الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جہاد کا بیان
The Book of Jihad (Fighting For Allah’S Cause)
58. بَابُ غَايَةِ السَّبْقِ لِلْخَيْلِ الْمُضَمَّرَةِ:
58. باب: تیار کئے ہوئے گھوڑوں کی دوڑ کی حد کہاں تک ہو۔
(58) Chapter. The extreme limit of the distance of the race of horses that have been made lean.
حدیث نمبر: 2870
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا عبد الله بن محمد، حدثنا معاوية، حدثنا ابو إسحاق، عن موسى بن عقبة، عن نافع، عن ابن عمر رضي الله عنهما، قال: سابق رسول الله صلى الله عليه وسلم" بين الخيل التي قد اضمرت فارسلها من الحفياء، وكان امدها ثنية الوداع، فقلت لموسى: فكم كان بين ذلك، قال: ستة اميال او سبعة وسابق بين الخيل التي لم تضمر، فارسلها من ثنية الوداع وكان امدها مسجد بني زريق، قلت: فكم بين ذلك، قال: ميل او نحوه وكان ابن عمر ممن سابق فيها".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: سَابَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" بَيْنَ الْخَيْلِ الَّتِي قَدْ أُضْمِرَتْ فَأَرْسَلَهَا مِنْ الْحَفْيَاءِ، وَكَانَ أَمَدُهَا ثَنِيَّةَ الْوَدَاعِ، فَقُلْتُ لِمُوسَى: فَكَمْ كَانَ بَيْنَ ذَلِكَ، قَالَ: سِتَّةُ أَمْيَالٍ أَوْ سَبْعَةٌ وَسَابَقَ بَيْنَ الْخَيْلِ الَّتِي لَمْ تُضَمَّرْ، فَأَرْسَلَهَا مِنْ ثَنِيَّةِ الْوَدَاعِ وَكَانَ أَمَدُهَا مَسْجِدَ بَنِي زُرَيْقٍ، قُلْتُ: فَكَمْ بَيْنَ ذَلِكَ، قَالَ: مِيلٌ أَوْ نَحْوُهُ وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ مِمَّنْ سَابَقَ فِيهَا".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے معاویہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسحاق نے، ان سے موسیٰ بن عقبہ نے، ان سے نافع نے اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھوڑوں کی دوڑ کرائی جنہیں تیار کیا گیا تھا۔ یہ دوڑ مقام حفیاء سے شروع کرائی اور ثنیۃ الوداع اس کی آخری حد تھی (ابواسحاق راوی نے بیان کیا کہ) میں نے ابوموسیٰ سے پوچھا اس کا فاصلہ کتنا تھا؟ تو انہوں نے بتایا کہ چھ یا سات میل اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھوڑوں کی بھی دوڑ کرائی جنہیں تیار نہیں کیا گیا تھا۔ ایسے گھوڑوں کی دوڑ ثنیۃ الوداع سے شروع ہوئی اور حد مسجد بنی زریق تھی۔ میں نے پوچھا اس میں کتنا فاصلہ تھا؟ انہوں نے کہا کہ تقریباً ایک میل۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی دوڑ میں شرکت کرنے والوں میں تھے۔

Narrated Abu 'Is-haq from Musa bin `Uqba from Mafia from Ibn `Umar who said: "Allah's Apostle arranged a horse race amongst the horses that had been made lean, letting them start from Al-Hafya' and their limit (distance of running) was up to Thaniyat-al-Wada`. I asked Musa, 'What was the distance between the two places?' Musa replied, 'Six or seven miles. He arranged a race of the horses which had not been made lean sending them from Thaniyat-al-Wada`, and their limit was up to the mosque of Bani Zuraiq.' I asked, 'What was the distance between those two places?' He replied 'One mile or so.' Ibn `Umar was amongst those who participated in that horse race."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 52, Number 122

