الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غسل کے احکام و مسائل
The Book of Ghusl (Washing of the Whole Body)
29. بَابُ غَسْلِ مَا يُصِيبُ مِنْ فَرْجِ الْمَرْأَةِ:
29. باب: اس چیز کا دھونا جو عورت کی شرمگاہ سے لگ جائے ضروری ہے۔
(29) Chapter. Washing away what comes out from the private parts of a woman (woman’s discharge) if one gets soiled with that.
حدیث نمبر: 292
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا ابو معمر، حدثنا عبد الوارث، عن الحسين، قال يحيى: واخبرني ابو سلمة، ان عطاء بن يسار اخبره، ان زيد بن خالد الجهني اخبره، انه سال عثمان بن عفان، فقال: ارايت إذا جامع الرجل امراته فلم يمن، قال عثمان:" يتوضا كما يتوضا للصلاة ويغسل ذكره"، قال عثمان: سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسالت عن ذلك علي بن ابي طالب، والزبير بن العوام، وطلحة بن عبيد الله، وابي بن كعب رضي الله عنهم فامروه بذلك، قال يحيى: واخبرني ابو سلمة، ان عروة بن الزبير اخبره ان ابا ايوب اخبره، انه سمع ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، عَنْ الْحُسَيْنِ، قَالَ يَحْيَى: وَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، أَنَّ عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَأَلَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، فَقَالَ: أَرَأَيْتَ إِذَا جَامَعَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ فَلَمْ يُمْنِ، قَالَ عُثْمَانُ:" يَتَوَضَّأُ كَمَا يَتَوَضَّأُ لِلصَّلَاةِ وَيَغْسِلُ ذَكَرَهُ"، قَالَ عُثْمَانُ: سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، وَالزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ، وَطَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ، وَأُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَأَمَرُوهُ بِذَلِكَ، قَالَ يَحْيَى: وَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا أَيُّوبَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے حسین بن ذکوان معلم کے واسطہ سے، ان کو یحییٰ نے کہا مجھ کو ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بن عوف نے خبر دی، ان کو عطا بن یسار نے خبر دی، انہیں زید بن خالد جہنی نے بتایا کہ انھوں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ مرد اپنی بیوی سے ہمبستر ہوا لیکن انزال نہیں ہوا تو وہ کیا کرے؟ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نماز کی طرح وضو کر لے اور ذکر کو دھو لے اور عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے۔ میں نے اس کے متعلق علی بن ابی طالب، زبیر بن العوام، طلحہ بن عبیداللہ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے پوچھا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا یحییٰ نے کہا اور ابوسلمہ نے مجھے بتایا کہ انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی، انہیں ابوایوب رضی اللہ عنہ نے کہ یہ بات انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی۔

Narrated Zaid bin Khalid Al-Juhani: I asked `Uthman bin `Affan about a man who engaged in the sexual intercourse with his wife but did not discharge. `Uthman replied, "He should perform ablution like that for the prayer after washing his private parts." `Uthman added, "I heard that from Allah's Apostle." I asked `Ali bin Abi Talib, Az- Zubair bin Al-`Awwam, Talha bin 'Ubaidullah and Ubai bin Ka`b and a gave the same reply. (Abu Aiyub said that he had heard that from Allah's Apostle ) (This order was canceled later on so one has to take a bath. See, Hadith No. 180).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 5, Number 291

   صحيح البخاري292يتوضأ كما يتوضأ للصلاة ويغسل ذكره
   صحيح مسلم781يتوضأ كما يتوضأ للصلاة ويغسل ذكره

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 292  
´مرد اپنی بیوی سے ہمبستر ہوا لیکن انزال نہیں ہوا تو وہ کیا کرے؟`
«. . . أَنَّ زَيْدَ بْنَ خَالِدٍ الْجُهَنِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَأَلَ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، فَقَالَ: أَرَأَيْتَ إِذَا جَامَعَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ فَلَمْ يُمْنِ، قَالَ عُثْمَانُ: " يَتَوَضَّأُ كَمَا يَتَوَضَّأُ لِلصَّلَاةِ وَيَغْسِلُ ذَكَرَهُ "، قَالَ عُثْمَانُ: سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، وَالزُّبَيْرَ بْنَ الْعَوَّامِ، وَطَلْحَةَ بْنَ عُبَيْدِ اللَّهِ، وَأُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ فَأَمَرُوهُ بِذَلِكَ، قَالَ يَحْيَى: وَأَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ أَخْبَرَهُ أَنَّ أَبَا أَيُّوبَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . . . .»
. . . زید بن خالد جہنی نے بتایا کہ انھوں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ مرد اپنی بیوی سے ہمبستر ہوا لیکن انزال نہیں ہوا تو وہ کیا کرے؟ عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نماز کی طرح وضو کر لے اور ذکر کو دھو لے اور عثمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات سنی ہے۔ میں نے اس کے متعلق علی بن ابی طالب، زبیر بن العوام، طلحہ بن عبیداللہ، ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے پوچھا تو انہوں نے بھی یہی فرمایا یحییٰ نے کہا اور ابوسلمہ نے مجھے بتایا کہ انہیں عروہ بن زبیر نے خبر دی، انہیں ابوایوب رضی اللہ عنہ نے کہ یہ بات انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ غَسْلِ مَا يُصِيبُ مِنْ فَرْجِ الْمَرْأَةِ:: 292]

تشریح:
حدیث اور باب کی مطابقت ظاہر ہے۔ ابتدائے اسلام میں یہی حکم تھا، بعد میں منسوخ ہو گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 292   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:292  
292. حضرت زید بن خالد جہنی سے روایت ہے، انھوں نے حضرت عثمان ؓ سے دریافت کیا: اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ہمبستری کرے مگر انزال نہ ہو تو اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟ حضرت عثمان ؓ نے فرمایا: وہ وضو کرے جیسا کہ نماز کے لیے وضو کرتا ہے اور اپنے عضو مخصوص کو دھو لے۔ حضرت عثمان ؓ نے یہ بھی کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے ایسا ہی سنا ہے۔ حضرت زید کہتے ہیں: میں نے پھر اس کے متعلق حضرت علی بن ابی طالب، زبیر بن عوام، طلحہ بن عبیداللہ اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہم سے دریافت کیا تو انھوں نے بھی یہی فیصلہ دیا۔ یحییٰ بن ابی کثیر نے کہا: مجھے ابوسلمہ نے خبر دی، انھیں عروہ بن زبیر نے بتایا، انھیں ابوایوب انصاری نے خبر دی، انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:292]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ دوران مجامعت میں جو رطوبت عورت کی شرمگاہ سے بر آمد ہوتی ہے وہ ناپاک ہے۔
اس کا دھونا ضروری ہے، خواہ وہ عضو مستور پر لگے یا کپڑے پر اس کا دھبہ آئے، چنانچہ حديث میں ہے کہ وہ اپنے عضو مستور کو دھوئےاور دوسری حدیث میں ہے کہ وہ اس مقام کو دھوئے جس سے عورت کو مس کیا تھا۔
اسے دھونے کی بنیاد یہی ہے کہ اسے عورت کی رطوبت لگی ہے۔
واضح رہے کہ امام بخاری ؒ نے پہلے بھی اس نوعیت کا عنوان قائم کیا تھامنی کا دھونا اور اس کا کھرچ ڈالنا نیز عورت کی شرمگاہ سے برآمد ہونے والی مذی کو دھونا۔
یہ تکرار نہیں بلکہ وہاں کتاب الوضوء میں عورت کے مادہ منویہ کے متعلق حکم بیان کرنا مقصود تھا کہ وہ مرد کے مادہ منویہ کی طرح نجس اور پلید ہے، جس کا دھونا ضروری ہےاور اس مقام پر اس رطوبت کا حکم بیان کرنا مقصود ہے، جو مداعبت و ملاعبت یا مجامعت کے دوران میں عورت کی شرمگاہ سے بر آمد ہو۔
یہ بھی نجس ہے، خواہ داخل فرج سے آئے یا خارج فرج میں جمع ہو۔

