الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ایمان کے بیان میں
The Book of Belief (Faith)
19. بَابُ إِذَا لَمْ يَكُنِ الإِسْلاَمُ عَلَى الْحَقِيقَةِ وَكَانَ عَلَى الاِسْتِسْلاَمِ أَوِ الْخَوْفِ مِنَ الْقَتْلِ:
19. باب: جب حقیقی اسلام پر کوئی نہ ہو بلکہ محض ظاہر طور پر مسلمان بن گیا ہو یا قتل کے خوف سے تو (لغوی حیثیت سے اس پر) مسلمان کا اطلاق درست ہے۔
(19) Chapter. If one does not embrace Islam truly but does so by compulsion or for fear of being killed (then that man is not a believer).
حدیث نمبر: Q27
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
لقوله تعالى: {قالت الاعراب آمنا قل لم تؤمنوا ولكن قولوا اسلمنا}. فإذا كان على الحقيقة فهو على قوله جل ذكره: {إن الدين عند الله الإسلام}، {ومن يبتغ غير الإسلام دينا فلن يقبل منه}.لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {قَالَتِ الأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا}. فَإِذَا كَانَ عَلَى الْحَقِيقَةِ فَهُوَ عَلَى قَوْلِهِ جَلَّ ذِكْرُهُ: {إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الإِسْلاَمُ}، {وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ}.
‏‏‏‏ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ جب دیہاتیوں نے کہا کہ ہم ایمان لے آئے آپ کہہ دیجیئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ ظاہر طور پر مسلمان ہو گئے۔ لیکن اگر ایمان حقیقتاً حاصل ہو تو وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے ارشاد (بیشک دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے) کا مصداق ہے۔ آیات شریفہ میں لفظ «ايمان» اور «اسلام» ایک ہی معنی میں استعمال کیا گیا ہے۔

حدیث نمبر: 27
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا ابو اليمان، قال: اخبرنا شعيب، عن الزهري، قال: اخبرني عامر بن سعد بن ابي وقاص، عن سعد رضي الله عنه،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اعطى رهطا وسعد جالس، فترك رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا هو اعجبهم إلي، فقلت: يا رسول الله، ما لك عن فلان، فوالله إني لاراه مؤمنا؟ فقال: او مسلما، فسكت قليلا، ثم غلبني ما اعلم منه فعدت لمقالتي، فقلت: ما لك عن فلان، فوالله إني لاراه مؤمنا؟ فقال: او مسلما، ثم غلبني ما اعلم منه، فعدت لمقالتي وعاد رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: يا سعد، إني لاعطي الرجل وغيره احب إلي منه خشية ان يكبه الله في النار"، ورواه يونس، وصالح، ومعمر، وابن اخي الزهري، عن الزهري.حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَنْ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَعْطَى رَهْطًا وَسَعْدٌ جَالِسٌ، فَتَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا هُوَ أَعْجَبُهُمْ إِلَيَّ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟ فَقَالَ: أَوْ مُسْلِمًا، فَسَكَتُّ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَعْلَمُ مِنْهُ فَعُدْتُ لِمَقَالَتِي، فَقُلْتُ: مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟ فَقَالَ: أَوْ مُسْلِمًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَعْلَمُ مِنْهُ، فَعُدْتُ لِمَقَالَتِي وَعَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: يَا سَعْدُ، إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ خَشْيَةَ أَنْ يَكُبَّهُ اللَّهُ فِي النَّارِ"، وَرَوَاهُ يُونُسُ، وَصَالِحٌ، وَمَعْمَرٌ، وَابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ، عَنِ الزُّهْرِيِّ.
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہیں عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے والد سعد رضی اللہ عنہ سے سن کر یہ خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند لوگوں کو کچھ عطیہ دیا اور سعد وہاں موجود تھے۔ (وہ کہتے ہیں کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک شخص کو کچھ نہ دیا۔ حالانکہ وہ ان میں مجھے سب سے زیادہ پسند تھا۔ میں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ نے فلاں کو کچھ نہ دیا حالانکہ میں اسے مومن گمان کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن یا مسلمان؟ میں تھوڑی دیر چپ رہ کر پھر پہلی بات دہرانے لگا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دوبارہ وہی جواب دیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے سعد! باوجود یہ کہ ایک شخص مجھے زیادہ عزیز ہے (پھر بھی میں اسے نظر انداز کر کے) کسی اور دوسرے کو اس خوف کی وجہ سے یہ مال دے دیتا ہوں کہ (وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے اسلام سے پھر جائے اور) اللہ اسے آگ میں اوندھا ڈال دے۔ اس حدیث کو یونس، صالح، معمر اور زہری کے بھتیجے عبداللہ نے زہری سے روایت کیا۔