   صحيح البخاري2868عبد الله بن عمرما ضمر من الخيل من الحفياء إلى ثنية الوداع وأجرى ما لم يضمر من الثنية إلى مسجد بني زريق قال ابن عمر وكنت فيمن أجرى
   صحيح البخاري420عبد الله بن عمرسابق بين الخيل التي أضمرت من الحفياء وأمدها ثنية الوداع وسابق بين الخيل التي لم تضمر من الثنية إلى مسجد بني زريق وأن عبد الله بن عمر كان فيمن سابق بها
   صحيح البخاري7336عبد الله بن عمرسابق النبي بين الخيل فأرسلت التي ضمرت منها وأمدها إلى الحفياء إلى ثنية الوداع والتي لم تضمر أمدها ثنية الوداع إلى مسجد بني زريق وأن عبد الله كان فيمن سابق
   صحيح البخاري2869عبد الله بن عمرسابق بين الخيل التي لم تضمر وكان أمدها من الثنية إلى مسجد بني زريق وأن عبد الله بن عمر كان سابق بها
   صحيح البخاري2870عبد الله بن عمربين الخيل التي قد أضمرت فأرسلها من الحفياء وكان أمدها ثنية الوداع فقلت لموسى فكم كان بين ذلك قال ستة أميال أو سبعة وسابق بين الخيل التي لم تضمر فأرسلها من ثنية الوداع وكان أمدها مسجد بني زريق قلت فكم بين ذلك قال ميل أو نحوه وكان ابن عمر ممن سابق فيها
   صحيح مسلم4843عبد الله بن عمرسابق بالخيل التي قد أضمرت من الحفياء وكان أمدها ثنية الوداع وسابق بين الخيل التي لم تضمر من الثنية إلى مسجد بني زريق
   جامع الترمذي1699عبد الله بن عمرأجرى المضمر من الخيل من الحفياء إلى ثنية الوداع وبينهما ستة أميال وما لم يضمر من الخيل من ثنية الوداع إلى مسجد بني زريق وبينهما ميل وكنت فيمن أجرى فوثب بي فرسي جدارا
   سنن أبي داود2575عبد الله بن عمرسابق بين الخيل التي قد ضمرت من الحفياء وكان أمدها ثنية الوداع وسابق بين الخيل التي لم تضمر من الثنية إلى مسجد بني زريق وإن عبد الله كان ممن سابق بها
   سنن أبي داود2576عبد الله بن عمركان يضمر الخيل يسابق بها
   سنن أبي داود2577عبد الله بن عمرسبق بين الخيل وفضل القرح في الغاية
   سنن النسائى الصغرى3614عبد الله بن عمرسابق بين الخيل التي قد أضمرت من الحفياء وكان أمدها ثنية الوداع وسابق بين الخيل التي لم تضمر من الثنية إلى مسجد بني زريق
   سنن النسائى الصغرى3613عبد الله بن عمرسابق بين الخيل يرسلها من الحفياء وكان أمدها ثنية الوداع وسابق بين الخيل التي لم تضمر وكان أمدها من الثنية إلى مسجد بني زريق
   سنن ابن ماجه2877عبد الله بن عمرضمر رسول الله الخيل فكان يرسل التي ضمرت من الحفياء إلى ثنية الوداع والتي لم تضمر من ثنية الوداع إلى مسجد بني زريق
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم562عبد الله بن عمرسابق بين الخيل التى قد اضمرت من الحفياء، وكان امدها ثنية الوداع
   بلوغ المرام1130عبد الله بن عمروسابق بين الخيل التي لم تضمر من الثنية إلى مسجد بني زريق
   بلوغ المرام1131عبد الله بن عمرسبق بين الخيل وفضل القرح في الغاية
   مسندالحميدي701عبد الله بن عمرسابق رسول الله صلى الله عليه وسلم بين الخيل، فأرسل ما أضمر منها من الحفياء إلى مسجد بني زريق، وأرسل ما لم يضمر منها من ثنية الوداع إلى مسجد بني زريق

