الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جزیہ وغیرہ کے بیان میں
The Book of Al-Jizya and The Stoppage of War
19. بَابُ الْمُصَالَحَةِ عَلَى ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ، أَوْ وَقْتٍ مَعْلُومٍ:
19. باب: تین دن یا ایک معین مدت کے لیے صلح کرنا۔
(19) Chapter. It is permissible to conclude a peace treaty of three days or any other fixed period.
حدیث نمبر: 3184
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا احمد بن عثمان بن حكيم، حدثنا شريح بن مسلمة، حدثنا إبراهيم بن يوسف بن ابي إسحاق، قال: حدثني ابي، عن ابي إسحاق، قال: حدثني البراء رضي الله عنه، ان النبي صلى الله عليه وسلم:" لما اراد ان يعتمر ارسل إلى اهل مكة يستاذنهم ليدخل مكة فاشترطوا عليه ان لا يقيم بها إلا ثلاث ليال، ولا يدخلها إلا بجلبان السلاح ولا يدعو منهم احدا، قال: فاخذ يكتب الشرط بينهم علي بن ابي طالب فكتب هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله، فقالوا: لو علمنا انك رسول الله لم نمنعك ولبايعناك ولكن اكتب هذا ما قاضى عليه محمد بن عبد الله، فقال: انا والله محمد بن عبد الله وانا والله رسول الله، قال: وكان لا يكتب، قال: فقال: لعلي امح رسول الله، فقال: علي والله لا امحاه ابدا، قال: فارنيه، قال: فاراه إياه فمحاه النبي صلى الله عليه وسلم بيده فلما دخل ومضى الايام اتوا عليا، فقالوا: مر صاحبك فليرتحل فذكر ذلك علي رضي الله عنه لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: نعم، ثم ارتحل".حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْبَرَاءُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَعْتَمِرَ أَرْسَلَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ يَسْتَأْذِنُهُمْ لِيَدْخُلَ مَكَّةَ فَاشْتَرَطُوا عَلَيْهِ أَنْ لَا يُقِيمَ بِهَا إِلَّا ثَلَاثَ لَيَالٍ، وَلَا يَدْخُلَهَا إِلَّا بِجُلُبَّانِ السِّلَاحِ وَلَا يَدْعُوَ مِنْهُمْ أَحَدًا، قَالَ: فَأَخَذَ يَكْتُبُ الشَّرْطَ بَيْنهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَكَتَبَ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالُوا: لَوْ عَلِمْنَا أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ لَمْ نَمْنَعْكَ وَلَبَايَعْنَاكَ وَلكِنِ اكْتُبْ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: أَنَا وَاللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَأَنَا وَاللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: وَكَانَ لَا يَكْتُبُ، قَالَ: فَقَالَ: لِعَلِيٍّ امْحَ رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: عَلِيٌّ وَاللَّهِ لَا أَمْحَاهُ أَبَدًا، قَالَ: فَأَرِنِيهِ، قَالَ: فَأَرَاهُ إِيَّاهُ فَمَحَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ فَلَمَّا دَخَلَ وَمَضَى الْأَيَّامُ أَتَوْا عَلِيًّا، فَقَالُوا: مُرْ صَاحِبَكَ فَلْيَرْتَحِلْ فَذَكَرَ ذَلِكَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: نَعَمْ، ثُمَّ ارْتَحَلَ".
ہم سے احمد بن عثمان بن حکیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن یوسف بن ابی اسحاق نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عمرہ کرنا چاہا تو آپ نے مکہ میں داخلہ کے لیے مکہ کے لوگوں سے اجازت لینے کے لیے آدمی بھیجا۔ انہوں نے اس شرط کے ساتھ (اجازت دی) کہ مکہ میں تین دن سے زیادہ قیام نہ کریں۔ ہتھیار نیام میں رکھے بغیر داخل نہ ہوں اور (مکہ کے) کسی آدمی کو اپنے ساتھ (مدینہ) نہ لے جائیں (اگرچہ وہ جانا چاہے) انہوں نے بیان کیا کہ پھر ان شرائط کو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے لکھنا شروع کیا اور اس طرح یہ محمد اللہ کے رسول کے صلح نامہ کی تحریر ہے۔ مکہ والوں نے کہا کہ اگر ہم جان لیتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو پھر آپ کو روکتے ہی نہیں بلکہ آپ پر ایمان لاتے، اس لیے تمہیں یوں لکھنا چاہئے، یہ محمد بن عبداللہ کی صلح نامہ کی تحریر ہے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ گواہ ہے کہ میں محمد بن عبداللہ ہوں اور اللہ گواہ ہے کہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا نہیں جانتے تھے۔ راوی نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ رسول اللہ کا لفظ مٹا دے۔ علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم! یہ لفظ تو میں کبھی نہ مٹاؤں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر مجھے دکھلاؤ، راوی نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ لفظ دکھایا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے اسے مٹا دیا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لے گئے اور (تین) دن گزر گئے تو قریش علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ اب اپنے ساتھی سے کہو کہ اب یہاں سے چلے جائیں (علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ) میں نے اس کا ذکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہاں، چنانچہ آپ وہاں سے روانہ ہو گئے۔

