الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
The Book of The Stories of The Prophets
حدیث نمبر: 3366
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد الواحد، حدثنا الاعمش، حدثنا إبراهيم التيمي، عن ابيه، قال: سمعت ابا ذر رضي الله عنه، قال: قلت: يا رسول الله، اي مسجد وضع في الارض اول؟ قال:" المسجد الحرام، قال: قلت: ثم اي، قال: المسجد الاقصى، قلت: كم كان بينهما، قال: اربعون سنة ثم اينما ادركتك الصلاة بعد فصله فإن الفضل فيه".حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ التَّيْمِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ أَوَّلَ؟ قَالَ:" الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ، قَالَ: قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ، قَالَ: الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى، قُلْتُ: كَمْ كَانَ بَيْنَهُمَا، قَالَ: أَرْبَعُونَ سَنَةً ثُمَّ أَيْنَمَا أَدْرَكَتْكَ الصَّلَاةُ بَعْدُ فَصَلِّهْ فَإِنَّ الْفَضْلَ فِيهِ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم تیمی نے، ان سے ان کے والد یزید بن شریک نے بیان کیا کہ میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! سب سے پہلے روئے زمین پر کون سی مسجد بنی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجد الحرام۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں نے عرض کیا اور اور اس کے بعد؟ فرمایا کہ مسجد الاقصیٰ (بیت المقدس) میں نے عرض کیا، ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا فاصلہ رہا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چالیس سال۔ پھر فرمایا اب جہاں بھی تجھ کو نماز کا وقت ہو جائے وہاں نماز پڑھ لے۔ بڑی فضیلت نماز پڑھنا ہے۔

Narrated Abu Dhar: I said, "O Allah's Apostle! Which mosque was first built on the surface of the earth?" He said, "Al- Masjid-ul-,Haram (in Mecca)." I said, "Which was built next?" He replied "The mosque of Al-Aqsa ( in Jerusalem) ." I said, "What was the period of construction between the two?" He said, "Forty years." He added, "Wherever (you may be, and) the prayer time becomes due, perform the prayer there, for the best thing is to do so (i.e. to offer the prayers in time).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 585

   صحيح البخاري3425جندب بن عبد اللهالمسجد الحرام قلت ثم أي قال ثم المسجد الأقصى قلت كم كان بينهما قال أربعون حيثما أدركتك الصلاة فصل والأرض لك مسجد
   صحيح البخاري3366جندب بن عبد اللهالمسجد الحرام قال قلت ثم أي قال المسجد الأقصى قلت كم كان بينهما قال أربعون سنة أينما أدركتك الصلاة بعد فصله فإن الفضل فيه
   صحيح مسلم1161جندب بن عبد اللهالمسجد الحرام قلت ثم أي قال المسجد الأقصى قلت كم بينهما قال أربعون سنة أينما أدركتك الصلاة فصل فهو مسجد
   صحيح مسلم1162جندب بن عبد اللهالمسجد الحرام قلت ثم أي قال المسجد الأقصى قلت كم بينهما قال أربعون عاما الأرض لك مسجد فحيثما أدركتك الصلاة فصل
   سنن النسائى الصغرى691جندب بن عبد اللهالمسجد الحرام قلت ثم أي قال المسجد الأقصى قلت وكم بينهما قال أربعون عاما الأرض لك مسجد فحيثما أدركت الصلاة فصل
   سنن ابن ماجه753جندب بن عبد اللهالمسجد الحرام قال قلت ثم أي قال ثم المسجد الأقصى قلت كم بينهما قال أربعون عاما الأرض لك مصلى فصل حيث ما أدركتك الصلاة
   مسندالحميدي134جندب بن عبد اللهالمسجد الحرام

