الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: سلام مصافحہ اور گھر میں داخل ہونے کے آداب و احکام
Chapters on Seeking Permission
14. باب مَا جَاءَ فِي تَسْلِيمِ الرَّاكِبِ عَلَى الْمَاشِي
14. باب: سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے۔
حدیث نمبر: 2703
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
حدثنا محمد بن المثنى، وإبراهيم بن يعقوب , قالا: حدثنا روح بن عبادة، عن حبيب بن الشهيد، عن الحسن، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " يسلم الراكب على الماشي، والماشي على القاعد، والقليل على الكثير وزاد ابن المثنى في حديثه ويسلم الصغير على الكبير " , وفي الباب عن عبد الرحمن بن شبل، وفضالة بن عبيد، وجابر , قال ابو عيسى: هذا حديث قد روي من غير وجه عن ابي هريرة، وقال ايوب السختياني، ويونس بن عبيد، وعلي بن زيد: إن الحسن لم يسمع من ابي هريرة.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ يَعْقُوبَ , قَالَا: حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يُسَلِّمُ الرَّاكِبُ عَلَى الْمَاشِي، وَالْمَاشِي عَلَى الْقَاعِدِ، وَالْقَلِيلُ عَلَى الْكَثِيرِ وَزَادَ ابْنُ الْمُثَنَّى فِي حَدِيثِهِ وَيُسَلِّمُ الصَّغِيرُ عَلَى الْكَبِيرِ " , وفي الباب عن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ شِبْلٍ، وَفَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ، وَجَابِرٍ , قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ قَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وقَالَ أَيُّوبُ السَّخْتِيَانِيُّ، وَيُونُسُ بْنُ عُبَيْدٍ، وَعَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ: إِنَّ الْحَسَنَ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار پیدل چلنے والے کو اور پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو، اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو (یعنی چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے۔ اور ابن مثنی نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے: چھوٹا اپنے بڑے کو سلام کرے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث ابوہریرہ رضی الله عنہ سے متعدد سندوں سے مروی ہے،
۲- ایوب سختیانی، یونس بن عبید اور علی بن یزید کہتے ہیں کہ حسن بصری نے ابوہریرہ رضی الله عنہ سے نہیں سنا ہے،
۳- اس باب میں عبدالرحمٰن بن شبل، فضالہ بن عبید اور جابر رضی الله عنہ سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الاستئذان 4 (6231)، و5 (6232)، و6 (6233)، و7 (6234)، صحیح مسلم/السلام 1 (92160، سنن ابی داود/ الأدب 145 (5198)، 5199) (تحفة الأشراف: 12251)، و مسند احمد (2/325، 510) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: معلوم ہوا کہ سلام کرنے میں حدیث میں جو طریقہ اور صورت مذکور ہے اس کا اعتبار ہو گا نہ کہ رتبے اور درجے کا، اگر صورت میں اتفاق ہو گا مثلاً دونوں سوار ہیں یا دونوں پیدل ہیں تو ایسی صورت میں سلام کرتے وقت چھوٹے اور بڑے کا لحاظ ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (1145)
   صحيح البخاري6231عبد الرحمن بن صخريسلم الصغير على الكبير والمار على القاعد والقليل على الكثير
   صحيح البخاري6232عبد الرحمن بن صخريسلم الراكب على الماشي والماشي على القاعد والقليل على الكثير
   صحيح البخاري6234عبد الرحمن بن صخريسلم الراكب على الماشي والماشي على القاعد والقليل على الكثير
   صحيح مسلم5646عبد الرحمن بن صخريسلم الراكب على الماشي والماشي على القاعد والقليل على الكثير
   جامع الترمذي2703عبد الرحمن بن صخريسلم الراكب على الماشي والماشي على القاعد والقليل على الكثير ويسلم الصغير على الكبير
   جامع الترمذي2704عبد الرحمن بن صخريسلم الصغير على الكبير والمار على القاعد والقليل على الكثير
   سنن أبي داود5198عبد الرحمن بن صخريسلم الصغير على الكبير والمار على القاعد والقليل على الكثير
   صحيفة همام بن منبه50عبد الرحمن بن صخريسلم الصغير على الكبير والمار على القاعد والقليل على الكثير
   بلوغ المرام1242عبد الرحمن بن صخر‏‏‏‏ليسلم الصغير على الكبير والمار على القاعد والقليل على الكثير

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1242  
´سلام کے آداب`
«وعن ابي هريرة رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏ليسلم الصغير على الكبير والمار على القاعد والقليل على الكثير ‏‏‏‏ متفق عليه. وفي رواية لمسلم: ‏‏‏‏والراكب على الماشي .»
اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوٹا بڑے کو سلام کہے، گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو اور تھوڑے زیادہ کو۔ مسلم کی ایک روایت میں ہے اور سوار پیدل چلنے والے کو۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1242]
تخریج:
[بخاري:6231، 6232، 6234]،
[مسلم، السلام: 5646]،
[بلوغ المرام: 1242]
[تحفة الاشراف: 275/10، 394]

مفردات:
«ليسلم الصغير على الكبير» یہ جملہ صحیح مسلم میں نہیں ہے اس لئے پوری حدیث کو متفق علیہ کہنا مشکل ہے۔
«والراكب على الماشي» یہ جملہ مسلم کے علاوہ صحیح بخاری میں بھی ہے۔ [الاستيذان: 25]

