الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
40. باب وَمِنْ سُورَةِ الزُّمَرِ
40. باب: سورۃ الزمر سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3245
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو كريب، حدثنا عبدة بن سليمان، حدثنا محمد بن عمرو، حدثنا ابو سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال يهودي بسوق المدينة: لا والذي اصطفى موسى على البشر، قال: فرفع رجل من الانصار يده فصك بها وجهه، قال: تقول هذا وفينا نبي الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ونفخ في الصور فصعق من في السموات ومن في الارض إلا من شاء الله ثم نفخ فيه اخرى فإذا هم قيام ينظرون سورة الزمر آية 68 فاكون اول من رفع راسه فإذا موسى آخذ بقائمة من قوائم العرش، فلا ادري ارفع راسه قبلي ام كان ممن استثنى الله، ومن قال: انا خير من يونس بن متى فقد كذب ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ بْنُ سُلَيْمَانَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو، حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ يَهُودِيٌّ بِسُوقِ الْمَدِينَةِ: لَا وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى الْبَشَرِ، قَالَ: فَرَفَعَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يَدَهُ فَصَكَّ بِهَا وَجْهَهُ، قَالَ: تَقُولُ هَذَا وَفِينَا نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ إِلا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ سورة الزمر آية 68 فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ رَفَعَ رَأْسَهُ فَإِذَا مُوسَى آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِي أَرَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلِي أَمْ كَانَ مِمَّنْ اسْتَثْنَى اللَّهُ، وَمَنْ قَالَ: أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى فَقَدْ كَذَبَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے مدینہ کے بازار میں کہا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں میں سے چن لیا، (یہ سنا) تو ایک انصاری شخص نے ہاتھ اٹھا کر ایک طمانچہ اس کے منہ پر مار دیا، کہا: تو ایسا کہتا ہے جب کہ (تمام انسانوں اور جنوں کے سردار) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود ہیں۔ (دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «ونفخ في الصور فصعق من في السموات ومن في الأرض إلا من شاء الله ثم نفخ فيه أخرى فإذا هم قيام ينظرون» جب صور پھونکا جائے گا آواز کی کڑک سے سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے گا آسمانوں و زمین کے سبھی لوگ غشی کھا جائیں گے، پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا، تو وہ کھڑے ہو کر دیکھتے ہوں گے (کہ ان کے ساتھ) کیا کیا جاتا ہے؟ (الزمر: ۶۹)، پڑھی اور کہا: سب سے پہلا سر اٹھانے والا میں ہوں گا تو موسیٰ مجھے عرش کا ایک پایہ پکڑے ہوئے دکھائی دیں گے، میں نہیں کہہ سکتا کہ موسیٰ نے مجھ سے پہلے سر اٹھایا ہو گا یا وہ ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے «إلا من شاء الله» کہہ کر مستثنیٰ کر دیا ہے ۲؎ اور جس نے کہا: میں یونس بن متی علیہ السلام سے بہتر ہوں اس نے غلط کہا ۳؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15062) (حسن صحیح)»

وضاحت:
۱؎: روز حشر کا یہ واقعہ سنانے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم موسیٰ علیہ السلام کی فضیلیت ذکر کرنا چاہتے ہیں نیز اپنی خاکساری کا اظہار فرما رہے ہیں، اپنی خاکساری ظاہری کرنا دوسری بات ہے، اور فی نفسہ موسیٰ علیہ السلام کا تمام انبیاء کے افضل ہونا اور بات ہے البتہ اس طرح کسی نبی کا نام لے کر آپ کے ساتھ مقابلہ کر کے آپ کی فضیلت بیان کرنے والے کو تاؤ میں آ کر مار دینا مناسب نہیں ہے، آپ نے اس وقت یہی تعلیم دہی ہے۔
۳؎: حقیقت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے افضل نبی ہیں، اور سیدالأنبیاء و الرسل ہیں، لیکن انبیاء کا آپس میں تقابل عام حالات میں صحیح نہیں ہے، بلکہ خلاف ادب ہے، اس کا تواضح و انکساری اور انبیاء و رسل کی غرض و احترام میں آپ نے ادب سکھایا اور اس طرح کے موازنہ پر تنقید فرمائی۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح تخريج الطحاوية ص // (160 - // 162)