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 691  
´سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟`
ابراہیم تیمی کہتے ہیں کہ گلی میں راستہ چلتے ہوئے میں اپنے والد (یزید بن شریک) کو قرآن سنا رہا تھا، جب میں نے آیت سجدہ پڑھی تو انہوں نے سجدہ کیا، میں نے کہا: ابا محترم! کیا آپ راستے میں سجدہ کرتے ہیں؟ کہا: میں نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد الحرام، میں نے عرض کیا: پھر کون سی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد الاقصیٰ ۱؎ میں نے پوچھا: ان دونوں کے درمیان کتنا فاصلہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چالیس سال کا، اور پوری روئے زمین تمہارے لیے سجدہ گاہ ہے، تو تم جہاں کہیں نماز کا وقت پا جاؤ نماز پڑھ لو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 691]
691 ۔ اردو حاشیہ:
➊ زمین پاک ہو تو کسی بھی جگہ سجدہ کیا جا سکتا ہے اور نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ گلی ہو یا بازار، گھر ہو یا مسجد۔ پلید جگہ پر نماز اور سجدہ جائز نہیں، چاہے وہ مسجد ہی میں کیوں نہ ہو۔
➋ مشہور یہ ہے کہ بیت اللہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے بنایا اور بیت المقدس حضرت سلیمان علیہ السلام نے بنایا۔ ان دونوں انبیاء علیہم السلام کے درمیان ایک ہزار سال سے زائد فاصلہ ہے۔ اس حدیث کی رو سے چالیس سال کا فاصلہ ہے، اس لیے کہا گیا ہے کہ اس حدیث میں آدم علیہ السلام کی بنا کا ذکر ہے۔ انہوں نے پہلے بیت اللہ بنایا، پھر چالیس سا ل بعد بیت المقدس بنایا۔ اور قرآن میں جو تعمیر کعبہ اور اس کی بنیادیں اٹھانے کی نسبت ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام کی طرف ہے تو اس سے سابقہ منہدم عمارت کی بنیادیں ازسرنو اٹھانا اور اس کی تعمیر کرنا مراد ہے، البتہ اہل کتاب کے نزدیک بیت المقدس حضرت یعقوب علیہ السلام نے بنایا۔ اگر یہ قول صحیح ہو تو پھر کوئی اشکال نہیں رہتا کیونکہ یعقوب علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں پیدا ہوچکے تھے۔
ساری زمین مسجد ہے احادیث میں کچھ مقامات مستثنیٰ ہیں، ان کے علاوہ باقی ہر پاک جگہ پر نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ علامہ اقبال نے کیا عجیب نکتہ نکالا ہے کہ ساری زمین مسجد ہے اور مسجد پر کافروں کا قبضہ تسلیم نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا ساری زمین آزاد کراؤ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 691   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث753  
´سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟`
ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد الحرام، میں نے پوچھا: پھر کون سی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر مسجد الاقصیٰ، میں نے پوچھا: ان دونوں کی مدت تعمیر میں کتنا فاصلہ تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چالیس سال کا، پھر ساری زمین تمہارے لیے نماز کی جگہ ہے، جہاں پر نماز کا وقت ہو جائے وہیں ادا کر لو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 753]
اردو حاشہ:
(1)
اس تعمیر سے مراد ان مسجدوں کی اوّلین تعمیر ہے جو آدم علیہ السلام کے ہاتھوں انجام پائی۔
جب حضرت ابراہیم واسماعیل علیہ السلام نے کعبہ شریف کی تعمیر کی اس وقت سابقہ تعمیر کے نشان مٹ چکے تھے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاتھوں بیت المقدس کی تعمیر بھی اس کی پہلی تعمیر نہیں تھی۔

(2)
اس سے ان دو مسجدوں کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
روئے زمین پر ان دو کے علاوہ صرف مسجد نبوی ہی ایک ایسی مسجد ہے جس کی زیارت کے لیے باقاعدہ اہتمام کے ساتھ سفر کرنا جائز ہے۔
ارشاد نبوی ہے:
کجاوے کس کے (بغرض تقرب)
سفر نہ کیا جائے مگر تین مسجدوں کی طرف، مسجد حرام، میری مسجد (مسجد نبوی)
اور مسجد اقصی۔ (صحيح البخاري، جزاء الصيد، باب حج النساء، حديث: 1864)

