الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: فضیلتوں کے بیان میں
The Book of Virtues
25. بَابُ عَلاَمَاتِ النُّبُوَّةِ فِي الإِسْلاَمِ:
25. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان۔
(25) Chapter. The signs of Prophethood in Islam.
حدیث نمبر: 3596
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثني سعيد بن شرحبيل، حدثنا ليث، عن يزيد، عن ابي الخير، عن عقبة بن عامر، ان النبي صلى الله عليه وسلم خرج يوما فصلى على اهل احد صلاته على الميت، ثم انصرف إلى المنبر، فقال:" إني فرطكم وانا شهيد عليكم إني والله لانظر إلى حوضي الآن، وإني قد اعطيت خزائن مفاتيح الارض، وإني والله ما اخاف بعدي ان تشركوا ولكن اخاف ان تنافسوا فيها".حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ شُرَحْبِيلٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ، فَقَالَ:" إِنِّي فَرَطُكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ إِنِّي وَاللَّهِ لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ، وَإِنِّي قَدْ أُعْطِيتُ خَزَائِنَ مَفَاتِيحِ الْأَرْضِ، وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ بَعْدِي أَنْ تُشْرِكُوا وَلَكِنْ أَخَافُ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا".
مجھ سے سعید بن شرحبیل نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے یزید بن حبیب نے، ان سے ابوالخیر نے، ان سے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مدینہ سے باہر نکلے اور شہداء احد پر نماز پڑھی جیسے میت پر پڑھتے ہیں۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں (حوض کوثر پر) تم سے پہلے پہنچوں گا اور قیامت کے دن تمہارے لیے میر سامان بنوں گا۔ میں تم پر گواہی دوں گا اور اللہ کی قسم میں اپنے حوض کوثر کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں، مجھے روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف نہیں کہ تم شرک کرنے لگو گے۔ میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ کہیں دنیا داری میں پڑ کر ایک دوسرے سے رشک و حسد نہ کرنے لگو۔

Narrated `Uqba bin `Amr: The Prophet once came out and offered the funeral prayer for the martyrs of Uhud, and proceeded to the pulpit and said, "I shall be your predecessor and a witness on you, and I am really looking at my sacred Fount now, and no doubt, I have been given the keys of the treasures of the world. By Allah, I am not afraid that you will worship others along with Allah, but I am afraid that you will envy and fight one another for worldly fortunes."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 56, Number 795

   صحيح البخاري3596عقبة بن عامرإني فرطكم وأنا شهيد عليكم إني والله لأنظر إلى حوضي الآن أعطيت خزائن مفاتيح الأرض وإني والله ما أخاف بعدي أن تشركوا ولكن أخاف أن تنافسوا فيها
   صحيح البخاري6426عقبة بن عامرإني فرطكم وأنا شهيد عليكم الله لأنظر إلى حوضي الآن أعطيت مفاتيح خزائن الأرض أو مفاتيح الأرض الله ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي ولكني أخاف عليكم أن تنافسوا فيها
   صحيح البخاري4085عقبة بن عامرإني فرط لكم أنا شهيد عليكم أنظر إلى حوضي الآن أعطيت مفاتيح خزائن الأرض ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي لكني أخاف عليكم أن تنافسوا فيها
   صحيح البخاري6590عقبة بن عامرإني فرط لكم أنا شهيد عليكم أنظر إلى حوضي الآن أعطيت مفاتيح خزائن الأرض ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي لكن أخاف عليكم أن تنافسوا فيها
   صحيح البخاري1344عقبة بن عامرإني فرط لكم أنا شهيد عليكم أنظر إلى حوضي الآن أعطيت مفاتيح خزائن الأرض ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي لكن أخاف عليكم أن تنافسوا فيها
   صحيح مسلم5976عقبة بن عامرإني فرط لكم أنا شهيد عليكم أنظر إلى حوضي الآن أعطيت مفاتيح خزائن الأرض ما أخاف عليكم أن تشركوا بعدي لكن أخاف عليكم أن تتنافسوا فيها
   سنن النسائى الصغرى1956عقبة بن عامرإني فرط لكم وأنا شهيد عليكم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4085  
´ارشاد نبوی کہ احد پہاڑ ہم سے محبت رکھتا ہے`
«. . . عَنْ عُقْبَةَ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمًا فَصَلَّى عَلَى أَهْلِ أُحُدٍ صَلَاتَهُ عَلَى الْمَيِّتِ , ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى الْمِنْبَرِ , فَقَالَ:" إِنِّي فَرَطٌ لَكُمْ وَأَنَا شَهِيدٌ عَلَيْكُمْ , وَإِنِّي لَأَنْظُرُ إِلَى حَوْضِي الْآنَ , وَإِنِّي أُعْطِيتُ مَفَاتِيحَ خَزَائِنِ الْأَرْضِ , أَوْ مَفَاتِيحَ الْأَرْضِ , وَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تُشْرِكُوا بَعْدِي وَلَكِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ أَنْ تَنَافَسُوا فِيهَا . . .»
. . . عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن باہر تشریف لائے اور شہداء احد پر نماز جنازہ ادا کی، جیسے مردوں پر ادا کی جاتی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے اور فرمایا کہ میں تمہارے آگے جاؤں گا، میں تمہارے حق میں گواہ رہوں گا۔ میں اب بھی اپنے حوض (حوض کوثر) کو دیکھ رہا ہوں۔ مجھے دنیا کے خزانوں کی کنجی عطا فرمائی گئی ہے یا (آپ حوض کوثر نے یوں فرمایا) «مفاتيح الأرض» یعنی زمین کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ (دونوں جملوں کا مطلب ایک ہی ہے)۔ اللہ کی قسم! میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم میرے بعد شرک کرنے لگو گے بلکہ مجھے اس کا ڈر ہے کہ تم دنیا کے لیے حرص کرنے لگو گے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْمَغَازِي: 4085]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 4085کا باب: «بَابُ أُحُدٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّهُ:»
ترجمہ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے احد پہاڑ کی فضیلت ذکر فرمائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے۔
اور ذیل میں تین احادیث ذکر فرمائیں، دو احادیث سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں، جس میں واضح طور پر باب سے حدیث کی مناسبت موجود ہے، تیسری حدیث جو کہ سیدنا عقبہ بن عامر الجھنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، اس میں باب سے مناسبت لفظ «أحد» کے ساتھ ہے، یعنی ترجمۃ الباب میں احد کا ذکر ہے اور حدیث میں بھی لفظ احد مذکور ہے، لہٰذا نسبت لفظی موجود ہے۔

چنانچہ علامہ عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مطابقة للترجمة لا تاتي الا من حديث إن احد مذكور فيه» [عمدة القاري للعيني: 438/17]
یعنی ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت لفظ «أحد» میں مذکور ہے۔
لہٰذا یہ مناسبت ظاہری ہے، یہ حقیر اور ناچیز بندہ کہتا ہے، اللہ تعالیٰ کی توفیق سے کہ ترجمۃ الباب کے دو اجزاء ہیں پہلا لفظ «أحد» اور دوسرا جزء لفظ «يحبنا» علامہ عینی اور دیگر شارحین کو وضاحت سے لفظ «أحد» کی مناسبت واضح ہوئی، مگر ترجمۃ الباب کا دوسرا جزء لفظ «يحبنا» سے کوئی مناسبت دکھلائی نہیں دیتی، لیکن اگر غور کیا جائے تو «يحبنا» کی مناسبت حدیث میں موجود ہے، مگر بہت گہری سوچ کے بعد، امام بخاری رحمہ اللہ کی فقاہت پر داد دینی چاہیے، آپ نے بڑے ہی دقیق انداز میں ایک بہت باریک چیز کی طرف اشارہ فرمایا ہے، وہ یہ ہے کہ تحت الباب جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے، اس میں حوض کوثر کا ذکر ہے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ حوض کوثر سے وہی حضرات پانی پئیں گے جو جنتی ہوں گے، جن کا تعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور اتباع سے گہرا ہو گا، کیونکہ سنت سے دور رہنے والے اور بدعتی کو یہ پانی نصیب نہ ہو گا، لہٰذا حوض کوثر، جنت کی بہت بڑی نعمت ہے، بعین اسی طرح یہ احد پہاڑ کا تعلق بھی آخرت کے ساتھ قائم ہے، وہ کس طرح؟
امام ابن شبہ رحمہ اللہ تاریخ المدینہ میں مرفوعاً ذکر فرماتے ہیں کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے مزید روایت میں اضافہ ہے کہ:
«ان احدا هذا لعلي باب من أبواب الجنة .» اس کی سند میں یحییٰ بن عبداللہ متروک ہے۔ مگر مسند احمد کی حدیث اس مسئلے پر شاہد ہے۔
مذکورہ روایت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ احد پہاڑ کا بھی تعلق جنت سے ہے، بعین اسی طرح جس طرح سے حوضِ کوثر کا تعلق بھی جنت ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أن الحب من الجانبين على حقيقته وظاهره لكون أحد من جبال الجنة كما يثبت فى حديث أبى عبس بن جبر مرفوعا جبل أحد يحبنا و نحبه و هو من جبال الجنة [فتح الباري لابن حجر: 322/7]