Narrated Sa'd: Allah's Apostle distributed (Zakat) amongst (a group of) people while I was sitting there but Allah's Apostle left a man whom I thought the best of the lot. I asked, "O Allah's Apostle! Why have you left that person? By Allah I regard him as a faithful believer." The Prophet commented: "Or merely a Muslim." I remained quiet for a while, but could not help repeating my question because of what I knew about him. And then asked Allah's Apostle, "Why have you left so and so? By Allah! He is a faithful believer." The Prophet again said, "Or merely a Muslim." And I could not help repeating my question because of what I knew about him. Then the Prophet said, "O Sa'd! I give to a person while another is dearer to me, for fear that he might be thrown on his face in the Fire by Allah."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 2, Number 27

   صحيح البخاري27سعد بن مالكأعطي الرجل وغيره أحب إلي منه خشية أن يكبه الله في النار
   صحيح البخاري1478سعد بن مالكأعطي الرجل وغيره أحب إلي منه خشية أن يكب في النار على وجهه
   صحيح مسلم379سعد بن مالكأعطي الرجل وغيره أحب إلي منه خشية أن يكب في النار على وجهه
   صحيح مسلم2433سعد بن مالكأعطي الرجل وغيره أحب إلي منه خشية أن يكب في النار على وجهه
   سنن أبي داود4683سعد بن مالكأعطي رجالا وأدع من هو أحب إلي منهم لا أعطيه شيئا مخافة أن يكبوا في النار على وجوههم
   سنن أبي داود4685سعد بن مالكأعطي الرجل العطاء وغيره أحب إلي منه مخافة أن يكب على وجهه
   سنن النسائى الصغرى4995سعد بن مالكأعطي رجالا وأدع من هو أحب إلي منهم لا أعطيه شيئا مخافة أن يكبوا في النار على وجوههم
   مسندالحميدي68سعد بن مالكقسم رسول الله صلى الله عليه وسلم قسما
   مسندالحميدي69سعد بن مالك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 27  
´نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر شفقت`
«. . . قَالَ: يَا سَعْدُ، إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ خَشْيَةَ أَنْ يَكُبَّهُ اللَّهُ فِي النَّارِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے سعد! باوجود یہ کہ ایک شخص مجھے زیادہ عزیز ہے (پھر بھی میں اسے نظر انداز کر کے) کسی اور دوسرے کو اس خوف کی وجہ سے یہ مال دے دیتا ہوں کہ (وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے اسلام سے پھر جائے اور) اللہ اسے آگ میں اوندھا ڈال دے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 27]

لغوی توضیح:
«رَهْطًا» گروہ۔
«خَشْيَةَ أَنْ يَكُبَّهُ اللَّهُ» اس ڈر سے کہ کہیں اللہ اسے آگ میں نہ ڈال دے (اس وجہ سے کہ وہ اپنے ایمان کی کمزوری کی وجہ سے اسلام سے پھر جائے)۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 91   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 27  
´ایمان دل کا فعل ہے`
«. . . يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟ فَقَالَ: أَوْ مُسْلِمًا، فَسَكَتُّ قَلِيلًا . . .»
. . . یا رسول اللہ! آپ نے فلاں کو کچھ نہ دیا حالانکہ میں اسے مومن گمان کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن یا مسلمان؟ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 27]

