الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
کتاب: فضائل و مناقب
Chapters on Virtues
31. باب مَنَاقِبِ الْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ
31. باب: حسن و حسین رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان
حدیث نمبر: 3773
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن بشار، حدثنا الانصاري محمد بن عبد الله، حدثنا الاشعث هو ابن عبد الملك، عن الحسن، عن ابي بكرة، قال: صعد رسول الله صلى الله عليه وسلم المنبر فقال: " إن ابني هذا سيد يصلح الله على يديه فئتين عظيمتين ". قال: هذا حسن صحيح، قال: يعني الحسن بن علي.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا الْأَشْعَثُ هُوَ ابْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ أَبِي بَكْرَةَ، قَالَ: صَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمِنْبَرَ فَقَالَ: " إِنَّ ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ يُصْلِحُ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ ". قَالَ: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، قَالَ: يَعْنِي الْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ.
ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر چڑھ کر فرمایا: میرا یہ بیٹا سردار ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور «ابني هذا» سے مراد حسن بن علی ہیں رضی الله عنہما۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلح 9 (2704)، والمناقب 25 (3629)، وفضائل الصحابة 22 (3746)، والفتن 20 (7109)، سنن ابی داود/ السنة 13 (4662)، سنن النسائی/الجمعة 27 (1411) (تحفة الأشراف: 11658)، و مسند احمد (5/37، 44، 49، 51) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی میرا یہ نواسہ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کا سبب بنے گا، چنانچہ خلافت کے مسئلہ کو لے کر جب مسلمانوں کے دو گروہ ہو گئے، ایک گروہ معاویہ رضی الله عنہ کے ساتھ اور دوسرا حسن رضی الله عنہ کے ساتھ تھا، تو حسن رضی الله عنہ نے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کر کے مسلمانوں کو قتل و خونریزی سے بچا کر اس امت پر بڑا احسان کیا اور یہ ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے «جزاہ اللہ عن المسلمین خیر الجزاء» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الروض النضير (923)، الإرواء (1597)
   صحيح البخاري3746نفيع بن الحارثابني هذا سيد ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين
   صحيح البخاري3629نفيع بن الحارثابني هذا سيد ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين
   صحيح البخاري7109نفيع بن الحارثابني هذا سيد ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين
   جامع الترمذي3773نفيع بن الحارثابني هذا سيد يصلح الله على يديه فئتين عظيمتين
   سنن أبي داود4662نفيع بن الحارثابني هذا سيد وإني أرجو أن يصلح الله به بين فئتي
   سنن النسائى الصغرى1411نفيع بن الحارثابني هذا سيد ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين عظيمتين
   المعجم الصغير للطبراني885نفيع بن الحارثابني هذا سيد وإن الله سيصلح على يديه بين فئتين عظيمتين من المسلمين
   مسندالحميدي811نفيع بن الحارثإن ابني هذا سيد، ولعل الله أن يصلح به بين فئتين من المسلمين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3773  
´حسن و حسین رضی الله عنہما کے مناقب کا بیان`
ابوبکرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر چڑھ کر فرمایا: میرا یہ بیٹا سردار ہے، اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3773]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی میرا یہ نواسہ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کا سبب بنے گا،
چنانچہ خلافت کے مسئلہ کو لے کر جب مسلمانوں کے دو گروہ ہو گئے،
ایک گروہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اور دوسرا حسن رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا،
تو حسن رضی اللہ عنہ نے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کر کے مسلمانوں کو قتل و خونریزی سے بچا کر اس امت پر بڑا احسان کیا اور یہ ان کا بہت بڑا کار نامہ ہے (جَزَاہُ اللہُ عَنِ الْمُسْلِمِیْنَ خَیْرَ الْجَزَاءِ)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3773   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4662  
´فتنہ و فساد کے وقت خاموش رہنے کا بیان۔`
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو فرمایا: میرا یہ بیٹا سردار ہے اور مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے میری امت کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا۔‏‏‏‏ حماد کی روایت میں ہے: شاید اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں میں صلح کرائے گا ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4662]
فوائد ومسائل:
1: حضرت علی رضی اللہ کے دور میں سیدنا عثمان رضی اللہ کی شہادت کی بنا پر ہر مسلمان دو گرہوں میں بٹ گئے تھے۔
ایک طرف علی رضی اللہ تھے اور دوسری طرف حضرت معاویہ رضی اللہ اور دونوں ہی اپنی اپنی ترجیحات میں بر حق تھے، تاہم سیدنا علی رضی اللہ کا موقف اقرب الی الحق تھا۔

2: سیدنا حسن رضی اللہ نے اپنی خلافت سے دست بردارہو کر ایک عظیم کارنامہ سرانجام دیا اور اس کی وجہ سے ان کے شرف سیادت میں اور اضافہ ہو گیا۔
مگر کچھ لوگوں کو اب تک ان کا یہ عمل ناپسند ہے۔

3: رسول ؐ نے دونوں اطراف کے لوگوں کو اپنی امت کے مسلمان قراردیا ہے اورکسی کو بھی گمراہ یا باطل نہیں فرمایا۔

4: صحابہ کرام یا پھر فقہا ءوائمہ کی اجتہادی غلطیوں کی اشاعت کرنا بہت بڑا اور برا فتنہ ہے، صرف خاص محدود علمی حلقہ میں ان کے مسائل کی علمی تفہیم جائز ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4662   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.