الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اس بیان میں کہ مخلوق کی پیدائش کیونکر شروع ہوئی
The Book of The Beginning of Creation
15. بَابُ خَيْرُ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ:
15. باب: مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہیں جن کو چرانے کے لیے پہاڑوں کی چوٹیوں پر پھرتا رہے۔
(15) Chapter. The best property of a Muslim will be sheep he takes to pasture on the tops of mountains.
حدیث نمبر: 3302
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن إسماعيل، قال: حدثني قيس، عن عقبة بن عمرو ابي مسعود، قال: اشار رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده نحو اليمن، فقال:" الإيمان يمان ها هنا الا إن القسوة وغلظ القلوب في الفدادين عند اصول اذناب الإبل حيث يطلع قرنا الشيطان في ربيعة ومضر".حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَيْسٌ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَمْرٍو أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ: أَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْيَمَنِ، فَقَالَ:" الْإِيمَانُ يَمَانٍ هَا هُنَا أَلَا إِنَّ الْقَسْوَةَ وَغِلَظَ الْقُلُوبِ فِي الْفَدَّادِينَ عِنْدَ أُصُولِ أَذْنَابِ الْإِبِلِ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنَا الشَّيْطَانِ فِي رَبِيعَةَ وَمُضَرَ".
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے اسماعیل نے بیان کیا کہ مجھ سے قیس نے بیان کیا اور ان سے عقبہ بن عمرو ابومسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایمان تو ادھر ہے یمن میں! ہاں، اور قساوت اور سخت دلی ان لوگوں میں ہے جو اونٹوں کی دمیں پکڑے چلاتے رہتے ہیں۔ جہاں سے شیطان کی چوٹیاں نمودار ہوں گی، یعنی ربیعہ اور مضر کی قوموں میں۔

Narrated `Uqba bin `Umar and Abu Mas`ud: Allah's Apostle pointed with his hand towards Yemen and said, "True Belief is Yemenite yonder (i.e. the Yemenite, had True Belief and embraced Islam readily), but sternness and mercilessness are the qualities of those who are busy with their camels and pay no attention to the Religion where the two sides of the head of Satan will appear. Such qualities belong to the tribe of Rabi`a and Mudar."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 54, Number 521

   صحيح البخاري3498عقبة بن عمروالجفاء وغلظ القلوب في الفدادين أهل الوبر عند أصول أذناب الإبل والبقر في ربيعة ومضر
   صحيح البخاري5303عقبة بن عمروالقسوة وغلظ القلوب في الفدادين حيث يطلع قرنا الشيطان ربيعة و مضر
   صحيح البخاري3302عقبة بن عمروالإيمان يمان ها هنا القسوة وغلظ القلوب في الفدادين عند أصول أذناب الإبل حيث يطلع قرنا الشيطان في ربيعة ومضر
   صحيح البخاري4387عقبة بن عمروالإيمان ها هنا وأشار بيده إلى اليمن الجفاء وغلظ القلوب في الفدادين عند أصول أذناب الإبل من حيث يطلع قرنا الشيطان ربيعة ومضر
   صحيح مسلم181عقبة بن عمروالإيمان ها هنا القسوة وغلظ القلوب في الفدادين عند أصول أذناب الإبل حيث يطلع قرنا الشيطان في ربيعة ومضر
   مسندالحميدي463عقبة بن عمروالجفا والقسوة وغلظ القلوب في الفدادين أهل الوبر عند أصول أذناب الإبل من ربيعة ومضر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3498  
´نجد میں فتنے`
«. . . النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مِنْ هَا هُنَا جَاءَتِ الْفِتَنُ نَحْوَ الْمَشْرِقِ وَالْجَفَاءُ وَغِلَظُ الْقُلُوبِ فِي الْفَدَّادِينَ أَهْلِ الْوَبَرِ عِنْدَ أُصُولِ أَذْنَابِ الْإِبِلِ وَالْبَقَرِ فِي رَبِيعَةَ وَمُضَرَ . . .»
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرف سے فتنے اٹھیں گے یعنی مشرق سے اور بے وفائی اور سخت دلی ان لوگوں میں ہے جو اونٹوں اور گایوں کی دم کے پاس چلاتے رہتے ہیں یعنی ربیعہ اور مضر کے لوگوں میں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَنَاقِبِ: 3498]