تشریح:
آیت کریمہ میں بنو اسد کے کچھ بدویوں کا ذکر ہے جو مدینہ میں آ کر اپنے اسلام کا اظہار بطور احسان کر رہے تھے، اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ یہ ہمارا احسان ہے نہ کہ تمہارا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اس شخص کے بارے میں قسم کھا کر مومن ہونے کا بیان دیا تھا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی کہ ایمان دل کا فعل ہے کسی کو کسی کے باطن کی کیا خبر، ظاہری طور پر مسلمان ہونے کا حکم لگا سکتے ہو۔ اس باب اور اس کے ذیل میں یہ حدیث لا کر امام بخاری رحمہ اللہ یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اسلام عنداللہ وہی قبول ہے جو دل سے ہو۔ ویسے دنیاوی امور میں ظاہری اسلام بھی مفید ہو سکتا ہے۔ اس مقصد کے پیش نظر حضرت امام بخاری رحمہ اللہ ایمان اور اسلام شرعی میں اتحاد ثابت کر رہے ہیں اور یہ اسی مجتہدانہ بصیرت کی بنا پر جو اللہ نے آپ کی فطرت میں ودیعت فرمائی تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 27   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 27  
27. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چند لوگوں کو کچھ مال دیا اور (وہ) سعد ؓ وہاں بیٹھے تھے۔ آپ نے ایک شخص کو چھوڑ دیا، یعنی اسے کچھ نہ دیا، حالانکہ وہ تمام لوگوں میں سے مجھے زیادہ پسند تھا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے فلاں شخص کو چھوڑ دیا، اللہ کی قسم! میں تو اسے مومن سمجھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: (مومن) یا مسلمان! میں تھوڑی دیر خاموش رہا، پھر اس کے متعلق میں جو جانتا تھا اس نے مجھے بولنے پر مجبور کر دیا۔ میں نے دوبارہ عرض کیا: آپ نے فلاں شخص کو کیوں نظر انداز کر دیا؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے مومن خیال کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: (مومن) یا مسلمان! میں پھر تھوڑی دیر چپ رہا، پھر اس کے متعلق جو میں جانتا تھا، اس نے مجھے مجبور کیا تو میں نے تیسری مرتبہ وہی عرض کیا اور رسول اللہ ﷺ نے بھی وہی فرمایا۔ اس کے بعد آپ گویا ہوئے: اے سعد! میں ایک شخص کو کچھ دیتا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:27]
حدیث حاشیہ:
آیت کریمہ میں بنواسد کے کچھ بدویوں کا ذکر ہے جو مدینہ میں آکر اپنے اسلام کا اظہار بطور احسان کررہے تھے، اللہ نے بتایا کہ یہ ہمارا احسان ہے نہ کہ تمہارا۔
حضرت سعدؓ نے اس شخص کے بارے میں قسم کھا کر مومن ہونے کا بیان دیا تھا۔
اس پر آپ ﷺ نے تنبیہ فرمائی کہ ایمان دل کا فعل ہے کسی کو کسی کے باطن کی کیا خبر، ظاہری طور پر مسلمان ہونے کا حکم لگا سکتے ہو۔
اس باب اور اس کے ذیل میں یہ حدیث لا کرامام بخاری یہ بتلانا چاہتے ہیں کہ اسلام عنداللہ وہی قبول ہے جو دل سے ہو۔
ویسے دنیاوی امور میں ظاہری اسلام بھی مفید ہو سکتا ہے۔
اس مقصد کے پیش نظر حضرت امام بخاری ایمان اور اسلام شرعی میں اتحاد ثابت کررہے ہیں اور یہ اسی مجتہدانہ بصیرت کی بنا پر جو اللہ نے آپ کی فطرت میں ودیعت فرمائی تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 27   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4683  
´ایمان کی کمی اور زیادتی کے دلائل کا بیان۔`
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو دیا اور ان میں سے ایک شخص کو کچھ نہیں دیا تو سعد نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے فلاں اور فلاں کو دیا لیکن فلاں کو کچھ بھی نہیں دیا حالانکہ وہ مومن ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا مسلم ہے سعد نے تین بار یہی عرض کیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کہتے رہے: یا مسلم ہے پھر آپ نے فرمایا: میں بعض لوگوں کو دیتا ہوں اور ان میں تجھے جو زیادہ محبوب ہے اسے چھوڑ دیتا ہوں، میں اسے کچھ بھی نہیں دیتا، ایسا اس اندیشے سے کہ کہیں وہ جہنم میں اوندھے م۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4683]
فوائد ومسائل:
1: ایمان اور اسلام اگرچہ آپس میں لازم وملزوم ہیں، مگر ایمان اعضائے باطن وظاہر کے اعمال (تصدیق عمل قلب ہے اور نماز، حج، زکوۃ وغیرہ تمام اعمال صالحہ اعضائے ظاہر کے عمل ہیں) کا نام ہے، جبکہ اسلام کا تعلق ظاہری افعال سے۔
اس لیے ہم ظاہری اعمال کی روشنی میں کسی کو صاحب اسلام تو کہہ سکتے ہیں، لیکن صاحب ایمان ہونے کا دعوی درست نہیں۔
یہ بات اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
اعضائے ظاہری کے ان اعمال کے ساتھ تصدیق بالقلب کی حالت ہے۔