Narrated Al-Bara: When the Prophet intended to perform the `Umra he sent a person to the people of Mecca asking their permission to enter Mecca. They stipulated that he would not stay for more than three days and would not enter it except with sheathed arms and would not preach (Islam) to any of them. So `Ali bin Abi- Talib started writing the treaty between them. He wrote, "This is what Muhammad, Apostle of Allah has agreed to." The (Meccans) said, "If we knew that you (Muhammad) are the Apostle of Allah, then we would not have prevented you and would have followed you. But write, 'This is what Muhammad bin `Abdullah has agreed to..' " On that Allah's Apostle said, "By Allah, I am Muhammad bin `Abdullah, and, by Allah, I am Apostle of 'Allah." Allah's Apostle used not to write; so he asked `Ali to erase the expression of Apostle of Allah. On that `Ali said, "By Allah I will never erase it." Allah's Apostle said (to `Ali), "Let me see the paper." When `Ali showed him the paper, the Prophet erased the expression with his own hand. When Allah's Apostle had entered Mecca and three days had elapsed, the Meccans came to `Ali and said, "Let your friend (i.e. the Prophet) quit Mecca." `Ali informed Allah's Apostle about it and Allah's Apostle said, "Yes," and then he departed.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 53, Number 408

   صحيح البخاري2698براء بن عازبامحه فقال علي ما أنا بالذي أمحاه فمحاه رسول الله بيده وصالحهم على أن يدخل هو وأصحابه ثلاثة أيام ولا يدخلوها إلا بجلبان السلاح فسألوه ما جلبان السلاح فقال القراب بما فيه
   صحيح البخاري4251براء بن عازباعتمر النبي في ذي القعدة فأبى أهل مكة أن يدعوه يدخل مكة حتى قاضاهم على أن يقيم بها ثلاثة أيام فلما كتبوا الكتاب كتبوا هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله قالوا لا نقر لك بهذا لو نعلم أنك رسول الله ما منعناك شيئا ولكن أنت محمد بن عبد الله ف
   صحيح البخاري3184براء بن عازبلما أراد أن يعتمر أرسل إلى أهل مكة يستأذنهم ليدخل مكة فاشترطوا عليه أن لا يقيم بها إلا ثلاث ليال ولا يدخلها إلا بجلبان السلاح ولا يدعو منهم أحدا قال فأخذ يكتب الشرط بينهم علي بن أبي طالب فكتب هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله فقالوا لو علمنا أنك رسول الله ل
   صحيح البخاري4151براء بن عازبكانوا مع رسول الله يوم الحديبية ألفا وأربع مائة أو أكثر فنزلوا على بئر فنزحوها فأتوا رسول الله فأتى البئر وقعد على شفيرها ثم قال ائتوني بدلو من مائها فأتي به فبصق فدعا ثم قال دعوها ساعة فأرووا أنفسهم وركابهم حت
   صحيح مسلم4629براء بن عازبامحه فقال ما أنا بالذي أمحاه فمحاه النبي بيده قال وكان فيما اشترطوا أن يدخلوا مكة فيقيموا بها ثلاثا ولا يدخلها بسلاح إلا جلبان السلاح
   صحيح مسلم4631براء بن عازبأحصر النبي عند البيت صالحه أهل مكة على أن يدخلها فيقيم بها ثلاثا ولا يدخلها إلا بجلبان السلاح السيف وقرابه ولا يخرج بأحد معه من أهلها ولا يمنع أحدا يمكث بها ممن كان معه قال لعلي اكتب الشرط بيننا بسم الله الرحمن الرحيم هذا ما قاضى عليه محمد رسول الله فقال
   سنن أبي داود1832براء بن عازبصالحهم على أن لا يدخلوها إلا بجلبان السلاح فسألته ما جلبان السلاح قال القراب بما فيه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1832  
´محرم ہتھیار ساتھ رکھے اس کے حکم کا بیان۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ والوں سے صلح کی تو آپ نے ان سے اس شرط پر مصالحت کی کہ مسلمان مکہ میں جلبان السلاح کے ساتھ ہی داخل ہوں گے ۱؎ تو میں نے ان سے پوچھا: «جلبان السلاح» کیا ہے؟ انہوں نے کہا: «جلبان السلاح» میان کا نام ہے اس چیز سمیت جو اس میں ہو۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1832]
1832. اردو حاشیہ: اللہ عزوجل محدثین کو کروٹ کروٹ اپنی رحمتوں سے نوازے کسی خوبصورت انداز میں ایک تاریخی واقعہ سے فقہی مسئلہ استنباط کیا ہے۔کہ محرم کے لئے جائز ہے کہ اپنے ہتھیار رکھے۔اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہوگی ان کے فقیہ ہونے کی کتب ا حادیث کا تمام ذخیرہ اس طائفہ منصورہ کے فقیہ ہونے کی بین دلیل ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1832   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3184  
3184. حضرت براء ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جب عمرہ کرنے کا ارادہ فرمایا تو مکہ میں داخلے کے لیے اہل مکہ سے اجازت لینے کی خاطرایک آدمی بھیجا تو انھوں نے اس شرط کے ساتھ اجازت دی کہ آپ مکہ میں تین دن سے زیادہ قیام نہیں کریں گے۔ مکہ میں ہتھیار بند داخل ہوں گے اور کسی کو دین اسلام کی دعوت نہیں دیں گے۔ حضرت علی ؓ بن ابی طالب نے ان کے مابین شرائط لکھنا شروع کیں تو مضمون لکھا: یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے صلح کی ہے۔ مکہ والوں نےکہا: اگر ہمیں یقین ہوکہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں تو ہم آپ کو نہ روکتے بلکہ آپ کی بیعت کرلیتے لیکن مضمون اس طرح لکھو: اس شرط پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں محمد بن عبداللہ ہوں اور اللہ کی قسم! میں اللہ کا رسول بھی ہوں۔ آپ تو لکھنا نہیں جانتے تھے اس لیے آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: (لفظ)رسول اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3184]
حدیث حاشیہ:
حضرت علیؓ کا انکار حکم عدولی اور مخالفت کے طور پر نہ تھا۔
بلکہ آنحضرت ﷺ کی محبت اور خیرخواہی اور جوش ایمان کی وجہ سے تھا۔
اس لیے کوئی گناہ حضرت علی ؓ پر نہ ہوا۔
یہاں سے شیعہ حضرات کو سبق لینا چاہئے کہ جیسے حضرت علی ؓ نے محض محبت کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کے فرمانے کے خلاف کیا، ویسا ہی حضرت عمر ؓ نے بھی قصہ قرطاس میں آنحضرت ﷺ کی تکلیف کے خیال سے لکھے جانے میں مخالفت کی۔
دونوں کی نیت بخیر تھی۔
کار پاکاں از قیاس خود مگیر ایک جگہ حسن ظن کرنا، دوسری جگہ بدظنی صریح انصاف سے بعید ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3184   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3184  
3184. حضرت براء ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جب عمرہ کرنے کا ارادہ فرمایا تو مکہ میں داخلے کے لیے اہل مکہ سے اجازت لینے کی خاطرایک آدمی بھیجا تو انھوں نے اس شرط کے ساتھ اجازت دی کہ آپ مکہ میں تین دن سے زیادہ قیام نہیں کریں گے۔ مکہ میں ہتھیار بند داخل ہوں گے اور کسی کو دین اسلام کی دعوت نہیں دیں گے۔ حضرت علی ؓ بن ابی طالب نے ان کے مابین شرائط لکھنا شروع کیں تو مضمون لکھا: یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد رسول اللہ ﷺ نے صلح کی ہے۔ مکہ والوں نےکہا: اگر ہمیں یقین ہوکہ آپ اللہ کے رسول ﷺ ہیں تو ہم آپ کو نہ روکتے بلکہ آپ کی بیعت کرلیتے لیکن مضمون اس طرح لکھو: اس شرط پر محمد بن عبداللہ نے صلح کی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم! میں محمد بن عبداللہ ہوں اور اللہ کی قسم! میں اللہ کا رسول بھی ہوں۔ آپ تو لکھنا نہیں جانتے تھے اس لیے آپ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: (لفظ)رسول اللہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3184]
حدیث حاشیہ:

اس معاہدے میں یہ بھی تحریر تھا کہ اہل مکہ میں سے کوئی بھی آپ کے ساتھ جانے کو تیار ہوا تو آپ اسے مکہ سے باہر نہیں لے جا سکیں گے اور اگر آپ کے ساتھیوں میں سے کوئی شخص مکہ میں رہنا چاہے گا تو آپ اسے نہیں روکیں گے۔
(صحیح البخاري، الصلح، حدیث: 2699)
بہرحال رسول اللہ ﷺ نے اس صلح نامے کی پاسداری کی۔

اس حدیث سے تین دن یا اس سے کم و بیش معین مدت کے لیے صلح کا جواز ثابت ہوا۔

حضرت علی ؓ کے انکار سے بظاہر رسول اللہ ﷺ کی مخالفت معلوم ہوتی ہے لیکن حضرت علی ؓ نے قرآئن سے معلوم کر لیا تھا کہ آپ کا یہ امر وجوب کے لیے نہیں۔
حضرت علی ؓ نے ایسا صرف جوش ایمان اور آپ سے محبت کی بنا پر کیا تھا جیسا کہ حضرت عمر ؓ نے حدیث قرطاس سے ایسا سمجھ لیا تھا کہ آپ کا امر وجوب کے لیے نہیں بلکہ وہاں بھی آپ سے خیرخواہی پیش نظر تھی۔
لیکن حضرت عمر ؓ کے معاملے میں بہت شور کیا جاتا ہے جبکہ حضرت علی ؓ کے سلسلے میں نرم گوشہ اختیار کیا جاتا ہے۔
حالانکہ دونوں حضرات کی نیت بخیر تھی۔
اس لیے ایک مقام پر حسن ظن سے کام لینا اور دوسری جگہ بد ظنی کرنا نا انصافی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3184   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.