الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
The Book of The Stories of The Prophets
حدیث نمبر: 3403
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثني إسحاق بن نصر، حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن همام بن منبه، انه سمع ابا هريرة رضي الله عنه، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قيل لبني إسرائيل ادخلوا الباب سجدا وقولوا حطة فبدلوا فدخلوا يزحفون على استاههم وقالوا حبة في شعرة".حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ نَصْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قِيلَ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَقُولُوا حِطَّةٌ فَبَدَّلُوا فَدَخَلُوا يَزْحَفُونَ عَلَى أَسْتَاهِهِمْ وَقَالُوا حَبَّةٌ فِي شَعْرَةٍ".
مجھ سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے بیان کیا ‘ ان سے معمر نے ‘ ان سے ہمام بن منبہ نے اور انہوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بنی اسرائیل کو حکم ہوا تھا کہ بیت المقدس میں سجدہ و رکوع کرتے ہوئے داخل ہوں اور یہ کہتے ہوئے کہ یا اللہ! ہم کو بخش دے۔ لیکن انہوں نے اس کو الٹا کیا اور اپنے چوتڑوں کے بل گھسٹتے ہوئے داخل ہوئے اور یہ کہتے ہوئے «حبة في شعرة» (یعنی بالیوں میں دانے خوب ہوں) داخل ہوئے۔

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "It was said to Bani Israel, Enter the gate (of the town) with humility (prostrating yourselves) and saying: "Repentance", but they changed the word and entered the town crawling on their buttocks and saying: "A wheat grain in the hair."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 615

   صحيح البخاري4641عبد الرحمن بن صخرادخلوا الباب سجدا وقولوا حطة نغفر لكم خطاياكم
   صحيح البخاري4479عبد الرحمن بن صخرادخلوا الباب سجدا وقولوا حطة
   صحيح البخاري3403عبد الرحمن بن صخرادخلوا الباب سجدا وقولوا حطة فبدلوا فدخلوا يزحفون على أستاههم وقالوا حبة في شعرة
   صحيح مسلم7523عبد الرحمن بن صخرادخلوا الباب سجدا وقولوا حطة يغفر لكم خطاياكم فبدلوا فدخلوا الباب يزحفون على أستاههم وقالوا حبة في شعرة
   جامع الترمذي2956عبد الرحمن بن صخرادخلوا الباب سجدا
   صحيفة همام بن منبه116عبد الرحمن بن صخرادخلوا الباب سجدا وقولوا حطة يغفر لكم خطاياكم فبدلوا فدخلوا الباب يزحفون على أستاههم وقالوا حبة في شعرة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2956  
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت کریمہ: «ادخلوا الباب سجدا» اور جھکے جھکے دروازہ میں داخل ہونا (البقرہ: ۵۸) کے بارے میں فرمایا: بنی اسرائیل چوتڑ کے بل کھسکتے ہوئے داخل ہوئے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2956]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اور جھکے جھکے دروازہ میں داخل ہونا (البقرۃ: 58)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2956   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3403  
3403. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بنی اسرائیل سے کہا گیا کہ تم سجدہ کرتے ہوئے دروازے سے داخل ہوجاؤ اور حِطَّةٌ کہو، یعنی ہمارے گناہ معاف کردے۔ انھوں نے اسے تبدیل کردیا اور ا پنے سرینوں کو گھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے جبکہ زبان سے حبة في شعرة کہہ رہے تھے۔ اس کے معنی ہیں: بالیوں میں دانے خوب ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3403]
حدیث حاشیہ:
پروردگار سےٹھٹھا کےطور پر یہ کہنا شروع کیا تو خدا کےغضب میں گرفتار ہوئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3403   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3403  
3403. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بنی اسرائیل سے کہا گیا کہ تم سجدہ کرتے ہوئے دروازے سے داخل ہوجاؤ اور حِطَّةٌ کہو، یعنی ہمارے گناہ معاف کردے۔ انھوں نے اسے تبدیل کردیا اور ا پنے سرینوں کو گھسیٹتے ہوئے داخل ہوئے جبکہ زبان سے حبة في شعرة کہہ رہے تھے۔ اس کے معنی ہیں: بالیوں میں دانے خوب ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3403]
حدیث حاشیہ:

بنی اسرائل سے کہا گیا تھا کہ جب تم بیت المقدس میں داخل ہو تو سر جھکاتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے گناہوں کی معافی مانگتے ہوئے اندرجاؤ لیکن انھوں نےسارا پروگرام ہی تبدیل کردیا۔
سرجھکانےکے بجائے اکڑ اکڑ کر داخل ہوئے اور زبان سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کی بجائے مہمل کلام بکنے لگے۔
یہ ان کی نادانی اور سرکشی تھی اور ان کا مقصد اللہ کے حکم کی مخالفت کرنا تھا۔
اس بنا پر وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہوئے۔
ان پر طاعون کی بیماری مسلط کردی گئی چنانچہ ستر ہزار بنی اسرائیل ایک گھڑی میں لقمہ اجل بن گئے۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسان کو ہمیشہ عجز و انکسار اختیار کرتے ہوئےاللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرنی چاہیے ان پر اصرار کرتے ہوئے اکڑنا اللہ کی طرف سے عذاب کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
أعاذنا اللہ منها۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3403   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.