الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: مثل اور کہاوت کا تذکرہ
Chapters on Parables
1. باب مَا جَاءَ فِي مَثَلِ اللَّهِ لِعِبَادِهِ
1. باب: اپنے بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مثال کا بیان۔
حدیث نمبر: 2861
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا محمد بن ابي عدي، عن جعفر بن ميمون، عن ابي تميمة الهجيمي، عن ابي عثمان، عن ابن مسعود، قال: " صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم العشاء ثم انصرف فاخذ بيد عبد الله بن مسعود حتى خرج به إلى بطحاء مكة، فاجلسه ثم خط عليه خطا، ثم قال: لا تبرحن خطك فإنه سينتهي إليك رجال فلا تكلمهم فإنهم لا يكلمونك، قال: ثم مضى رسول الله صلى الله عليه وسلم حيث اراد فبينا انا جالس في خطي إذ اتاني رجال كانهم الزط اشعارهم واجسامهم، لا ارى عورة، ولا ارى قشرا، وينتهون إلي ولا يجاوزون الخط، ثم يصدرون إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى إذا كان من آخر الليل لكن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد جاءني وانا جالس، فقال: لقد اراني منذ الليلة، ثم دخل علي في خطي، فتوسد فخذي، فرقد، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رقد نفخ، فبينا انا قاعد ورسول الله صلى الله عليه وسلم متوسد فخذي، إذا انا برجال عليهم ثياب بيض الله اعلم ما بهم من الجمال، فانتهوا إلي، فجلس طائفة منهم عند راس رسول الله صلى الله عليه وسلم، وطائفة منهم عند رجليه، ثم قالوا بينهم: ما راينا عبدا قط اوتي مثل ما اوتي هذا النبي، إن عينيه تنامان وقلبه يقظان اضربوا له مثلا، مثل سيد بنى قصرا، ثم جعل مادبة، فدعا الناس إلى طعامه وشرابه، فمن اجابه اكل من طعامه وشرب من شرابه، ومن لم يجبه عاقبه، او قال عذبه، ثم ارتفعوا، واستيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم عند ذلك فقال: سمعت ما قال هؤلاء؟ وهل تدري من هؤلاء؟ قلت: الله ورسوله اعلم، قال: هم الملائكة، افتدري ما المثل الذي ضربوا؟ قلت: الله ورسوله اعلم، قال: المثل الذي ضربوا الرحمن تبارك وتعالى بنى الجنة ودعا إليها عباده، فمن اجابه دخل الجنة، ومن لم يجبه عاقبه او عذبه "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه، وابو تميمة هو الهجيمي، واسمه طريف بن مجالد، وابو عثمان النهدي اسمه عبد الرحمن بن مل، وسليمان التيمي قد روى هذا الحديث عنه معتمر وهو سليمان بن طرخان ولم يكن تيميا وإنما كان ينزل بني تيم فنسب إليهم، قال علي، قال يحيى بن سعيد: ما رايت اخوف لله تعالى من سليمان التيمي.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مَيْمُونٍ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ الْهُجَيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: " صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ ثُمَّ انْصَرَفَ فَأَخَذَ بِيَدِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ حَتَّى خَرَجَ بِهِ إِلَى بَطْحَاءِ مَكَّةَ، فَأَجْلَسَهُ ثُمَّ خَطَّ عَلَيْهِ خَطًّا، ثُمَّ قَالَ: لَا تَبْرَحَنَّ خَطَّكَ فَإِنَّهُ سَيَنْتَهِي إِلَيْكَ رِجَالٌ فَلَا تُكَلِّمْهُمْ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَلِّمُونَكَ، قَالَ: ثُمَّ مَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ أَرَادَ فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ فِي خَطِّي إِذْ أَتَانِي رِجَالٌ كَأَنَّهُمْ الزُّطُّ أَشْعَارُهُمْ وَأَجْسَامُهُمْ، لَا أَرَى عَوْرَةً، وَلَا أَرَى قِشْرًا، وَيَنْتَهُونَ إِلَيَّ وَلَا يُجَاوِزُونَ الْخَطَّ، ثُمَّ يَصْدُرُونَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا كَانَ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ لَكِنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ جَاءَنِي وَأَنَا جَالِسٌ، فَقَالَ: لَقَدْ أَرَانِي مُنْذُ اللَّيْلَةَ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَيَّ فِي خَطِّي، فَتَوَسَّدَ فَخِذِي، فَرَقَدَ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رَقَدَ نَفَخَ، فَبَيْنَا أَنَا قَاعِدٌ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَسِّدٌ فَخِذِي، إِذَا أَنَا بِرِجَالٍ عَلَيْهِمْ ثِيَابٌ بِيضٌ اللَّهُ أَعْلَمُ مَا بِهِمْ مِنَ الْجَمَالِ، فَانْتَهَوْا إِلَيَّ، فَجَلَسَ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رَأْسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَطَائِفَةٌ مِنْهُمْ عِنْدَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ قَالُوا بَيْنَهُمْ: مَا رَأَيْنَا عَبْدًا قَطُّ أُوتِيَ مِثْلَ مَا أُوتِيَ هَذَا النَّبِيُّ، إِنَّ عَيْنَيْهِ تَنَامَانِ وَقَلْبُهُ يَقْظَانُ اضْرِبُوا لَهُ مَثَلًا، مَثَلُ سَيِّدٍ بَنَى قَصْرًا، ثُمَّ جَعَلَ مَأْدُبَةً، فَدَعَا النَّاسَ إِلَى طَعَامِهِ وَشَرَابِهِ، فَمَنْ أَجَابَهُ أَكَلَ مِنْ طَعَامِهِ وَشَرِبَ مِنْ شَرَابِهِ، وَمَنْ لَمْ يُجِبْهُ عَاقَبَهُ، أَوْ قَالَ عَذَّبَهُ، ثُمَّ ارْتَفَعُوا، وَاسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ فَقَالَ: سَمِعْتَ مَا قَالَ هَؤُلَاءِ؟ وَهَلْ تَدْرِي مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: هُمُ الْمَلَائِكَةُ، أَفَتَدْرِي مَا الْمَثَلُ الَّذِي ضَرَبُوا؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: الْمَثَلُ الَّذِي ضَرَبُوا الرَّحْمَنُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بَنَى الْجَنَّةَ وَدَعَا إِلَيْهَا عِبَادَهُ، فَمَنْ أَجَابَهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ لَمْ يُجِبْهُ عَاقَبَهُ أَوْ عَذَّبَهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، وَأَبُو تَمِيمَةَ هُوَ الْهُجَيْمِيُّ، وَاسْمُهُ طَرِيفُ بْنُ مُجَالِدٍ، وَأَبُو عُثْمَانَ النَّهْدِيُّ اسْمُهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُلٍّ، وَسُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ قَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ عَنْهُ مُعْتَمِرٌ وَهُوَ سُلَيْمَانُ بْنُ طَرْخَانَ وَلَمْ يَكُنْ تَيْمِيًّا وَإِنَّمَا كَانَ يَنْزِلُ بَنِي تَيْمٍ فَنُسِبَ إِلَيْهِمْ، قَالَ عَلِيٌّ، قَالَ يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ: مَا رَأَيْتُ أَخْوَفَ لِلَّهِ تَعَالَى مِنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء پڑھی۔ پھر پلٹے تو عبداللہ بن مسعود کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور انہیں ساتھ لیے ہوئے مکہ کی پتھریلی زمین کی طرف نکل گئے (وہاں) انہیں (ایک جگہ) بٹھا دیا۔ پھر ان کے چاروں طرف لکیریں کھینچ دیں، اور ان سے کہا: ان لکیروں سے باہر نکل کر ہرگز نہ جانا۔ تمہارے قریب بہت سے لوگ آ کر رکیں گے لیکن تم ان سے بات نہ کرنا، اور وہ خود بھی تم سے بات نہ کریں گے۔ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں جانا چاہتے تھے وہاں چلے گئے، اسی دوران کہ میں اپنے دائرہ کے اندر بیٹھا ہوا تھا کچھ لوگ میرے پاس آئے وہ جاٹ لگ رہے تھے ۱؎، ان کے بال اور جسم نہ مجھے ننگے دکھائی دے رہے تھے اور نہ ہی (ان کے جسموں پر مجھے) لباس نظر آ رہا تھا، وہ میرے پاس آ کر رک جاتے اور لکیر کو پار نہ کرتے، پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نکل جاتے، یہاں تک کہ جب رات ختم ہونے کو آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، میں بیٹھا ہوا تھا۔ آپ نے فرمایا: رات ہی سے اپنے آپ کو دیکھتا ہوں (یعنی میں سو نہ سکا) پھر آپ دائرے کے اندر داخل ہو کر میرے پاس آئے۔ اور میری ران کا تکیہ بنا کر سو گئے، آپ سونے میں خراٹے لینے لگتے تھے، تو اسی دوران کہ میں بیٹھا ہوا تھا اور آپ میری ران کا تکیہ بنائے ہوئے سو رہے تھے۔ یکایک میں نے اپنے آپ کو ایسے لوگوں کے درمیان پایا جن کے کپڑے سفید تھے، اللہ خوب جانتا ہے کہ انہیں کس قدر خوبصورتی حاصل تھی۔ وہ لوگ میرے پاس آ کر رک گئے، ان میں سے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرہانے بیٹھ گئے اور کچھ لوگ آپ کے پائتانے، پھر ان لوگوں نے آپس میں باتیں کرتے ہوئے کہا: ہم نے کسی بندے کو کبھی نہیں دیکھا جسے اتنا ملا ہو جتنا اس نبی کو ملا ہے۔ ان کی آنکھیں سوتی ہیں اور ان کا دل بیدار رہتا ہے۔ ان کے لیے کوئی مثال پیش کرو (پھر انہوں نے کہا ان کی مثال) ایک سردار کی مثال ہے جس نے ایک محل بنایا، پھر ایک دستر خوان بچھایا اور لوگوں کو اپنے دستر خوان پر کھانے پینے کے لیے بلایا، تو جس نے ان کی دعوت قبول کر لی وہ ان کے کھانے پینے سے فیض یاب ہوا۔ اور جس نے ان کی دعوت قبول نہ کی وہ (سردار) اسے سزا دے گا پھر وہ لوگ اٹھ کر چلے گئے۔ اور ان کے جاتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: سنا، کیا کہا انہوں نے؟ اور یہ کون لوگ تھے؟ میں نے کہا: اللہ اور اللہ کے رسول زیادہ بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: وہ فرشتے تھے۔ تم سمجھتے ہو انہوں نے کیا مثال دی ہے؟ میں نے (پھر) کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: انہوں نے جو مثال دی ہے وہ ہے رحمن (اللہ) تبارک و تعالیٰ کی، رحمن نے جنت بنائی، اور اپنے بندوں کو جنت کی دعوت دی۔ تو جس نے دعوت قبول کر لی وہ جنت میں داخل ہو گیا اور جو اس کی دعوت نہ قبول کرے گا وہ اسے عذاب و عقاب سے دوچار کرے گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے حسن صحیح غریب ہے،
۲- ابو تمیمہ: ہجیمی ہیں اور ان کا نام طریف بن مجالد ہے،
۳- ابوعثمان نہدی کا نام عبدالرحمٰن بن مل ہے،
۴- سلیمان تیمی جن سے یہ حدیث معتمر نے روایت کی ہے وہ سلیمان بن طرخان ہیں، وہ اصلاً تیمی نہ تھے، لیکن وہ بنی تیم میں آیا جایا کرتے تھے جس کی وجہ سے وہ تیمی مشہور ہو گئے۔ علی ابن المدینی کہتے ہیں کہ یحییٰ بن سعید کہتے تھے: میں نے سلیمان تیمی سے زیادہ کسی کو اللہ سے ڈرنے والا نہیں دیکھا۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9381)، وانظر: سنن الدارمی/المقدمة 2 (12) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: «زط» یعنی: جاٹ قوم کے معلوم ہو رہے تھے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: (2861) إسناده ضعيف
جعفر بن ميمون: ضعيف (د 819) وللحديث شواهد ضعيفة عند أحمد (399/1) وغيره
   جامع الترمذي2861عبد الله بن مسعودلا تبرحن خطك فإنه سينتهي إليك رجال فلا تكلمهم فإنهم لا يكلمونك قال ثم مضى رسول الله حيث أراد فبينا أنا جالس في خطي إذ أتاني رجال كأنهم الزط أشعارهم وأجسامهم لا أرى عورة ولا أرى قشرا وينتهون إلي ولا يجاوزون الخط ثم يصدرون إلى رسول الله حتى إذا كان من آخر ا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2861  
´اپنے بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی مثال کا بیان۔`
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء پڑھی۔ پھر پلٹے تو عبداللہ بن مسعود کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور انہیں ساتھ لیے ہوئے مکہ کی پتھریلی زمین کی طرف نکل گئے (وہاں) انہیں (ایک جگہ) بٹھا دیا۔ پھر ان کے چاروں طرف لکیریں کھینچ دیں، اور ان سے کہا: ان لکیروں سے باہر نکل کر ہرگز نہ جانا۔ تمہارے قریب بہت سے لوگ آ کر رکیں گے لیکن تم ان سے بات نہ کرنا، اور وہ خود بھی تم سے بات نہ کریں گے۔‏‏‏‏ عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جہاں جانا چاہتے تھے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الأمثال/حدیث: 2861]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
زط یعنی:
جاٹ قوم کے معلوم ہو رہے تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2861   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.