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 562  
´جہاد کے لئے گھوڑا تیار کرنے کی فضیلت`
«. . . 216- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سابق بين الخيل التى قد أضمرت من الحفياء، وكان أمدها ثنية الوداع، سابق بين الخيل التى لم تضمر من الثنية إلى مسجد بني زريق، وأن عبد الله بن عمر كان ممن سابق بها. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ گھوڑے جنہیں دبلا کر کے جہاد کے لئے تیار کیا گیا تھا، حفیاء (ایک مقام) سے ثنیة الوداع (دوسرے مقام) تک دوڑائے اور جنہیں تیار نہیں کیا گیا تھا وہ ثنیہ سے لے کر بنو زریق کی مسجد تک دوڑائے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اس مقابلے میں حصہ لیا تھا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 562]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 420، ومسلم 95/1870، من حديث مالك به]
تفقه
➊ میدان جنگ کے لئے گھوڑے پالنا اور انھیں تیار کرنا سنت ہے۔
➋ جوئے وغیرہ کا خوف نہ ہو تو گھڑ دوڑ جائز ہے۔
➌ جہاد کی تیاری اور ٹریننگ ہمہ وقتی عمل ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 216   
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2869  
´گھوڑ دوڑ کے لیے گھوڑوں کو تیار کرنا`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" سَابَقَ بَيْنَ الْخَيْلِ الَّتِي لَمْ تُضَمَّرْ وَكَانَ أَمَدُهَا مِنْ الثَّنِيَّةِ إِلَى مَسْجِدِ بَنِي زُرَيْقٍ . . .»
. . . عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھوڑوں کی دوڑ کرائی تھی جنہیں تیار نہیں کیا گیا تھا اور دوڑ کی حد ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق رکھی تھی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی اس میں شرکت کی تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ: 2869]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 2869 کا باب: «بَابُ إِضْمَارِ الْخَيْلِ لِلسَّبْقِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
مذکورہ باب اور حدیث میں مناسبت مشکل ہے، کیوں کہ باب میں اضمار شدہ گھوڑوں کا ذکر مشروط ہے اور حدیث میں غیر اضمار گھوڑوں کا ذکر ہے۔ اس کا جواب اور تطبیق یہ ہو گی کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی عادت ہے کہ حدیث کا ایک لفظ لا کر دوسرے لفظ کی طرف اشارہ کر دیتے ہیں، اس حدیث میں دوسرا لفظ یہ ہے کہ جن گھوڑوں کا اضمار ہوا تھا آپ نے ان کی شرط کرائی، حفیاءسے ثینہ تک۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بات کی طرف اشارہ فرمایا کہ سنت تو یہ ہے کہ مقابلہ میں وہ گھوڑے مقدم کیے جائیں جن کو دبلا کیا گیا ہو، لیکن اگر ان گھوڑوں کا مقابلہ کروایا جائے جن کا اضمار نہیں کیا گیا تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
«اشارة إلى أن السنة فى المسابقة أن يتقدم اضمار الخيل، وان كانت التى لا تضمر لا تمتنع المسابقة عليها.» [فتح الباري، ج 6، ص: 89]
علامہ عینی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«أي هذا باب فى بيان اضمار الخيل لأجل السبق، هل هو شرط أم لا؟» [عمدة القاري شرح صحيح البخاري، ج 14، ص: 159]
یعنی یہ باب مقابلہ کی غرض سے گھوڑے کے اضمار کے بیان میں ہے (مقابلے میں شریک) گھوڑے کا اضمار کرنا شرط ہے یا نہیں۔ لہذا اس بات کا جواب حدیث کے باب میں مذکور ہے کہ مقابلے کے گھوڑوں کے لیے اضمار شرط نہیں، اس کے بغیر بھی مقابلہ کروایا جا سکتا ہے۔ [المتواري على أبواب البخاري، ص: 160]
فائدہ: (اضمار کے معنی و مطلب):
اضمار خواہ باب افعال سے ہو یا تفعیل سے اس کے معنی گھوڑے کو دبلا بنانے اور چھریرا بنانے کے ہیں۔ لہذا اسی لیے کہا جاتا ہے:
«أضمر الفرس وضمره.» [مصباح اللغات، ص: 499، مادة ’ضمر‘ - المعجم الوسيط، ج 1، ص: 543، مادة ’ضمر‘]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 405   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2877  
´گھوڑ دوڑ میں مقابلہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کو پھرتیلا بنایا، آپ پھرتیلے چھریرے بدن والے گھوڑوں کو مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک اور غیر پھرتیلے گھوڑوں کو ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک دوڑاتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2877]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
تضمیر سے مراد گھوڑوں کی ایک خاص انداز سے تربیت کرنا ہے۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ کچھ عرصہ گھوڑے کو خوب کھلا پلا کر موٹا کرتے ہیں پھر اس کا چارہ کم کردیتے ہیں اور اسے ایک کوٹھڑی میں بند کردیتے ہیں۔
اسے وہاں پسینہ آتا ہے اور وہیں خشک ہوتا ہے۔
اور وہ بغیر تھکے زیادہ دوڑ سکتا ہے۔
۔

(2) (حفياء)
اور(ثنيةالوداع)
دو جگہوں کے نام ہیں جن کے درمیان تین میل کا فاصلہ ہے۔

