الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of As-Salat (The Prayer)
4. بَابُ الصَّلاَةِ فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ مُلْتَحِفًا بِهِ:
4. باب: اس بیان میں کہ صرف ایک کپڑے کو بدن پر لپیٹ کر نماز پڑھنا جائز و درست ہے۔
(4) Chapter. To offer As-Salat (the prayers) with a single garment wrapped round the body.
حدیث نمبر: 357
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
حدثنا إسماعيل بن ابي اويس، قال: حدثني مالك بن انس، عن ابي النضر مولى عمر بن عبيد الله، ان ابا مرة مولى ام هانئ بنت ابي طالب اخبره، انه سمع ام هانئ بنت ابي طالب، تقول:" ذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفتح فوجدته يغتسل، وفاطمة ابنته تستره، قالت: فسلمت عليه، فقال: من هذه؟ فقلت: انا ام هانئ بنت ابي طالب، فقال: مرحبا بام هانئ، فلما فرغ من غسله قام فصلى ثماني ركعات ملتحفا في ثوب واحد، فلما انصرف، قلت: يا رسول الله، زعم ابن امي انه قاتل رجلا قد اجرته فلان ابن هبيرة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قد اجرنا من اجرت يا ام هانئ، قالت ام هانئ: وذاك ضحى".حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، أَنَّ أَبَا مُرَّةَ مَوْلَى أُمِّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتَ أَبِي طَالِبٍ، تَقُولُ:" ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ فَوَجَدْتُهُ يَغْتَسِلُ، وَفَاطِمَةُ ابْنَتُهُ تَسْتُرُهُ، قَالَتْ: فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَنْ هَذِهِ؟ فَقُلْتُ: أَنَا أُمُّ هَانِئٍ بِنْتُ أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِأُمِّ هَانِئٍ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ قَامَ فَصَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ مُلْتَحِفًا فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ، فَلَمَّا انْصَرَفَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، زَعَمَ ابْنُ أُمِّي أَنَّهُ قَاتِلٌ رَجُلًا قَدْ أَجَرْتُهُ فُلَانَ ابْنَ هُبَيْرَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ أَجَرْنَا مَنْ أَجَرْتِ يَا أُمَّ هَانِئٍ، قَالَتْ أُمُّ هَانِئٍ: وَذَاكَ ضُحًى".
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک بن انس نے عمر بن عبیداللہ کے غلام ابونضر سالم بن امیہ سے کہ ام ہانی بنت ابی طالب کے غلام ابومرہ یزید نے بیان کیا کہ انہوں نے ام ہانی بنت ابی طالب سے یہ سنا۔ وہ فرماتی تھیں کہ میں فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ آپ غسل کر رہے ہیں اور آپ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا پردہ کئے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کون ہے؟ میں نے بتایا کہ ام ہانی بنت ابی طالب ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھی آئی ہو، ام ہانی۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہانے سے فارغ ہو گئے تو اٹھے اور آٹھ رکعت نماز پڑھی، ایک ہی کپڑے میں لپٹ کر۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے تو میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میری ماں کے بیٹے (علی بن ابی طالب) کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک شخص کو ضرور قتل کرے گا۔ حالانکہ میں نے اسے پناہ دے رکھی ہے۔ یہ (میرے خاوند) ہبیرہ کا فلاں بیٹا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام ہانی جسے تم نے پناہ دے دی، ہم نے بھی اسے پناہ دی۔ ام ہانی نے کہا کہ یہ نماز چاشت تھی۔

