الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: زہد، ورع، تقوی اور پرہیز گاری
Chapters On Zuhd
48. باب مَا جَاءَ فِي الرِّيَاءِ وَالسُّمْعَةِ
48. باب: ریا و نمود اور شہرت کا بیان
حدیث نمبر: 2382
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا سويد بن نصر، اخبرنا عبد الله بن المبارك، اخبرنا حيوة بن شريح، اخبرني الوليد بن ابي الوليد ابو عثمان المدائني , ان عقبة بن مسلم حدثه، ان شفيا الاصبحي حدثه، انه دخل المدينة فإذا هو برجل قد اجتمع عليه الناس، فقال: من هذا؟ فقالوا: ابو هريرة، فدنوت منه حتى قعدت بين يديه وهو يحدث الناس، فلما سكت وخلا قلت له: انشدك بحق وبحق لما حدثتني حديثا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم عقلته وعلمته، فقال ابو هريرة: افعل لاحدثنك حديثا حدثنيه رسول الله صلى الله عليه وسلم عقلته وعلمته، ثم نشغ ابو هريرة نشغة فمكث قليلا، ثم افاق , فقال: لاحدثنك حديثا حدثنيه رسول الله صلى الله عليه وسلم في هذا البيت ما معنا احد غيري وغيره، ثم نشغ ابو هريرة نشغة اخرى، ثم افاق فمسح وجهه , فقال: لاحدثنك حديثا حدثنيه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وانا وهو في هذا البيت ما معنا احد غيري وغيره، ثم نشغ ابو هريرة نشغة اخرى، ثم افاق ومسح وجهه , فقال: افعل لاحدثنك حديثا حدثنيه رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا معه في هذا البيت ما معه احد غيري وغيره، ثم نشغ ابو هريرة نشغة شديدة، ثم مال خارا على وجهه فاسندته علي طويلا، ثم افاق , فقال: " حدثني رسول الله صلى الله عليه وسلم، ان الله تبارك وتعالى إذا كان يوم القيامة ينزل إلى العباد ليقضي بينهم وكل امة جاثية فاول من يدعو به رجل جمع القرآن، ورجل قتل في سبيل الله، ورجل كثير المال، فيقول الله للقارئ: الم اعلمك ما انزلت على رسولي؟ قال: بلى يا رب، قال: فماذا عملت فيما علمت؟ قال: كنت اقوم به آناء الليل وآناء النهار، فيقول الله له: كذبت، وتقول له الملائكة: كذبت، ويقول الله له: بل اردت ان يقال: إن فلانا قارئ فقد قيل ذاك، ويؤتى بصاحب المال فيقول الله له: الم اوسع عليك حتى لم ادعك تحتاج إلى احد؟ قال: بلى يا رب، قال: فماذا عملت فيما آتيتك؟ قال: كنت اصل الرحم واتصدق، فيقول الله له: كذبت، وتقول له الملائكة: كذبت، ويقول الله تعالى: بل اردت ان يقال: فلان جواد فقد قيل ذاك، ويؤتى بالذي قتل في سبيل الله، فيقول الله له: في ماذا قتلت؟ فيقول: امرت بالجهاد في سبيلك فقاتلت حتى قتلت، فيقول الله تعالى له: كذبت، وتقول له الملائكة: كذبت، ويقول الله: بل اردت ان يقال: فلان جريء، فقد قيل ذاك، ثم ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم على ركبتي، فقال: يا ابا هريرة اولئك الثلاثة اول خلق الله تسعر بهم النار يوم القيامة " , وقال الوليد ابو عثمان: فاخبرني عقبة بن مسلم، ان شفيا هو الذي دخل على معاوية فاخبره بهذا، قال ابو عثمان، وحدثني العلاء بن ابي حكيم، انه كان سيافا لمعاوية، فدخل عليه رجل فاخبره بهذا، عن ابي هريرة، فقال معاوية: قد فعل بهؤلاء هذا، فكيف بمن بقي من الناس ثم بكى معاوية بكاء شديدا حتى ظننا انه هالك، وقلنا: قد جاءنا هذا الرجل بشر، ثم افاق معاوية ومسح عن وجهه، وقال: صدق الله ورسوله من كان يريد الحياة الدنيا وزينتها نوف إليهم اعمالهم فيها وهم فيها لا يبخسون {15} اولئك الذين ليس لهم في الآخرة إلا النار وحبط