(3)
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ محض زیارت (تقرب)
کی نیت سے کسی اور مسجد کی طرف سفر کرکے جانا بھی جائز نہیں تو مزاروں وغیرہ کی زیارت کی نیت سے سفر بالاولی منع ہوگا۔ 4۔
قبروں کی زیارت شرعاً جائز ہے لیکن اس کا مقصد آخرت کی یاد اور موت سے عبرت حاصل کرنا ہے۔
یہ مقصد اپنی بستی  کے قبرستان کی زیارت سے بھی حاصل ہوسکتا ہے۔
خوبصورت گنبدوں، دیدہ زیب عمارتوں، میلوں ٹھیلوں اور نام نہاد عرسوں سے یہ مقصد فوت ہوجاتا ہے۔
بالخصوص آج کل کے معروف مزاروں کے عرسوں میں تو چہل پہل کے علاوہ مرد وزن کے اختلاط سے مزید بے شمار مفاسد جنم لے رہے ہیں۔
لہٰذا ان میں شرکت سے پرہیز ضروری ہے۔

(5)
ساری زمین کے مسجد ہونے کا یہ مطلب ہے کہ ان تین مساجد کے علاوہ دنیا کی تمام مساجد اجروثواب کے لحاظ سے برابر ہیں۔
نماز کے وقت جو مسجد قریب ہو وہاں نماز پڑھ لی جائےاور اگر مسجد قریب نہ ہوتو بھی مذکورہ بالا احادیث میں ذکر کردہ ممنوع مقامات کو چھوڑ کر کسی بھی پاک جگہ نماز پڑھ لی جاسکتی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 753   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3366  
3366. حضرت ابو ذر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ نے فرمایا: مسجد حرام۔ میں نے عرض کیا: پھر کونسی؟ آپ نے فرمایا: مسجداقصیٰ۔ میں نے دریافت کیا: ان دونوں میں کتنی مدت کا فاصلہ تھا؟ آپ نے فرمایا: چالیس سال کا، مگر جہاں بھی تمھیں نماز کا وقت آجائے وہیں نماز پڑھ لو کیونکہ فضیلت اسی میں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3366]
حدیث حاشیہ:
منکرین حدیث نے اس روایت کو بھی تختہ مشق بناکر حدیث نبوی سے مسلمانوں کو بدظن کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے اور یہ شبہ یہاں ظاہر کیا ہے کہ کعبہ کو تو حضرت ابراہیم ؑ نے بنایا تھا اور مسجد اقصیٰ کو حضرت سلیمان ؑ نے بنایا اور ان دونوں میں ہزار سال سے بھی زیادہ کا فاصلہ ہے۔
اس شبہ کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے کعبہ کو پہلے پہل نہیں بنایا تھا بلکہ کعبہ کی پہلی بنا حضرت آدم ؑ کے ہاتھوں ہوئی ہے تو ممکن ہے کعبہ بننے کے چالیس سال بعد خود حضرت آدم ؑ یا ان کی اولاد میں سے کسی نے مسجد اقصیٰ کی بنیاد رکھی ہو۔
حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کی ہردو بناؤں سے ان مقامات مقدسہ کی تجدید مراد ہے۔
شارحین حدیث لکھتے ہیں۔
ویرفع الإشکال بأن یقال الآیة والحدیث لایدلان علی بناء إبراهیم و سلیمان لما بنیا ابتداء وضعهما لهما بل ذالك تجدید لما کان أسسه غیرهما و بدأہ و قدروي أن أول من بنا البیت آدم و علی هذا فیجوز أن یکون غیرہ من ولدہ وضع بیت المقدس من بعدہ أربعین انتهی قلت بل آدم هو الذي وضعه أیضا قال الحافظ ابن حجر في کتابه التیجان لأبن هشام أن آدم لما بنی الکعبة أمرہ اللہ تعالیٰ السیر إلی بیت المقدس وأن یبنیه فبناہ و نسك فیه۔
(سنن نسائی، جلد:
اول، ص: 112)

