الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: ایام فتن کے احکام اور امت میں واقع ہونے والے فتنوں کی پیش گوئیاں
Chapters On Al-Fitan
1. باب مَا جَاءَ لاَ يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلاَّ بِإِحْدَى ثَلاَثٍ
1. باب: تین صورتوں کے سوا کسی مسلمان کا خون حلال نہیں۔
حدیث نمبر: 2158
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا احمد بن عبدة الضبي، حدثنا حماد بن زيد، عن يحيى بن سعيد، عن ابي امامة بن سهل بن حنيف، ان عثمان بن عفان اشرف يوم الدار، فقال: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا يحل دم امرئ مسلم إلا بإحدى ثلاث: زنا بعد إحصان، او ارتداد بعد إسلام، او قتل نفس بغير حق، فقتل به "، فوالله ما زنيت في جاهلية ولا في إسلام، ولا ارتددت منذ بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا قتلت النفس التي حرم الله، فبم تقتلونني؟، قال ابو عيسى: وفي الباب عن ابن مسعود، وعائشة، وابن عباس، وهذا حديث حسن، ورواه حماد بن سلمة، عن يحيى بن سعيد فرفعه، وروى يحيى بن سعيد القطان، وغير واحد، عن يحيى بن سعيد هذا الحديث فاوقفوه ولم يرفعوه، وقد روي هذا الحديث من غير وجه، عن عثمان، عن النبي صلى الله عليه وسلم مرفوعا.حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ، أَنّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ أَشْرَفَ يَوْمَ الدَّارِ، فَقَالَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: زِنًا بَعْدَ إِحْصَانٍ، أَوِ ارْتِدَادٍ بَعْدَ إِسْلَامٍ، أَوْ قَتْلِ نَفْسٍ بِغَيْرِ حَقٍّ، فَقُتِلَ بِهِ "، فَوَاللَّهِ مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا فِي إِسْلَامٍ، وَلَا ارْتَدَدْتُ مُنْذُ بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا قَتَلْتُ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ، فَبِمَ تَقْتُلُونَنِي؟، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَابِ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، وَعَائِشَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَرَوَاهُ حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ فَرَفَعَهُ، وَرَوَى يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ هَذَا الْحَدِيثَ فَأَوْقَفُوهُ وَلَمْ يَرْفَعُوهُ، وَقَدْ رُوِيَ هَذَا الْحَدِيثُ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ، عَنْ عُثْمَانَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرْفُوعًا.
‏‏‏‏ ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی الله عنہما جب باغیوں نے عثمان بن عفان رضی الله عنہ کے گھر کا محاصرہ کر رکھا تھا تو انہوں نے اپنے گھر کی چھت پر آ کر کہا: میں تمہیں اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں، کیا تم نہیں جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین صورتوں کے سوا کسی مسلمان کا خون حلال نہیں: شادی کے بعد زنا کرنا، یا اسلام لانے کے بعد مرتد ہو جانا، یا کسی کو ناحق قتل کرنا جس کے بدلے میں قاتل کو قتل کیا جائے، اللہ کی قسم! میں نے نہ جاہلیت میں زنا کیا ہے نہ اسلام میں، نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے کے بعد میں مرتد ہوا ہوں اور نہ ہی اللہ کے حرام کردہ کسی نفس کا قاتل ہوں، پھر (آخر) تم لوگ کس وجہ سے مجھے قتل کر رہے ہو؟۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- اسے حماد بن سلمہ نے یحییٰ بن سعید کے واسطہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے، اور یحییٰ بن سعید قطان اور دوسرے کئی لوگوں نے یحییٰ بن سعید سے یہ حدیث روایت کی ہے، لیکن یہ موقوف ہے نہ کہ مرفوع،
۳- اس باب میں ابن مسعود، عائشہ اور ابن عباس رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۴- اور یہ حدیث عثمان کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی دیگر سندوں بھی سے مرفوعاً مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الدیات 3 (4502)، سنن النسائی/المحاربة 5 (4024)، سنن ابن ماجہ/الحدود 1 (2533) (تحفة الأشراف: 9782)، و مسند احمد (1/61، 62، 65، 70) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (2533)
   جامع الترمذي2158عثمان بن عفانلا يحل دم امرئ مسلم إلا بإحدى ثلاث زنا بعد إحصان ارتداد بعد إسلام قتل نفس بغير حق فقتل به
   سنن أبي داود4502عثمان بن عفانلا يحل دم امرئ مسلم إلا بإحدى ثلاث كفر بعد إسلام زنا بعد إحصان قتل نفس بغير نفس
   سنن ابن ماجه2533عثمان بن عفانلا يحل دم امرئ مسلم إلا في إحدى ثلاث رجل زنى وهو محصن فرجم رجل قتل نفسا بغير نفس رجل ارتد بعد إسلامه
   سنن النسائى الصغرى4024عثمان بن عفانلا يحل دم امرئ مسلم إلا بإحدى ثلاث رجل كفر بعد إسلامه زنى بعد إحصانه قتل نفسا بغير نفس
   سنن النسائى الصغرى4063عثمان بن عفانلا يحل دم امرئ مسلم إلا بثلاث يزني بعد ما أحصن يقتل إنسانا فيقتل يكفر بعد إسلامه فيقتل

