الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
69. باب وَمِنْ سُورَةِ الْجِنِّ
69. باب: سورۃ الجن سے بعض آیات کی تفسیر۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 3323
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد بن حميد، حدثني ابو الوليد، حدثنا ابو عوانة، عن ابي بشر، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: " ما قرا رسول الله صلى الله عليه وسلم على الجن ولا رآهم، انطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم في طائفة من اصحابه عامدين إلى سوق عكاظ، وقد حيل بين الشياطين وبين خبر السماء، وارسلت عليهم الشهب، فرجعت الشياطين إلى قومهم، فقالوا: ما لكم؟ قالوا: حيل بيننا وبين خبر السماء وارسلت علينا الشهب، فقالوا: ما حال بيننا وبين خبر السماء إلا امر حدث، فاضربوا مشارق الارض ومغاربها، فانظروا ما هذا الذي حال بينكم وبين خبر السماء، قال: فانطلقوا يضربون مشارق الارض ومغاربها يبتغون ما هذا الذي حال بينهم وبين خبر السماء، فانصرف اولئك النفر الذين توجهوا نحو تهامة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بنخلة عامدا إلى سوق عكاظ وهو يصلي باصحابه صلاة الفجر، فلما سمعوا القرآن استمعوا له، فقالوا: هذا والله الذي حال بينكم وبين خبر السماء، قال: فهنالك رجعوا إلى قومهم، فقالوا: يا قومنا: إنا سمعنا قرءانا عجبا {1} يهدي إلى الرشد فآمنا به ولن نشرك بربنا احدا {2} سورة الجن آية 1-2 فانزل الله على نبيه صلى الله عليه وسلم: قل اوحي إلي انه استمع نفر من الجن سورة الجن آية 1 وإنما اوحي إليه قول الجن ".حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنِي أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: " مَا قَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْجِنِّ وَلَا رَآهُمْ، انْطَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي طَائِفَةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ عَامِدِينَ إِلَى سُوقِ عُكَاظٍ، وَقَدْ حِيلَ بَيْنَ الشَّيَاطِينِ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، وَأُرْسِلَتْ عَلَيْهِمُ الشُّهُبُ، فَرَجَعَتِ الشَّيَاطِينُ إِلَى قَوْمِهِمْ، فَقَالُوا: مَا لَكُمْ؟ قَالُوا: حِيلَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ وَأُرْسِلَتْ عَلَيْنَا الشُّهُبُ، فَقَالُوا: مَا حَالَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ إِلَّا أَمْرٍ حَدَثَ، فَاضْرِبُوا مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا، فَانْظُرُوا مَا هَذَا الَّذِي حَالَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، قَالَ: فَانْطَلَقُوا يَضْرِبُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا يَبْتَغُونَ مَا هَذَا الَّذِي حَالَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، فَانْصَرَفَ أُولَئِكَ النَّفَرُ الَّذِينَ تَوَجَّهُوا نَحْوَ تِهَامَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِنَخْلَةَ عَامِدًا إِلَى سُوقِ عُكَاظٍ وَهُوَ يُصَلِّي بِأَصْحَابِهِ صَلَاةَ الْفَجْرِ، فَلَمَّا سَمِعُوا الْقُرْآنَ اسْتَمَعُوا لَهُ، فَقَالُوا: هَذَا وَاللَّهِ الَّذِي حَالَ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَ خَبَرِ السَّمَاءِ، قَالَ: فَهُنَالِكَ رَجَعُوا إِلَى قَوْمِهِمْ، فَقَالُوا: يَا قَوْمَنَا: إِنَّا سَمِعْنَا قُرْءَانًا عَجَبًا {1} يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ وَلَنْ نُشْرِكَ بِرَبِّنَا أَحَدًا {2} سورة الجن آية 1-2 فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِنَ الْجِنِّ سورة الجن آية 1 وَإِنَّمَا أُوحِيَ إِلَيْهِ قَوْلُ الْجِنِّ ".