   صحيح البخاري3408عبد الرحمن بن صخرلا تخيروني على موسى فإن الناس يصعقون فأكون أول من يفيق فإذا موسى باطش بجانب العرش فلا أدري أكان فيمن صعق فأفاق قبلي أو كان ممن استثنى الله
   صحيح البخاري7472عبد الرحمن بن صخرلا تخيروني على موسى فإن الناس يصعقون يوم القيامة فأكون أول من يفيق فإذا موسى باطش بجانب العرش فلا أدري أكان فيمن صعق فأفاق قبلي أو كان ممن استثنى الله
   صحيح البخاري6517عبد الرحمن بن صخرلا تخيروني على موسى فإن الناس يصعقون يوم القيامة فأكون في أول من يفيق فإذا موسى باطش بجانب العرش فلا أدري أكان موسى فيمن صعق فأفاق قبلي أو كان ممن استثنى الله
   صحيح البخاري6518عبد الرحمن بن صخريصعق الناس حين يصعقون أكون أول من قام فإذا موسى آخذ بالعرش فما أدري أكان فيمن صعق
   صحيح البخاري3414عبد الرحمن بن صخرلا تفضلوا بين أنبياء الله ينفخ في الصور فيصعق من في السموات ومن في الأرض إلا من شاء الله ثم ينفخ فيه أخرى أكون أول من بعث فإذا موسى آخذ بالعرش فلا أدري أحوسب بصعقته يوم الطور أم بعث قبلي لا أقول إن أحدا أفضل من يونس بن متى
   صحيح البخاري2411عبد الرحمن بن صخرلا تخيروني على موسى فإن الناس يصعقون يوم القيامة فأصعق معهم فأكون أول من يفيق فإذا موسى باطش جانب العرش فلا أدري أكان فيمن صعق فأفاق قبلي أو كان ممن استثنى الله
   صحيح البخاري4813عبد الرحمن بن صخرإني أول من يرفع رأسه بعد النفخة الآخرة إذا أنا بموسى متعلق بالعرش فلا أدري أكذلك كان أم بعد النفخة
   صحيح مسلم6151عبد الرحمن بن صخرلا تفضلوا بين أنبياء الله فإنه ينفخ في الصور فيصعق من في السماوات ومن في الأرض إلا من شاء الله ثم ينفخ فيه أخرى فأكون أول من بعث أو في أول من بعث فإذا موسى آخذ بالعرش فلا أدري أحوسب بصعقته يوم الطور أو بعث قبلي لا أقول إن أحدا أفضل من يونس بن متى
   جامع الترمذي3245عبد الرحمن بن صخرونفخ في الصور فصعق من في السموات ومن في الأرض إلا من شاء الله ثم نفخ فيه أخرى فإذا هم قيام ينظرون أكون أول من رفع رأسه فإذا موسى آخذ بقائمة من قوائم العرش فلا أدري أرفع رأسه قبلي أم كان ممن استثنى الله من قال أنا خير من يونس بن متى فقد كذب
   سنن أبي داود4671عبد الرحمن بن صخرلا تخيروني على موسى فإن الناس يصعقون فأكون أول من يفيق فإذا موسى باطش في جانب العرش فلا أدري أكان ممن صعق فأفاق قبلي أو كان ممن استثنى الله

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2411  
´قیامت کا ایک منظر`
«...لَا تُخَيِّرُونِي عَلَى مُوسَى، فَإِنَّ النَّاسَ يَصْعَقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَصْعَقُ مَعَهُمْ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ، فَإِذَا مُوسَى بَاطِشٌ جَانِبَ الْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِي أَكَانَ فِيمَنْ صَعِقَ فَأَفَاقَ قَبْلِي، أَوْ كَانَ مِمَّنْ اسْتَثْنَى اللَّهُ .»
۔۔۔مجھے موسیٰ علیہ السلام پر ترجیح نہ دو۔ لوگ قیامت کے دن بیہوش کر دیئے جائیں گے۔ میں بھی بیہوش ہو جاؤں گا۔ بے ہوشی سے ہوش میں آنے والا سب سے پہلا شخص میں ہوں گا، لیکن موسیٰ علیہ السلام کو عرش الٰہی کا کنارہ پکڑے ہوئے پاؤں گا۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام بھی بیہوش ہونے والوں میں ہوں گے اور مجھ سے پہلے انہیں ہوش آ جائے گا۔ یا اللہ تعالیٰ نے ان کو ان لوگوں میں رکھا ہے جو بے ہوشی سے مستثنیٰ ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْخُصُومَاتِ: 2411]

تخریج الحدیث:
منکرین حدیث کا اشکال،کیا وحی مشکوک ہوتی ہے؟
یہ حدیث صحیح بخاری میں سات مقامات پر ہے:
[2411، 3408، 4813، 3414، 6517، 6518، 7472]
اسے امام بخاری کے علاوہ درج ذیل محدثین نے بھی روایت کیا ہے:
مسلم بن الحجاج [صحيح مسلم: 2373]
طحاوي [مشكل الآثار، طبعه قديمه 1؍445، معاني الآثار 4؍316]
ابويعليٰ [المسند: 6643]
النسائي [السنن الكبريٰ: 7758، 11457]
ابوداود [السنن: 4671]
ترمذي [السنن: 3245 وقال هذا حديث حسن صحيح]
ابن ماجه [السنن: 4274]
البغوي [شرح السنة 15؍106 ح4302 وقال: هذا حديث متفق على صحته]
البيهقي [دلائل النبوة 5؍492]
امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے امام أحمد رحمہ اللہ نے اسے روایت کیا ہے، دیکھئیے:
مسند أحمد بن حنبل [2؍264، 450]
یہ روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے درج ذیل جلیل القدر ثقہ تابعین نے بیان کی ہے۔
