الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی فضیلت
The Virtues and Merits of The Companions of The Prophet
6. بَابُ مَنَاقِبُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ أَبِي حَفْصٍ الْقُرَشِيِّ الْعَدَوِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:
6. باب: ابوحفص عمر بن خطاب قرشی عدوی رضی اللہ عنہ کی فضیلت کا بیان۔
(6) Chapter. The merits of Umar bin Al-Khattab Abi Hafs Al-Qurashi Al-Adawi.
حدیث نمبر: 3681
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثني محمد بن الصلت ابو جعفر الكوفي، حدثنا ابن المبارك، عن يونس، عن الزهري، قال: اخبرني حمزة، عن ابيه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" بينا انا نائم شربت يعني اللبن حتى انظر إلى الري يجري في ظفري او في اظفاري، ثم ناولت عمر"، فقالوا: فما اولته، قال:" العلم".حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الصَّلْتِ أَبُو جَعْفَرٍ الْكُوفِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي حَمْزَةُ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ شَرِبْتُ يَعْنِي اللَّبَنَ حَتَّى أَنْظُرَ إِلَى الرِّيِّ يَجْرِي فِي ظُفُرِي أَوْ فِي أَظْفَارِي، ثُمَّ نَاوَلْتُ عُمَرَ"، فَقَالُوا: فَمَا أَوَّلْتَهُ، قَالَ:" الْعِلْمَ".
مجھ سے ابوجعفر محمد بن صلت کوفی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن مبارک نے بیان کیا، ان سے یونس نے، ان سے زہری نے بیان کیا، کہا مجھ کو حمزہ نے خبر دی اور انہیں ان کے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے خواب میں دودھ پیا، اتنا کہ میں دودھ کی سیرابی دیکھنے لگا جو میرے ناخن یا ناخنوں پر بہ رہی ہے، پھر میں نے پیالہ عمر کو دے دیا۔ صحابہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! اس خواب کی تعبیر کیا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی تعبیر علم ہے۔

Narrated Hamza's father: Allah's Apostle said, "While I was sleeping, I saw myself drinking (i.e. milk), and I was so contented that I saw the milk flowing through my nails. Then I gave (the milk) to `Umar." They (i.e. the companions of the Prophet) asked, "What do you interpret it?" He said, "Knowledge."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 57, Number 30

   صحيح البخاري82عبد الله بن عمربينا أنا نائم أتيت بقدح لبن فشربت حتى إني لأرى الري يخرج في أظفاري ثم أعطيت فضلي عمر بن الخطاب قالوا فما أولته يا رسول الله قال العلم
   صحيح البخاري3681عبد الله بن عمربينا أنا نائم شربت يعني اللبن حتى أنظر إلى الري يجري في ظفري أو في أظفاري ثم ناولت عمر فقالوا فما أولته قال العلم
   صحيح البخاري7027عبد الله بن عمربينا أنا نائم أتيت بقدح لبن فشربت منه حتى إني لأرى الري يجري ثم أعطيت فضله عمر قالوا فما أولته يا رسول الله قال العلم
   صحيح البخاري7006عبد الله بن عمربينا أنا نائم أتيت بقدح لبن فشربت منه حتى إني لأرى الري يخرج من أظفاري ثم أعطيت فضلي يعني عمر قالوا فما أولته يا رسول الله قال العلم
   صحيح البخاري7032عبد الله بن عمربينا أنا نائم أتيت بقدح لبن فشربت منه ثم أعطيت فضلي عمر بن الخطاب قالوا فما أولته يا رسول الله قال العلم
   صحيح البخاري7007عبد الله بن عمربينا أنا نائم أتيت بقدح لبن فشربت منه حتى إني لأرى الري يخرج من أطرافي فأعطيت فضلي عمر بن الخطاب فقال من حوله فما أولت ذلك يا رسول الله قال العلم
   صحيح مسلم6190عبد الله بن عمربينا أنا نائم إذ رأيت قدحا أتيت به فيه لبن فشربت منه حتى إني لأرى الري يجري في أظفاري ثم أعطيت فضلي عمر بن الخطاب قالوا فما أولت ذلك يا رسول الله قال العلم
   جامع الترمذي3687عبد الله بن عمررأيت كأني أتيت بقدح من لبن فشربت منه فأعطيت فضلي عمر بن الخطاب قالوا فما أولته يا رسول الله قال العلم
   جامع الترمذي2284عبد الله بن عمربينما أنا نائم إذ أتيت بقدح لبن فشربت منه ثم أعطيت فضلي عمر بن الخطاب قالوا فما أولته يا رسول الله قال العلم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 82  
´علم کی فضیلت`
«. . . أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ، أُتِيتُ بِقَدَحِ لَبَنٍ فَشَرِبْتُ حَتَّى إِنِّي لَأَرَى الرِّيَّ يَخْرُجُ فِي أَظْفَارِي، ثُمَّ أَعْطَيْتُ فَضْلِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، قَالُوا: فَمَا أَوَّلْتَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: الْعِلْمَ . . .»
. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں سو رہا تھا (اسی حالت میں) مجھے دودھ کا ایک پیالہ دیا گیا۔ میں نے (خوب اچھی طرح) پی لیا۔ حتیٰ کہ میں نے دیکھا کہ تازگی میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے۔ پھر میں نے اپنا بچا ہوا (دودھ) عمر بن الخطاب کو دے دیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا آپ نے اس کی کیا تعبیر لی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 82]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
بظاہر حدیث میں علم کی کوئی فضیلت وارد ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہی لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا «فضل العلم» یعنی علم کی فضیلت۔۔۔
تو باب اور حدیث میں کچھ اس طرح سے مناسبت ہو گی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بچا ہوا دودھ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو عطا فرمایا اور دودھ سے مراد یہاں علم ہے اور یہ علم نبوت ہے، لہٰذا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچا ہوا دودھ عطا فرمایا اس میں نبوت کا علم تھا اور یہ فضیلت علم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے نصیب فرمائی۔