فوائد و مسائل
لغوی طور پر نجد بلند علاقے کو کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے دنیا میں بہت سارے نجد ہیں لیکن مذکورہ احادیث میں نجد کی تشریح مشرق اور عراق سے ہوئی ہے۔ ثابت ہوا کہ جو نجد فتنوں کی آماجگاہ ہے اور جہاں سے شیطان کا سینگ نمودار ہو گا، وہ مشرق کی سمت ہے اور اس سے مراد عراق ہی ہے۔ صحیح احادیث نبویہ پکار پکار کر یہی بتا رہی ہیں۔ صحابہ و تابعین کا بھی یہی خیال تھا۔

اسی بارے میں:
◈ مشہور لغوی ابن منظور افریقی (630-711ھ) لکھتے ہیں:
«ما ارتفع من تهامة إلى أرض العراق، فهو نجد .»
تہامہ کی حدود سے لے کر عراق تک جو بلند جگہ ہے، وہ نجد ہے۔ [لسان العرب: 413/3]

◈ احادیث نبویہ کا لغوی حل کرنے والے مشہور لغوی ابن اثیر (544-606 ھ) لکھتے ہیں:
«والنجد: ما ارتفع من الأرض، وهو اسم خاص لما دون الحجاز، مما يلي العراق .»
نجد بلند زمین کو کہتے ہیں۔ یہ حجاز کے باہر عراق سے ملحقہ علاقے کا خاص نام ہے۔ [النهاية فى غريب الحديث والاثر: 19/5]

◈ علامہ خطابی رحمہ اللہ (319-388 ھ) نجد کی توضیح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
«ومن كان بالمدينة كان نجده بادية العراق ونواحيها، وهى مشرق أهلها، وأصل النجد ما ارتفع من الأرض، والغور ما انخفض منها، وتهامة كلّها من الغور، ومنها مكة، والفتنة تبدو من المشرق، ومن ناحيتها يخرج يأجوج ومأجوج والدّجال، فى أكثر ما يروى من الأخبار.»
مدینہ والوں کا نجد عراق اور اس کے نواح کا علاقہ ہے۔ یہ مدینہ والوں کے مشرق میں واقع ہے۔ نجد کا اصلی معنیٰ بلند زمین ہے۔ نشیبی علاقے کو «غور» کہتے ہیں۔ تہامہ کا سارا علاقہ «غور» ہے۔ مکہ بھی اسی «غور» میں واقع ہے۔ اکثر روایات کے مطابق فتنے کا ظہور مشرق سے ہو گا، اسی جانب سے یاجوج ماجوج نکلیں گے اور یہیں سے دجال رونما ہو گا۔ [إعلام الحديث للخطابي: 4/2 127- ط - المغربية]

◈ امام اندلس حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ (368 - 463ھ) لکھتے ہیں:
«اشارة رسول الله صلى الله عليه وسلم - والله اعلم - الي ناحية المشرق بالفتنة لأن الفتنة الكبرى التى كانت مفتاح فساد ذات البين، هي قتل عثمان بن عفان رضى الله عنه، وهى كانت سبب وقعة الجمل، وحروب صفين، كانت فى ناحية المشرقي، ثم ظهور الخوارج فى أرض نجد والعراق وما وراء ها من المشرق .»
واللہ اعلم! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فتنے کے حوالے سے اشارہ مشرق کی طرف اس لیے تھا کہ سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا سبب بنا، وہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت تھی، یہی واقعہ جنگ جمل اور جنگ صفین کا سبب بنا۔ یہ سارے معاملات مشرق کی جانب سے رونما ہوئے۔ پھر خوارج کا ظہور بھی نجد کی زمین یعنی عراق اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوا۔ [الاستذكار: 519/8]