یعنی آیت اور حدیث ہر دو کا اشکال یوں رفع کیا جاسکتا ہے کہ ہر دو اس امر پر دلالت نہیں کرتی ہیں کہ ان ہر دو کی ابتدائی بنیاد ان دونوں بزرگوں نے رکھی ہے۔
بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہردو کی ابتدائی بنیاد غیروں کے ہاتھوں کی ہے اور یہ دونوں حضرات ابراہیم ؑ اور حضرت سلیمان ؑ ان ہر دو مقامات کی تجدید کرنے والے ہیں اور مروی ہے کہ شروع میں بیت اللہ کو حضرت آدم ؑ نے بنایا اور اس کی بنیاد پر ممکن ہے کہ ان کی اولاد میں سے کسی نے ان کے چالیس سال بعد بیت المقدس کی بنیاد رکھی ہو۔
میں کہتا ہوں کہ خود آدم ؑ نے اس کی بھی بنیاد رکھی ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے نقل کیا ہے کہ جب حضرت آدم ؑ نے کعبہ کو بنایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم فرمایا کہ بیت المقدس جائیں اور اس کی بنیاد رکھیں۔
چنانچہ وہ تشریف لائے اور بیت المقدس کو بنایا اور وہاں عبادت الٰہی بجالائے۔
علامہ سندی فرماتے ہیں:
لیس المراد بناءإبراهیم للمسجد الحرام و بناء سلیمان للمسجد الأقصیٰ فإن بینهما مدة طویلة بل المراد البناء سوالھذین البنائین (حوالہ مذکور)
یعنی حدیث میں ان ہر دومساجد کی ابراہیمی اور سلیمانی بنیادیں مراد نہیں ہیں۔
ان کے درمیان تو طویل مدت کا فاصلہ ہے۔
بلکہ ان ہر دو کے سوا ابتدائی بناء مراد ہیں۔
بائیبل تواریخ2 باب3 آیات1-2 میں مذکور ہے کہ بیت المقدس کو حضرت سلیمان ؑ نے اپنے آباءو اجداد کی پرانی نشانیوں پر تعمیر کیا تھا جس سے بھی واضح ہے کہ بیت المقدس کے بانی اول حضرت سلیمان ؑ نہیں ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3366   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3366  
3366. حضرت ابو ذر ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!روئے زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ آپ نے فرمایا: مسجد حرام۔ میں نے عرض کیا: پھر کونسی؟ آپ نے فرمایا: مسجداقصیٰ۔ میں نے دریافت کیا: ان دونوں میں کتنی مدت کا فاصلہ تھا؟ آپ نے فرمایا: چالیس سال کا، مگر جہاں بھی تمھیں نماز کا وقت آجائے وہیں نماز پڑھ لو کیونکہ فضیلت اسی میں ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3366]
حدیث حاشیہ:
اس مقام پر ایک مشہور اشکال ہے کہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے تعمیر ہوا وہی ہے جو مکہ میں ہے۔
برکت والا اور تمام جہانوں کے لیے ہدایت ہے۔
(آل عمران: 96/3)
اور اس کی تعمیر حضرت ابراہیم ؑ نے کی جبکہ مسجد اقصیٰ کو حضرت سلیمان ؑ نے تعمیر کیا اور ان کے درمیان ایک ہزار سے بھی زیادہ سال کا فاصلہ ہے جبکہ اس حدیث میں چالیس سال مذکورہ ہیں۔
دراصل آیت کریمہ اور حدیث مذکور کا یہ مدلول نہیں کہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت سلیمان ؑ نے ان کو سب سے پہلے بنایا تھا بلکہ انھوں نے تو پہلی بنیادوں کی تجدید کی تھی کیونکہ بیت اللہ حضرت ابراہیم ؑ اور بیت المقدس حضرت سلیمان ؑ سے پہلے تعمیر ہو چکے تھے روایات میں ہے کہ سب سے پہلے حضرت آدم ؑ نے بیت اللہ تعمیر کیا لہٰذا ممکن ہے کہ حضرت آدم ؑ کی اولاد میں سے کسی نے اپنی ضرورت کے پیش نظر اس کے چالیس سال بعد بیت المقدس کی تعمیر کی ہو۔
یہ بھی ممکن ہے کہ مسجد حرام اور مسجد اقصیٰ کو سب سے پہلے فرشتوں نے بنایا ہواور ان کی تعمیر میں چالیس سال کا فرق ہو۔
البتہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کی طرف نسبت اس لیے کی گئی کہ انھوں نے ان کی تجدید کی تھی۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 495/6)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3366   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.