◈ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«قلت لأنه عبر عن العلم بأنه فضلة النبى صلى الله عليه وسلم ونصيب مما اتاه الله وناهيك له فضلا، انه جزء من النبوة.» [المتواري على ابواب البخاري ص63]
حدیث مبارکہ میں فضیلت کا اثبات بایں طور پر موجود ہے (جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا ہے) کہ اس میں علم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فضل (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بچا ہوا دودھ) اور اللہ تعالیٰ نے جو کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا تھا اس کے حصہ سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہی فضیلت کے لیے بہت ہے (کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کا بچا ہوا دودھ پیا)۔

◈ علامہ بدر الدین بن جماعہ رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«وجه مناسبة الحديث للباب: انه اعطاه فضله، وفضيلة النبى صلى الله عليه وسلم فضيلة علمية و شرف و قد فسرها بالعلم . . .» [مناسبات تراجم البخاري، ص36]
ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اپنا بچا ہوا دودھ عطا فرمایا۔ آپ کی فضیلت علمی فضیلت ہے اور یہ شرف ہے جسے علم سے تعبیر کیا گیا ہے، اور اس وجہ سے ان کی فضیلت واضح ہوئی (کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچا ہوا دودھ نوش فرمایا)

↰ مزید اگر غور کیا جائے تو مناسبت یوں بھی ظاہر ہو گی کہ پچھلے باب میں ہم نے بحث کی کہ امام بخاری نے «باب رفع العلم وظهور الجهل» قائم فرمایا، جس میں تعلیم و تبلیغ کی ترغیب دینا مقصود دکھلائی دیتی ہے۔ اور اس باب میں اس کو بیان کرنا اور اس کی تعلیم دینا مقصود ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابتداء میں «باب فضل العلم» قائم فرمایا جس سے اہل علم کی فضیلت مراد ہے اور مذکورہ باب میں «فضل علم» سے فضیلت علم مراد ہے۔‏‏‏‏ ديكهيے: [فتح الباري لابن حجر، ج2، ص3]

◈ علامہ کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
کتاب العلم کے ابتداء میں فضیلت علم مراد ہے اور اس مقام پر فضلہ یعنی زائد علم مراد ہے۔‏‏‏‏ [لكواب الدراري، ج2، ص180]

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا رحجان بھی یہی ہے۔ ديكهيے: [فتح الباري، ج1، ص180]

◈ علامہ سندھی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس مقام پر «باب فضل العلم» قائم فرمایا ہے، مطلب یہ ہے کہ اس فضل کے ساتھ کیا کیا جائے؟ حدیث کے باب سے معلوم ہوا کہ اگر کسی کے پاس کچھ زائد علم ہو تو دوسروں کو دینا چاہئیے۔ لیکن یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا اس عالم میں یہ بھی ممکن ہو کہ علم زائد ہو جائے کہ دوسروں کو دینے کی نوبت آئے؟ علامہ صاحب فرماتے ہیں کہ علم کے زائد ہونے کی صورت ہو سکتی ہے۔ بایں طور کہ کسی کے پاس اگر زائد کتابیں ہیں تو وہ دوسروں کو ملکاً یا عاریتاً دے دے۔ اسی طرح اگر ایک شیخ سے انتفاع کرتا ہوا خود شیخ کے مرتبے کو پہنچ گیا تو دوسروں کو ان سے انتفاع کا موقع فراہم کرے۔ [حاشية السندي على الصحيح البخاري. ج1. ص49]