امام بخاری ؒ نے دونوں احادیث بیان کرنے کے بعد اپنی طرف سے ایک نوٹ دیا ہے کہ غسل کرنے میں ہی احتیاط ہے۔
ان الفاظ پر صحیح بخاری نے شارحین نے خوب طبع آزمائی کی ہے۔
چنانچہ ابن العربی نے امام بخاری ؒ کے متعلق اپنی قطعی رائے کا اظہار بایں الفاظ کیا ہے کہ ان کا موقف داؤد ظاہری جیسا ہے، یعنی دوران مجامعت میں اگر انزال نہ ہو تو صرف وضو کرنا ضروری ہے، غسل کرنا ضروری نہیں، البتہ احتیاط کا تقاضا ہے کہ غسل کر لے۔
داؤد ظاہری کی تو اتنی اہمیت نہیں۔
البتہ امام بخاری ؒ کا معاملہ بہت حیران کن ہے کہ انھوں نے اجماع کے خلاف موقف اختیار کیا ہے، کیونکہ آپ آئمہ دین اور علمائے مسلمین سے ہیں، پھر ابن العربی نے حدیث الباب کو ضعیف قراردینے پر زور دیا ہے، اس کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ کا تبصرہ درج ذیل ہے:
حدیث الباب کی تصنیف کے متعلق ابن العربی کا کلام قابل قبول ہے۔
پھر ابن العربی امام بخاری ؒ کا دفاع کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ممکن ہے امام بخاری کی (الغسل أحوط)
سے مراد احتیاط فی الدین ہے جو اصول کا مشہور باب ہے، یہی بات ان کے فضل و کمال کے مناسب ہے۔
ابن العربی کی یہ توجیہ امام بخاری کی عادت تصرف سے بھی مناسبت رکھتی ہے، کیونکہ انھوں نے ان احادیث پر ترک غسل کے جواز کے متعلق کوئی عنوان قائم نہیں کیا۔
نیز ابن العربی نے مسئلہ زیر بحث کے متعلق جو اختلاف کی نفی کی ہے وہ بھی قابل اعتراض ہے، کیونکہ اختلاف تو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین میں بھی شہرت پا چکا تھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک جماعت سے یہی ثابت ہے کہ ایسے حالات میں غسل واجب نہیں۔
اسی طرح ابن قصار کا یہ دعوی بھی غلط ہے کہ تابعین کے دور میں اختلاف نہیں تھا۔
تابعین میں اس کے متعلق اختلاف تھا، تابعین کے بعد بھی اس موقف سے اختلاف کرنے والوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔
البتہ جمہور علماء کا موقف ہے کہ ایسے حالات میں غسل واجب ہے اور یہی درست بات ہے۔
(فتح الباري: 1/ 517)
محقق عینی نے بھی ابن حجر کی طرح ابن قصار کے دعوی پر نقد کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ تابعین میں اس کے متعلق اختلاف ضرور تھا، اگرچہ قاضی عیاض نے کہا ہے کہ صحابہ کے بعد اعمش تابعی کے علاوہ کسی نے بھی اس مسئلے سے اختلاف نہیں کیا، لیکن ان کے علاوہ بھی ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن ؓ سے غسل نہ کرنا ثابت ہے اور ہشام بن عروہ اور عطاء بھی وجوب غسل کے قائل نہ تھے، اگرچہ حضرت عطا کہا کرتے تھے کہ لوگوں کے اختلاف کی وجہ سے میرا دل بھی غسل کے بغیر مطمئن نہیں ہوتا اور میں عروه وثقی کے تمسک کو ہی عملاً اختیار کرتا ہوں۔
(عمده القاري: 93/3)

علامہ ابن رشد نے اس سلسلے میں اختلاف اور وجہ اختلاف کو بایں الفاظ بیان کیا ہے:
اکثر فقہائے امصار اور اہل ظاہر کی ایک جماعت التقائے ختانین سے وجوب غسل کی قائل ہے، جبکہ اہل ظاہر سے کچھ حضرات صرف انزال پر غسل کو واجب کہتے ہیں۔
سبب اختلاف تعارض احادیث صحیحہ ہیں۔
ایک طرف التقائے ختانین سے غسل واجب قراردیے جانے کی حدیث ابی ہریرہ ؓ ہے اور دوسری طرف حدیث عثمان ؓ ہے جس میں غسل کا مدار صرف انزال کو قراردیا گیا ہے۔
اکثریت نے اس دوسری حدیث کو منسوخ قراردیا ہے اور دوسروں نے اس تعارض کے پیش نظر متفق علیہ صورت انزال کو معمول بہ بنالیا ہے۔
منسوخ کہنے والوں نے ابو داود ؒ کی حدیث ابی بن کعب کو بطور دلیل پیش کیاہے کہ حکم عدم غسل آغاز اسلام میں تھا، نیز انھوں نے حدیث ابی ہریرہ ؓ کو قیاس کے لحاظ سے بھی ترجیح دی ہے کہ مجاوزت ختانین سے بالاجماع حد نافذ ہوتی ہے، لہٰذا غسل کا وجوب بھی اسی سے ہونا چاہیے۔
اس کے علاوہ جمہور نے فیصلہ وجوب غسل کو حدیث عائشہ ؓ کی وجہ سے بھی ترجیح دی ہے، جسے مسلم نے روایت کیا ہے، جس میں اگرچہ انزال نہ ہو کے الفاظ ہیں۔
(بدایة المجتهد: 95/1۔
97)