ما صنعوا فيها وباطل ما كانوا يعملون {16} سورة هود آية 15-16 , قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، أَخْبَرَنِي الْوَلِيدُ بْنُ أَبِي الْوَلِيدِ أَبُو عُثْمَانَ الْمَدَائِنِيُّ , أَنَّ عُقْبَةَ بْنَ مُسْلِمٍ حَدَّثَهُ، أَنَّ شُفَيًّا الْأَصْبَحِيَّ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ دَخَلَ الْمَدِينَةَ فَإِذَا هُوَ بِرَجُلٍ قَدِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِ النَّاسُ، فَقَالَ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالُوا: أَبُو هُرَيْرَةَ، فَدَنَوْتُ مِنْهُ حَتَّى قَعَدْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُوَ يُحَدِّثُ النَّاسَ، فَلَمَّا سَكَتَ وَخَلَا قُلْتُ لَهُ: أَنْشُدُكَ بِحَقٍّ وَبِحَقٍّ لَمَا حَدَّثْتَنِي حَدِيثًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَقَلْتَهُ وَعَلِمْتَهُ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَفْعَلُ لَأُحَدِّثَنَّكَ حَدِيثًا حَدَّثَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَقَلْتُهُ وَعَلِمْتُهُ، ثُمَّ نَشَغَ أَبُو هُرَيْرَةَ نَشْغَةً فَمَكَثَ قَلِيلًا، ثُمَّ أَفَاقَ , فَقَالَ: لَأُحَدِّثَنَّكَ حَدِيثًا حَدَّثَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْبَيْتِ مَا مَعَنَا أَحَدٌ غَيْرِي وَغَيْرُهُ، ثُمَّ نَشَغَ أَبُو هُرَيْرَةَ نَشْغَةً أُخْرَى، ثُمَّ أَفَاقَ فَمَسَحَ وَجْهَهُ , فَقَالَ: لَأُحَدِّثَنَّكَ حَدِيثًا حَدَّثَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَنَا وَهُوَ فِي هَذَا الْبَيْتِ مَا مَعَنَا أَحَدٌ غَيْرِي وَغَيْرُهُ، ثُمَّ نَشَغَ أَبُو هُرَيْرَةَ نَشْغَةً أُخْرَى، ثُمَّ أَفَاقَ وَمَسَحَ وَجْهَهُ , فَقَالَ: أَفْعَلُ لَأُحَدِّثَنَّكَ حَدِيثًا حَدَّثَنِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ فِي هَذَا الْبَيْتِ مَا مَعَهُ أَحَدٌ غَيْرِي وَغَيْرُهُ، ثُمَّ نَشَغَ أَبُو هُرَيْرَةَ نَشْغَةً شَدِيدَةً، ثُمَّ مَالَ خَارًّا عَلَى وَجْهِهِ فَأَسْنَدْتُهُ عَلَيَّ طَوِيلًا، ثُمَّ أَفَاقَ , فَقَالَ: " حَدَّثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ يَنْزِلُ إِلَى الْعِبَادِ لِيَقْضِيَ بَيْنَهُمْ وَكُلُّ أُمَّةٍ جَاثِيَةٌ فَأَوَّلُ مَنْ يَدْعُو بِهِ رَجُلٌ جَمَعَ الْقُرْآنَ، وَرَجُلٌ قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَرَجُلٌ كَثِيرُ الْمَالِ، فَيَقُولُ اللَّهُ لِلْقَارِئِ: أَلَمْ أُعَلِّمْكَ مَا أَنْزَلْتُ عَلَى رَسُولِي؟ قَالَ: بَلَى يَا رَبِّ، قَالَ: فَمَاذَا عَمِلْتَ فِيمَا عُلِّمْتَ؟ قَالَ: كُنْتُ أَقُومُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ، فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: كَذَبْتَ، وَتَقُولُ لَهُ الْمَلَائِكَةُ: كَذَبْتَ، وَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: بَلْ أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ: إِنَّ فُلَانًا قَارِئٌ فَقَدْ قِيلَ ذَاكَ، وَيُؤْتَى بِصَاحِبِ الْمَالِ فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: أَلَمْ أُوَسِّعْ عَلَيْكَ حَتَّى لَمْ أَدَعْكَ تَحْتَاجُ إِلَى أَحَدٍ؟ قَالَ: بَلَى يَا رَبِّ، قَالَ: فَمَاذَا عَمِلْتَ فِيمَا آتَيْتُكَ؟ قَالَ: كُنْتُ أَصِلُ الرَّحِمَ وَأَتَصَدَّقُ، فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: كَذَبْتَ، وَتَقُولُ لَهُ الْمَلَائِكَةُ: كَذَبْتَ، وَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: بَلْ أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ: فُلَانٌ جَوَادٌ فَقَدْ قِيلَ ذَاكَ، وَيُؤْتَى بِالَّذِي قُتِلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَيَقُولُ اللَّهُ لَهُ: فِي مَاذَا قُتِلْتَ؟ فَيَقُولُ: أُمِرْتُ بِالْجِهَادِ فِي سَبِيلِكَ فَقَاتَلْتُ حَتَّى قُتِلْتُ، فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى لَهُ: كَذَبْتَ، وَتَقُولُ لَهُ الْمَلَائِكَةُ: كَذَبْتَ، وَيَقُولُ اللَّهُ: بَلْ أَرَدْتَ أَنْ يُقَالَ: فُلَانٌ جَرِيءٌ، فَقَدْ قِيلَ ذَاكَ، ثُمَّ ضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رُكْبَتِي، فَقَالَ: يَا أَبَا هُرَيْرَةَ أُولَئِكَ الثَّلَاثَةُ أَوَّلُ خَلْقِ اللَّهِ تُسَعَّرُ بِهِمُ النَّارُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ " , وَقَالَ الْوَلِيدُ أَبُو عُثْمَانَ: فَأَخْبَرَنِي عُقْبَةُ بْنُ مُسْلِمٍ، أَنَّ شُفَيًّا هُوَ الَّذِي دَخَلَ عَلَى مُعَاوِيَةَ فَأَخْبَرَهُ بِهَذَا، قَالَ أَبُو عُثْمَانَ، وَحَدَّثَنِي الْعَلَاءُ بْنُ أَبِي حَكِيمٍ، أَنَّهُ كَانَ سَيَّافًا لِمُعَاوِيَةَ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ فَأَخْبَرَهُ بِهَذَا، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ: قَدْ فُعِلَ بِهَؤُلَاءِ هَذَا، فَكَيْفَ بِمَنْ بَقِيَ مِنَ النَّاسِ ثُمَّ بَكَى مُعَاوِيَةُ بُكَاءً شَدِيدًا حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ هَالِكٌ، وَقُلْنَا: قَدْ جَاءَنَا هَذَا الرَّجُلُ بِشَرٍّ، ثُمَّ أَفَاقَ مُعَاوِيَةُ وَمَسَحَ عَنْ وَجْهِهِ، وَقَالَ: صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لا يُبْخَسُونَ {15} أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ إِلا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ {16} سورة هود آية 15-16 , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
عقبہ بن مسلم سے شفیا اصبحی نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ وہ مدینہ میں داخل ہوئے، اچانک ایک آدمی کو دیکھا جس کے پاس کچھ لوگ جمع تھے، انہوں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ لوگوں نے جواباً عرض کیا: یہ ابوہریرہ رضی الله عنہ ہیں، شفیا اصبحی کا بیان ہے کہ میں ان کے قریب ہوا یہاں تک کہ ان کے سامنے بیٹھ گیا اور وہ لوگوں سے حدیث بیان کر رہے تھے، جب وہ حدیث بیان کر چکے اور تنہا رہ گئے تو میں نے ان سے کہا: میں آپ سے اللہ کا باربار واسطہ دے کر پوچھ رہا ہوں کہ آپ مجھ سے ایسی حدیث بیان کیجئے جسے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو اور اسے اچھی طرح جانا اور سمجھا ہو۔ ابوہریرہ رضی الله عنہ نے فرمایا: ٹھیک ہے، یقیناً میں تم سے ایسی حدیث بیان کروں گا جسے مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا ہے اور میں نے اسے اچھی طرح جانا اور سمجھا ہے۔ پھر ابوہریرہ نے زور کی چیخ ماری اور بیہوش ہو گئے، تھوڑی دیر بعد جب افاقہ ہوا تو فرمایا: یقیناً میں تم سے وہ حدیث بیان کروں گا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اسی گھر میں بیان کیا تھا جہاں میرے سوا کوئی نہیں تھا، پھر دوبارہ ابوہریرہ نے چیخ ماری اور بیہوش ہو گئے، پھر جب افاقہ ہوا تو اپنے چہرے کو پونچھا اور فرمایا: ضرور میں تم سے وہ حدیث بیان کروں گا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے بیان کیا ہے اور اس گھر میں میرے اور آپ کے سوا کوئی نہیں تھا، پھر ابوہریرہ نے زور کی چیخ ماری اور بیہوش ہو گئے، اپنے چہرے کو پونچھا اور پھر جب افاقہ ہوا تو فرمایا: ضرور میں تم سے وہ حدیث بیان کروں گا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے بیان کیا ہے اور اس گھر میں میرے اور آپ کے سوا کوئی نہیں تھا، پھر ابوہریرہ نے زور کی چیخ ماری اور بیہوش ہو کر منہ کے بل زمین پر گر پڑے، میں نے بڑی دیر تک انہیں اپنا سہارا دیئے رکھا پھر جب افاقہ ہوا تو فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی ہے: قیامت کے دن جب ہر امت گھٹنوں کے بل پڑی ہو گی تو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان فیصلے کے لیے نزول فرمائے گا، پھر اس وقت فیصلہ کے لیے سب سے پہلے ایسے شخص کو بلایا جائے گا جو قرآن کا حافظ ہو گا، دوسرا شہید ہو گا اور تیسرا مالدار ہو گا، اللہ تعالیٰ حافظ قرآن سے کہے گا: کیا میں نے تجھے اپنے رسول پر نازل کردہ کتاب کی تعلیم نہیں دی تھی؟ وہ کہے گا: یقیناً اے میرے رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا جو علم تجھے سکھایا گیا اس کے مطابق تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا: میں اس قرآن کے ذریعے راتوں دن تیری عبادت کرتا تھا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے جھوٹ کہا اور فرشتے بھی اس سے کہیں گے کہ تو نے جھوٹ کہا، پھر اللہ تعالیٰ کہے گا: (قرآن سیکھنے سے) تیرا مقصد یہ تھا کہ لوگ تجھے قاری کہیں، سو تجھے کہا گیا، پھر صاحب مال کو پیش کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: کیا میں نے تجھے ہر چیز کی وسعت نہ دے رکھی تھی، یہاں تک کہ تجھے کسی کا محتاج نہیں رکھا؟ وہ عرض کرے گا: یقیناً میرے رب! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے تجھے جو چیزیں دی تھیں اس میں کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا: صلہ رحمی کرتا تھا اور صدقہ و خیرات کرتا تھا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تو نے جھوٹ کہا اور فرشتے بھی اسے جھٹلائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: بلکہ تم یہ چاہتے تھے کہ تمہیں سخی کہا جائے، سو تمہیں سخی کہا گیا، اس کے بعد شہید کو پیش کیا جائے گا، اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا: تجھے کس لیے قتل کیا گیا؟ وہ عرض کرے گا: مجھے تیری راہ میں جہاد کا حکم دیا گیا چنانچہ میں نے جہاد کیا یہاں تک کہ شہید ہو گیا، اللہ تعالیٰ اس سے کہے گا: تو نے جھوٹ کہا، فرشتے بھی اسے جھٹلائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: تیرا مقصد یہ تھا کہ تجھے بہادر کہا جائے سو تجھے کہا گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے زانو پر اپنا ہاتھ مار کر فرمایا: ابوہریرہ! یہی وہ پہلے تین شخص ہیں جن سے قیامت کے دن جہنم کی آگ بھڑکائی جائے گی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