لہٰذا ترجمۃ الباب اور حدیث سے جس مسئلے کی تائید ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ اس باب میں تبلیغ و تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنا مقصود ہے۔ جیسا کہ ابواب سابقہ اور لاحقہ سے ظاہر ہوتا ہے۔

◈ محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
میرے نزدیک یہاں یہ احتمال بھی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود زیادت علم کی ترغیب دینا ہو یعنی یہ نہ ہو کہ صرف بقدر حاجت پر آدمی اکتفا کرے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں دودھ بقدر ضرورت نہیں نوش فرمایا بلکہ اس قدر پیا کہ آپ کے ناخنوں سے دودھ نکلا۔ گویا مصنف رحمہ اللہ نے یہاں ترجمۃ الباب سے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی مرفوع حدیث کی تائید کی ہے۔
«منهومان لا يشبعان ...» [شعب الايمان للبيهقي ج7، ص271]
(قلت) مذکورہ بالا حدیث میں کئی اہم فضیلتیں موجود ہیں جس سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہوتی ہے۔
➊ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ نوش فرمایا یہ فطری عمل ہے۔
➋ یہ دودھ علم سے تعبیر کیا گیا ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں مرقوم ہے۔
➌ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو یہ دودھ نصیب ہوا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچا ہوا تھا۔
➍ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دودھ پیا یہ نبوت کا علم ہے جس سے صحابی سیراب ہوئے۔
➎ اصل علم کا منبہ اور سرچشمہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں، کیونکہ امت آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کے علم سے استفادہ کرتی ہے۔
➏ بچا ہوا دودھ اس مکمل دودھ کا حصہ ہے۔ لہٰذا علم نبوت میں کسی کو اپنی رائے یا من مانی کی ہرگز اجازت نہیں۔ یہ بھی تطبیق ہو سکتی ہے کہ کتاب العلم کے ابتداء میں فضل علم بااعتبار رفع درجات مراد ہے، کیونکہ وہاں آیت کریمہ المجادلۃ 11 سے استدلال ہے اور یہاں فضل علم سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچا ہوا ہے۔ [الكنز المتواري، ج2، ص210]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 109   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2284  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا خواب میں دودھ اور قمیص دیکھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: میں سویا ہوا تھا کہ اس دوران میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا، میں نے اس سے پیا پھر اپنا جوٹھا عمر بن خطاب کو دے دیا، صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے اس کی کیا تعبیر کی؟ فرمایا: علم سے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الرؤيا/حدیث: 2284]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
علم سے اس کی تعبیربیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح دودھ میں بکثرت فائدے ہیں اوررب العالمین اسے گوبر اور خون کے درمیان سے نکالتا ہے اسی طرح علم کے فوائدبے انتہا ہیں،
اسے بھی رب العالمین شک اورجہالت کے درمیان سے نکالتا ہے پھراپنے بندوں میں سے جسے چاہتاہے اس سے نوازتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2284   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3681  
3681. حضرت حمزہ بن عبد اللہ سے روایت ہے، وہ اپنے باپ (حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ)سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں نے بحالت خواب دودھ پیا، اس قدر پیا کہ اس کی سیرابی اپنے ناخن یا ناخنوں پر دیکھنے لگا۔ پھر میں نے دودھ حضرت عمر ؓ کو دے دیا۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!اس خواب کی تعبیر کیا ہے؟آپ نے فرمایا: اس کی تعبیر علم ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3681]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں حضرت عمر ؓ کی فضیلت بیان ہوئی ہے کہ علوم نبویہ سے مالا مال ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عمر کو اللہ تعالیٰ نے علوم سے وافر حصہ عنایت فرمایاتھا۔
لوگوں نے اس عظیم منقبت کے مقابلے میں حضرت علی ؓکے متعلق ایک حدیث بنا ڈالی کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔
یہ حدیث خود ساختہ اور بناوٹی ہے۔
ویسے حضرت علی کے فضائل ومناقب بہت ہیں،ان کے لیے اس طرح کی موضوع احادیث کا سہارا لینے کی بالکل ضرورت نہیں۔
اس حدیث کی مزید تشریح کتاب التعبیر میں ہوگی۔
بإذن اللہ تعالیٰ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3681   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.