(3) (ثنية الوداع)
سے مسجد بنی زریق تک ایک میل کا فاصلہ ہے۔

(4)
دور کے مقابلے میں مناسب فاصلے کا تعین ہونا چاہیے۔

(5)
بنی زریق ایک قبیلے کا نام ہے۔
وہ لوگ اس مسجد کے قریب رہتےاور اس میں نماز پڑھتے تھے لہٰذا مسجد کو کسی قبیلے یا گروہ کی طرف پہچان کے لیے منسوب کرنے میں کوئی حرج نہیں اگرچہ سب مسجدیں اللہ ہی کی ہوتی ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2877   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1130  
´گھڑ دوڑ اور تیراندازی کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیار شدہ گھوڑوں کی حفیاء سے ثنیہ الوداع تک دوڑ کرائی اور جو گھوڑے تیار نہیں تھے ان کو ثنیۃ سے لے کر بنی زریق کی مسجد تک دوڑایا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی مسابقت میں شریک تھے۔ (بخاری و مسلم) اور بخاری میں اتنا اضافہ ہے کہ سفیان رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حفیاء سے ثنیۃ الوداع کا فاصلہ پانچ یا چھ میل ہے اور ثنیۃ سے مسجد بنی زریق تک کا فاصلہ ایک میل ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1130»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الصلاة، باب هل يقال مسجد بني فلان، حديث:420، ومسلم، الإمارة، باب المسابقة بين الخيل وضميرها، حديث:1870.»
تشریح:
1. اس حدیث سے جہاد کی تیاری کے لیے گھوڑ دوڑ‘ تیر اندازی اور نیزہ بازی کا جواز ثابت ہوتا ہے۔
اس دور میں یہی چیز عموماً جنگ میں کام آتی تھی۔
2. آج کے دور میں ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں چلانے کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔
تیر و نیزے کی جگہ بندوق‘ توپ اور جدید جنگی آلات کے استعمال کی تربیت حاصل کرنی چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1130   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1699  
´گھڑ دوڑ میں شرط لگانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «تضمیر» کیے ہوئے گھوڑوں کی مقام حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک دوڑ کرائی، ان دونوں کے درمیان چھ میل کا فاصلہ ہے، اور جو «تضمیر» کیے ہوئے نہیں تھے ان کو ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک گھڑ دوڑ کرائی، ان دونوں کے درمیان ایک میل کا فاصلہ ہے، گھڑ دوڑ کے مقابلہ میں میں بھی شامل تھا، چنانچہ میرا گھوڑا مجھے لے کر ایک دیوار کود گیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1699]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے جہاد کی تیاری کے لیے گھڑدوڑ،
تیر اندازی،
اور نیزہ بازی کا جواز ثابت ہوتا ہے،
نبی اکرمﷺ کے دور میں عموماً یہی چیزیں جنگ میں کام آتی تھیں،
حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے ضرورت ہے کہ آج کے دور میں راکٹ،
میزائل،
ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں چلانے کا تجربہ حاصل کیاجائے،
ساتھ ہی بندوق توپ اور ہرقسم کے جدید جنگی آلات کی تربیت حاصل کی جائے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1699   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2575  
´گھوڑ دوڑ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھرتیلے چھریرے بدن والے گھوڑوں کے درمیان ۱؎ حفیاء سے ثنیۃ الوداع تک مقابلہ کرایا، اور غیر چھریرے بدن والے گھوڑوں، کے درمیان ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق تک مقابلہ کرایا اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی مقابلہ کرنے والوں میں سے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2575]
فوائد ومسائل:

گھوڑوں کو پالتے ہوئے پہلے انہیں کھلا پلا کر خوب موٹا تازہ کیا جاتا ہے۔
پھر ان کی خوراک میں بتدریج کمی کی جاتی ہے۔
اور کسی مکان میں بند رکھا جاتا ہے۔
اور ان پر کپڑا بھی ڈالتے ہیں۔
اس سے ان کو پسینہ آتا ہے حتی ٰ کہ ان کی زائد چربی وغیرہ ختم ہوجاتی ہے۔
اور اس طرح وہ بہت طاقت ور ہوجاتے ہیں۔
اور ان کا سانس بہت کم پھولتا ہے۔
اس عمل کو اضمار اور ایسے گھوڑوں کو مضمر کہتے ہیں۔
(پہلی میم پر پیش اور دوسری پر زبر کے ساتھ)