حقیقتاً اور ظاہراً یہ محبت (پہاڑ کی) دونوں جانب ہے، (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو اس سے محبت ہے، اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ سے محبت کرتا ہے، یہ پہاڑ احد کا جنت کے پہاڑوں میں سے ہے، جیسا کہ حدیث مروی ہے، ابوعبس بن جبر سے مرفوعاً یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے اور وہ (احد) جنت کے پہاڑوں میں سے ہے۔
حافظ صاحب کے اس بیان سے اور پیش کردہ حدیث سے ہماری بیان کی ہوئی مناسبت میں مزید تقویت حاصل ہوتی ہے۔ لہٰذا اب ترجمۃ الباب کا دوسرا جزء «يحبنا» سے حدیث کی مناسبت واضح ہوئی کہ جس طرح حدیث کی اتباع اور بدعت سے بچنے والا ہی حوض کوثر سے پانی پیئے گا، بعین اسی طرح سے حدیث سے محبت رکھنے والا ہی احد پہاڑ سے محبت رکھے گا، لہٰذا احد پہاڑ کی محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے محبت کی دلیل ہے اور جو شخص سنت کی اتباع اور اس کی محبت میں اپنی زندگی بسر کرے گا تو یقیناً وہ حوض کوثر سے مستفید ہو گا، لہٰذا یہیں سے ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔

فائدہ:
بعض حضرات کا کہنا ہے کہ امت محمدیہ کبھی بھی شرک میں ملوث نہیں ہو گی، چاہے وہ سجدے کرے، چاہے وہ منت و مرادیں قبر والوں سے وابستہ رکھے، الغرض کسی بھی حال میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی شرک میں مبتلا نہ ہوں گے اور وہ اپنے اس موقف کی تائید میں مذکورہ بالا حدیث اللہ کی قسم میں تمہارے بارے میں اس سے نہیں ڈرتا کہ تم شرک کرو گے سے استدلال کو اخذ کرتے ہیں۔
محترم قارئین! اس حدیث سے پوری امت کو مواحد ثابت کرنا ایک بہت بڑی غلط فہمی یا پھر بہت بڑی خیانت ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ہرگز یہ مطلب اخذ نہیں ہوتا کہ امت جو چاہے کرتی پھرے، لیکن وہ کبھی بھی شرک کے جرم کا ارتکا ب نہیں کرے گی، اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں، نمبر ایک، مذکورہ بالا حدیث کا تعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہے، اور دوم، قرآن مجید کی آیات اور دیگر احادیث واضح طور پر اس مسئلہ پر دال ہیں کہ امت سے کئی لوگ شرک کریں گے، جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
«وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّـهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ .» [12-يوسف:106]
ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان رکھنے کے باوجود بھی مشرک ہیں۔
سورۃ یوسف کی آیت قیامت تک کے مسلمانوں کو مخاطب کرتی ہے اور یہ آیت مبارکہ واضح کرتی ہے کہ مشرک مسلمانوں میں قیامت تک ہوں گے، بلکہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر غور کیا جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس مسئلے کو اپنی حدیث کے ذریعہ حل فرمایا ہے۔
چنانچہ امام ابن ماجہ رحمہ اللہ اپنی سنن میں حدیث کا ذکر فرماتے ہیں:
«وان مما أتخوف صلى امتي أئمة مضلين، وستعبد قبائل من أمتي الأوثان وستلحق قبائل من أمتي بالمشركين .» [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن: 3952]
مجھے اپنی امت کے بارے میں (سب سے زیادہ) گمراہ کرنے والے لیڈروں کا خوف ہے، میری امت کے کچھ قبیلے اوثان (بتوں) کی پوجا کریں گے اور میری امت کے کچھ قبائل مشرکوں سے مل جائیں گے۔
اس حدیث میں امت کے بارے میں صاف طور پر واضح کیا گیا ہے کہ امت کے کچھ لوگ بتوں کی پوجا کریں گے، یاد رکھیں! بتوں کی پوجا سے مراد مورتیاں نہیں ہیں، بلکہ ہر وہ شے ہے، جسے اللہ کے علاوہ پوجا جائے، چاہے وہ بت ہو، قبر ہو، بزرگ ہو، وغیرہ وغیرہ۔ لہٰذا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق امت کے کچھ لوگ مشرک ہو جائیں گے، اب رہا مسئلہ کہ کن لوگوں کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے اپنی امت میں شرک کا ڈر نہیں ہے؟ اس کے بارے میں جواب دیتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وان أصحابه لا يشركون بعده فكان كذالك .» فتح الباري لابن حجر: 762/6