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2533  
´تین صورتوں کے علاوہ مسلمان کا قتل حرام اور ناجائز ہے۔`
ابوامامہ بن سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ان (بلوائیوں) کو جھانک کر دیکھا، اور انہیں اپنے قتل کی باتیں کرتے سنا تو فرمایا: یہ لوگ مجھے قتل کی دھمکی دے رہے ہیں، آخر یہ میرا قتل کیوں کریں گے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: کسی مسلمان کا قتل تین باتوں میں سے کسی ایک کے بغیر حلال نہیں: ایک ایسا شخص جو شادی شدہ ہو اور زنا کا ارتکاب کرے، تو اسے رجم کیا جائے گا، دوسرا وہ شخص جو کسی مسلمان کو ناحق قتل کر دے، تیسرا وہ شخص جو اسلام قبول کرنے کے بعد اس سے پھر جائے (مر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الحدود/حدیث: 2533]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
یہ واقعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام کا ہے جب مختلف شہروں سے کثیر تعداد میں باغی مدینہ طیبہ آ کرجمع ہوگئے تھے اور وہ حضرت عثمان کو شہید کرنا چاہتے تھے۔
حضرت عثمان آخر تک یہی کوشش کرتے رہے کہ انہیں سمجھا بجھا کر مطمئن کردیا جائے تاکہ وہ بغاوت سے باز آ جائیں اورمدینہ منورہ کی مقدس زمین پرخون ریزی نہ ہو۔
اس موقع پر آپ نے وہ بات فرمائی تھی جو اس روایت میں بیان کی گئی ہے۔

(2)
مسلمانوں کو ناحق قتل کرنا بہت بڑا جرم ہے۔

(3)
مذکورہ بالااسباب کے علاوہ ہر قتل ناحق ہے۔
ان صورتوں میں بھی قتل کرنا عام آدمی کا کام نہیں بلکہ اسلامی حکومت یا شرعی عدالت ہی کسی کی سزائے موت کا فیصلہ کرسکتی ہے۔

(4)
زنا کا جرم سنگین ہے۔
اس کے باوجود اگر مجرم غیرشادی شدہ ہے تو اسے سزائے موت نہیں دی جا سکتی بلکہ سوکوڑے مارنے کی سزا دی جائے اورقاضی مناسب سمجھے تو کوڑوں سزا کے بعد ایک سال کے لیے شہر بدر کر سکتا ہے۔

(5)
شادی شدہ مرد یاعورت زنا کا ارتکاب کرے تو اس کی سزارجم ہے یعنی اسے پتھر مارمار کر ہلاک کر دیا جائے۔

(6)
جو مسلمان اسلام ترک کرکے کوئی دوسرامذہب اختیار کرلے اسے مرتد کہتے ہیں اسکی سزا بھی موت ہے لیکن اگر وہ توبہ کر کے دوبارہ اسلام قبول کرلے تو اسے معاف کردیا جائے گا۔
حضرت معاذ بن جبل یمن میں حضرت ابوموسیٰ اشعری کے پاس گئے تو دیکھا کہ ایک آدمی کو گرفتار کرکے رکھا ہوا ہے۔
وجہ دریافت کرنے پرمعلوم ہوا وہ ایک یہودی تھا۔
جس نے اسلام قبول کرنے کے بعد دوبارہ یہودی مذہب اختیار کر لیا تھا۔
حضرت معاذ نے اسے فوری قتل کرنے کا مطالبہ کیا چنانچہ حضرت ابوموسیٰ اشعری نےاسے قتل کرا دیا۔ (صیحح البخاري، استتابة المرتدین والمعاندین وقتالھم، باب حکم المرتد والمرتدة واستتابتھم، حدیث: 2963)
حافظ ابن حجر نے شرح میں مسند احمد کے حوالہ سے یہی واقعہ ذکر کیا ہے۔
اس روایت میں ہے کہ حضرت ابو موسیٰ نےفرمایا:
ہم تقریبا دو مہینے سے اسے اسلام قبول کرنے کا کہہ رہے ہیں---، (فتح الباري، 343/12)

(7)
اس واقعے سے حضرت عثمان کا عظیم مقام اور عصمت وعفت کے لحاظ سے ان کا اعلیٰ وارفع کردار واضح ہوتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2533   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4502  
´امام (حاکم) خون معاف کر دینے کا حکم دے تو کیسا ہے؟`
ابوامامہ بن سہل کہتے ہیں کہ ہم عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، آپ گھر میں محصور تھے، گھر میں داخل ہونے کا ایک راستہ ایسا تھا کہ جو اس میں داخل ہو جاتا وہ باہر سطح زمین پر کھڑے لوگوں کی گفتگو سن سکتا تھا، عثمان اس میں داخل ہوئے اور ہمارے پاس لوٹے تو ان کا رنگ متغیر تھا، کہنے لگے: ان لوگوں نے ابھی ابھی مجھے قتل کرنے کی دھمکی دی ہے، تو ہم نے عرض کیا: امیر المؤمنین! آپ کی ان سے حفاظت کے لیے اللہ کافی ہے، اس پر انہوں نے کہا: آخر یہ مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: تین باتوں کے بغ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الديات /حدیث: 4502]
فوائد ومسائل:
سیدنا ابو بکر اور سیدنا عثمان رضی اللہ اسلام سے پہلے ہی پاک طینت تھے، اسلام نے ان کی صالحیت کو اور بھی صیقل کردیا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4502   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.