حدیث شریف میں ہے کہ حفیاء سے ثنیۃ الوداع کے درمیان پانچ چھ میل کا فاصلہ تھا۔
اور ثنیۃ الوداع سے مسجد بنی زریق کے درمیان ایک میل کا (صحیح البخاري، الجهاد والسیر، حدیث: 2868)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2575   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2870  
2870. حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان گھوڑوں کی دوڑ کرائی جنھیں تیار کیاگیا تھا۔ یہ دوڑ مقام حفیاء سےشروع کرائی اور ثنیۃ الوداع اس کی حد تھی۔ (راوی حدیث) ابو اسحاق نے (اپنےاستاد) موسیٰ سے پوچھا کہ اس کا فاصلہ کتنا تھا؟ توانھوں نے بتایا کہ چھ یا سات میل۔ پھر آپ ﷺ نے ان گھوڑوں کی بھی دوڑ کرائی جو تیار شدہ نہیں تھے۔ ایسے گھوڑوں کی دوڑثنیۃ الوداع سے شروع ہوئی اور اس کی حد مسجد بنو زریق تھی۔ راوی نےپوچھا: اس میں کتنا فاصلہ تھا تو بتایا تقریباً ایک میل۔ حضرت ابن عمر ؓ بھی دوڑ میں شرکت کرنے والوں میں سے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2870]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ کا مقصد باب یہ ہے کہ اضمار شدہ گھوڑوں کی دوڑ کی حد چھ یا سات میل ہے جیسا کہ مقام حفیاء اور ثنیۃ الوداع کا فاصلہ ہے اور غیر اضمار شدہ کی حد تقریباً ایک میل جو ثنیۃ الوداع اور مسجد بنو زریق کی حد تھی۔
ایک متمدن حکومت کے لئے اس مشینی دور میں بھی گھوڑے کی بڑی اہمیت ہے۔
عربی نسل کے گھوڑے جو فوقیت رکھتے ہیں وہ محتاج تشریح نہیں۔
زمانۂ رسالت میں گھوڑوں کو سدھانے کے لیے یہ مقابلہ کی دوڑ ہوا کرتی تھی مگر آج کل ریس کی دوڑ جو آج عام طور پر شہروں میں کرائی جاتی ہے اور گھوڑوں پر بڑی بڑی رقوم بطور جوئے بازی کے لگائی جاتی ہیں یہ کھلا ہوا جوا ہے جو شرعاً قطعاً حرام ہے اور کسی پر مخفی نہیں۔
صد افسوس کہ عام مسلمانوں نے آج کل حلال و حرام کی تمیز ختم کردی ہے اور کتنے ہی مسلمان ان میں حصہ لیتے ہیں اور تباہ ہوتے ہیں۔
مختصر یہ کہ آج کل ریس کی گھوڑ دوڑ میں شرکت کرنا بالکل حرام ہے‘ اللہ ہر مسلمان کو اس تباہی سے بچائے۔
آمین
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2870   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2870  
2870. حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ان گھوڑوں کی دوڑ کرائی جنھیں تیار کیاگیا تھا۔ یہ دوڑ مقام حفیاء سےشروع کرائی اور ثنیۃ الوداع اس کی حد تھی۔ (راوی حدیث) ابو اسحاق نے (اپنےاستاد) موسیٰ سے پوچھا کہ اس کا فاصلہ کتنا تھا؟ توانھوں نے بتایا کہ چھ یا سات میل۔ پھر آپ ﷺ نے ان گھوڑوں کی بھی دوڑ کرائی جو تیار شدہ نہیں تھے۔ ایسے گھوڑوں کی دوڑثنیۃ الوداع سے شروع ہوئی اور اس کی حد مسجد بنو زریق تھی۔ راوی نےپوچھا: اس میں کتنا فاصلہ تھا تو بتایا تقریباً ایک میل۔ حضرت ابن عمر ؓ بھی دوڑ میں شرکت کرنے والوں میں سے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2870]
حدیث حاشیہ:
گھوڑ دوڑ کے مقابلے کے لیے چند چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے جن کی تفصیل یہ ہے۔
تیار شدہ اور غیر تیار گھوڑوں کی دوڑ کا مقابلہ الگ الگ ہونا چاہیے۔
اس دوڑ کے مقابلے کے لیے حد مقرر ہو جیسا کہ اس حدیث میں مذکورہے۔
یہ دوڑ عظیم جنگی مقاصد کے لیے ہو محض تفریح طبع مقصود نہیں ہونی چاہیے۔
یہ دوڑ سوار سمیت ہو اس کے بغیر گھوڑے کے بدکنےکا اندیشہ ہوتا ہے۔
اس دوڑ پر دونوں طرف سے کوئی شرط وغیرہ طے نہ ہو بصورت دیگر یہ کھلا جوا ہو گا جو حرام ہے۔
واضح رہے کہ یہ مقابلہ گھوڑوں،اونٹوں، انسانوں، تیراندازی اور نیزہ بازی کا بھی ہو سکتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2870   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.