اس کے متعلق حضرت عمر ؓ کا فیصلہ اتھارٹی (حرف آخر)
کی حیثیت رکھتا ہے، جسے امام طحاوی ؒ نے بیان کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو جمع کر کے اس مسئلے کے متعلق ان کی آراء حاصل کیں۔
کسی نے (اَلمَاءُ مِنَ المَاءِ)
والی حدیث پیش کر کے عدم وجوب غسل کی نشاندہی کی، جبکہ دوسروں نے التقائےختانین والی حدیث پیش کر کے وجوب غسل کی رائے کا اظہار کیا۔
حضرت علی ؓ نے کہا کہ اس سلسلے میں ازواج مطہرات رضوان اللہ علیہم اجمعین سے معلومات لی جائیں کیونکہ وہ اسے زیادہ جانتی ہیں، حضرت عمر ؓ نے اپنی بیٹی حضرت حفصہ ؓ کے پاس آدمی بھیج کر مسئلہ معلوم کرایا تو انھوں نے کہا کہ مجھے اس کے متعلق علم نہیں، پھر حضرت عائشہ ؓ کے پاس آدمی بھیجا تو انھوں نے وہ حدیث پیش کی جس میں ہے کہ جب مرد کے ختنے عورت کے ختنوں سے تجاوز کر جائیں تو غسل واجب ہوجاتا ہے۔
اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے فیصلہ دیا کہ آئندہ اگر کسی نے (اَلمَاءُ مِنَ المَاءِ)
کے حوالے سے عدم وجوب غسل کا فتوی دیا تو میں اسے عبرتناک سزادوں گا۔
حضرت عمر ؓ نے یہ فیصلہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی موجودگی میں دیا اور اس پر کسی نے بھی انکار نہیں کیا۔
(شرح معاني الآثار للطحاوي: 36/1)
اس فیصلے کے باوجود حضرت عثمان ؓ کے متعلق روایات میں ہے کہ وہ (اَلمَاءُ مِنَ المَاءِ)
کو اختیار کرتے تھے، ان کے اختیار کو حضرت عمر ؓ کے فیصلے سے پہلے ہونے پر محمول کرنا چاہیے۔
اس کے بعد ان کی طرف اس کی نسبت کرنا صحیح نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امام ترمذی ؒ نے حضرت عثمان ؓ کو ان لوگوں میں ذکر کیا ہے جو التقاء ختانین سے غسل کو واجب کہتے ہیں، ہمارے نزدیک امام بخاری ؒ کا موقف بھی یہی ہے کہ مجاوزت ختان سے غسل واجب ہو جاتا ہے، جیسا کہ انھوں نے سابق عنوان میں اسے بیان فرمایا ہے۔
امام بخاری ؒ کا کسی مسئلے میں رجحان پیش کردہ احادیث سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔
آپ نے حدیث ابی ہریرہ ؓ پیش کر کے اپنا رجحان واضح کر دیا ہے۔
اس حدیث کے آخر میں (الغسل أحوط)
اس لیے کہا کہ جب جواز اور وجوب میں اختلاف ہو تو احتیاط کا تقاضا ہے کہ وجوب پر عمل کیا جائے۔
نیز احوط کو استحباب پر منحصر نہیں کیا جا سکتا، بلکہ اس کا اطلاق وجوب پر بھی ہوتا ہے۔
احتیاط پر عمل کرنا کس مقام پر مستحب ہوتا ہے اور کس جگہ پر واجب ہوتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عبادات کے باب میں احتیاط پر عمل واجب ہوتا ہے۔
غسل کا معاملہ بھی عبادات سے تعلق رکھتا ہے، اس لیے احتیاط پر عمل کرنے کا مفہوم یہ ہوا کہ غسل واجب ہے۔
گویا امام بخاری ؒ کا مطلب یہ ہے کہ روایات میں اختلاف ہے اور اس اختلاف کی بنیاد پر کسی کو اشکال پیدا ہو سکتا ہے، مگر اب حضرت عمر ؓ کے تحقیقی فیصلے کے بعد اس کی گنجائش نہیں، ان کے فیصلے نے یہ بات طے کردی ہے کہ غسل کرنا صرف التقائے ختانین سے واجب ہوتا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ یہ وجوب عبادات میں عمل پر احتیاط کی بنیاد پر ہے، لہٰذا امام بخاری کو یہ الزام دینا کسی طرح بھی صحیح نہیں کہ آپ نے جمہور اہل علم سے اختلاف کر کے صرف انزال کو غسل کا مدار ٹھہرایا ہے اور التقائےختانین کے وقت صرف احتیاطاًغسل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
یہ خیال کسی انسان کا ذاتی تو ہو سکتا ہے، لیکن امام بخاری ؒ نے صراحت کے ساتھ کسی مقام پر ایسا نہیں کہا۔
امام بخاری ؒ کی عادت مستمرہ ہے کہ کتاب کے اختتام پر آخرت کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔
یہاں بھی انھوں نے (ذاك الأخير)
کا لفظ استعمال کیا ہے، اس سے موت کی طرف اشارہ ہے، اگرچہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس سے یہ اخذ کیا ہے کہ اس لفظ سے اختتام کتاب کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 292   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.