◈ علامہ ابوالحسن علی بن خلف عبدالملک العروف بہ ابن بطال (م: 449 ھ) لکھتے ہیں:
«قال الخطابي: القرن فى الحيوان يضرب به المثل فيما لا یحمد من الأمور، كقوله صلى الله عليه وسلم فى الفتنة وطلوعها من ناحية المشرق: ومنه يطلع قرن الشيطان، وقال فى الشمس: إنها تطلع بين قرني الشيطان، والقرن: الأمة من الناس یحدثون بعد فناء آخرين، قال الشاعر: مضى القرن الذى أنت منهم . . . . وخلفت فى قرن فأنت غريب وقال غيره: كان أهل المشرق يؤمئذ أهل كفر، فأخبره صلى الله عليه وسلم أن الفتنة تكون من تلك الناحية، وكذلك كانت الفتنة الكبرى التي كانت مفتاح فساد ذات البين، وهى مقتل عثمان رضى الله عنه، وكانت سبب وقعة الجمل وصفين، ثم ظهور الخوارج في ارض نجد والعراق وما وراء ها من المشرق، ومعلوم أن البدع إنما ابتدأت من المشرق، وإن الذين اقتتلوا بالجمل وصفين، بينهم كثير من أهل الشام والحجاز، فإن الفتنة وقعت فى ناحية المشرق، وكان سببا إلى افتراق كلمة المسلمين، وفساد نيات كثير منهم إلى يؤم القيامة، وكان رسول الله يحذر من ذلك ويعلمه قبل وقوعه، وذلك دليل على نبوته.»
حیوان کے سینگ کی مثال قبیح امور میں دی جاتی ہے جیسا کہ مشرق کی جانب سے فتنے کے رونما ہونے کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اسی طرف سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج کے بارے میں فرمایا کہ وہ شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے۔ سینگ سے مراد لوگوں کی وہ جماعت ہے جو ایک نسل کے گزر جانے کے بعد آتے ہیں۔ ایک شاعر نے کہا ہے کہ جب تیرے ہم عصر لوگ فوت ہو جائیں اور تو رہ جائے تو اس وقت تو اجنبی ہے۔ ایک اہل علم کا کہنا ہے کہ مشرق والے اس دور میں کافر تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دے دی تھی کہ فتنہ اسی سمت سے اٹھے گا۔ بالکل ایسے ہی ہوا کہ سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا باعث بنا، وہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت والا واقعہ تھا! یہی واقعہ بعد میں جنگ جمل اور صفین کا باعث بنا۔ پھر خوارج کا ظہور بھی نجد، عراق اور اس کے نواحی علاقوں میں ہوا۔ یہ سارے علاقے مشرق میں ہیں۔ سب کو یہ بھی معلوم ہے کہ بدعات کا آغاز بھی مشرق ہی سے ہوا۔ جنگ جمل اور صفین میں جن لوگوں نے شرکت کی تھی، ان کی بڑی تعداد شام اور حجاز سے تھی، لہذا یہ فتنہ بھی مشرق ہی میں رونما ہوا۔ یہ سانحات قیامت تک مسلمانوں کے افتراق اور ان کے ایک بڑے گروہ کے نفاق کا باعث بن گئے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فساد کے وقوع سے پہلے ہی اس بارے میں آگاہی دے کر اس سے متنبہ کر دیا۔ یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی بہت بڑی نشانی ہے۔ [شرح صحيح البخاري: 44/10]

◈ حافظ ابن الجوزی (508- 597 ھ) لکھتے ہیں:
«أما تخصيص الفتن بالمشرق، فلان الدجال يخرج من تلك الناحية، وكذلك يأجوج ومأجوج، وأما ذكر قرن الشيطان، فعلى سبيل المثل، كأن إبليس يطلع رأسه بالفتن من تلك النواحي.»
مشرق کے ساتھ فتنوں کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ دجال اور یاجوج ماجوج کا ظہور اسی سمت سے ہو گا۔ رہی بات شیطان کے سینگ کی تو یہ بطور مثال ہے، گویا کہ شیطان فتنوں کی صورت میں اس سمت سے اپنا سر اٹھائے گا۔ [كشف المشكل على الصحيحين: 493/2]