ولید ابوعثمان کہتے ہیں: عقبہ بن مسلم نے مجھے خبر دی کہ شفیا اصبحی ہی نے معاویہ رضی الله عنہ کے پاس جا کر انہیں اس حدیث سے باخبر کیا تھا۔ ابوعثمان کہتے ہیں: علاء بن ابی حکیم نے مجھ سے بیان کیا کہ وہ معاویہ رضی الله عنہ کے جلاد تھے، پھر معاویہ کے پاس ایک آدمی پہنچا اور ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطہ سے اس حدیث سے انہیں باخبر کیا تو معاویہ نے کہا: ان تینوں کے ساتھ ایسا معاملہ ہوا تو باقی لوگوں کے ساتھ کیا ہو گا، یہ کہہ کر معاویہ زار و قطار رونے لگے یہاں تک کہ ہم نے سمجھا کہ وہ زندہ نہیں بچیں گے، اور ہم لوگوں نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ یہ شخص شر لے کر آیا ہے، پھر جب معاویہ رضی الله عنہ کو افاقہ ہوا تو انہوں نے اپنے چہرے کو صاف کیا اور فرمایا: یقیناً اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا ہے اور اس آیت کریمہ کی تلاوت کی «من كان يريد الحياة الدنيا وزينتها نوف إليهم أعمالهم فيها وهم فيها لا يبخسون أولئك الذين ليس لهم في الآخرة إلا النار وحبط ما صنعوا فيها وباطل ما كانوا يعملون» جو شخص دنیاوی زندگی اور اس کی زیب و زینت کو چاہے گا تو ہم دنیا ہی میں اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے دیں گے اور کوئی کمی نہیں کریں گے، یہ وہی لوگ ہیں جن کا آخرت میں جہنم کے علاوہ اور کوئی حصہ نہیں ہے اور دنیا کے اندر ہی ان کے سارے اعمال ضائع اور باطل ہو گئے (سورۃ ہود: ۱۶)۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 13493)، وأخرج نحوہ: صحیح مسلم/الإمارة 43 (1905)، سنن النسائی/الجھاد 22 (3139)، و مسند احمد (2/322) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (1 / 29 - 30)، التعليق على بن خزيمة (2482)
   جامع الترمذي2382عبد الرحمن بن صخرأول من يدعو به رجل جمع القرآن رجل قتل في سبيل الله رجل كثير المال فيقول الله للقارئ ألم أعلمك ما أنزلت على رسولي قال بلى يا رب قال فماذا عملت فيما علمت قال كنت أقوم به آناء الليل وآناء النهار فيقول الله له كذبت وتقول له الملائكة كذبت ويقول الله له بل أردت

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2382  
´ریا و نمود اور شہرت کا بیان`
عقبہ بن مسلم سے شفیا اصبحی نے بیان کیا کہ ایک مرتبہ وہ مدینہ میں داخل ہوئے، اچانک ایک آدمی کو دیکھا جس کے پاس کچھ لوگ جمع تھے، انہوں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ لوگوں نے جواباً عرض کیا: یہ ابوہریرہ رضی الله عنہ ہیں، شفیا اصبحی کا بیان ہے کہ میں ان کے قریب ہوا یہاں تک کہ ان کے سامنے بیٹھ گیا اور وہ لوگوں سے حدیث بیان کر رہے تھے، جب وہ حدیث بیان کر چکے اور تنہا رہ گئے تو میں نے ان سے کہا: میں آپ سے اللہ کا باربار واسطہ دے کر پوچھ رہا ہوں کہ آپ مجھ سے ایسی حدیث بیان کیجئے جسے آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو اور اسے اچھی طرح جانا اور سمجھا ہو۔ ابو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الزهد/حدیث: 2382]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جو شخص دنیاوی زندگی اور اس کی زیب وزینت کو چاہے گا تو ہم دنیا ہی میں اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے دیں گے اور کوئی کمی نہیں کریں گے،
یہ وہی لوگ ہیں جن کا آخرت میں جہنم کے علاوہ اور کوئی حصہ نہیں ہے اور دنیا کے اندر ہی ان کے سارے اعمال ضائع اور باطل ہوگئے۔
 (سوره ہود: 16)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2382   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.