(حدیث سے مراد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ہیں، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شرک نہ کریں گے، (لہٰذا حدیث کے مطابق) ایسا ہی ہوا تھا۔

امام قرطبی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«أنه قد أمن على جملة أصحابه ان يبدلوا دين الإسلام بدين الشرك .» [المفهم 93/6]
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو اس بات سے امن دیا کہ وہ دین اسلام کو چھوڑ کر شرک کی طرف مائل ہوں، (یعنی صحابہ کبھی شرک کی طرف نہیں جائیں گے، یہ امن انہیں نصیب ہوا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے)۔
لہٰذا شرک سے امن صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کو تھا، جو مکمل طور پر مواحد تھے اور جنہوں نے ایمان کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور اسی حالت میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ جس حدیث میں شرک کرنے کی نفی ہے، اس حدیث سے مراد صحابہ ہیں جنہوں نے ایمان کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور ایمان کی حالت میں ہی فوت ہوئے، لہٰذا اس سے مراد کلی امت نہیں ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 51   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3596  
3596. حضرت عقبہ بن عامر ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک دن آپ باہر تشریف لائے اور شہدائے اُحد پرایسے نماز پڑھی جیسے فوت شدگان کی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔ پھر آپ منبر پر تشریف لاکر فرمانے لگے: میں تمہارا امیر کارواں اور منتظم بن کر جارہا ہوں اور میں تم پر گواہ بنوں گا۔ اللہ کی قسم!میں اپنے حوض کو اب بھی دیکھ رہا ہوں۔ مجھے روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں، اللہ کی قسم! مجھے اپنے بعد تمہارے شرک کا ڈر نہیں لیکن یہ اندیشہ ضرور ہے کہ مبادا دنیا داری میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3596]
حدیث حاشیہ:
آپ کی یہ پیش گوئی بالکل سچ ثابت ہوئی، مسلمانوں کو بڑا عروج حاصل ہوا، مگر یہ آپس کے رشک اور حسد سے خراب ہوگئے۔
تاریخ بتلاتی ہے کہ مسلمانوں کو خود اپنوں ہی کے ہاتھوں جو تکالیف ہوئیں وہ اغیار کے ہاتھوں سے نہیں ہوئیں۔
مسلمانوں کے لیے اغیار کی ریشہ دوانیوں اور برے منصوبوں میں بھی بیشتر غدار مسلمانوں کا ہاتھ رہا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3596   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3596  
3596. حضرت عقبہ بن عامر ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ ایک دن آپ باہر تشریف لائے اور شہدائے اُحد پرایسے نماز پڑھی جیسے فوت شدگان کی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے۔ پھر آپ منبر پر تشریف لاکر فرمانے لگے: میں تمہارا امیر کارواں اور منتظم بن کر جارہا ہوں اور میں تم پر گواہ بنوں گا۔ اللہ کی قسم!میں اپنے حوض کو اب بھی دیکھ رہا ہوں۔ مجھے روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں، اللہ کی قسم! مجھے اپنے بعد تمہارے شرک کا ڈر نہیں لیکن یہ اندیشہ ضرور ہے کہ مبادا دنیا داری میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرنے لگو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3596]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں دو قسم کی پیش گوئیوں کا ذکر ہے ایک خزانوں اور دولت کی فراوانی واقعی مسلمانوں کو اس سلسلے میں بہت عروج ملا۔
دوسرے مسلمانوں کا باہمی حسد و رقابت۔
آپ کی یہ پیش گوئی بھی حرف پوری ہوئی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں کو خود اپنوں ہی کے ہاتھوں جو تکلیفیں ہوئیں وہ غیروں کے ہاتھوں سے نہیں ہوئیں۔
مسلمانوں کے لیے غیروں کی شرارتوں ریشہ دوانیوں اور برے منصوبوں کے پیچھے بھی غدار مسلمانوں کا ہاتھ رہا ہے اس کی داستان بہت طویل ہے۔
اس سلسلے میں قارئین کو تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3596   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.