◈ شارح بخاری، علامہ کرمانی نجد اور غور کا معنی واضع کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
«ومن كان بالمدينة الطيبة – صلى الله على ساكنها – كان نجده بادية العراق ونواحيها، وهى مشرق أهلها، ولعل المراد من الزلازل والاضطرابات التى بين الناس من البلايا، ليناسب الفتن مع احتمال إرادة حقيقتها، قيل: إن أهل المشرق كانوا حينئذ أهل الكفر، فأخبر أن الفتنة تكون من ناحيتهم، كما أن وقعة الجمل وصفين وظهور الخوارج من أهل نجد والعراق وما والأها كانت من المشرق، وكذلك يكون خروج الدجال ويأجوج ومأجوج منها، وقيل: القرن فى الحيوان يضرب به المثل فيما لا يحمد من الأمور.»
مدینہ طیبہ کے باسیوں کا نجد، عراق اور اس کا نواحی علاقہ ہے۔ یہی اہل مدینہ کے مشرق میں واقع ہے۔ عراق میں زلزلوں اور فسادات سے مراد شاید وہ جنگیں ہیں جو لوگوں کے درمیان ہوئیں۔ یہی بات فتنوں کے حسب حال ہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حقیقی زلزلے مراد ہوں۔ ایک قول یہ ہے کہ اہل مشرق اس وقت کافر تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ فتنے اسی طرف سے کھڑے ہوں گے۔ پھر ایسا ہی ہوا کہ جنگ جمل اور صفین اور خوارج کے ظہور والے واقعات نجد و عراق اور اس کے نواحی علاقے کے لوگوں کے سبب ہی پیش آئے۔ یہ تمام مشرقی علاقے ہیں۔ اسی طرح دجال اور یاجوج و ماجوج کا ظہور بھی اسی علاقے سے ہو گا۔ اس حدیث میں مذکور سینگ کے بارے میں ایک قول یہ ہے کہ جانور کا سینگ بطور مثال قبیح امور کے لئے مستعمل ہے۔ [شرح الكرماني للبخاري: 168/24]

◈ شارح بخاری، علامہ عینی حنفی (762-859 ھ) امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب «باب قول النبى صلى الله عليه وسلم الفتنة من قبل المشرق» کے تحت لکھتے ہیں:
«مطابقته للترجمة فى قوله: وهناك الزلازل والفتن، وبها يطلع قرن الشيطان، وأشار بقوله: هناك نجد، ونجد من المشرق، قال الخطابي: نجد من جهة المشرق، ومن كان بالمدينة كان نجده بادية العراق ونواحيها، وهى مشرق أهل المدينة، وأصل النجد ما ارتفع من الأرض، وهو خلاف الغور، فإنه ما انخفض منها، وتهامة كلها من الغور، ومكة من تهامة اليمن، والفتن تبدو من المشرق، ومن ناحيتها يخرج يأجوج ومأجوج والدجال، وقال كعب: بها الداء العضال، وهو الهلاك فى الدين، وقال المهلب: إنما ترك الدعاء لأهل المشرق، ليضعفوا عن الشر الذى هو موضوع فى جهتهم لاستيلاء الشيطان بالفتن.»
اس حدیث کی امام بخاری رحمہ اللہ کی تبویب سے مطابقت اس طرح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہاں زلزے اور فتنے ہوں گے اور وہیں سے شیطان کا سینگ طلوع ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کہہ کر نجد کی طرف اشارہ فرمایا اور نجد مشرق ہی میں واقع ہے۔ فتنوں کا آغاز مشرق ہی سے ہوتا ہے۔ اسی طرف سے یاجوج و ماجوج اور دجال کا ظہور ہو گا۔ کعب کہتے ہیں: مشرق میں مہلک بیماری ہو گی اور وہ بیماری دین سے بیزاری ہے۔ مہلب کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مشرق کے لئے دعا اس لیے نہیں کی کہ وہ اس شر سے باز آ جائیں جو شیطان کے فتنوں کی صورت میں ان کی سمت میں موجود ہے۔ [عمدة القاري فى شرح صحيح البخاري: 200/24]

◈ نیز لکھتے ہیں:
«وإنما أشار إلى المشرق لأن أهله يؤمئذ كانوا أهل كفر، فأخبر أن الفئة تكون من تلك الناحية، وكذلك كانت، وهى وقعة الجمل ووقعة صفين، ثم ظهور الخوارج فى أرض نجد والعراق وما ورائها من المشرق، وكانت الفتنة الكبرى التى كانت مفتاح فساد ذات البين قتل عثمان رضي الله تعالى عنه، وكان يحذر من ذلك ويعلم به قبل وقوعه، وذلك من دلالات نبوته .»
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ اس لیے فرمایا کہ اہل مشرق اس دور میں کافر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتا دیا کہ فتنے اس طرف سے سر اٹھائیں گے۔ بالکل ایسے ہی ہوا۔ جنگ جمل و صفین اور خوارج کا ظہور نجد و عراق اور اس کے نواحی علاقوں ہی میں ہوا تھا۔ سیدنا عثمان رضی اللہ کی شہادت کی صورت میں سب سے بڑا فتنہ جو دائمی فساد کا سبب بنا، وہ بھی اسی سمت سے آیا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان فتنوں کے واقع ہونے سے قبل ہی اس سمت سے خبردار اور متنبہ فرماتے تھے۔ یہ آپ صلى اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی ایک بہت بڑی نشانی تھی۔ [عمدة القاري فى شرح صحيح البخاري: 199/24]

