکہ پہلے جیسے تعلقات بحال کرنے سے ختم ہو گا۔ مگر اوپر والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حرام وہ صورت ہے جس میں دونوں ملتے ہیں مگر منہ پھیر لیتے ہیں اور سلام تک نہیں کہتے۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ اخوت دینی جس تعلق کا تقاضا کرتی ہے وہ پہلے تعلقات مکمل بحال کرنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔
➍ اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے کسی کے ساتھ بول چال بند کر دینا جائز ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن مالک اور ان کے ساتھیوں کے جنگ تبوک میں پیچھے ره جانے کی وجہ سے مسلمانوں کو ان کے ساتھ بات چیت کرنے سے منع فرما دیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قطع کلام مخلص ساتھیوں کے لئے ہے جن پر بات چیت چھوڑنے سے اثر پڑتا ہو اور وہ حق کی طرف پلٹ آنے والے ہوں ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے کفار اور منافقین سے بات چیت ترک نہیں فرمائی کفار اور منافقین کے ساتھ قطع تعلق دل سے ہوتا ہے زبان سے نہیں۔ البتہ مخلص مسلمانوں سے ظاہری عتاب ترک کلام سے ہوتا ہے دل سے قطع تعلق نہیں ہوتا۔



   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 89   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1259  
´نیکی اور صلہ رحمی کا بیان`
سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مسلمان کیلئے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین روز سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔ جب دونوں کا آمنا سامنا ہو تو یہ اپنا منہ ادھر کر لے اور وہ ادھر کر لے۔ دونوں میں بہتر انسان وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1259»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأدب، باب الهجرة، حديث:6077، ومسلم، البر والصلة، باب تحريم الهجر فوق ثلاثة أيام بلا عذر شرعي، حديث:2560.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دو مسلمان بھائیوں کی ناراضی ذاتی نوعیت کے معاملات کی وجہ سے ہو تو ایسی صورت میں تین روز سے زیادہ ناراض رہنا جائز نہیں ہے لیکن اگر ناراضی کی وجہ دینی معاملہ ہو تو اس کے لیے غالباً کوئی حد نہیں ہے۔
2. دینی ناراضی تو عین ایمان کی علامت ہے۔
جب تک علت ناراضی موجود ہے‘ اس وقت تک قطع تعلق درست ہے‘ جب وہ سبب دور ہو جائے تو ناراضی کو بھی ختم کر دینا چاہیے کیونکہ مومن صادق کے ہاں باہم تعلقات کا سبب دین ہے‘ دنیا نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1259   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1932  
´مسلمان سے ترک تعلق اور اس سے بےرخی برتنے کی حرمت کا بیان۔`
ابوایوب انصاری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے (کسی دوسرے مسلمان) بھائی سے تین دن سے زیادہ سلام کلام بند رکھے، جب دونوں کا آمنا سامنا ہو تو وہ اس سے منہ پھیر لے اور یہ اس سے منہ پھیر لے، اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو پہلے سلام کرے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1932]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہواکہ تین دن سے زیادہ کسی مسلمان بھائی سے ذاتی نوعیت کے معاملات کی وجہ سے ناراض رہنا درست نہیں،
اور اگراس ناراضگی کا تعلق کسی دینی معاملہ سے ہوتو علماء کا کہنا ہے کہ اس وقت تک قطع تعلق درست ہے جب تک وہ سبب دور نہ ہوجائے جس سے یہ دینی ناراضگی پائی جارہی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1932   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4911  
´مسلمان بھائی سے ترک تعلق کیسا ہے؟`
ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی مسلمان کے لیے درست نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے کہ وہ دونوں ملیں تو یہ منہ پھیر لے، اور وہ منہ پھیر لے، اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4911]
فوائد ومسائل:
اگر کہیں شک رنجی ہو جائے تو تعلقات کو بالکل ہی مقطہ کر لینا جائز نہیں۔
ہاں اگر مزید روابط بڑھانا خلافِ مصلحت ہو تو سلام دُعا سے بخیل نہیں ہونا چاہیئے۔
اس حدیث اور اگلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سلام کرنا اور اسکا جواب دینا مقاطعے کے گناہ کو ختم کر دیتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4911   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.