2: اسلام قبول کرنے والے نو مسلم لوگوں کو اسلام میں راسخ اور مطئمن کرنے کے لئے ماوی تعاون دینا ضروری ہے تاکہ اسلامی معاشرے کے شرعی اعمال کی روح میں اتر جائیں۔
ایسے لوگوں کو اصطلاحًا (مولفةالقلوب) كہا جاتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4683   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:27  
27. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چند لوگوں کو کچھ مال دیا اور (وہ) سعد ؓ وہاں بیٹھے تھے۔ آپ نے ایک شخص کو چھوڑ دیا، یعنی اسے کچھ نہ دیا، حالانکہ وہ تمام لوگوں میں سے مجھے زیادہ پسند تھا۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے فلاں شخص کو چھوڑ دیا، اللہ کی قسم! میں تو اسے مومن سمجھتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: (مومن) یا مسلمان! میں تھوڑی دیر خاموش رہا، پھر اس کے متعلق میں جو جانتا تھا اس نے مجھے بولنے پر مجبور کر دیا۔ میں نے دوبارہ عرض کیا: آپ نے فلاں شخص کو کیوں نظر انداز کر دیا؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے مومن خیال کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: (مومن) یا مسلمان! میں پھر تھوڑی دیر چپ رہا، پھر اس کے متعلق جو میں جانتا تھا، اس نے مجھے مجبور کیا تو میں نے تیسری مرتبہ وہی عرض کیا اور رسول اللہ ﷺ نے بھی وہی فرمایا۔ اس کے بعد آپ گویا ہوئے: اے سعد! میں ایک شخص کو کچھ دیتا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:27]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس کے اندرونی حالات کا علم نہ ہو اسے مسلم تو کہہ سکتے ہیں کیونکہ اسلام کا تعلق ظاہری اعمال سے ہے لیکن اسے مومن نہیں کہنا چاہیے کیونکہ یہ باطن کا معاملہ ہے، اس پر اللہ کے سوا اور کون مطلع ہو سکتا ہے؟ یا پھر یہ پیغمبر کا منصب ہے کہ وہ بذریعہ وحی باطنی احوال سے واقف ہو سکتا ہے۔
دوسرے اس کی تعبیریوں بھی ہو سکتی ہے کہ ہر مسلمان کے دو احوال ہیں ایک کا تعلق باطن سے ہے اور دوسرے کا ظاہر سے۔
ایمان یہ باطنی امر ہے جس کا واقعی علم اللہ کے سوا کسی اور کو نہیں ہو سکتا وہی کسی کو بتادے تو دوسری بات ہے۔
البتہ کسی کے ظاہری احوال کو دیکھ کر کہ وہ متشرع ہے نماز روزے کا پابند ہے، کہا جا سکتا ہے کہ یہ پکا مسلمان ہے۔

یہ بھی معلوم ہوا کہ چھوٹوں کو بڑوں کی خدمت میں سفارش کرنے کا حق ہے بڑوں کو اختیار ہے کہ وہ قبول کریں یا رد کردیں۔
نیز اگر سفارش کا طریق قابل اصلاح ہو تو اس مجلس میں مناسب طریقے سے بتا دینا چاہیے اور سفارش کنندہ کی تسلی اور اطمینان خاطر کے لیے وجہ بھی بیان کر دینی چاہیے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اللہ کے ہاں نجات دہندہ اور غیر نجات دہندہ اسلام کی تفریق کرنا چاہتے ہیں کہ باعث نجات وہ اسلام ہے جو دل کی گہرائی اور سچی نیت سے ہو اور ایمان کے مترادف ہو جو اسلام محض نمائشی ہوگا۔
وہ دنیا وی مفادات کے تحفظ کے لیے تو کام آسکتا ہے مگر آخرت میں نجات کا باعث نہیں ہو سکتا۔
حاصل یہ کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسلام کے دو معنی بتا کر اسلام اور ایمان کے متعلق جو مغایرت معلوم ہوتی تھی اس کی وضاحت کردی ہے کہ اسلام شرعی اور ایمان حقیقی میں کوئی مغایرت نہیں البتہ وہ اسلام جو محض نمائشی ہو اس کا ایمان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 27   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.