Narrated Abu Murra: (the freed slave of Um Hani) Um Hani, the daughter of Abi Talib said, "I went to Allah's Apostle in the year of the conquest of Mecca and found him taking a bath and his daughter Fatima was screening him. I greeted him. He asked, 'Who is she?' I replied, 'I am Um Hani bint Abi Talib.' He said, 'Welcome! O Um Hani.' When he finished his bath he stood up and prayed eight rak`at while wearing a single garment wrapped round his body and when he finished I said, 'O Allah's Apostle ! My brother has told me that he will kill a person whom I gave shelter and that person is so and so the son of Hubaira.' The Prophet said, 'We shelter the person whom you have sheltered.' " Um Hani added, "And that was before noon (Duha).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 353

   صحيح البخاري357فاختة بنت أبي طالبيغتسل وفاطمة ابنته تستره من هذه فقلت أنا أم هانئ بنت أبي طالب فقال مرحبا بأم هانئ فلما فرغ من غسله قام فصلى ثماني ركعات ملتحفا في ثوب واحد فلما انصرف زعم ابن أمي أنه قاتل رجلا قد أجرته فلان ابن هبير
   صحيح البخاري280فاختة بنت أبي طالبيغتسل وفاطمة تستره من هذه فقلت أنا أم هانئ
   صحيح البخاري1103فاختة بنت أبي طالبيوم فتح مكة اغتسل في بيتها صلى ثماني ركعات فما رأيته صلى صلاة أخف منها غير أنه يتم الركوع والسجود
   صحيح البخاري1176فاختة بنت أبي طالبدخل بيتها يوم فتح مكة فاغتسل صلى ثماني ركعات فلم أر صلاة قط أخف منها غير أنه يتم الركوع والسجود
   صحيح مسلم764فاختة بنت أبي طالبيغتسل وفاطمة ابنته تستره بثوب
   صحيح مسلم765فاختة بنت أبي طالبقام رسول الله إلى غسله فسترت عليه فاطمة ثم أخذ ثوبه فالتحف به صلى ثمان ركعات سبحة الضحى
   صحيح مسلم1670فاختة بنت أبي طالبصلى في بيتها عام الفتح ثماني ركعات في ثوب واحد قد خالف بين طرفيه
   صحيح مسلم1668فاختة بنت أبي طالبأتى بعد ما ارتفع النهار يوم الفتح فأتي بثوب فستر عليه فاغتسل ركع ثماني ركعات لا أدري أقيامه فيها أطول أم ركوعه أم سجوده كل ذلك منه متقارب
   صحيح مسلم1667فاختة بنت أبي طالبصلى ثماني ركعات ما رأيته صلى صلاة قط أخف منها غير أنه كان يتم الركوع والسجود
   جامع الترمذي2734فاختة بنت أبي طالبيغتسل وفاطمة تستره بثوب من هذه قلت أنا أم هانئ فقال مرحبا بأم هانئ
   جامع الترمذي474فاختة بنت أبي طالبدخل بيتها يوم فتح مكة فاغتسل سبح ثمان ركعات ما رأيته صلى صلاة قط أخف منها غير أنه كان يتم الركوع والسجود
   سنن أبي داود1290فاختة بنت أبي طالبصلى سبحة الضحى ثماني ركعات يسلم من كل ركعتين
   سنن أبي داود1291فاختة بنت أبي طالباغتسل في بيتها صلى ثماني ركعات فلم يره أحد صلاهن بعد
   سنن النسائى الصغرى415فاختة بنت أبي طالبيغتسل قد سترته بثوب دونه في قصعة فيها أثر العجين صلى الضحى فما أدري كم صلى حين قضى غسله
   سنن النسائى الصغرى226فاختة بنت أبي طالبيغتسل وفاطمة تستره بثوب فسلمت من هذا قلت أم هانئ فلما فرغ من غسله قام فصلى ثماني ركعات في ثوب ملتحفا به
   سنن ابن ماجه1379فاختة بنت أبي طالبعن صلاة الضحى فلم أجد أحدا يخبرني أنه صلاها يعني النبي غير أم هانئ فأخبرتني أنه صلاها ثمان ركعات
   سنن ابن ماجه1323فاختة بنت أبي طالبصلى سبحة الضحى ثماني ركعات سلم من كل ركعتين
   سنن ابن ماجه614فاختة بنت أبي طالبأمر بستر فستر عليه فاغتسل سبح ثماني ركعات
   سنن ابن ماجه465فاختة بنت أبي طالبقام رسول الله إلى غسله فسترت عليه فاطمة ثم أخذ ثوبه فالتحف به
   مسندالحميدي333فاختة بنت أبي طالبيا فاطمة اسكبي لي غسلا
   مسندالحميدي335فاختة بنت أبي طالبرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاها مرة واحدة يوم الفتح ثمان ركعات في ثوب واحد مخالفا بين طرفيه

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 45  
´دوران غسل بات چیت کرنا`
«. . . 421- وعن أبى النضر أن أبا مرة مولى أم هانئ ابنة أبى طالب أخبره أنه سمع أم هانئ ابنة أبى طالب تقول: ذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفتح فوجدته يغتسل، وفاطمة ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم تستره بثوب، قالت: فسلمت فقال: من هذه؟ فقلت: أنا أم هانئ ابنة أبى طالب، فقال: مرحبا بأم هانئ فلما فرغ من غسله قام فصلى ثمان ركعات ملتحفا فى ثوب واحد ثم انصرف، فقلت: يا رسول الله زعم ابن أمي أنه قاتل رجلا أجرته فلان بن هبيرة، فقال: قد أجرنا من أجرت يا أم هانئ قالت أم هانئ: وذلك ضحى. . . .»
. . . سیدہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں (مکہ کی) فتح والے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی تو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل فرما رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کپڑے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پردہ کر رکھا تھا، تو میں نے سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کون ہے؟ میں نے کہا: میں ابوطالب کی بیٹی ام ہانی ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ام ہانی کو خوش آمدید۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے غسل سے فارغ ہوئے تو کھڑے ہو کر ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے آپ نے آٹھ رکعات پڑھیں، پھر فارغ ہوئے، تو میں نے کہا: یا رسول اللہ! میری ماں کے بیٹے (سیدنا علی رضی اللہ عنہ) کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ اس آدمی فلاں بن ہبیرہ کو قتل کریں گے جسے میں نے پناہ دے رکھی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ام ہانی! جسے تم نے پناہ دی ہے ہم اسے پناہ دیتے ہیں۔ ام ہانی نے فرمایا: اور یہ چاشت کا وقت تھا۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 45]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 357، ومسلم 82/336 بعد ح819، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ چاشت کی نماز مسنون ہے۔
➋ نہانے کے دوران میں ضروری باتیں کرنا جائز ہے۔ وضو کرتے ہوئے بھی ضروری بات کی جاسکتی ہے جیسا کہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے [صحيح بخاري ح206]
➌ اگر کوئی مسلمان عورت کسی کافر کو حالت جنگ میں امان دے دے تو اسے تسلیم کیا جائے گا اور اس کافر کی حفاظت کی جائے گی بشرطیکہ مسلمانوں کا امیر اس امان کی تائید وتوثیق کر دے۔ جمہور علماء کے نزدیک عورت کی امان جائز ہے اور یہ مسلمانوں کے امیر کی تائید و توثیق سے مشروط نہیں ہے بلکہ اس کے بغیر بھی جائز ہے۔ واللہ اعلم
➍ لوگوں سے پردے میں غسل کرنا چاہئے۔
➎ آنے والے کو خوش آمدید کہنا مسنون ہے۔
➏ ابن ہسبیرہ کون تھا؟ اس میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ جعدہ بن ہسبیرہ تھا۔ واللہ اعلم
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 421   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 415  
´آٹا لگے ہوئے برتن میں پانی بھر کر غسل کرنے کا بیان۔`
ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ فتح مکہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، آپ ایک ٹب سے غسل کر رہے تھے جس میں گندھا ہوا آٹا لگا تھا، اور آپ کو (فاطمہ رضی اللہ عنہا ۱؎) کپڑا سے پردہ کیے ہوئے تھیں، تو جب آپ غسل کر چکے، تو آپ نے چاشت کی نماز پڑھی، اور میں نہیں جان سکی کہ آپ نے کتنی رکعت پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 415]
415۔ اردو حاشیہ: مذکورہ روایت کے الفاظ: «فَمَا أَدْرِي كَمْ صَلَّى» میں نہیں جانتی کہ آپ نے کتنی رکعات پڑھی ہیں۔ شاذ ہیں، اگرچہ محقق کتاب نے ساری روایت ہی کو حسن قرار دیا ہے۔ تاہم درست اور صحیح بات یہ ہے کہ صحیحین کی روایت کے مطابق خود ام ہانی نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ آپ نے آٹھ رکعت نماز ادا فرمائی تھی۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی الفاظ کو سنن نسائی میں شاذ قرار دیا ہے۔ مزید دیکھیے، حدیث226 اور اس فوائدومسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 415   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 226  