① سعید بن المسیب
② ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن
③ عبدالرحمٰن الاعرج
④ عامر الشعبی
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ اسے سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے بھی روایت کیا ہے:
[صحيح بخاري: 2412]
[و صحيح مسلم: 2374]
[و مصنف ابن ابي شيبه 526/11 ح 31828]
↰ معلوم ہوا کہ یہ روایت بالکل صحیح ہے، لہٰذا منکر حدیث کا اس سے کیا وحی مشکوک ہوتی ہے؟ کشید کرنا باطل ہے۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ میں نہیں جانتا۔ إلخ قرآن کریم کی درج ذیل آیت کے مطابق ہے۔ «وَلَا اَعْلَمُ الْغَيْبَ» (آپ کہہ دیں کہ۔۔۔) اور میں غیب نہیں جانتا۔ [سورة الانعام: 50]
✿ نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ «وَإِنْ أَدْرِيْ أَقَرِيْبٌ أَمْ بَعِيْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ» [سورة الانبياء: 109]
ترجمہ از شاہ ولی اللہ الدہلوی: «ونمي دانم كه نزديك است يا دور است آنچه وعده داده ميشويد» [ص399]
ترجمہ از شاہ عبدالقادر: اور میں نہیں جانتا، نزدیک ہے یا دور ہے، جو تم کو وعدہ ملتا ہے۔ [ص399]
ترجمہ از أحمد رضا خان بریلوی: میں کیا جانوں کہ پاس ہے یا دور ہے وہ جو تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے۔ [ص531]
↰ معلوم ہوا کہ منکرین حدیث حضرات، احادیث صحیحہ کی مخالفت کے ساتھ ساتھ قرآنی آیات کے بھی مخالف ہیں۔ ان کے پاس نہ حدیث ہے اور نہ قرآن ہے، بس وہ اپنی خواہشات اور بعض نام نہاد مفکرین قرآن کے خود ساختہ نظریات و تحریفات کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ مرنے سے پہلے پہلے رب کریم کی طرف سے مہلت ہے، جو شخص توبہ کرنا چاہے کر لے ورنہ یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے باغیوں اور سرکشوں کے لئے جہنم کی دہکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔ اے اللہ! تو ہمیں اپنی پناہ میں رکھ۔ اے اللہ! تو ہمیں کتاب وسنت پر ثابت قدم رکھ اور اسی پر ہمارا خاتمہ فرما۔ اے اللہ! ہمارے سارے گناہ معاف فرما دے، آمین۔ [انتهٰي] (13 ذوالقعدہ 1426ھ)
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث\صفحہ نمبر: 27   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3245  
´سورۃ الزمر سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے مدینہ کے بازار میں کہا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں میں سے چن لیا، (یہ سنا) تو ایک انصاری شخص نے ہاتھ اٹھا کر ایک طمانچہ اس کے منہ پر مار دیا، کہا: تو ایسا کہتا ہے جب کہ (تمام انسانوں اور جنوں کے سردار) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود ہیں۔ (دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «ونفخ في الصور فصعق من في السموات ومن في الأرض إلا من شاء الله ثم نفخ فيه أخرى فإذا هم قيام ينظرون» جب صور پھونکا جائے گا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3245]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جب صور پھونکا جائے گا آواز کی کڑک سے سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے گا آسمانوں و زمین کے سبھی لوگ غشی کھا جائیں گے،
پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا،
تو وہ کھڑے ہوکر دیکھتے ہوں گے (کہ ان کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے؟ (الزمر: 69)۔
2؎:
روز حشر کا یہ واقعہ سنانے کہ آپ ﷺ موسیٰ علیہ السلام کی فضیلیت ذکر کرنا چاہتے ہیں نیز اپنی خاکساری کا اظہار فرمار ہے ہیں،
اپنی خاکساری ظاہر کرنا دوسری بات ہے،
اور فی نفسہ موسیٰ علیہ السلام کا تمام انبیاء سے افضل ہونا اور بات ہے البتہ اس طرح کسی نبی کا نام لیکر آپﷺ کے ساتھ مقابلہ کر کے آپﷺ کی فضیلت بیان کرنے والے کو تاؤ میں آکر مار دینا مناسب نہیں ہے،
آپﷺ نے اس وقت یہی تعلیم دہی ہے۔
3؎:
حقیقت میں نبی اکرمﷺ سب سے افضل نبی ہیں،
اور سیدالأنبیاء والرسل ہیں،
لیکن انبیاء کا آپس میں تقابل عام حالات میں صحیح نہیں ہے،
بلکہ خلاف ادب ہے،
اس کا تواضع و انکساری اور انبیاء و رسل کی غرض و احترام میں آپﷺ نے ادب سکھایا اور اس طرح کے موازنہ پر تنقید فرمائی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3245   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.