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ قرآن جنوں کو پڑھ کر سنایا ہے اور نہ انہیں دیکھا ہے ۱؎ (ہوا یہ ہے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی جماعت کے ساتھ عکاظ بازار جا رہے تھے، (بعثت محمدی کے تھوڑے عرصہ بعد) شیطانوں اور ان کے آسمانی خبریں حاصل کرنے کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی تھی اور ان پر شعلے برسائے جانے لگے تھے، تو وہ اپنی قوم کے پاس لوٹ گئے، ان کی قوم نے کہا: کیا بات ہے؟ کیسے لوٹ آئے؟ انہوں نے کہا: ہمارے اور آسمان کی خبر کے درمیان دخل اندازی کر دی گئی ہے، آسمانی خبریں سننے سے روکنے کے لیے ہم پر تارے پھینکے گئے ہیں، قوم نے کہا: لگتا ہے (دنیا میں) کوئی نئی چیز ظہور پذیر ہوئی ہے جس کی وجہ سے ہمارے اور آسمان کی خبر کے درمیان رکاوٹ کھڑی ہوئی ہے، تم زمین کے مشرق و مغرب میں چاروں طرف پھیل جاؤ اور دیکھو کہ وہ کون سی چیز ہے جو ہمارے اور ہمارے آسمان سے خبریں حاصل کرنے کے درمیان حائل ہوئی (اور رکاوٹ بنی) ہے چنانچہ وہ زمین کے چاروں کونے مغربین و مشرقین میں تلاش کرنے نکل کھڑے ہوئے، شیاطین کا جو گروہ تہامہ کی طرف نکلا تھا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا (اس وقت) آپ سوق عکاظ جاتے ہوئے مقام نخلہ میں تھے، اور اپنے صحابہ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے، جب انہوں نے قرآن سنا تو پوری توجہ سے کان لگا کر سننے لگے، (سن چکے تو) انہوں نے کہا: یہ ہے قسم اللہ کی! وہ چیز جو تمہارے اور آسمان کی خبر کے درمیان حائل ہوئی ہے، ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: یہیں سے وہ لوگ اپنی قوم کی طرف لوٹ گئے، (وہاں جا کر) کہا: اے میری قوم! «إنا سمعنا قرآنا عجبا يهدي إلى الرشد فآمنا به ولن نشرك بربنا أحدا» ہم نے عجیب و غریب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے ہم اس پر ایمان لا چکے (اب) ہم کسی کو بھی اپنے رب کا شریک نہ بنائیں گے (الجن: ۱-۲)، اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر آیت «قل أوحي إلي أنه استمع نفر من الجن» نازل فرمائی، اور آپ پر جن کا قول وحی کیا گیا ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 105 (772)، تفسیر سورة الجن (4921)، صحیح مسلم/الصلاة 31 (446) (تحفة الأشراف: 5452) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ ابن عباس رضی الله عنہما کے اپنے علم کے مطابق ہے، چونکہ بات ایسی نہیں ہے کہ اس لیے شاید امام بخاری نے اس حدیث کا یہ ٹکڑا اپنی صحیح میں درج نہیں کیا ہے، اور صحیح مسلم میں اس کے فوراً بعد ابن مسعود رضی الله عنہ کی روایت درج کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنوں کی دعوت پر ان کے پاس جا کر ان پر قرآن پڑھا ہے، ان دونوں حدیثوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ یہ دو واقعے ہیں، پہلے واقعہ کی بابت ابن عباس رضی الله عنہما کی یہ روایت اور ان کا یہ قول ہے، اس کے بعد یہ ہوا تھا کہ آپ ان کے پاس تشریف لے جا کر ان کو قرآن سنایا تھا (کما فی الفتح)
۲؎: ابن عباس کا یہ قول ان کے اسی دعوے کی بنیاد پر ہے کہ آپ جنوں کے پاس خود نہیں گئے تھے، انہوں نے آپ کی قراءت اچانک سن لی، اس واقعہ کی اطلاع بھی آپ کو بذریعہ وحی دی گی۔