◈ شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ) فرماتے ہیں:
«وقال غيره: كان أهل المشرق يومئذ أهل كفر، فأخبر صلى الله عليه وسلم أن الفتنة تكون من تلك الناحية، فكان كما أخبر، وأول الفتن كان من قبل المشرق، فكان ذلك سببا للفرقة بين المسلمين، وذلك مما يحبه الشيطان ويفرح به، وكذلك البدع نشأت من تلك الجهة.»
علامہ خطابی کے علاوہ دوسرے اہل علم کہتے ہیں کہ اہل مشرق اس دور میں کافر تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دے دی کہ فتنے اسی سمت سے پیدا ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر کے عین مطابق سب سے پہلا فتنہ جو مسلمانوں میں دائمی اختلاف و افتراق کا باعث بنا، وہ مشرق ہی سے نمودار ہوا۔ اختلاف کو شیطان پسند کرتا ہے اور اس پر بہت خوش ہوتا ہے۔ اسی طرح بدعات نے بھی اسی علاقے میں پرورش پائی۔ [فتح الباري: 47/13]
↰ تمام گمراہ اور ظالم فرقے، مثلاً رافضی، جہمی، قدریہ، وغیرہ مشرق کی پیداوار ہیں۔ تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ فتنہ دجال بھی یہیں سے ظاہر ہو گا۔

◈ شارح ترمذی، علامہ محمد عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ (م: 1353ھ) اس حدیث کے الفاظ «يخرج قرن الشيطان» کی شرح میں فرماتے ہیں:
«يخرج قرن الشيطان، اي حزبه واهل وقته وزمانه واعوانه، ذكره السيوطي، وقيل: يحتمل أن يريد بالقرن قوة الشيطان، وما يستعين به على الإضلال.»
علامہ سیوطی کے بقول شیطان کے سینگ سے مراد اس کا گروہ، اس کا دور اور اس کے معاونین ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ سینگ سے مراد شیطان کی قوت اور اس کے گمراہ کن حربے ہیں۔ [تحفة الاحوذي: 381/4]

«رأس الكفر نحو المشرق» کا معنی بیان کرتے ہوئے ملا علی قاری حنفی ماتریدی (م: 1014 ھ) لکھتے ہیں:
«رأس الكفر، أى معظمه، ذكره السيوطي، والأظهر أن يقال: منشأة نحو المشرق.»
سیوطی نے ذکر کیا ہے کہ کفر کے سر سے مراد کفر کا بڑا حصہ ہے۔ زیادہ بہتر یہ معنی ہے کہ کفر کا سرچشمہ مشرق کی سمت ہے۔ [مرقاة المفاتيح فى شرح مشكاة المصابيح 8626 4039/9]

◈ نیز لکھتے ہیں:
«وقال النووي: المراد باختصاص المشرق به مزيد تسلط الشيطان على أهل المشرق، وكان ذلك فى عهده – صلى الله عليه وسلم – ويكون حين يخرج الدجال من المشرق، فإنه منشأ الفتن العظيمة ومثار الكفر.»
علامہ نووی فرماتے ہیں کہ فتنوں کو مشرق کے ساتھ خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اہل مشرق پر شیطان کا غلبہ زیادہ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی ایسا تھا اور دجال بھی مشرق ہی سے نمودار ہو گا۔ یوں مشرق بڑے بڑے فتنوں کا منبع اور کفر کا سرچشمہ ہے۔ [مرقاة المفاتيح فى شرح مشكاة المصابيح: 4037/9، ح: 6268]

فائدہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے ایک ٹیلے پر کھڑے ہو کر فرمایا تھا:
«هل ترون ما أرى؟ قالوا: لا، قال: فإني لأرى الفتن تقع خلال بيوتكم كوقع القطر .»
جو میں دیکھ رہا ہوں، کیا تمہیں نظر آ رہا ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: نہیں اللہ کے رسول!، فرمایا: بلاشبہ میں فتنوں کو تمہارے گھروں میں بارش کی طرح داخل ہوتے دیکھ رہا ہوں۔ [صحيح البخاري: 1046/2، ح: 7060 صحيح مسلم: 389/1، ح 389/1]

اس حدیث نبوی اور مذکورہ بالا احادیث کے درمیان جمع وتطبیق کرتے ہوئے:
◈ شارح بخاری، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ (773-852 ھ) فرما تے ہیں:
«وإنما اختصت المدينة بذلك، لأن قتل عثمان رضى الله عنه كان بها، ثم انتشرت الفتن فى البلاد بعد ذلك، فالقتال بالجمل وبصفين كان بسبب قتل عثمان، والقتال بالنهروان كان بسبب التحكيم بصفين، وكل قتال وقع فى ذلك العصر إنما تولد عن شيء من ذلك، أو عن شيء تولد عنه، ثم إن قتل عثمان كان أشد أسبابه الطعن على أمرائه، ثم عليه بتوليته لهم، وأول ما نشأ ذلك من العراق، وهى من جهة المشرق، فلا منافاة بين حديث الباب وبين الحديث الآتي أن الفتنة من قبل المشرق.»
اس بارے میں مدینہ منورہ کا خاص ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت یہیں ہوئی تھی۔ اس کے بعد تمام علاقوں میں فتنے پھیل گئے۔ جنگ جمل اور صفین سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت ہی کا نتیجہ تھی، جبکہ (خوارج کے خلاف) جنگ نہروان کا سبب جنگ صفین میں تحکیم والا معاملہ بنا۔ اس دور میں جو بھی لڑائی ہوئی بلاواسطہ یا بالواسطہ اس کا تعلق شہادت عثمان سے تھا۔ پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا سب سے بڑا سبب آپ رضی اللہ عنہ کے گورنروں پر طعن اور خود آپ رضی اللہ عنہ پر ان گورنروں کی تقرری کے حوالے سے کی جانے والی تشنیع تھی۔ اس معاملے کا آغاز عراق ہی سے ہوا تھا۔ عراق (مدینہ منورہ کے) مشرق کی سمت میں واقع ہے۔ یوں اس حدیث اور آنے والی حدیث میں کوئی تعارض نہیں کہ فتنے کی سرزمین مشرق (عراق) ہی ہے۔ [فتح الباري: 13/13]

الحاصل: احادیث نبویہ میں مذکور فتنوں کی آماجگاہ نجد سے مراد عراق ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احادیث میں واضح طور پر عراق کا نام موجود ہے۔ علمائے کرام اور فقہائے عظام کی تصریحات بھی یہی ہیں۔ حق وہی ہے جو صحیح احادیث سے ثابت ہو جائے۔ اس کے باوجود بعض لوگ ان صحیح احادیث کو چھپاتے ہوئے اہل حق پر کیچڑ اچھالتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حق کو سمجھنے اور اسے قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 46-48، حدیث\صفحہ نمبر: 11   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3302  
´ ایمان تو ادھر ہے یمن میں`
«. . .عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَمْرٍو أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ: أَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْيَمَنِ، فَقَالَ: الْإِيمَانُ يَمَانٍ هَا هُنَا أَلَا إِنَّ الْقَسْوَةَ وَغِلَظَ الْقُلُوبِ فِي الْفَدَّادِينَ عِنْدَ أُصُولِ أَذْنَابِ الْإِبِلِ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنَا الشَّيْطَانِ فِي رَبِيعَةَ وَمُضَرَ . . .»
. . . عقبہ بن عمرو ابومسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف اپنے ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایمان تو ادھر ہے یمن میں! ہاں، اور قساوت اور سخت دلی ان لوگوں میں ہے جو اونٹوں کی دمیں پکڑے چلاتے رہتے ہیں۔ جہاں سے شیطان کی چوٹیاں نمودار ہوں گی، یعنی ربیعہ اور مضر کی قوموں میں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ: 3302]

لغوی توضیح:
«الْقَسْوَةَ» سختی۔
«الْفَدَّادِيْنَ» کھیتی باڑی کرنے والے، اونٹوں اور مویشیوں میں مصروف رہنے والے لوگ۔
«قَرْنَا الشَّيْطَان» شیطان کے سر کے دونوں کنارے۔