´غسل کرتے وقت پردہ کرنے کا بیان۔`
ام ہانی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ فتح مکہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں غسل کرتے ہوئے ملے، فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کپڑے سے آڑ کیے ہوئے تھیں، (ام ہانی کہتی ہیں) میں نے سلام کیا ۱؎، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا: ام ہانی ہوں، تو جب آپ غسل سے فارغ ہوئے، تو کھڑے ہوئے اور ایک ہی کپڑے میں جسے آپ لپیٹے ہوئے تھے آٹھ رکعتیں پڑھیں۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 226]
226۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد بہن تھیں۔
➋ یہ آٹھ رکعت نماز صلاۃ ضحیٰ (چاشت کی نماز) تھی۔
➌ ایک کپڑے میں بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے، بشرطیکہ اس سے کندھوں سے لے کر گھٹنوں کے نیچے تک جسم ڈھانپ لیا جائے، باقی جسم ننگا ہو تو کوئی حرج نہیں۔
➍ غسل کرنے والا حسب ضرورت کلام کر سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 226   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث465  
´وضو اور غسل کے بعد رومال استعمال کرنے کا بیان۔`
ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ فتح مکہ کے سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہانے کا ارادہ کیا، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ پر پردہ کئے رکھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہا کر اپنا کپڑا لیا، اور اسے اپنے جسم پر لپیٹ لیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 465]
اردو حاشہ:
(1)
پانی کی طرف جانے کا مفہوم یہ ہے کہ گھر میں ایک طرف برتن میں نہانے کے لیے پانی رکھا گیا اور آپﷺ نہانے کے لیےتشریف لے گئے۔

(2)
نہاتے وقت جسم پر چھوٹا کپڑا موجود ہو تب بھی مزید پردہ کرنا یا غسل خانے میں کپڑا پہن کر نہانا افضل ہے تاہم اگر پردے میں نہاتے وقت جسم پر کوئی کپڑا نہ ہو تب بھی جائز ہے۔

(3)
نہانے کے بعد جب کپڑا جسم سے لپیٹا جائے تو وہ جسم پر موجود قطرات کو جذب کرلیتا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ کپڑے یا تولیے سے جسم خشک کرنا جائز ہے۔
اس میں کوئی حرج نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 465   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1290  
´نماز الضحیٰ (چاشت کی نماز) کا بیان۔`
ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز چاشت کی نماز آٹھ رکعت پڑھی، آپ ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے۔ احمد بن صالح کی روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز چاشت کی نماز پڑھی، پھر انہوں نے اسی کے مثل ذکر کیا۔ ابن سرح کی روایت میں ہے کہ ام ہانی کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، اس میں انہوں نے چاشت کی نماز کا ذکر نہیں کیا ہے، باقی روایت ابن صالح کی روایت کے ہم معنی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1290]
1290. اردو حاشیہ:
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کی تضعیف کی ہے، مطلب یہ ہے کہ روایت تو صحیح ہے کیونکہ بخاری و مسلم میں یہ روایت موجود ہے، لیکن ان میں ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے۔ کے الفاظ نہیں ہیں۔ یہ الفاظ منکر ہیں اور اس کی وجہ سے روایت ضعیف ہے، ورنہ اصل واقعہ صحیح ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1290   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 357  
357. حضرت ام ہانی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے اس وقت آپ ﷺ کو غسل کرتے ہوئے پایا جبکہ آپ کی صاجزادی حضرت فاطمہ‬ ؓ ن‬ے پردہ کر رکھا تھا۔ فرماتی ہیں: میں نے آپ کو سلام کیا، آپ نے دریافت فرمایا: یہ کون عورت ہے؟ میں نے خود عرض کیا: میں ابوطالب کی بیٹی ام ہانی ہوں۔ آپ نے فرمایا: ام ہانی کو خوش آمدید ہو۔ پھر جب آپ غسل سے فارغ ہو گئے تو آپ نے ایک ہی کپڑا اپنے گرد لپیٹ کر آٹھ رکعت نماز ادا کی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے مادر زاد، یعنی حضرت علی ؓ ایک آدمی، یعنی فلاں بن ہبیرہ کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، حالانکہ میں نے اسے پناہ دی رکھی ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے ام ہانی! جسے تم نے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی۔ حضرت ام ہانی ؓ فرماتی ہیں: یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:357]
حدیث حاشیہ:
حضرت علی ؓ ام ہانی کے سگے بھائی تھے۔
ایک باپ ایک ماں۔
ان کو ماں کا بیٹا اس لیے کہا کہ مادری بھائی بہن ایک دوسرے پر بہت مہربان ہوتے ہیں۔
گویا ام ہانی یہ ظاہر کررہی ہیں کہ حضرت علی ؓ میرے سگے بھائی ہونے کے باوجود مجھ پر مہربانی نہیں کرتے۔
ہبیرہ کا بیٹا جعدہ نامی تھا جو ابھی بہت چھوٹا تھا۔
اسے حضرت علی ؓ مارنے کا ارادہ کیوں کرتے۔
ابن ہشام نے کہا ام ہانی نے حارث بن ہشام اور زہیربن ابی امیہ یا عبداللہ بن ربیعہ کو پناہ دی تھی۔
یہ لوگ ہبیرہ کے چچا زاد بھائی تھے۔
شاید فلاں بن ہبیرہ میں راوی کو بھول سے عم کا لفظ چھوٹ گیا ہے، یعنی دراصل فلاں بن عم ہبیرہ ہے۔
ہبیرہ بن ابی وہب بن عمرو مخزومی ام ہانی بنت ابی طالب کے خاوند ہیں جن کی اولاد میں ایک بچے کا نام ہانی بھی ہے جن کی کنیت سے اس خاتون کو ام ہانی سے پکارا گیا۔
ہبیرہ حالت شرک ہی میں مرگئے۔
ان کا ایک بچہ جعدہ نامی بھی تھا جو ام ہانی ہی کے بطن سے ہے جن کا اوپر ذکر ہوا، فتح مکہ کے دن ام ہانی نے ان ہی کو پناہ دی تھی۔
ان کے لیے حضور ﷺ نے ان کی پناہ کو قبول فرمایا، آپ اس وقت چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔
بعض کے نزدیک یہ فتح مکہ پر شکریہ کی نماز تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 357   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:357  
357. حضرت ام ہانی ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی تو میں نے اس وقت آپ ﷺ کو غسل کرتے ہوئے پایا جبکہ آپ کی صاجزادی حضرت فاطمہ‬ ؓ ن‬ے پردہ کر رکھا تھا۔ فرماتی ہیں: میں نے آپ کو سلام کیا، آپ نے دریافت فرمایا: یہ کون عورت ہے؟ میں نے خود عرض کیا: میں ابوطالب کی بیٹی ام ہانی ہوں۔ آپ نے فرمایا: ام ہانی کو خوش آمدید ہو۔ پھر جب آپ غسل سے فارغ ہو گئے تو آپ نے ایک ہی کپڑا اپنے گرد لپیٹ کر آٹھ رکعت نماز ادا کی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے مادر زاد، یعنی حضرت علی ؓ ایک آدمی، یعنی فلاں بن ہبیرہ کو قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، حالانکہ میں نے اسے پناہ دی رکھی ہے۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے ام ہانی! جسے تم نے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی۔ حضرت ام ہانی ؓ فرماتی ہیں: یہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:357]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے اپنا مدعا ثابت کرنے کے لیے چوتھی روایت پیش کی ہے جو حضرت ام ہانی ؓ سے مروی ہے۔