فوائد:
➊ سلام میں ابتداء کی اس ترتیب میں جو حکمتیں ہیں اہل علم نے اپنی اپنی دانست کے مطابق بیان فرمائی ہیں اصل حکمت اللہ ہی کے پاس ہے اور اسی کا علم کامل ہے۔
➋ چھوٹے کو سلام میں پہل کرنے کا حکم اس لئے ہے کہ بڑے کا حق چھوٹے پر زیادہ ہے کیونکہ چھوٹے کو حکم ہے کہ بڑے کی توقیر کرے اور اس کے ساتھ با ادب رہے۔
➌ تھوڑے لوگوں کو سلام میں پہل کرنے کا حکم اس لئے ہے کہ زیادہ لوگوں کا تھوڑے لوگوں پر زیادہ حق ہے اور اس لئے بھی کہ زیادہ لوگ تھوڑے لوگوں کو یا اکیلے کو پہلے سلام کہیں تو اس میں خود بینی اور کبر نہ پیدا ہو جائے۔
➍ گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو اس لئے پہلے سلام کہے کہ وہ داخل ہونے والے کی طرح ہے جسے سلام کرنے کا حکم ہے۔ اور اس لئے بھی کہ بیٹھے ہوئے شخص کا ہر گزرنے والے کی طرف بار بار از خود متوجہ ہو کر سلام کہنا مشکل ہے۔ جب کہ گزرنے والے کو ایسی کوئی مشکل نہیں۔
➎ سوار پیدل چلنے والے کو اس لئے پہلے سلام کہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اسے سواری کی نعمت عطا فرمائی ہے تو اس کا حق ہے کہ وہ تواضع اختیار کرے۔ اگر پیدل کو حکم ہوتا کہ سوار کو پہلے سلام کہے تو خطرہ تھا کہ سوار میں تکبر نہ پیدا ہو جائے۔
➏ جب دونوں ملنے والے برابر ہوں تو دونوں کو ابتداء کا حکم ہے «أفشوا السلام» سلام عام کرو ان میں سے جو پہل کرے گا وہ افضل ہے۔ جیسا کہ دو قطع تعلق کرنے والوں کے متعلق فرمایا: «وخيرهما الذي يبدأ بالسلام» ان میں سے بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔ [متفق عليه]
جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
«والماشيان أيهما يبدأ بالسلام فهو أفضل»
دو پیدل چلنے والوں میں سے جو پہلے سلام کہے وہ افضل ہے۔ [صحيح الادب المفرد 983/754]
یہ حدیث مرفوع بھی صحيح ہے۔ [الصحيحه 1146]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ دو آدمی ملتے ہیں تو پہلے کون سلام کہے گا؟ فرمایا: «أولاهما بالله» جو دونوں سے اللہ کے زیادہ قریب ہے۔ [ترمذي عن ابی امامه و قال حسن]، اور دیکھئے [صحيح الترمذي 2167]
➐ اگر وہ شخص جسے پہلے سلام کرنے کا حکم ہے سلام نہیں کہتا تو دوسرے کو سلام کہہ دینا چاہئے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیلانے کی بہت تاکید کی ہے۔ [بخاري 9335]
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 40   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1242  
´ادب کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوٹا بڑے کو، راہ چلتا بیٹھے کو اور تھوڑے زیادہ تعداد والوں کو سلام کہا کریں۔ (بخاری و مسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ سوار پیدل کو سلام کرے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1242»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الاستئذان، باب تسليم القليل علي الكثير، حديث:6231، ومسلم، السلام، باب يسلم الراكب علي الماشي...، حديث:2160.»
تشریح:
1. اس حدیث میں ایک دوسرے کو سلام کرنے کے آداب کا ذکر ہے۔
2. چنانچہ حکم ہے کہ کم عمر والا بڑی عمر والے کو پہلے سلام کرے۔
اس سے بڑے کی عزت و توقیر مقصود ہے۔
اور آنے والے کو حکم ہے کہ بیٹھے ہوئے کو سلام کرے‘ اس کی حکمت و علت یہ معلوم ہوتی ہے کہ آنے والے سے ضرر و نقصان کا اندیشہ ہو سکتا ہے مگر جب وہ پہلے سلام کرے گا تو اس سے گویا خطرے کا اندیشہ ختم ہوگیا۔
اورسوار پیدل چلنے والوں کو سلام کریں کیونکہ سواری پر بیٹھا ہوا انسان ذرا بڑائی کے زعم اور تکبر میں مبتلا ہو جایا کرتا ہے‘ اس کے ازالے کے لیے حکم فرمایا کہ سوار پہلے سلام کرے اور اپنی تواضع اور محبت کا اظہار کرے۔
اسی طرح کم تعداد‘ زیادہ تعداد والوں کو سلام کریں‘ اس میں کثرت کی قلت پر فوقیت اور افضلیت کی طرف اشارہ ہے۔
گویا اسلام نے حفظ مراتب کا اہل اسلام کو سبق دیا ہے جس پر ماشاء اللہ یہ امت عمل پیرا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1242   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2703  
´سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار پیدل چلنے والے کو اور پیدل چلنے والا بیٹھے ہوئے کو، اور تھوڑے لوگ زیادہ لوگوں کو (یعنی چھوٹی جماعت بڑی جماعت کو سلام کرے۔‏‏‏‏ اور ابن مثنی نے اپنی روایت میں اتنا اضافہ کیا ہے: چھوٹا اپنے بڑے کو سلام کرے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب/حدیث: 2703]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہوا کہ سلام کرنے میں حدیث میں جو طریقہ اور صورت مذکور ہے اس کا اعتبار ہو گا نہ کہ رتبے اور درجے کا،
اگر صورت میں اتفاق ہو گا مثلاً دونوں سوار ہیں یا دونوں پیدل ہیں تو ایسی صورت میں سلام کرتے وقت چھوٹے اور بڑے کا لحاظ ہو گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2703   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.