فہم الحدیث:
اس حدیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یمن کے علاوہ باقی علاقوں میں ایمان ہے ہی نہیں یا یمن میں ہمیشہ ایمان رہے گا بلکہ مراد صرف یہ ہے یمن کے اس وقت کے لوگ اہل ایمان ہیں، ورنہ ایک صحیح روایت میں یہ بھی مذکور ہے کہ «الْاِيْمَانُ فِي اَهْلِ الْحِجَازِ» ایمان اہل حجاز میں ہے۔ [صحيح: مسند احمد 332/3]
↰ شیخ شعیب ارناؤط اسے صحیح کہتے ہیں۔ [مسند احمد محقق 14558]
اہل یمن کی تعریف کا سبب یہ بھی ہے کہ وہ لوگ بغیر جنگ کے اپنی مرضی و رغبت سے مسلمان ہو گئے تھے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 31   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3302  
3302. حضرت ابو مسعود عقبہ بن عمرو ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نےاپنے ہاتھ سے یمن کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ایمان، ادھر یمن میں ہے۔ آگاہ رہو کہ سختی اور سنگدلی ان کاشتکاروں میں ہے جو اونٹوں کےپیچھے آوازیں بلند کرنے والے ہیں جہاں شیطان کے دو سینگ نکلتے ہیں، یعنی ربیعہ اور مضرقبیلوں میں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3302]
حدیث حاشیہ:
یمن والے بغیر جنگ اور بغیر تکلیف کے اپنی رغبت اور خوشی سے مسلمان ہوگئے تھے۔
آنحضرت ﷺ نے ان کی تعریف فرمائی اور اس میں اس بات کا اشارہ ہے کہ یمن والے قوی الایمان رہیں گے بہ نسبت اور ملک والوں کے۔
یمن میں بڑے بڑے اولیاءاللہ اور عاملین بالحدیث گزرے ہیں۔
آخری زمانہ میں علامہ قاضی محمد بن علی شوکانی یمنی حدیث کے بڑے عالم گزرے ہیں۔
ان سے پہلے علامہ محمد بن اسماعیل امیر وغیرہ۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3302   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3302  
3302. حضرت ابو مسعود عقبہ بن عمرو ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نےاپنے ہاتھ سے یمن کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ایمان، ادھر یمن میں ہے۔ آگاہ رہو کہ سختی اور سنگدلی ان کاشتکاروں میں ہے جو اونٹوں کےپیچھے آوازیں بلند کرنے والے ہیں جہاں شیطان کے دو سینگ نکلتے ہیں، یعنی ربیعہ اور مضرقبیلوں میں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3302]
حدیث حاشیہ:

اہل یمن بلاجنگ و جدال بلکہ رضا ورغبت مسلمان ہوئے تھے، اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے ان کی تعریف فرمائی ہے۔
ویسے بھی وہاں بڑے بڑے اہل علم اور عاملین بالحدیث گزرے ہیں جیساکہ علامہ شوکانی اور علامہ صنعانی وغیرہ۔
اس دور میں شیخ مقبل بن ہاوی ؒ گزرے ہیں جو کتاب وسنت کی ترویج و اشاعت کے لیے ہر وقت مصروف رہتے تھے۔
راقم نے ایک یمنی دیکھا تھا جوکتب ستہ کی احادیث مع اسناد کا حافظ تھا۔

(فَدَّادِين)
کی تفسیر دوطرح سے ہے:
ایک یہ کہ فداد کی جمع ہے۔
اس کے معنی سخت آواز، یعنی وہ اونٹوں کے پیچھے آوازیں بلند کرنے والے ہوں گے۔
دوسرے یہ فدان کی جمع ہے۔
اس کے معنی کھیتی باڑی کا آلہ ہے۔
آپ نے کھیتی باڑی کرنے والوں کی مذمت اس لیے کہ اس کے باعث دینی امور کی طرف توجہ نہیں رہتی اور آخرت سے غفلت ہوجاتی ہے، پھر سنگدلی پیدا ہوجاتی ہے۔

بہرحال ان احادیث میں گھوڑوں، اونٹوں اور بکریوں کاذکر ہے، اس لیے امام بخاری ؒ نے انھیں ذکر کیا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3302   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.