اس میں صراحت کے ساتھ انھوں نے اپنا مشاہدہ بیان کیاہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا، آپ نے صرف ایک کپڑا لپیٹ کر آٹھ رکعات ادا کیں۔
امام بخاری ؒ کا مقصد حدیث کے اسی ٹکڑے سے متعلق ہے۔
جمہور اہل علم صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین اور تابعین ؒ عظام کا یہی مذہب ہے کہ ایک کپڑے میں نماز درست ہے اگرچہ زائد کپڑے موجود ہوں۔
البتہ عبداللہ بن مسعود ؓ، طاوس ؒ، امام نخعی ؒ، عبداللہ بن وہب اور محمد بن جریرطبری ؒ سے یہ منقول ہے کہ نمازی کے پاس ایک سے زائد کپڑے موجود ہوں تو ایک کپڑے میں نماز پڑھنا مکروہ ہے۔
جمہور کی طرف سے دو کپڑوں میں نماز پڑھنے کی تاکید کو استحباب وافضلیت پر محمول کیاگیا ہے، لہذا اس اختلاف کی چنداں اہمیت نہیں۔
(عمدة القاري: 263/3)

نماز کے بعد ام ہانی ؓ عنہا نے رسول اللہ کی خدمت میں ایک شکایت پیش کی کہ میں نے ابن ہبیرہ کو پناہ دی ہے، جبکہ میرے بھائی حضرت علی ؓ اسے قتل کرنےکا ارادہ رکھتے ہیں۔
وہ میری پناہ کو تسلیم کرنے پرآمادہ نہیں۔
ممکن ہے کہ حضرت علی ؓ نے یہ سوچا ہوکہ عورت کو سیاسی معاملات میں بصیرت نہیں ہوتی، اس لیے ضروری نہیں کہ اس کی پناہ کو تسلیم کیاجائے، لیکن رسول اللہ ﷺ نے ان کی پناہ کو برقرار رکھا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی کافر کو اپنی پناہ میں لے لے، خواہ یہ مسلمان کسی طبقے کا فرد ہو، مرد ہو یاعورت تو اس کی پناہ تمام مسلمانوں کی طرف سے مانی جائے گی۔
اب کسی مسلمان کو اس کے مال وجان سے بلاوجہ تعرض کرنے کا حق نہیں ہوگا۔
لیکن اگر امام اس پناہ کو مصلحت کے خلاف خیال کرے تو پہلے اس پناہ کو ختم کرنے کا اعلان کرےگا، پھر کافر کو اتنا موقع دیا جائے گا کہ وہ اپنے مستقبل کے متعلق کوئی فیصلہ کرسکے۔
اس مسئلے کے متعلق مکمل تفصیل کتاب الجهاد میں بیان ہوگی۔

بعض روایات میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چاشت کی نمازآٹھ رکعات پڑھی تھیں۔
بعض حضرات نے ان رکعات کو فتح کے شکرانے کی نماز قراردیا ہے۔
بہرحال وقت چاشت ہی کا تھا اورآپ نے چاشت کی آٹھ رکعات ادا کی تھیں۔
جیسا کہ صحیح مسلم (حدیث: 1668) (336)
میں اس کی صراحت ہے۔
حضرت ام ہانی ؓ نے اس نماز کی تفصیل بھی بیان کی ہے کہ آپ نے آٹھ رکعات اس طرح ادا فرمائیں کہ ہر دورکعت پر سلام پھیرتے تھے۔
(سنن أبي داود، التطوع، حدیث: 1290)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوہریرہ ؓ، حضرت ابوالدرداء ؓ اور حضرت ابوذر ؓ کو نمازچاشت پڑھنے کی وصیت فرمائی تھی۔
(صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1178 و صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1675 (722)
و سنن النسائي، الصیام، حدیث: 2406)

اس کے متعلق مکمل تفصیل آئندہ ذکر کریں گے۔
إن شاء اللہ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 357   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.