قال الشيخ الألباني: (قول ابن عباس: ما قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم على الجن ... إلى قوله: وإنما أوحى إليه قول الجن) صحيح، (وقول ابن عباس: قول الجن لقومهم * (لما قام عبد الله.....) * إلى قوله: قالوا لقومهم * (لما قام عبد الله.....) *) صحيح الإسناد
   صحيح البخاري4921عبد الله بن عباسانطلق رسول الله في طائفة من أصحابه عامدين إلى سوق عكاظ وقد حيل بين الشياطين وبين خبر السماء وأرسلت عليهم الشهب فرجعت الشياطين فقالوا ما لكم فقالوا حيل بيننا وبين خبر السماء وأرسلت علينا الشهب قال ما حال بينكم وبين خبر السماء إلا ما حدث فاضربوا مشارق الأرض
   صحيح البخاري773عبد الله بن عباسانطلق النبي في طائفة من أصحابه عامدين إلى سوق عكاظ وقد حيل بين الشياطين وبين خبر السماء وأرسلت عليهم الشهب فرجعت الشياطين إلى قومهم فقالوا ما لكم فقالوا حيل بيننا وبين خبر السماء وأرسلت علينا الشهب قالوا ما حال بينكم وبين خبر السماء إلا شيء حدث فاضربوا مش
   جامع الترمذي3323عبد الله بن عباسانطلق رسول الله في طائفة من أصحابه عامدين إلى سوق عكاظ وقد حيل بين الشياطين وبين خبر السماء وأرسلت عليهم الشهب فرجعت الشياطين إلى قومهم فقالوا ما لكم قالوا حيل بيننا وبين خبر السماء وأرسلت علينا الشهب فقالوا ما حال بيننا وبين خبر السماء إلا أمر حدث فاضربو
   جامع الترمذي3323عبد الله بن عباسلما رأوه يصلي وأصحابه يصلون بصلاته فيسجدون بسجوده قال تعجبوا من طواعية أصحابه له قالوا لقومهم لما قام عبد الله يدعوه كادوا يكونون عليه لبدا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3323  
´سورۃ الجن سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ قرآن جنوں کو پڑھ کر سنایا ہے اور نہ انہیں دیکھا ہے ۱؎ (ہوا یہ ہے) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی جماعت کے ساتھ عکاظ بازار جا رہے تھے، (بعثت محمدی کے تھوڑے عرصہ بعد) شیطانوں اور ان کے آسمانی خبریں حاصل کرنے کے درمیان رکاوٹ ڈال دی گئی تھی اور ان پر شعلے برسائے جانے لگے تھے، تو وہ اپنی قوم کے پاس لوٹ گئے، ان کی قوم نے کہا: کیا بات ہے؟ کیسے لوٹ آئے؟ انہوں نے کہا: ہمارے اور آسمان کی خبر کے درمیان دخل اندازی کر دی گئی ہے، آسمانی خبریں سننے سے روکنے کے لی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3323]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے اپنے علم کے مطابق ہے،
چونکہ بات ایسی نہیں ہے کہ اس لیے شاید امام بخاری نے اس حدیث کا یہ ٹکڑا اپنی صحیح میں درج نہیں کیا ہے،
اور صحیح مسلم میں اس کے فوراً بعد ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت درج کی ہے کہ آپ ﷺنے جنوں کی دعوت پر ان کے پاس جا کر ان پر قرآن پڑھا ہے،
ان دونوں حدیثوں میں تطبیق اس طرح دی جاتی ہے کہ یہ دو واقع ہیں،
پہلے واقعہ کی بابت ابن عباس کی یہ روایت اور ان کا یہ قول ہے،
اس کے بعد یہ ہوا تھا کہ آپﷺ ان کے پاس تشریف لے جا کر ان کو قرآن سنایا تھا (کمافی الفتح)
2؎:
ہم نے عجیب وغریب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف رہنمائی کرتا ہے ہم اس پر ایمان لا چکے (اب) ہم کسی کو بھی اپنے رب کا شریک نہ بنائیں گے (الجن: 1-2)

3؎:
ابن عباس کا یہ قول ان کے اسی دعوے کی بنیاد پرہے کہ آپﷺ جنوں کے پاس خود نہیں گئے تھے،
انھوں نے آپﷺ کی قراء ت اچانک سن لی،
اس واقعہ کی اطلاع بھی آپﷺ کوبذریعہ وحی دی گی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3323   

حدیث نمبر: 3323M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وبهذا الإسناد، وبهذا الإسناد، عن ابن عباس، قال: قول الجن لقومهم: " لما قام عبد الله يدعوه كادوا يكونون عليه لبدا سورة الجن آية 19 قال: لما راوه يصلي واصحابه يصلون بصلاته فيسجدون بسجوده، قال: تعجبوا من طواعية اصحابه له قالوا لقومهم: لما قام عبد الله يدعوه كادوا يكونون عليه لبدا سورة الجن آية 19 "، قال: هذا حديث حسن صحيح.وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَبِهَذَا الْإِسْنَادِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَوْلُ الْجِنِّ لِقَوْمِهِمْ: " لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا سورة الجن آية 19 قَالَ: لَمَّا رَأَوْهُ يُصَلِّي وَأَصْحَابُهُ يُصَلُّونَ بِصَلَاتِهِ فَيَسْجُدُونَ بِسُجُودِهِ، قَالَ: تَعَجَّبُوا مِنْ طَوَاعِيَةِ أَصْحَابِهِ لَهُ قَالُوا لِقَوْمِهِمْ: لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا سورة الجن آية 19 "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اور اسی سند سے مروی ہے کہ ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: یہ بھی جنوں کا ہی قول ہے، انہوں نے اپنی قوم سے کہا: «لما قام عبد الله يدعوه كادوا يكونون عليه لبدا» اور جب اللہ کا بندہ اس کی عبادت کے لیے کھڑا ہوا تو قریب تھا کہ وہ بھڑ بن کر اس پر پل پڑیں (الجن: ۱۹)۔ ابن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں: جب انہوں نے آپ کو نماز پڑھتے دیکھا اور دیکھا کہ آپ کے صحابہ آپ کی اقتداء کرتے ہوئے آپ کی طرح نماز پڑھ رہے ہیں اور آپ کے سجدہ کی طرح سجدہ کر رہے ہیں تو وہ آپ کے اصحاب کی آپ کی اطاعت دیکھ کر حیرت میں پڑ گئے، انہوں نے اپنی قوم سے کہا: «لما قام عبد الله يدعوه كادوا يكونون عليه لبدا» ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: اس آیت کی کئی تفسیریں مروی ہیں، ایک تو یہی ابن عباس کی تفسیر، جس کے مطابق «كادوا يكونون عليه لبدا» (الجن: ۱۹) سے مراد صحابہ کرام ہیں، یعنی: صحابہ آپ کی اطاعت ایسے کرتے ہیں جیسے کوئی بھیڑ کسی بات پر پل پڑے، لیکن ابن کثیر نے اگلی آیت سے، استدلال کرتے ہوئے یہ معنی بیان کیا ہے کہ اس سے مراد مشرک جن و انس ہیں جو آپ کو عبادت کرتے دیکھ کر بھیڑ بن کر پل پڑے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: (قول ابن عباس: ما قرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم على الجن ... إلى قوله: وإنما أوحى إليه قول الجن) صحيح، (وقول ابن عباس: قول الجن لقومهم * (لما قام عبد الله.....) * إلى قوله: قالوا لقومهم * (لما قام عبد الله.....) *) صحيح الإسناد


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.